’’گرین لینڈ کے بیشتر باشندے آزادی چاہتے ہیں‘‘
اشاعت کی تاریخ: 23rd, February 2025 GMT
ریاستہائے متحدہ امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو جو خود کو ایک ماہر ڈیل میکر کے طور پر پیش کرتے ہیں، گرین لینڈ حاصل کرنا ایک پُرکشش موقع معلوم ہوتا ہے۔ ٹرمپ طویل عرصے سے کہتے چلے آ رہے ہیں کہ وہ اس وسیع، نیم خودمختار برفیلے جزیرے کو خریدنا چاہتے ہیں جو ڈنمارک کا حصہ ہے۔یہ غیر استعمال شدہ معدنی وسائل سے مالا مال اور تقریباً 56 ہزارافراد کا گھر ہے۔
2019 ء میں صدر کے طور پر اپنی پہلی مدت کے دوران ٹرمپ نے تجویز پیش کی تھی کہ امریکہ کو گرین لینڈ خریدنا اور اسے ایک ریئل اسٹیٹ ڈیل کے طور پر تیار کرنا چاہیے۔ 2025 ء میں صدر بن کر ٹرمپ نے ایک بار پھر کہا کہ وہ قومی اور اقتصادی سلامتی کے بارے میں فکر مند ہیں، یہ مانتے ہوئے کہ امریکہ کو چین اور روس سے خطرہ لاحق ہے۔ دونوں ممالک نے آرکٹک میں اپنی عسکری سرگرمیاں تیز کر دی ہیں۔
ٹرمپ نے یہ بھی سوال کیا ہے کہ کیا ڈنمارک کے پاس گرین لینڈ کے حقوق ہیں؟ اور کہا کہ اگر ایسا ہے تو تب بھی کوپن ہیگن کو اسے امریکہ کے حوالے کر دینا چاہیے۔ ’’میرے خیال میں گرین لینڈ ہمیں مل جائے گا کیونکہ اس کا تعلق دنیا کی آزادی کے ساتھ ہے۔" انہوں نے گزشتہ ماہ ایئر فورس ون میں موجود نامہ نگاروں کو بتایا۔
انھوں نے اپنے مطالبات پورے نہ ہونے کی صورت میں فوجی حملے کو مسترد کرنے سے انکار کر دیا ۔یوں اس خطرے نے امریکہ کا یورپ کے ساتھ تناؤ کا ایک نیا باب کھول دیا۔گرین لینڈ کی حکومت( نالاککرسوئسوٹ )کے اس وقت کے چیئرمین، کم کیلسن نے کہا تھا کہ یہ علاقہ فروخت کے لیے تیار نہیں۔گرین لینڈ اور ڈنمارک کی حکومتیں اب ایک بار پھر اسی پیغام پر روشنی ڈال رہی ہیں۔
گرین لینڈ کی حکومت کے موجودہ چیئرمین، Múte Bourup Egedeنے آزادی کی امنگوں کو اجاگر کیا ہے اور ڈنمارک، یورپی یونین اور امریکہ سمیت دیگر طاقتوں کے ساتھ تعاون میں دلچسپی کی تصدیق کی ہے۔ بڑھتے ہوئے تناؤ، ڈونلڈ ٹرمپ جونیئر کے گرین لینڈ کے حالیہ دورے، علاقے میں رائے عامہ کے تازہ ترین جائزوں، ڈنمارک کے ساتھ تعلقات اور آرکٹک میں بڑھتی ہوئی شپنگ ٹریفک کی وجہ سے آب و ہوا کے بڑھتے چیلنجوں کے بارے میں یونیورسٹی آف گرین لینڈ سے وابستہ سماجی سائنسدان اور ایمریٹس پروفیسر، برگر پوپل (Birger Poppel) کا انٹرویو پیش ہے۔
سوال: ڈونلڈ ٹرمپ جونیئر نے ایک آئیڈیا بیچنے کے لیے ڈونلڈ ٹرمپ کے نجی جیٹ میں گرین لینڈ کا دورہ کیا ۔کہا گیا کہ امریکہ کی طرف سے خریدنے سے گرین لینڈ کی قسمت بہتر ہو گی۔ مقامی رپورٹس کے مطابق کچھ گرین لینڈرز کو کیمرے پر یہ کہنے پر مجبور کیا گیا کہ ان کے پاس ہر چیز کی کمی ہے اور وہ امریکہ سے محبت کرتے ہیں۔ کیا گرین لینڈ کے باشندے امریکہ سے محبت کرتے ہیں؟
جواب : خیال کو بیچنا بہت درست طریقے سے ٹرمپ جونیئر کے آدھے دن کے نیوک دورے کے مقصد کا خلاصہ کرتا ہے۔ٹرمپ کا ہراول دستہ ایک دن پہلے پہنچا، جہاں انہوں نے ’’میک امریکہ گریٹ اگین‘‘ کی ٹوپیاں ان لوگوں کو دیں جن سے وہ ملے تھے اورجو جونیئر اور اس کی پی آر ٹیم کے پہنچنے پر نیوک ہوائی اڈے پر آنے پر راضی ہوئے۔
پہنچنے پر جونیئر کا استقبال ٹرمپ کے حامی ایک مقامی نے کیا جس نے ایک کارکن کے طور پر ٹرمپ کی انتخابی مہم میں حصہ لیا تھا۔ ساتھ میں MAGA ٹوپیاں پہنے ہوئے چند مٹھی بھر مقامی لوگوں اور نیوک کے متجسس شہریوں کے ایک گروپ موجود تھا۔ ایونٹس میں سے ایک مقامی لگڑری ریسٹورنٹ میں دوپہر کا کھانا تھا، جہاں مقامی لوگوں کو اور بنیادی طور پر سماجی طور پر پسماندہ اور وسائل سے محروم افراد کو مفت کھانا ملا۔
جونیئر کا دورہ ایک بڑا پی آر سٹنٹ تھا۔ اس نے دعویٰ کیا کہ وہ سیاحتی دورے پر تھے، لیکن وہ اور گروپ بنیادی طور پر جعلی خبروں اور ہیرا پھیری سے متعلق معلومات پر مبنی سیاسی پیغامات لے کر آئے تھے ۔ یہ امریکہ کے بارے میں گرین لینڈرز کے خیالات کے بارے میں ان کے بیان پر بھی لاگو ہوتا ہے۔
گرین لینڈ کی پارلیمنٹ (Inatsisartut) میں پانچ میں سے چار پارٹیاں بشمول دونوں حکومتی جماعتیں کو اپنے سیاسی پروگراموں کے حصے کے طور پر گرین لینڈ کی آزادی حاصل ہے۔ گرین لینڈ کی آبادی کی اکثریت دس سے بیس سال کے اندر آزادی چاہتی ہے اور اس شرط پر کہ معیار زندگی کو برقرار رکھا جا سکے۔تاہم حال ہی میں شائع ہونے والے رائے عامہ کے سروے سے پتا چلتا ہے کہ گرین لینڈ کے 85 فیصد باشندے نہیں چاہتے کہ گرین لینڈ ڈنمارک کے دائرے سے نکل جائے اور اس کے بجائے ریاستہائے متحدہ کا حصہ بن جائے۔اگر گرین لینڈ کی آبادی کو ڈینش یا امریکی شہری ہونے کا انتخاب دیا جائے تو 55 فیصد ڈینش شہریت کا انتخاب کریں گے، جبکہ 8 فیصد امریکی شہریت کا انتخاب کریں گے۔
سوال: ٹرمپ کے اس نظریے کا اندازہ کیسے لگایا جائے کہ گرین لینڈ امریکی قومی اور اقتصادی سلامتی سے منسلک ہے؟ کیا اس کو چین اور روس سے خطرات لاحق ہیں؟
جواب: اگر کوئی ٹرمپ کے الفاظ کو قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہے تو خطرہ شاید ہی اتنا زیادہ قوی ہو۔ یہ بھی واضح رہے کہ ٹرمپ نے امریکہ کے سب سے وفادار نیٹو شراکت داروں میں سے ایک کے خلاف دھمکی دی ہے۔یہ ٹرمپ کی قواعد پر مبنی بین الاقوامی سماجی نظام کو قبول کرنے یا اس کا احترام کرنے میں ناکامی کی صرف ایک مثال ہے جہاں قومی سرحدوں کو تسلیم کیا جاتا ہے۔ اس طرح ٹرمپ کا بیان بھی (روسی صدر ولادیمیر)پوتن کی یوکرین کے خلاف جنگ کوجائز قرار دینے کے مترادف ہے۔
امریکہ کے پاس گرین لینڈ میں اپنے جیوسٹریٹیجک اہداف حاصل کرنے کے مواقع ہیں جس میں شمالی گرین لینڈ میں ایک اڈہ ہے اور ڈنمارک کے ساتھ دفاعی معاہدہ ہے۔ مگر "اقتصادی سلامتی" کا مطلب ہے خام مال کے نکالنے تک رسائی، مثال کے طور پر نادر زمینی عناصر (REE) تک،تو گرین لینڈ کی حکومت نے خود امریکہ اور امریکی کمپنیوں کو گرین لینڈ میں تلاش اور ترقی کے لائسنس کے لیے درخواست دینے کی دعوت دی ہے۔مگر ابھی صرف ایک امریکی کمپنی کے پاس لائسنس ہے۔
لہذا ٹرمپ کے بیانات کی وجوہ ہو سکتی ہیں ۔ یا تو یہ اصل حالات کے بارے میں ناکافی بصیرت کی وجہ سے ہے، یا گرین لینڈ کی ملکیت کی خواہش بنیادی ووٹرز سے اس بات کی نشاندہی کرنے کی اپیل کرنا ہے کہ "امریکہ کو دوبارہ عظیم بنائیں" کو علاقائی طور پر بھی سمجھا جانا چاہیے، جیسا کہ پاناما کینال کا معاملہ ہے۔
سوال: آرکٹک کو عام طور پر نہ صرف جغرافیائی بلکہ سیاسی طور پر بھی منجمد اور دور دراز کے طور پر دیکھا جاتا تھا۔یہ کیا بدل رہا ہے؟
جواب: گلوبل وارمنگ کا مطلب ہے، دوسری چیزوں کے علاوہ یہ کہ آرکٹک اوقیانوس میں برف کا احاطہ حد اور موٹائی دونوں میں کم ہو رہا ہے۔ اس کا مطلب شپنگ ٹریفک میں اضافہ ہوا ہے۔شپنگ ٹریفک میں اضافے کا مطلب چین اور روس سے ٹریفک میں اضافہ بھی ہوگا۔ ٹرمپ کو بظاہر خدشہ ہے کہ اس ٹریفک کا کچھ حصہ روس اور چین کے جنگی بحری جہازوں پر مشتمل ہوگا۔
حالیہ دہائیوں میں روس نے روسی آرکٹک ساحل کی بڑھتی ہوئی رسائی کے مطابق ساحل کے ساتھ ملٹری تنصیبات کو جدید اور اپ گریڈ کیا ہے اور روسی بحریہ کو بھی آئس بریکر کے ساتھ جدید بنایا ہے۔ایک انٹرویو میں امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو نے آرکٹک میں امریکہ کی بڑھتی ہوئی سلامتی کی ضروریات کو درست قرار دیا، کیونکہ چین گرین لینڈ میں بندرگاہ کی سہولیات چاہتا ہے۔ روبیو نے اسے ٹرمپ کی امریکہ کے گرین لینڈ پر قبضہ کرنے کی خواہش کی دلیل کے طور پر دیکھا۔
پانچ آرکٹک ممالک… کینیڈا، گرین لینڈ/ڈنمارک، ناروے، اور روس، ریاستہائے متحدہ امریکہ جو آرکٹک سمندر سے متصل ہیں، 2008 ء سے نام نہاد Ilulissat ڈیکلریشن میں خطّے میں تنازعات کو پُرامن طریقوں سے حل کرنے کے لیے پُرعزم ہیں۔ دس سال بعد 2018 ء میں پانچ آرکٹک ساحلی ریاستوں نے Ilulissat اعلامیہ کی تصدیق کی، اس طرح آرکٹک کو کم تناؤ والے علاقے کے طور پر برقرار رکھا۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ روس اور چین، دونوں کی آرکٹک میں دلچسپی بڑھ رہی ہے۔ روس نے جس کی طویل ساحلی پٹی آرکٹک اوقیانوس کے نصف حصے سے ملتی ہے، آرکٹک فوجی تنصیبات کو جدید بنایا ہے۔ اور چین آرکٹک کے روسی حصے سے تیل اور گیس لینے کے علاوہ مستقبل میں کم نقل و حمل کے اخراجات کے ساتھ آرکٹک سمندری راستوں کے استعمال میں دلچسپی رکھتا ہے۔
سوال: ٹرمپ کے گرین لینڈ پر کسی بھی ضروری طریقے سے قبضہ کرنے کے وعدے سے یورپ حیران رہ گیا۔ ڈنمارک کی حکومت نے گرین لینڈ میں سیکیورٹی بڑھانے کے لیے منصوبے شروع کیے ہیں۔ آپ ڈنمارک کے ردعمل کو کیسے دیکھتے ہیں؟
جواب: گرین لینڈ کی حکومت اور ڈینش پارلیمنٹ کے گرین لینڈی ارکان نے برسوں سے گرین لینڈ کے علاقے اور گرین لینڈ کے ساحل سے دور پانیوں کی نگرانی کے لیے ایک بڑھتی ہوئی ترجیح کی ضرورت کی نشاندہی کی ہے۔2019 ء میں ڈنمارک کی حکومت نے گرین لینڈ کی نگرانی بڑھانے کا فیصلہ کیا اور اس کے لیے فنڈز مختص کیے، لیکن گزشتہ چار سالوں میں ڈینش حکومت پر گرین لینڈ کے سیاسی دباؤ کے باوجود نگرانی بہتر بنانے کے لیے کچھ نہیں کیا گیا۔گرین لینڈ اور ڈنمارک کے ساتھ معاہدے کے ذریعے امریکہ کے پاس مزید اڈے قائم کرنے کا اختیار ہے لیکن اس نے اس انفرادی آپشن کا فائدہ نہیں اٹھایا۔
سوال: گرین لینڈ میں امریکی اڈے کے بارے میں آپ ہمیں کیا بتا سکتے ہیں؟
جواب: امریکہ نے 1953 ء میں تھول ایئر بیس قائم کیا جب علاقے کے اصل باشندوں، Inughuitکو ڈنمارک کی ریاست کی طرف سے زبردستی منتقل کر دیا گیا تاکہ اڈے کے لیے جگہ بنائی جا سکے۔اڈہ، جسے اب پٹوفِک اسپیس بیس کہا جاتا ہے، اس میں قبل از وقت انتباہی نظام، خلائی نگرانی کا امکان اور سیٹلائٹ کی کمان موجود ہے۔ بیس کے شہری حصے نے بعض اوقات گرین لینڈ اور ڈینش دونوں کارکنوں کے لیے روزگار فراہم کیا ہے۔
سوال: کیا آپ خراب ہوتی عالمی آب و ہوا کے بارے میں فکر مند ہیں؟
جواب: امریکہ رکازی (فوسلز)ایندھن کی زیادہ پیدوار کا پروگرام رکھتا ہے۔ امریکی پیداوار میں اضافے کا مطلب CO2 کے اخراج میں اضافہ اور درجہ حرارت میں اضافے کا باعث بنے گا اور اس طرح تمام قسم کی برف کے پگھلنے میں اضافہ ہوگا۔ٹرمپ مزید تیل اور گیس برآمد کرنے کے قابل ہونے کا خواب دیکھتے ہیں، اور بڑھتی ہوئی شپنگ ٹریفک آب و ہوا کے اثرات میں مزید حصہ ڈالے گی۔مارکو روبیو کے بیانات ہیں کہ ایندھن کی نقل و حمل بڑی حد تک شمال سے اور گرین لینڈ کے مغربی ساحل کے ساتھ ہونی چاہیے۔ اس کا مطلب آرکٹک کے کمزور سمندری ماحول میں ماحولیاتی آفات کا خطرہ جنم لے گا اور کسی بھی صورت میں جنگلی حیات کو متاثر کرے گا ، کم از کم سمندری ممالیہ کو جو شور کے سلسلے میں بہت حساس ہیں۔n
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: گرین لینڈ کی حکومت گرین لینڈ میں کے گرین لینڈ گرین لینڈ گرین لینڈ کے کے بارے میں ا گرین لینڈ شپنگ ٹریفک ڈونلڈ ٹرمپ بڑھتی ہوئی اور ڈنمارک میں اضافہ ڈنمارک کی امریکہ کے ڈنمارک کے کے طور پر کے ساتھ کا مطلب ٹرمپ کے کرنے کے اور روس اور اس ہے اور کیا ہے کے لیے کے پاس
پڑھیں:
نوبل انعام کی آڑ میں رجیم چینج
اسلام ٹائمز: البتہ توجہ رہے کہ ماریا کورینا ماچادو کا انتخاب کوئی نئی بات نہیں ہے۔ اس سے پہلے بھی 2021ء میں روس سے دیمتری موراتف کا انتخاب، 2022ء میں بیلاروس سے ایلس بیالیاتیسکی کا انتخاب اور 2023ء میں ایران سے نرگس محمدی کا انتخاب اور اس سے پہلے 2003ء میں ایران سے شیرین عبادی کا انتخاب یہی ثابت کرتا ہے کہ عالمی استعماری طاقتیں نوبل انعام کو اپنے سیاسی اہداف و مقاصد کے لیے استعمال کرتی ہیں جو انارکی پیدا کرنے اور کسی ملک میں مغرب کی فوجی یا سیاسی مداخلت کے لیے زمینہ فراہم کرنے کے لیے عدم استحکام پیدا کرنے پر مشتمل ہوتے ہیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ اور نوبل انعام کی کمیٹی میں اختلاف ظاہر کرنے کا مقصد بھی دراصل اس انعام کا اعتبار اور حیثیت بڑھانے کی ایک کوشش ہے۔ خاص طور پر ایسے وقت جب غزہ میں فلسطینیوں کی نسل کشی نے دنیا بھر میں امریکہ اور اسرائیل کو منفور کر رکھا ہے۔ تحریر: محمد زمانی
امریکہ نے ایک طرف وینزویلا کا فوجی محاصرہ کر رکھا ہے جبکہ دنیا دیکھ رہی ہے کہ نیٹو نے اس محاصرے میں شدت لانے کے لیے پیچیدہ ترین مشترکہ نفسیاتی آپریشنز شروع کر رکھے ہیں۔ امریکہ نے عالمی رائے عامہ میں اسرائیل کے خلاف پائی جانے والی شدید نفرت سے مجبور ہو کر اور غاصب صیہونی فوج کو مزید تباہ حالی سے بچانے کے لیے مشرق وسطی میں امن کا نعرہ بلند کیا ہے اور یوں سفارتی طریقے سے غزہ میں اسلامی مزاحمت کی تحریک حماس کو ختم کر کے وہاں پوری طرح قبضہ جمانے کے درپے ہے۔ اس طرح ٹرمپ اور نیتن یاہو کی جانب سے امن کا مشترکہ ڈرامہ رچانے کا بھی کوئی فائدہ حاصل نہیں ہوا اور نوبل انعام ڈونلڈ ٹرمپ کی بجائے لاطینی امریکہ کی ایک سیاسی شخصیت کو دے دیا گیا ہے۔
یہ شخصیت وینزویلا سے تعلق رکھنے والی سیاست دان ماریا کورینا ماچادو ہے جو مغرب نواز ہے اور وینزویلا کے امریکہ نواز حلقوں میں بھی زیادہ جانی پہنچانی نہیں تھی لیکن نوبل انعام پانے کے بعد عالمی میڈیا میں صفحہ اول پر اس کا نام دیکھا جا رہا ہے۔ توقع کی جا رہی ہے کہ وہ وینزویلا میں ٹرمپ کے مدنظر مقاصد کے حصول کی کوشش کرے گی۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے گذشتہ چند ہفتوں سے منشیات کی اسمگلنگ کا مقابلہ کرنے کے بہانے وینزویلا کے قریب بھاری فوجی موجودگی ایجاد کر رکھی ہے اور یوں سمندر کے ذریعے وینزویلا کا فوجی اور اقتصادی محاصرہ کر رکھا ہے۔ ان اقدامات کا مقصد وینزویلا میں امریکہ مخالف حکومت کو سرنگون کرنا ہے اور قانونی طریقہ کار سے برسراقتدار حکومت کو رجیم چینج کے ذریعے گرانا ہے۔
اس مقصد کی تکمیل کے لیے وینزویلا میں حکومت مخالف امریکہ نواز سیاست دان ماریا کورینا ماچادو کو نوبل انعام سے نوازا گیا ہے۔ نوبل انعام کی کمیٹی کے سربراہ بورگن واتنے فریدنس نے ان کا نام اعلان کرتے ہوئے اسے "سیاسی مخالفین جو شدید باہمی اختلافات کا شکار تھے کو متحدہ کرنے والی اہم شخصیت" کے طور پر متعارف کروایا ہے۔ یوں اس نوبل انعام کے ذریعے اسے وینزویلا میں امریکہ اور یورپ نواز دھڑے کے سربراہ کے طور پر متعارف کروا دیا گیا ہے اور مستقبل قریب میں حکومت مخالف مہم چلانے کی سربراہی بھی اسے تھما دی گئی ہے۔ یہ بدامنی اور سیاسی ہلچل امریکہ کی جانب سے فوجی مداخلت کا بھی بہت اچھا بہانہ فراہم کر سکتی ہے۔ قابل غور بات یہ ہے کہ وینزویلا کے اپوزیشن لیڈران پہلے سے ہی حکومت پر قبضہ کرنے کے لیے مناسب موقع کی تلاش میں بیٹھے ہیں۔
کورینا ماچادو جو خود کو حکومت مخالف رہنما کے طور پر پیش کرتی ہے عوام سے بہت کم رابطے میں ہے اور اس سال جنوری سے اب تک انہیں کسی نے نہیں دیکھا تھا لیکن جمعہ کے روز نوبل انعام دریافت کرنے کے بعد یکدم منظرعام پر آ گئی ہے۔ گذشتہ برس بھی یورپی یونین نے اسے اور اس کے دیگر مغرب نواز ساتھی ایڈمنڈو گونزالس کو انسانی حقوق کے "ساخاروف انعام" سے نوازا تھا اور اس طرح ان کی شخصیت میں وزن پیدا کرنے کی کوشش کی تھی۔ لیکن گونزالس کو جب الیکشن میں واضح شکست کا سامنا کرنا پڑا تو وہ حکومت کی طرف سے دباو کا بہانہ بنا کر اسپین چلا گیا اور وہاں سیاسی پناہ حاصل کر لی۔ عام طور پر مغرب کے جاسوسی ادارے جب مختلف ممالک میں مغرب نواز حلقوں کو مغلوب ہوتا دیکھتے ہیں تو رجیم چینج کے لیے اپوزیشن لیڈران کا سیاسی قد بڑھانے کی کوشش کرتے ہیں۔
وینزویلا میں بھی سی آئی اے اور پینٹاگون کی ناکامی کے بعد موساد میدان میں کود پڑی اور ایران کے انقلاب مخالف دھڑوں اور سابق شاہ کے حامیوں کو یہ مشن دیا گیا کہ وہ ماریا کورینا ماچادو کی شخصیت کا پرچار کریں۔ اس تناظر میں ماچادو کو واشنگٹن میں منعقدہ سالانہ چوتھی کانفرنس میں خصوصی دعوت بھی دی گئی تھی۔ اس نے اپنے ویڈیو پیغام میں کانفرنس میں شرکت کی دعوت پر رضا پہلوی کا شکریہ ادا کرتے ہوئے ایران اور وینزویلا کو دنیا کے جنوبی حصے کے لیے حقیقی خطرہ قرار دیا تھا اور یوں وقت سے پہلے ہی امن کا نوبل انعام حاصل کرنے کا اپنا مقصد فاش کر دیا تھا۔ اس نے کہا: "وینزویلا کی آزادی کے دنیا بھر پر اثرات ظاہر ہوں گے اور وہ دیگر معاشروں جیسے ایران کے بہادر عوام کے لیے مقدمہ ثابت ہو گا۔ ہمارا مشن مشترکہ ہے اور ہم فتح یاب ہوں گے۔"
البتہ توجہ رہے کہ ماریا کورینا ماچادو کا انتخاب کوئی نئی بات نہیں ہے۔ اس سے پہلے بھی 2021ء میں روس سے دیمتری موراتف کا انتخاب، 2022ء میں بیلاروس سے ایلس بیالیاتیسکی کا انتخاب اور 2023ء میں ایران سے نرگس محمدی کا انتخاب اور اس سے پہلے 2003ء میں ایران سے شیرین عبادی کا انتخاب یہی ثابت کرتا ہے کہ عالمی استعماری طاقتیں نوبل انعام کو اپنے سیاسی اہداف و مقاصد کے لیے استعمال کرتی ہیں جو انارکی پیدا کرنے اور کسی ملک میں مغرب کی فوجی یا سیاسی مداخلت کے لیے زمینہ فراہم کرنے کے لیے عدم استحکام پیدا کرنے پر مشتمل ہوتے ہیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ اور نوبل انعام کی کمیٹی میں اختلاف ظاہر کرنے کا مقصد بھی دراصل اس انعام کا اعتبار اور حیثیت بڑھانے کی ایک کوشش ہے۔ خاص طور پر ایسے وقت جب غزہ میں فلسطینیوں کی نسل کشی نے دنیا بھر میں امریکہ اور اسرائیل کو منفور کر رکھا ہے۔