سندھ اسمبلی ،کراچی انٹر امتحانات کی تحقیقات کیلیے پارلیمانی کمیٹی قائم
اشاعت کی تاریخ: 14th, January 2025 GMT
کراچی (اسٹاف رپورٹر)سندھ اسمبلی نے انٹر بورڈکے امتحانات کے معاملے پر تحقیقات کے لئے وزیر تعلیم سندھ سردار شاہ کی سربراہی میںایک پارلیمانی کمیٹی قائم کردی ہے جو پورے معاملے کی مکمل چھان بین کرے گی۔کمیٹی میںمحمد فاروق ،سعدیہ جاوید، طحہ احمد، شبیر احمد قریشی ، یوسف بلوچ وسیم احمدشامل ہیں۔وزیر پارلیمانی امور ضیا الحسن لنجار نے ایوان کو یقین دلایا ہے کہ بچوں کے مستقبل کے معاملے پر کوئی سمجھوتہ نہیں
ہوسکتا ، بہت جلد تعلیمی بورڈز کے قابل چیئرمین مقرر کردیئے جائیں گے۔سندھ اسمبلی میں پیر کو محکمہ امداد باہمی کے وقفہ سوالات کے دوران اپوزیشن ارکان نے محکمے کی پارلیمانی سکریٹری خیر النسامغل سے تابڑ توڑ سوالات کرکے انہیں دبا میں لانے کی کوشش کی تاہم ڈپٹی اسپیکر ان کی مدد کرتے رہے، وقفہ سوالات کے دوران اپوزیشن ارکان کی جانب سے شور شرابہ بھی کیا گیا۔ سندھ اسمبلی کا اجلاس پیر کو قائم مقام اسپیکر نوید انتھونی کی زیر صدارت شروع ہوا۔ وقفہ سوالات کے آغاز ہی میں ایم کیو ایم کے رکن صابر قائم خانی نے نشاندہی کی کہ جس محکمے کے سوالات پوچھے جارہے ہیں اس کے افسران ہی موجود نہیں ہیں جس پر آفیسرز گیلری میں موجود ، سیکرٹری کوآپریٹو نے جواب دیا کہ میں موجود ہوں اور نوٹ لے رہا ہوں۔اپوزیشن کے تابڑ توڑ سوالات پر سابق اسپیکرآغا سراج درانی نے کہا کہ ڈپٹی اسپیکر صاحب جب آپ اس کرسی پر بیٹھتے ہیں تو آپ اسپیکر ہیں، آپ طے کریں کہ کون سا سوال ہے اور کونسا جواب ہے۔کون صحیح ہے کون غلط ہے۔ ایم کیو ایم کے مظاہر عامر کے ایک سوال کے جواب میں پارلیمانی سکریٹری نے بتایا کہ اگر کسی سوسائٹی میں کوئی بدعنوانی ہوتی ہے یا کوئی شکایات آتی ہے تو اس کو انکوائری افسر دیکھتا ہے اورانکوائری افسر کی رپورٹ پر فیصلہ ہوتا ہے۔ علاوہ ازیںاگر کوئی بڑی نوعیت کا کیس ہے تو اینٹی کرپشن میں جاتا ہے۔ ایوان کی کارروائی کے دوران میر اللہ بخش تالپور کی تحریک استحقاق جوڈی ای او پرائمری ایجوکیشن عائشہ بھٹی کے خلاف تھی استحقاق کمیٹی کے حوالے کردی گئی۔اجلاس کے دوران محکمہ آبپاشی پبلک ہیلتھ دیہی ترقی ایجوکیشن ورکس اور ترقیاتی اداروں کے بارے میں آڈٹ رپورٹ بھی ایوان میں پیش کی گئی۔سندھ اسمبلی میں پیر کو وزیر قانون و پارلیمانی امور ضیا الحسن لنجار کی جانب سے یونیورسٹیوں اور تعلیمی اداروں کے قانون میں ترمیمی بل پیش کیا گیا جسے مزید غور کے لئے قائمہ کمیٹی کے کو بھیج دیا گیا۔قانون کے تحت 21 گریڈ کا افسر یونیورسٹی کا وائس چانسلر بن سکے گا۔ جبکہ میڈیکل یونیورسٹیوں کے لئے بھی 21 ویں گریڈ کا پروفیسر وائس چانسلر بن سکے گا۔ 62 سال سے کم عمر شخص وائیس چانسلر کے لیئے اہل ہوگا۔بعدازاں سندھ اسمبلی کا اجلاس منگل کی دوپہر دوبجے تک ملتوی کردیا گیا۔
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: سندھ اسمبلی کے دوران
پڑھیں:
انڈیا اور پاکستان کے درمیان دریاؤں کی تقسیم کا سندھ طاس معاہدہ کیا ہے؟
اسلام آباد (نیوز ڈیسک)انڈیا اور پاکستان کے درمیان دریائوں کی تقسیم کا سندھ طاس معاہدہ کیا ہے ؟
،بھارت اور پاکستان کے نمائندوں کے درمیان برسوں کے مذاکرات کے بعد دونوں ملکوں کے درمیان عالمی بینک کی ثالثی میں (Indus Water Treaty )سندھ طاس معاہدہ 19ستمبر 1960 کو عمل میں آیا تھا۔
اس وقت انڈیا کے وزیر اعظم جواہر لال نہرو اور پاکستان کے سربراہ مملکت جنرل ایوب خان نے کراچی میں اس معاہدے پر دستخط کیے تھے۔
مغربی دریاؤں یعنی سندھ، جہلم اور چناب کو پاکستان ، مشرقی دریاؤں یعنی راوی، بیاس اور ستلج کا کنٹرول انڈیا کے ہاتھ میں دیا گیا ،دونوں ممالک نے دریاؤں کے حوالے سے اپنے مشترکہ مفادات کو تسلیم کرتے ہوئے ایک مستقل انڈس کمیشن قائم کیا ، بھارت یکطرفہ معاہدہ معطل یا ختم نہیں کر سکتا، تبدیلی کیلئے رضامندی ضرور ی ،پاکستان ثالثی عدالت جانےکاحق رکھتا ہے.
پاکستان کاسندھ طاس معاہدےکےآرٹیکل9کے تحت بھارتی انڈس واٹرکمشنر سےرجوع کرنےپرغور ، معاہدہ معطل کرنے کی وجوہات جاننے کیلئےپاکستانی انڈس واٹرکمشنر کی جانب سے بھارتی ہم منصب کو خط لکھےجانےکاامکان ، یہ امید کی گئی تھی کہ یہ معاہدہ دونوں ملکوں کے کاشتکاروں کے لیے خوشحالی لائے گا اور امن، خیر سگالی اور دوستی کا ضامن ہوگا۔
دریاؤں کی تقسیم کا یہ معاہدہ کئی جنگوں، اختلافات اور جھگڑوں کے باوجود 62 برس سے اپنی جگہ قائم ہے۔
‘ سندھ طاس معاہدے کے تحت مغربی دریاؤں یعنی سندھ، جہلم اور چناب کو پاکستان کے کنٹرول میں دیا گیا۔
انڈیا کو ان دریاؤں کے بہتے ہوئے پانی سے بجلی پیدا کرنے کا حق ہے لیکن اسے پانی ذخیرہ کرنے یا اس کے بہاؤ کو کم کرنے کا حق نہیں ہے۔بھارت نے وعدہ کیا کہ وہ پاکستان میں ان کے بہاوَ میں کبھی کوئی مداخلت نہیں کرے گا ۔
مشرقی دریاؤں یعنی راوی، بیاس اور ستلج کا کنٹرول انڈیا کے ہاتھ میں دیا گیا۔
انڈیا کو ان دریاؤں پر پراجیکٹ وغیرہ بنانے کا حق حاصل ہے جن پر پاکستان اعتراض نہیں کر سکتا۔
دونوں ممالک نے دریاؤں کے حوالے سے اپنے مشترکہ مفادات کو تسلیم کرتے ہوئے ایک مستقل انڈس کمیشن قائم کیا ۔ جو بھارت اور پاکستان کے کمشنروں پر مشتمل تھا ۔ ہائیڈرولوجیکل اور موسمیاتی مراکز کا ایک مربوط نظام قائم کیا گیا ۔
Post Views: 1