برطانوی فوج کا گریژن، جو اب ’گھوسٹ ٹاؤن‘ بن چکا ہے
اشاعت کی تاریخ: 25th, March 2025 GMT
ایک برطانوی گیریژن کبھی 12,000 برطانوی فوجیوں اور ان کے خاندانوں کا گھر تھا، لیکن اب یہ ایک وسیع و عریض شہر ہے جہاں صرف ہرن اور گلہری ہی رہتے ہیں۔
ایک وسیع شہر جو کبھی ہزاروں برطانوی فوجی اہلکاروں اور ان کے خاندانوں کی میزبانی کرتا تھا، اب آہستہ آہستہ جنگل میں تبدیل ہورہا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: گائے کی سہیلیاں، OMG کتنا پرانا؟ جانیے دلچسپ و عجیب حقائق
دراصل یہ’گھوسٹ ٹاؤن‘ برطانیہ میں نہیں ہے بلکہ جرمنی میں واقع ہے، جس میں چار بیڈ روم والے وسیع و عریض مکانات، ایک اپارٹمنٹ بلاک، کھیلوں کی سہولیات، اور یہاں تک کہ اس کا اپنا پیٹرول اسٹیشن بھی شامل ہے، یہاں کبھی برطانوی فوجی اہلکار اور ان کے خاندان آباد تھے، اس کا نام جے ایچ کیو رہیندالین تھا۔
یہ ہیڈ کوارٹر سرد جنگ کے دوران 1952 میں تعمیر کیا گیا تھا،جس کے دروازے 2013 میں بند ہوگئے تھے۔
یہ قصبہ اب ہرن اور سرخ گلہری جیسی جنگلی حیات کے لیے ایک پناہ گاہ بن گیا ہے، 376 ہیکٹر وائلڈ لینڈ میں سبزہ اتنا گھنا ہے کہ موسم گرما میں، گھر پودوں میں غائب ہو جاتے ہیں۔ کم سے کم توڑ پھوڑ کے باوجود، یہ قصبہ ایک طویل عرصے سے گزرے ہوئے دور کا ایک سنیپ شاٹ پیش کرتا ہے۔
دسمبر 2013 میں یہ ٹاؤن برطانوی فوج کی طرف سے سرکاری طور پر جرمن حکومت کے حوالے کیا گیا تھا، اور ابتدائی طور پر پناہ کے متلاشیوں کے لیے مکانات کی تعمیر نو کے لیے منصوبہ بندی کی گئی تھی، تاہم اب 10 سال سے زیادہ کا عرصہ گزر چکا ہے اس ٹاؤن کی تمیر نو نہیں کی گئی، یہ ٹاؤن اب گھوسٹ ٹاؤن میں بدل چکا ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
we news برطانوی فوج برطانیہ جرمنی سرد جنگ گھوسٹ ٹاؤن.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: برطانوی فوج برطانیہ گھوسٹ ٹاؤن کے لیے
پڑھیں:
کوئٹہ میں کبھی گرمی کبھی سردی، بیماریاں پھیلنے سمیت باغات کو نقصان پہنچنے کا خدشہ
موسمیاتی تبدیلی دنیا بھر کی طرح پاکستان کو بھی شدید متاثر کر رہی ہے ان موسمیاتی تغیرات کے سبب کبھی وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں غیرمعمولی ژالہ باری املاک اور فصلوں کو نقصان پہنچا رہی ہے تو کہیں وقت سے پہلے شدید گرمی انسانی صحت پر منفی اثرات مرتب کر رہی ہیں۔
ان دنوں بلوچستان کا صوبائی دار الحکومت کوئٹہ بھی موسمیاتی تبدیلی کے وار برداشت کررہا ہے، ایک ہفتے قبل وادی کوئٹہ میں گرمی کا باقاعدہ آغاز ہو گیا تھا، گرمی کی لہر نے جہاں صوبے کے میدانی اضلاع کو اپنی لپیٹ میں لیا وہیں بالائی اضلاع بھی گرمی کی لہر سے بچ نہ سکے۔
محکمہ موسمیات کے مطابق گزشتہ ہفتے کوئٹہ زیارت اور قلات سمیت دیگر بالائی علاقوں میں درجہ حرارت 30 سے 35 ڈگری سینٹی گریڈ کے درمیان ریکارڈ کیا گیا، ہفتے کے روز افغانستان کے علاقے قندھار سے آنے والی یخ بستہ ہواؤں نے یکدم صوبے کے علاقوں میں درجہ حرارت کو 10 ڈگری سینٹی گریڈ تک گرا دیا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: کوئٹہ میں موسم خزاں کے سیبوں کی بہار
محکمہ موسمیات کے مطابق کوئٹہ میں درجہ حرارت اس وقت 22 ڈگری سینٹی گریڈ ریکارڈ کیا گیا ہے، جو شام کے اوقات میں 18 ڈگری سینٹی گریڈ تک گرسکتا ہے اس کے علاوہ زیارت اور قلات میں بھی درجہ حرارت میں بڑی کمی ہوئی ہے۔
ماہرین کا موقف ہے کہ کوئٹہ سمیت صوبے کے دیگر بالائی علاقوں میں درجہ حرارت کا یوں اچانک گرنا انسانی صحت پر منفی اثرات مرتب کرسکتا ہے بلکہ باغات اور فصلیں بھی درجہ حرارت کے یکدم اوپر نیچے ہونے سے تباہ ہو سکتی ہیں۔
اپریل کے مہینے میں کوئٹہ کے مضافات میں چیری، سیب، خوبانی، انگور سمیت دیگر رس دار پھلوں کے باغات موجود ہیں، جن کی افزائش کے یہی چند ماہ اہم ہیں، ان ایام کے دروان پھلوں کو مناسب گرمی درکار ہوتی ہے جس سے پھل مکمل طور پر پک جاتے ہیں لیکن اگر درجہ حرارت میں اتار چڑھاؤ آئے تو پھل اپنے وقت پر نہیں پکتا اور یوں باغ کے خراب ہونے کا خدشہ پیدا ہو جاتا ہے۔
مزید پڑھیں: وادی کوئٹہ کے خشک میوہ جات کی خاص بات کیا ہے؟
چیری کے باغ کے مالک مقدس احمد نے بتایا کہ آئندہ ماہ کے اختتام پر چیری کو اتارنے کا وقت ہو جاتا ہے ایسے میں اپریل اور مئی کے اختتام تک پھل گرمی میں اچھی طرح سے درخت پر پکتے ہیں۔
’۔۔۔لیکن یکدم آنے والی سردی میں پھلوں کو مرجھا دیا ہے اگر یہ سردی آئندہ ایک ہفتے تک یوں ہی برقرار رہی تو پھلوں کے خراب ہونے کا خدشہ دوگنا ہو جائے گا اور ایسے میں مارکیٹ میں چیری کی قلت پیدا ہو جائے گی۔‘
مقدس احمد کے مطابق چیری کی مقامی پیداوار متاثر ہونے سے سوات سے آنے والی چیری کے دام آسمان پر پہنچ جائیں گے کیونکہ صوبے میں پیدا ہونے والی چیری کا بڑا حصہ خراب ہو چکا ہوگا۔
مزید پڑھیں: قندھاری اناروں کی کوئٹہ میں انٹری، ان کی خاص بات کیا ہے؟
دوسری جانب موسمیاتی تغیر کے باعث بچوں کے بیمار پڑنے کی شرح میں بھی اضافہ ہوا ہے، وی نیوز سے بات کرتے ہوئے ماہر امراض اطفال ڈاکٹر محمود احمد نے بتایا کہ موسم بدلنے سے بچے بڑی تعداد میں بیمار ہو رہے ہیں، گزشتہ چند دنوں کے دوران نزلہ، زکام اور گلے کی خرابی کی شکایت لیے 50 سے زائد والدین ان کے کلینک آچکے ہیں۔
’والدین کہتے ہیں کہ سمجھ نہیں آرہا کہ بچوں کو گرمی کے کپڑے پہنائیں یا سردی کے، ایسے موسم میں بچوں کی صحت اور اپنا بھی خاص خیال رکھنے کی ضرورت ہے، رات کے اوقات میں مسلسل پنکھا چلانے سے اجتناب کیا جائے تو بہتر ہوگا۔‘
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
افغانستان انسانی صحت بلوچستان چیری درجہ حرارت ڈاکٹر محمود احمد ڈگری سینٹی گریڈ زیارت ژالہ باری سوات قلات قندھار کوئٹہ ماہر امراض اطفال محکمہ موسمیات منفی اثرات موسمیاتی تغیر یخ بستہ