ویڈیو میں مزار کے اندر کچھ اوقاف کے ملازمین زائرین سے نذرانہ وصول کرتے نظر آ رہے تھے، جس پر عوامی ردعمل سامنے آیا۔ وزیر اوقاف سندھ، ریاض حسین شاہ شیرازی نے واضح کیا کہ مزار پر آنے والے زائرین کو نذرانہ صرف نذرانہ باکس میں ڈالنا چاہیئے اور کسی شخص کو ہاتھ میں پیسے دینے کی اجازت نہیں ہونی چاہیئے۔ اسلام ٹائمز۔ سیہون میں واقع حضرت لعل شہباز قلندر رح کی مزار پر زائرین سے اوقاف کے ملازمین کی جانب سے لوٹ مار کی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہونے کے بعد وزیراعلی سندھ سید مراد علی شاہ نے فوری طور پر نوٹس لے لیا۔ ویڈیو میں نظر آنے والے 12 اوقاف ملازمین کو معطل کر دیا گیا ہے، اور اس ضمن میں نوٹیفکیشن جاری کر دیا گیا ہے۔ وزیر اعلی سندھ نے سیکریٹری اوقاف سندھ سے رپورٹ طلب کرتے ہوئے واقعہ کی تحقیقات کا حکم دیا۔ ویڈیو میں مزار کے اندر کچھ اوقاف کے ملازمین زائرین سے نذرانہ وصول کرتے نظر آ رہے تھے، جس پر عوامی ردعمل سامنے آیا۔

وزیر اوقاف سندھ، ریاض حسین شاہ شیرازی نے واضح کیا کہ مزار پر آنے والے زائرین کو نذرانہ صرف نذرانہ باکس میں ڈالنا چاہیئے اور کسی شخص کو ہاتھ میں پیسے دینے کی اجازت نہیں ہونی چاہیئے۔ انہوں نے مزید کہا کہ مزار پر اس نوعیت کی لوٹ مار کو قطعی برداشت نہیں کیا جائے گا اور اس عمل کی سختی سے مخالفت کی جائے گی۔ سیکریٹری اوقاف سندھ نے تصدیق کی کہ متعلقہ 12 ملازمین کو معطل کر دیا گیا ہے اور اس معاملے کی مزید تحقیقات جاری ہیں تاکہ ایسے واقعات کی روک تھام کی جا سکے۔

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: اوقاف سندھ

پڑھیں:

فلسطینیوں کی لیبیا منتقلی کے منصوبے سے عرب اور یورپی ممالک کو خوفزدہ ہونا چاہیئے

اسلام ٹائمز: اس بات کے واضح اشارے ہیں کہ غزہ سے فلسطینیوں کو نکالنے کے مزید ظالمانہ منصوبے اب بھی بنائے جا رہے ہیں جیسا کہ امریکی نیوز نیٹ ورک این بی سی نے بتایا۔ اس سے پہلے کہ امریکی صدر کا طیارہ مشرقِ وسطیٰ سے وطن واپسی کے لیے روانہ ہوتا، این بی سی نے رپورٹ کیا کہ غزہ سے 10 لاکھ فلسطینیوں کو لیبیا منتقل کرنے کا منصوبہ بنایا گیا ہے۔ چار مختلف ذرائع نے این بی سی کو امریکی منصوبے کی تصدیق کی۔ اس منصوبے میں باراک اوباما، نکولس سرکوزی اور ڈیوڈ کیمرون کی نام نہاد ’قوم سازی‘ کی کوششوں کے بعد غیرمستحکم اور انتہائی لاقانونیت کا شکار ہونے والے ملک لیبیا کے لیے مراعات کی بھی پیش کش کی گئی ہے۔ معاہدے کی صورت میں امریکا لیبیا کے اربوں ڈالرز کے اثاثوں کو غیر منجمد کردے گا۔ تحریر: عباس ناصر

اسرائیلی قابض قوت نے اپنے فوجی ریزورسٹ کو بلا کر اب پہلے کے مقابلے میں کئی زیادہ فوجیوں کو مقبوضہ پٹی میں تعینات کردیا ہے۔ غزہ میں بھوک اور خوراک کی قلت کی صورت حال پر تمام بین الاقوامی اداروں کی جانب سے توجہ دلوائے جانے کے باوجود 6 ہفتے سے زائد عرصے سے خوراک کی امداد کے راستے بند ہیں جبکہ بمباری کی بڑھتی شدت نے ظاہر کیا ہے کہ نسل کشی کی مہم کو تیز کردیا گیا ہے۔ یہ تمام ظاہر کرتے ہیں کہ اسرائیل کے فوجی مقاصد انتہائی واضح ہیں۔ اسرائیل کا مؤقف ہے کہ اس کا آپریشن تمام یرغمالیوں کی رہائی کے لیے ہے۔ تاہم بہت سے لوگ سچائی سے آگاہ ہیں اور ان میں سے ایک مارک سیڈن بھی ہیں جو سماجی رابطے کی ویب سائٹ ایکس پر نسل پرست حکومت کی غزہ میں جاری مہم کو وہی کہنے کی جرأت کر رہے ہیں جو حقیقت میں وہ ہے جیسے نسل کشی اور حالیہ تاریخ میں ظلم کی بدترین مثال وغیرہ۔

وہ کہتے ہیں، ’(ملٹری کارروائی کے ذریعے) اسرائیل صرف 8 یرغمالی رہا کروا سکا ہے، 33 انہیں کی فضائی بمباری میں مارے گئے جبکہ 148 کو مذاکرات کے ذریعے رہائی ملی۔ بات یرغمالیوں کی رہائی سے متعلق نہیں بلکہ یہ فلسطینیوں کے خاتمے کے بارے میں ہے۔ لوگوں کو اس بات کو احساس کب ہوگا؟‘۔ غزہ میں تباہی کے مناظر ناقابلِ بیان ہیں۔ اردو لغت کی کوئی بھی صفت اس ظلم کو بیان نہیں کرسکتی۔ہولوکاسٹ میں لاکھوں یہودیوں کے بےرحمانہ قتل کے بعد دنیا نے اعادہ کیا تھا کہ ایسا دوبارہ کبھی نہیں ہوگا۔ واضح طور پر کسی کے لیے بھی یہ وعدہ اہمیت کا حامل نہیں تھا۔ جمہوری مغربی ممالک اور ان کا میڈیا واضح طور پر اس تنازع میں صرف ایک فریق کی جانب جھکاؤ رکھتا ہے۔ ایسا کرکے وہ انسانیت، ’معروضیت‘ اور ان ’اقدار‘ کے احساسات کو کھو چکے ہیں جن کا وہ دعویٰ کرتے ہیں۔

نسل پرست اسرائیلی حکومت کی سب سے بڑی کامیابی فلسطینیوں کو بطور دشمن پیش کرنا اور غزہ میں ان کی نسل کشی کو معمول بنانا ہے۔ چاہے شہادتوں کی تعداد 50 ہزار ہو، 75 ہزار یا ایک لاکھ، یہ کسی کے ضمیر کو نہیں جھنجھوڑ رہا یا ان لوگوں کو شہادتوں کی تعداد سے کوئی فرق نہیں پڑتا جن کے ہاتھوں میں اقتدار ہے۔ اگر کسی نے غزہ کے مناظر نہیں دیکھے تو ان کے لیے بیان کردیتا ہوں۔ مقتول بچوں کے خون آلود چہرے اور ہاتھ پاؤں کٹی لاشیں، شدید زخمی افراد، غم زدہ مائیں، ہسپتال کے بستروں پر لیٹے جلے ہوئے مریض جو بمباری کی زد میں آئے جبکہ ناامید صحت عامہ کا عملہ ان مریضوں کو خود اٹھا رہا ہے اور یہ عملہ خود ہاری ہوئی جنگ میں بنیادی صحت کی سہولیات اور ادویات کے بغیر زندگیاں بچانے کی کوشش کررہا ہے، وہ بھی اس صورت میں ممکن ہے کہ اگر وہ خود ڈرونز کے حملوں میں زندہ بچ جائیں۔

شاید لوگوں کو شعور آجائے لیکن ان 18 ہزار شہید بچوں کے لیے بہت دیر ہوچکی ہے جن کی عمر 10 سال سے بھی کم تھی۔ گھروں، ہسپتالوں، اسکولز، سول انفرااسٹرکچر کی تباہی اور امدادی تنظیموں پر پابندیوں کے علاوہ، غیر ملکی صحافیوں کو بھی کوریج سے روکا جارہا ہے کیونکہ غیرملکی صحافیوں کو غزہ کے مقامی صحافیوں کی طرح ’حماس‘ قرار دے کر مارنا آسان نہیں۔ غیر ملکی میڈیا کو اس لیے روکا جارہا ہے تاکہ غزہ سے باہر دنیا کو نسل کشی اور قتلِ عام کی خبر نہ ہوسکے کیونکہ اگر انہیں علم ہوگیا تو یہ عالمی حکومتوں کے مردہ ضمیروں کو جھنجھوڑ دے گا۔ جی، میں نے حکومتیں کہا کیونکہ مجھے لگتا ہے کہ مغرب میں مقیم کوئی عام آدمی یا عورت ایسے گھناؤنے جرم کی توثیق نہیں دیں گے جس کی ان کی حکومت نے اسرائیل کا دفاع کا حق قرار دے کر حمایت کی ہے۔ نہ آمریت پسند عرب دنیا کے عوام اپنی حکومتوں کے ساتھ ہوں گے کہ جنہوں نے فلسطینیوں سے منہ موڑ لیا ہے۔

اگرچہ امریکا سے لے کر جرمنی، برطانیہ تک مظاہرین کو کچلنے اور ان کی حوصلہ شکنی کرنے کے لیے قانون نافذ کرنے والے اہلکاروں کی طرف سے قوانین اور اختیارات کا سخت استعمال کیا جاتا ہے لیکن اس کے باوجود غزہ سے سامنے آنے والی تصاویر مظاہرین کو اپنے ضمیر کی پکار کے جواب میں اٹھ کھڑے ہونے پر مجبور کردیتی ہیں۔ بیشتر عرب ممالک میں حکومتی دباؤ کی صورت حال زیادہ سنگین ہے، یہی وجہ ہے کہ وہاں سڑکیں خاموش ہیں۔ کئی ماہ سے بھوک سے لاغر، کمزور بچوں اور خون میں لت پت خاندانوں کی تصاویر دیکھنے کے بعد، آزاد میڈیا رپورٹس کے مطابق شہادتوں کی تعداد لاکھ تک پہنچ چکی ہے جس کے بعد مغربی رہنما بھی بے چینی محسوس کرنے لگے ہیں۔

ان کے بنائے ہوئے دہرے معیار ہی ان کے سامنے آرہے ہیں کیونکہ وہ ایک جانب مسلسل ’ہماری اقدار، انسانیت‘ کی بات کرتے ہیں لیکن جب بات نہتے فلسطینیوں کی آتی ہے تو یہ تمام اصول بےمعنی ہوجاتے ہیں۔ اب ڈونلڈ ٹرمپ، کیئر اسٹارمر اور ایمانوئل میکرون ایسے عالمی رہنماؤں میں شامل ہیں جنہوں نے غزہ میں غذائی امداد کی بندش پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔ مسلم دنیا کے رہنماؤں کے بارے میں جتنی کم بات کی جائے اتنا بہتر ہے۔ بہت سے امیر ترین اور طاقتور رہنماؤں نے ڈونلڈ ٹرمپ کے شاندار استقبال کے بعد ان کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے انہیں ہر طرح کے تعاون کی یقین دہانی کرائی لیکن جیسا کہ توقع تھی، ان مسلم رہنماؤں نے غزہ میں ہونے والی نسل کشی کے بارے میں کم بات کی۔ شاید امریکی صدر کے دورے سے پہلے امریکی اور اسرائیلی میڈیا میں لیکس کا مقصد میزبانوں کو بہتر محسوس کروانا تھا اور انہیں ٹرمپ کا پرتپاک استقبال کرنے کا جواز فراہم کرنا تھا۔

ڈونلڈ ٹرمپ کے دورے سے قبل خبروں میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ وہ بنیامن نیتن یاہو سے ناراض ہیں۔ اس بات کے واضح اشارے ہیں کہ غزہ سے فلسطینیوں کو نکالنے کے مزید ظالمانہ منصوبے اب بھی بنائے جا رہے ہیں جیسا کہ امریکی نیوز نیٹ ورک این بی سی نے بتایا۔ اس سے پہلے کہ امریکی صدر کا طیارہ مشرقِ وسطیٰ سے وطن واپسی کے لیے روانہ ہوتا، این بی سی نے رپورٹ کیا کہ غزہ سے 10 لاکھ فلسطینیوں کو لیبیا منتقل کرنے کا منصوبہ بنایا گیا ہے۔ چار مختلف ذرائع نے این بی سی کو امریکی منصوبے کی تصدیق کی۔ اس منصوبے میں باراک اوباما، نکولس سرکوزی اور ڈیوڈ کیمرون کی نام نہاد ’قوم سازی‘ کی کوششوں کے بعد غیرمستحکم اور انتہائی لاقانونیت کا شکار ہونے والے ملک لیبیا کے لیے مراعات کی بھی پیش کش کی گئی ہے۔

معاہدے کی صورت میں امریکا لیبیا کے اربوں ڈالرز کے اثاثوں کو غیر منجمد کردے گا۔ اس پیش کش سے یورپی اور عرب رہنماؤں کو خبردار ہوجانا چاہیئے۔ عرب ممالک کو نکبہ دوم کی صورت میں سڑکوں پر متوقع عوامی بھونچال سے خوفزدہ ہونا چاہیئے جنہیں ان کی مضبوط حکومتیں بھی قابو میں نہیں کرپائیں گی۔ لیبیا کے ساحلوں سے پناہ گزینوں کی مسلسل آمد کے خدشے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے انتہائی دائیں بازو کے عروج کی وجہ سے یورپی معاشرے پہلے ہی بےچینی کا شکار ہیں۔ انہیں فکر کرنی چاہیئے کہ اگر لاکھوں فلسطینیوں کو زبردستی ان کی زمین سے بےدخل کیا گیا تو کیا ہوگا۔

ناراض اور مایوس فلسطینی لیبیا میں نہیں رہنا چاہتے۔ وہ بحیرہ روم کے ذریعے یورپ جانا چاہیں گے اور چند پناہ گزینوں کے پہنچنے سے بڑے مسائل پیدا ہوسکتے ہیں۔ یورپ میں انتہائی دائیں بازو اسے مزید خوف اور بےامنی پھیلانے کے لیے استعمال کریں گے۔ حال ہی میں القاعدہ سے منسلک ایک گروپ کی قیادت کرنے والے شامی صدر احمد الشرع جن کے سر پر ایک کروڑ ڈالرز کا انعام تھا، ڈونلڈ ٹرمپ اور کئی یورپی رہنماؤں کے ان سے مصافحے نے سنگین سوالات کو جنم دیا ہے۔ یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ غزہ کا مسئلہ حماس نہیں بلکہ گریٹر اسرائیل کے قیام کا عزم ہے۔ مغرب اور دیگر ممالک کو فیصلہ کرنا پڑے گا کہ انہیں ایسے عزائم کی حمایت کرنے سے کیا حاصل ہوگا؟

اصل تحریر:
https://www.dawn.com/news/1911740/nakba-ii-to-rock-europe-me

متعلقہ مضامین

  • اسلام آباد میں کال سینٹر کے دو ملازمین بازیاب، اغواکار گرفتار
  • 4 تنخواہوں کے برابر بونس: بجٹ سے قبل ملازمین کے لئے بڑی خبر
  • چیف الیکشن کمشنر کی الیکشن کمیشن کے ملازمین پر نوازشات،کروڑوں روپےکے اعزازیے  4مختلف مراحل میں دیئے گئے
  • ایران میں یورینیم افزودگی صفر ہو جانی چاہیئے، وائٹ ہاؤس
  • لاہور:تجاوزات کے خلاف آپریشن کے دوران عملے پر گولیاں چل گئیں
  • فلسطینیوں کی لیبیا منتقلی کے منصوبے سے عرب اور یورپی ممالک کو خوفزدہ ہونا چاہیئے
  • وزیراعظم شہباز شریف ایک روزہ مختصر دورے پر کراچی پہنچ گئے
  • اب بھارت سے صرف دہشتگردی اور مقبوضہ کشمیر پر ہی بات ہونی چاہیئے
  • اب بہت ہوگیا، ملک میں سیاسی سیز فائر ہونا چاہیئے، چیئرمین پی ٹی آئی
  • پی ایس ایل 10، پشاور زلمی کے خلاف لاہور قلندر کی بیٹنگ جاری