ٹرمپ یورپی یونین کے خلاف بھی ٹیرف کا ہتھیار استعمال کریں گے؟
اشاعت کی تاریخ: 3rd, February 2025 GMT
امریکا کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا ہے کہ امریکا اپنے معاشی اور اسٹریٹجک مفادات کو تحفظ یقینی بنانے کے لیے کسی بھی حد تک جاسکتا ہے۔ آج ہم نے چین، کینیڈا اور میکسیکو کے خلاف ٹیرف نافذ کیا ہے۔ وہ دن زیادہ دور نہیں جب ہم اپنے مفادات کو بچانے کے لیے ایسے ہی اقدامات یورپی یونین کے خلاف بھی کرسکتے ہیں۔
ڈونلڈ ٹرمپ نے برطانیہ کے معاملے میں تھوڑی سی نرمی برتنے کا عندیہ دیا ہے۔ دوسری طرف میکسیکو اور کینیڈا نے لیوی نافذ کرنے کا اعلان کیا ہے اور اِسی کے ساتھ ساتھ انہوں نے مل کر کام کرنے کا بھی فیصلہ کیا ہے۔
میکسیکو اور کینیڈا کے درمیان بڑھتی ہوئی قربت دیکھ کر صدر ٹرمپ نے دھمکی دی ہے کہ ٹیرف میں اضافہ بھی کیا جاسکتا ہے۔ ساتھ ہی ساتھ انہوں نے یورپی یونین اور برطانیہ کو بھی خبردار کیا ہے کہ امریکا ایسی کوئی بھی صورتِ حال برداشت نہیں کرسکتا جس سے اُس کے مفادات پر زد پڑتی ہو۔ انہوں نے امریکیوں کو بھی خبردار کیا ہے کہ امریکی حکومت جو عالمی تجارتی جنگ چھیڑ رہی ہے اُس کے حوالے سے اُنہیں بھی تھوڑا بہت تو برداشت کرنا پڑے گا۔
صدر ٹرمپ کا کہنا ہے کہ یورپی یونین سے تجارت میں بھی امریکا کو غیر معمولی خسارے کا سامنا ہے۔ معاملات کی درستی کے لیے لازم ہے کہ یورپی یونین کے ارکان امریکا سے کاری اور دوسرا بہت سا سامان بڑے پیمانے پر خریدیں۔ جب تک تجارتی توازن بحال نہ ہوگا تب تک امریکا یورپی یونین پر ٹیرف عائد کرنے پر مجبور ہوگا۔ یورپی یونین کو بھی ٹیرف کے لیے تیار رہنا چاہیے۔
.ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: یورپی یونین کے لیے کیا ہے
پڑھیں:
تلخ بحث کے بعد ٹرمپ اور زیلنسکی کی اولین ملاقات
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 26 اپریل 2025ء) آج ہفتہ 26 اپریل کو ویٹی کن سٹی میں پوپ فرانسس کی تدفین کے موقع پر امریکی اور یوکرینی صدور کے مابین سینٹ پیٹرز بیسیلیکا میں مختصر ملاقات ہوئی۔
دونوں رہنماؤں کے درمیان وائٹ ہاؤس میں ہونے والی تلخ بحث کے بعد یہ ان کی پہلی ملاقات تھی۔ اس دوران امریکی صدر نے یوکرینی رہنما پر روس کے ساتھ امن معاہدے کے لیے زور دیا۔
صدر زیلنسکی کا کہنا تھا کہ انہوں نے صدر ٹرمپ سے ملاقات میں روس کے ساتھ بغیر کسی شرط کے جنگ بندی کے امکان پر بھی گفتگو کی۔ انہوں نے اسے ''ایک علامتی ملاقات‘‘ قرار دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ اس مختصر گفتگو سے امید وابستہ کی جا سکتی ہے۔
دوسری جانب روس نے دعویٰ کیا ہے کہ اس کی افواج نے ''سرحدی علاقے کروسک کو مکمل طور پر آزاد کرا لیا ہے‘‘۔
(جاری ہے)
یوکرین کا تاہم کہنا ہے کہ اس کی فوج اب بھی روسی علاقے کروسک کے محاذوں پر لڑ رہی ہے۔ یوکرین مستقبل میں امن مذاکرات میں اس ریجن کو سودے بازی کے طور پر استعمال کرنا چاہتا ہے۔یوکرینی صدارت کی جانب سے جاری کی گئی تصاویر میں دکھایا گیا کہ ٹرمپ اور زیلنسکی پوپ فرانسس کی تدفین سے قبل بیسیلیکا کے ایک گوشے میں آمنے سامنے بیٹھے گہرے گفتگو میں مصروف تھے۔
زیلنسکی نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر لکھا، ''ہم نے مختلف موضوعات پر کھل کر بات چیت کی۔ تمام پہلوؤں پر مثبت نتائج کی امید ہے۔ اپنے عوام کی جانوں کا تحفظ، مکمل اور غیر مشروط جنگ بندی اور ایسا پائیدار امن جو کسی نئی جنگ کو روکے۔‘‘
زیلنسکی کے معاون نے بھی اس ملاقات کو ''تعمیری‘‘ قرار دیا جبکہ وائٹ ہاؤس نے اس رابطے کو ''انتہائی نتیجہ خیز گفتگو‘‘ کہا۔
تاہم امریکی صدر جنازے کی رسم کے بعد طے شدہ شیڈول کے مطابق روم سے روانہ ہو گئے اور مزید بات چیت نہیں ہوئی۔ دیگر یورپی رہنماؤں کے ساتھ بھی ٹرمپ کی ملاقاتدونوں رہنماؤں نے برطانوی وزیرِاعظم کیئر اسٹارمر اور فرانسیسی صدر ایمانویل ماکروں کے ساتھ بھی مختصر بات چیت کی۔
ماکروں کے دفتر نے چاروں رہنماؤں کے درمیان تبادلہ خیال کو ''مثبت‘‘ قرار دیا اور بعد میں ماکروں نے زیلنسکی سے علیحدہ ملاقات بھی کی۔
سینٹ پیٹرز اسکوائر میں امریکی صدر ٹرمپ دنیا بھر کے درجنوں رہنماؤں سے ملے، جو ان سے تجارتی محصولات اور دیگر مسائل پر بات کرنا چاہتے تھے۔
لیکن سب سے زیادہ توجہ ٹرمپ کی زیلنسکی کے ساتھ ملاقات کو ملی کیونکہ امریکی صدر یوکرین جنگ کے خاتمے کے لیے امن معاہدے کی کوشش کر رہے ہیں۔
ٹرمپ اگرچہ صدر ولادیمیر پوٹن سے یوکرین پر حملے روکنے کا مطالبہ کرتے رہے ہیں لیکن حالیہ دنوں میں انہوں نے جنگ کا الزام زیلنسکی پر بھی عائد کیا ہے۔
ہفتے کے دن روم پہنچنے کے بعد صدر ٹرمپ نے کہا کہ مذاکرات میں پیش رفت ہوئی ہے اور اب روس و یوکرین کے رہنماؤں کو اعلیٰ سطح پر مل کر اس مسئلے کو حل کرنے کی کوشش کرنا چاہیے۔
ٹرمپ نے اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹ پر لکھا، ''زیادہ تر اہم نکات پر اتفاق ہو چکا ہے‘‘۔
ادھر پوٹن نے بھی امریکی ایلچی اسٹیو وٹکوف کے ساتھ ملاقات میں یوکرین سے براہ راست مذاکرات کے امکان پر گفتگو کی۔
ٹرمپ کی یورپی کمیشن کی صدر سے بھی ملاقاتیورپی اتحادیوں کو تجارتی محصولات کے فیصلے سے ناراض کرنے کے باوجود ٹرمپ نے یورپی کمیشن کی سربراہ ارزلا فان ڈئر لایئن سے مصافحہ کیا اور ان سے ملاقات پر اتفاق کیا۔ اس موقع پر دیگر رہنما بھی ان کے ساتھ بات کرنے کے خواہاں نظر آئے۔
واضح رہے کہ صدر ٹرمپ نے پہلے ہی کہہ دیا تھا کہ یہ ملاقاتیں مختصر ہوں گی، ''سچ کہوں تو جنازے کے موقع پر ملاقاتیں کرنا کچھ بے ادبی سی لگتی ہے۔‘‘
ادارت: افسر اعوان