Express News:
2025-08-10@21:17:10 GMT

فلسطین برائے فروخت نہیں

اشاعت کی تاریخ: 15th, February 2025 GMT

 نو منتخب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے آتے ہی اپنے بیانات سے پوری دنیا میں ایک وبال کھڑا کردیا ہے۔ ایک طرف وہ اپنی پڑوسی ریاستوں کو دھمکا رہے ہیں تو دوسری طرف مغربی ایشیائی ممالک کو بھی غیر مستحکم کرنے کے لیے ایسے ایسے بیانات داغ رہے ہیں جو کسی بھی طرح عاقلانہ تصور نہیں کیے جا سکتے ہیں۔

امریکی صدرکے غزہ سے متعلق بیان کہ جس میں وہ غزہ کے عوام کو اردن اور مصر کی طرف دھکیلنا چاہتے ہیں اور یہاں پر بڑی بڑی عمارتوں کی تعمیر کے لیے اربوں ڈالرکا کاروبار کرنے کا منصوبہ بنا رہے ہیں، حالانکہ غزہ پر امریکی و صیہونی تسلط کا خواب کوئی نیا نہیں ہے۔ گزشتہ دو دہائیوں سے آنے والے امریکی صدور نے لبنان و غزہ پر جنگ مسلط کروائی تاکہ غزہ کو خالی کروا سکیں۔ 

غزہ کو خالی کرنے اور اس پر اپنا مکمل تسلط قائم کرنے کی امریکی و اسرائیلی کوشش پندرہ ماہ کی خونخوار جنگ کے بعد بھی ناکام ہو چکی ہے۔ غزہ جنگ بندی کا معاہدہ طے پاتے ہی غزہ کے باسی اپنے ٹوٹے ہوئے گھروں اور ملبے کے ڈھیروں پر آکر آباد ہونے لگے ہیں۔

غزہ کے ان باسیوں کا اس طرح کے سخت ترین حالات میں واپس آنا ہی در اصل پوری دنیا کے لیے یہ پیغام ہے کہ غزہ کے لوگ اپنے گھر اور وطن کو نہیں چھوڑیں گے اور اس کے لیے انھوں نے ثابت کردیا ہے کہ جس قدر قربانی دینا پڑے گی ہم دیں گے۔ اور یہ قربانی انھوں نے پندرہ ماہ میں غاصب صیہونی حکومت اسرائیل اور امریکا کی جانب سے مسلط کردہ جنگ میں پیش کردی ہے۔

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ چاہتے ہیں کہ غزہ جنگ بندی کے معاہدے کے بعد جو ذلت اور رسوائی امریکی و صیہونی حکام کو اٹھانا پڑ رہی ہے، اس کی پردہ پوشی کی جائے اور ایک ایسی چال کے ذریعے خود کو دنیا کے سامنے طاقتور بناکر پیش کیا جائے، تاکہ دنیا میں ختم ہوتا ہوا، امریکی بھرم باقی رہ جائے لیکن ایسا لگتا ہے کہ مشرق کی دنیا نے بھی اس مرتبہ ٹھان رکھی ہے کہ وہ امریکا کی بالا دستی کے خاتمے کو یقینی بنا کر دم لیں گے اور طاقت کے مرکزکو مغرب سے نکال کر مشرق لائیں گے۔

غزہ پر قبضے کا امریکی خواب جیسا کہ کوئی نیا نہیں ہے، اس کے لیے ایک مضبوط دلیل جو پیش کی جاسکتی ہے وہ یہ ہے کہ آخر امریکی حکومتوں نے ہمیشہ غزہ پر جنگ مسلط کرنے کے لیے غاصب اسرائیل کے لیے اربوں ڈالر کا اسلحہ اور جنگی مدد کیوں فراہم کی؟ کیا یہ سب کچھ بغیرکسی منصوبے کے تھا ؟

آج بھی امریکی صدر یہ بہانہ بنا رہا ہے کہ غزہ کیونکہ ملبہ کا ڈھیر بن چکا ہے لٰہذا امریکی حکومت اس غزہ کے علاقے کو ایک خوبصورت شہر بنائے گی لیکن آخر یہ شہرکس کے لیے بنایا جائے گا؟ جب غزہ کے لوگوں کو ہی اردن اور مصر سمیت دیگر عرب ممالک میں نکالنے کے اعلانات ہو رہے ہیں تو پھر یہ ساری خوبصورتی اور تعمیراتی سرگرمیاں آخر کس کے لیے ہیں؟ لہٰذا اس بات سے ثابت ہوتا ہے کہ امریکی حکومت کا مقصد غزہ کے لوگوں کو سہولیات فراہم کرنا نہیں ہے بلکہ صیہونی مفادات کے ساتھ ساتھ غزہ میں موجود وسائل پر امریکی تسلط کو یقینی بنانا ہے۔

سوال یہ ہے کہ کیا غزہ کے لوگ آسانی سے غزہ چھوڑکر چلے جائیں گے؟ کیا امریکی تسلط اس قدرآسان ہو گا کہ امریکی حکومت آسانی سے غزہ پر قبضہ کر لے گی؟ حالیہ پندرہ ماہ کی جنگ کا مشاہدہ کیا جائے تو دنیا بھر کے سیاسی تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ امریکا کے لیے غزہ پر قبضہ کرنا آسان کام نہیں ہوگا، کیونکہ غزہ ان کے لیے ایک تر نوالہ نہیں ہے۔

دوسری طرف مصر اور اردن نے بھی امریکا کو انکار میں جواب دیا ہے جس کے عوض اب امریکی صدر ٹرمپ نے مصر اور اردن کی معاشی مدد بند کرنا کا اعلان کیا ہے۔ دوسری جانب یمن ہے جس نے مصر اور اردن کو پیشکش کی ہے کہ اگر وہ غزہ کا دفاع کرنے کے لیے غاصب صیہونی ریاست اسرائیل کے خلاف جنگ کا آغاز کریں تو یمن اس لڑائی میں ان کے ساتھ ہوگا۔

کیا واقعی ٹرمپ خطے کو ایک مرتبہ پھر جنگ کے شعلوں میں لپیٹنا چاہتا ہے؟ کیا ٹرمپ یہی چاہتا ہے کہ غزہ میں ازسر نو جنگ شروع ہوجائے جس کے لیے حال ہی میں ٹرمپ نے دھمکی بھی دی ہے کہ اگر غاصب اسرائیلی قیدیوں کو رہا نہ کیا گیا تو وہ جنگ بندی کا معاہدہ منسوخ کردے گا۔ سوال یہ بھی ہے کہ کیا ٹرمپ کے اعلانات عملی جامہ پہنانے کے قابل بھی ہیں یا نہیں ؟ کیونکہ دنیا میں اب نئے نئے بلاک تشکیل دیے جا رہے ہیں، جس کے بعد امریکا کی رہی سہی ساکھ بھی کمزور ہوچکی ہے، جو اب صرف ٹرمپ کے ان اعلانات اور بیانات سے واپس آنے والی نہیں ہے۔

بہرحال فلسطین کی جہاں تک بات ہے تو فلسطینیوں کی ایک طویل تاریخ موجود ہے۔ پھر فلسطینی مزاحمت کی ایک تاریخ ہے کہ جوکئی دہائیوں سے فلسطینی عوام کے دفاع کے لیے ایک مضبوط شیلڈ بن چکی ہے۔ فلسطینیوں نے اپنی جدوجہد اور استقامت سے نہ صرف امریکی صدرکو یہ پیغام دیا ہے بلکہ پوری دنیا کو بتا دیا ہے کہ فلسطین برائے فروخت نہیں ہے۔

فلسطین فلسطینیوں کا وطن ہے اور اسرائیل غاصب صیہونیوں کی ایک ناجائز ریاست ہے۔اب امریکا اس میدان میں آکر غز ہ پر قبضہ کی باتیں کر رہا ہے جس سے پوری دنیا کے امن کو تشویش لاحق ہو چکی ہے۔ امریکی صدر کے بیانات اس بات کی عکاسی کر رہے ہیں کہ امریکی حکومت دنیا میں امن کی نہیں بلکہ جنگ اور دہشت گردی پھیلانے کا منبع ہے۔

یہاں پر ایک نقطہ جوکہ انتہائی اہمیت کا حامل ہے وہ یہ ہے کہ اگر غزہ پر امریکی پلان کامیاب ہو جاتا ہے تو یہ صرف فلسطین کے لیے نہیں بلکہ خطے میں موجود دیگر عرب ریاستوں کے لیے بھی خطرے کا باعث بن جائے گا، اگر غزہ نہیں رہا تو پھرکوئی بھی نہیں بچے گا۔ ایک کے بعد ایک سب کی باری آئے گی۔ تاہم یہی وقت ہے کہ خطے کی عرب و مسلمان حکومتیں متحد ہو جائیں اور خطے میں موجود ا س خطرناک کینسرکو جو پھیلنے کے ساتھ ساتھ دوسرے ممالک کو بھی اپنی لپیٹ میں لینا چاہتا ہے، جڑ سے اکھاڑ پھینکے۔
 

.

ذریعہ: Express News

پڑھیں:

نان فائلرز کے لیے بینک سے رقم نکلوانا مہنگا، پراپرٹی ٹیکس شرح میں بڑی تبدیلی

فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) نے مالی سال 26-2025 کے لیے انکم ٹیکس رولز میں ترامیم جاری کر دی ہیں، جن کے تحت نان فائلرز کے لیے بینک سے رقوم نکلوانے اور غیر منقولہ جائیداد کی خرید و فروخت پر ٹیکس کی شرح میں تبدیلی کر دی گئی ہے۔

ایف بی آر کے مطابق ایکٹو ٹیکس پیئرز لسٹ میں شامل نہ ہونے والے افراد کے لیے یومیہ 50 ہزار روپے سے زائد رقم نکلوانے پر ٹیکس 0.6 فیصد سے بڑھا کر 0.8 فیصد کر دیا گیا ہے۔ ہر بینکنگ کمپنی کو نان فائلرز سے ایڈوانس ایڈجسٹیبل ٹیکس منہا کرنے کا اختیار ہوگا۔

غیر منقولہ جائیداد کی خرید و فروخت یا منتقلی پر ایڈوانس ٹیکس کی شرح میں بھی ردوبدل کیا گیا ہے۔ پراپرٹی خریدار کو ریلیف دیتے ہوئے ود ہولڈنگ ٹیکس میں 1.5 فیصد کمی کی گئی ہے، جبکہ فروخت کنندہ یا منتقل کرنے والے کے لیے ہر سلیب پر ٹیکس میں 1.5 فیصد اضافہ کیا گیا ہے تاکہ فروخت پر حاصل کیپٹل گین کو ایڈجسٹ کیا جا سکے۔ اس مقصد کے لیے انکم ٹیکس کے سیکشن 236 سی اور 236 کے میں ترامیم کی گئی ہیں۔

مزید پڑھیں: ایف بی آر اصلاحات پر پیشرفت، ٹیکس کلیکشن میں بہتری قابل اطمینان ہے: وزیراعظم شہباز شریف

نئے شیڈول کے مطابق:

5 کروڑ روپے مالیت تک کی پراپرٹی پر ٹیکس 3 فیصد سے کم ہو کر 1.5 فیصد ہو گیا۔

10کروڑ روپے تک کی پراپرٹی پر ٹیکس 3.5 فیصد سے کم ہو کر 2 فیصد کر دیا گیا۔

10 کروڑ سے زائد مالیت کی پراپرٹی پر ٹیکس 4 فیصد سے کم کرکے 2.5 فیصد مقرر کیا گیا ہے۔

ایف بی آر کے مطابق اگر کسی شخص کے نام پر جائیداد 15 سال سے موجود ہو اور اس دوران وہ خود اس میں رہائش پذیر رہا ہو تو اس پر سیکشن 236 سی کا ود ہولڈنگ ٹیکس لاگو نہیں ہوگا، تاہم ٹیکس گوشواروں میں 15 سالہ ملکیت ظاہر کرنا لازمی ہوگا۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

انکم ٹیکس رولز ایف بی آر فیڈرل بورڈ آف ریونیو نان فائلرز

متعلقہ مضامین

  • عربوں کی خیانت نے فلسطینیوں کو گہرے زخم دیئے ہیں، علامہ جواد نقوی
  • سڑکوں پر گھونسلے فروخت کرتے نوجوان کی کہانی
  • امریکا فلسطینی ریاست کو تسلیم کرے گا یا نہیں؟ واشنگٹن نے بتا دیا
  • ڈیجیٹل میڈیا اور پبلک ریلیشنز کنسلٹنٹ ایاب احمد قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے کابینہ سیکرٹریٹ کے مشیر مقرر
  • نان فائلرز کے لیے بینک سے رقم نکلوانا مہنگا، پراپرٹی ٹیکس شرح میں بڑی تبدیلی
  • وزیراعظم سے بلاول بھٹو زرداری کی ملاقات میں کیا طے پایا؟ اعلامیہ سامنے آگیا
  • بلاول بھٹو کی وزیراعظم سے ملاقات، اُن کے کزن میاں شاہد شفیع کے انتقال پر اظہارِ تعزیت
  • اسلام آباد میں شراب فروخت کرنے کی اجازت، مگر کن شرائط پر؟
  • انکوائری کمیشن برائے جبری گمشدگیوں کی تشکیل نو، جسٹس (ر) ارشد حسین کو سربراہ مقرر
  • برطانوی وزیر برائے بے گھری کرایہ داروں کو بیدخل کرنے کے الزامات پر مستعفی