اسلام آباد:باہمت اور باصلاحیت پاکستانی خاتون کنول عالیجاہ کی روزمرہ کے کاروباری مسائل کو حل کرنے کے لیے مصنوعی ذہانت (اے آئی )کے استعمال کی صلاحیتوں کا بین الاقوامی سطح پر اعتراف کیا گیا ہے۔
کنول عالیجاہ نے ٹیکنالوجی کے لیے اپنی گہری دلچسپی کو ایک طاقتور کیریئر میں تبدیل کیا۔ معمولی آغاز سے لے کر بین الاقوامی کمپنیوں کو مشورے دینے تک ان کی کہانی محنت اور جذبے پر مبنی ہے۔
انہیں بیسٹ ریسرچر فار انٹر ڈسپلنری سٹڈی ان سسٹین ایبلٹی اینالیٹکس قرار دیا گیا ہے۔ کنزیومر انسائٹس پراڈکٹ کے حوالے سے ان کے ایک نمایاں منصوبے کو دبئی کی حکومت اور دبئی فیوچر فائونڈیشن کی طرف سے بھی سراہا گیا ہے۔
کنول کی ترقی کا سفر تیزی سے جاری ہے جو ہمیشہ جدت کو حقیقی زندگی سے جوڑنے کے طریقے تلاش کرتی ہیں ۔ایوارڈز اور خطابات سے ہٹ کر کنول اپنے کام کو حقیقت سے جوڑے رکھنے کی سوچ رکھتی ہیں ۔
ان کا ماننا ہے کہ ٹیکنالوجی کے ذریعے لوگوں کی خدمت کرنی چاہیے ۔اخلاقی اے آئی اور حقیقی دنیا پر اثرات پر ان کی توجہ ان کے ہر کام میں نظر آتی ہے۔ پاکستان میں اپنے آبائی شہر سے لے کر دنیا بھر کے بورڈ رومز تک وہ ایک ایسی میراث بنا رہی ہیں جو ثابت کرتی ہے کہ قیادت کا تعلق اس بات سے نہیں کہ آپ کہاں سے شروع کرتے ہیں بلکہ اس بات سے ہے کہ آپ کتنا آگے جانے کے لیے تیار ہیں اور آپ اپنے ساتھ کسے لے کر جاتے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ وہ اے آئی کو حقیقی مسائل حل کرنے کے لیے استعمال کرتی ہیں۔کاروبار کو بہتر طریقے سے چلانے، صارفین کو سمجھنے اور ترقی کرنے میں مدد دیتی ہیں۔ وہ اسٹارٹ اپس کے ساتھ مل کر کام کرتی ہیں۔ انہیں مفید مصنوعات بنانے، پروجیکٹس کی قیادت کرنے اور ایسے حل تیار کرنے میں رہنمائی فرہم کرتی ہیں جو واقعی اہمیت رکھتے ہیں۔ ڈیٹا سائنس اور مشین لرننگ میں ان کی مہارت انہیں نئے کاروباروں اور بڑی تنظیموں کو ڈیجیٹل تبدیلی کے عمل میں مدد دینے کے قابل بناتی ہے لیکن ان کا کام صرف کوڈنگ تک محدود نہیں ہے۔
کنول کا ماننا ہے کہ قیادت صرف ٹیموں کو منظم کرنے یا سمارٹ ٹولز بنانے سے زیادہ ہے۔ ان کے لیے حقیقی قیادت کا مطلب ہے دوسروں کی رہنمائی کرنا، مواقع پیدا کرنا اور ایسی جامع جگہیں بنانا جہاں نوجوانوں کو آگے بڑھنے کا موقع ملے ۔ ایک خاتون کے طور پر ٹیکنالوجی کے شعبے میں کامیابی حاصل کرنا ان کے لئے آسان نہیں تھا۔ کنول کوچیلنجز کا سامنا کرنا پڑا لیکن وہ رکی نہیں ۔ انہوں نے نتائج دینے پر توجہ دی اور آہستہ آہستہ دنیا نے ان کی صلاحیتوں اعتراف کیاجانے لگا اور آج، وہ اے آئی حکمت عملی میں ایک توانا آواز ہیں جو عالمی کمپنیوں کے ساتھ مل کر اہم کاروباری مسائل حل کرتی ہیں۔

 

 

پاکستان اور بنگلہ دیش میں سفارتی تعلقات کی بحالی اہم پیشرفت
دوطرفہ تعلقات اورتعاون کو آگے بڑھانے، سارک تنظیم کوفعال بنانے کی راہ ہموار
افغانستان ،امریکی اسلحے کی دہشتگرد وں کو سمگلنگ باعث تشویش، ٹرمپ انتظامہ ذمہ داری پوری کرے
اسلام آباد(طارق محمودسمیر) پاکستان اور بنگلہ دیش کے درمیان 15سال کے تعطل کے بعد سفارتی مذاکرات بحال ہوگئے، ڈھاکہ خارجہ سیکرٹریز کی سطح پر مشاورت کے چھٹے دور میں سیاسی‘معاشی‘ تجارتی روابط، زراعت، ماحولیات، تعلیم، ثقافتی تبادلے، دفاعی تعاون اور عوامی رابطوں پر باہمی تعاون کے نئے امکانات زیر غور آئے جب کہ باہمی دلچسپی کے امور، علاقائی صورت حال اور دو طرفہ تعاون کے فروغ پر بات چیت کی گئی ، بنگلہ دیش میں شیخ حسینہ واجد حکومت کے خاتمے کے بعد دونوں ملکوں کے تعلقات بدستوربہتری کی جانب گامزن ہیں اور دونوں ملکوں کے درمیان عوامی اور قیادت کی سطح پر قربتیں بڑھ رہی ہیں، وزیراعظم شہباز شریف اوربنگلہ دیش کے چیف ایڈوائزر ڈاکٹر محمد یونس کے درمیان قاہرہ میں ترقی پذیرملکوں کی تنظیم ڈی ایٹ کے سربراہی اجلاس اوراس سے پہلے ستمبر میں اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی کے سالانہ اجلاس کے موقع پر ملاقاتیں ہوئیں جن میں دوطرفہ تعلقات کو مزید مضبوط بنانے،باہمی دلچسپی کے تمام شعبوں میں دوطرفہ تعاون کو وسعت دینے اور گہرا کرنے پر اتفاق کیا گیاتھا،بنگلہ دیش ،جوماضی میں مشرقی پاکستان کہلاتاتھا 1971 میں علیحدہ ہوا اور ایک آزادملک بنا،اپنی آزادی کے بعد سے بھارت کے بہت قریب رہا ، حالیہ عرصے میں دونوں ملکوں کے درمیان بہتر تعلقات اورتعاون کے حوالے سے بہت سے حوصلہ افزا اقدامات سامنے آئے ہیں، خاص طور پرسفارتی مذاکرات کی بحالی سے امید کی ایک نئی کرن روشن ہوئی ہے،مذاکرات کی بحالی نہ صرف دوطرفہ تعلقات میں بہتری لانے کا ذریعہ بنے گی بلکہ جنوبی ایشیاء میں مجموعی امن اور ترقی کی راہ بھی ہموار ہونے کی بھی امیدہے،اسی طرح تجارت، تعلیم، سیاحت، اور ثقافتی تبادلے جیسے شعبے دونوں ممالک کے عوام کو قریب لانے میں کلیدی کردار ادا کر سکتے ہیں، پاکستان اور بنگلہ دیش کے درمیان خوشگوارتعلقات صرف دونوں ملکوں کے ہی نہیں بلکہ پورے خطے کے مفاد میںہیں ،خاص طور پر اس سے سارک جیسی اہم علاقائی تنظیم کو بحال کیا اور موثربنایا جا سکتا ہے ادھر افغان طالبان نے امریکا کی جانب سے چھوڑے گئے تقریباً 5 لاکھ فوجی ہتھیاروں کو دہشت گرد تنظیموں کو فروخت یاسمگل ہونے سے متعلق برطانوی نشریاتی ادارے کی رپورٹ سامنے آئی ہے جب کہ اس سے پہلے امریکی سیکرٹ سروس کے ایک سابق عہدے داربھی انخلاء کے وقت افغانستان میں اسلحہ چھوڑےجانے کو سنگین غلطی قراردے چکے ہیں،اس میں کوئی شک ہوشبہ نہیں کہ افغانستان میں چھوڑاگیاامریکہ اسلحہ پاکستان میں دہشت گردی کے لئے استعمال ہورہاہےاوریہ سب کچھ افغان طالبان کی پشت پناہی سے ہورہاہے لہذاامریکہ سمیت عالمی برادری کی ذمہ داری ہے وہ کہ اس سلسلے میں اپنی ذمہ داری پوری کرے اورافغان طالبان کو دوحہ معاہدے کاپابندبنائے جس میں انہوں نے اپنی سرزمین کسی دوسرے ملک کے خلاف استعمال نہ ہونے دینے کی یقین دہانی کرائی تھی ۔

Post Views: 3.

ذریعہ: Daily Mumtaz

کلیدی لفظ: دونوں ملکوں کے بنگلہ دیش کے درمیان کرتی ہیں اے ا ئی کے لیے

پڑھیں:

اسد قیصر کی سعودی سفیر نواف بن سعید المالکی سے ملاقات

---فائل فوٹو

تحریک انصاف کے رہنما اسد قیصر نے سعودی سفیر نواف بن سعید المالکی سے  سعودی سفارتخانے میں ملاقات کی ہے جس میں دو طرفہ تعلقات، خطے کی مجموعی صورتحال اور باہمی دلچسپی کے امور پر تبادلہ خیال کیا گیا۔

اس موقع پر گفتگو میں اسد قیصر نے کہا کہ سعودی عرب کے ساتھ اپنے دیرینہ برادرانہ تعلقات کو پاکستان قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہے۔ پاکستان سعودی عرب کے ساتھ تعلقات کو مزید مستحکم بنانے کا خواہاں ہے، دونوں برادر ممالک مذہب، اخوت اور تاریخ کے لازوال رشتوں میں بندھے ہوئے ہیں۔ 

سعودی شوریٰ کا پارلیمانی وفد اگلے ماہ پاکستان کا دورہ کریگا

اسلام آباد سعودی شوریٰ کا پارلیمانی وفد 20سے...

انہوں نے کہا کہ سعودی عرب کی تیز رفتار ترقی شہزادہ محمد بن سلمان کی مؤثر قیادت کا منہ بولتا ثبوت ہے، پاکستانی عوام سعودی عرب سے دلی وابستگی رکھتے ہیں اور اسے اپنا دوسرا گھر سمجھتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ سعودی عرب نے ہر مشکل وقت میں پاکستان کے لیے فراخدلانہ امداد کی ہے۔

سابق اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر نے امت مسلمہ میں اتحاد و یکجہتی کے فروغ کے لیے سعودی عرب کے مثبت کردار کی تعریف بھی کی۔

ملاقات کے دوران سعودی سفیر نواف بن سعید المالکی نے کہا کہ سعودی عرب پاکستان کے ساتھ اپنے دوستانہ تعلقات کو انتہائی اہمیت دیتا ہے، پاکستان کے ساتھ معاشی و تجارتی شعبوں میں تعاون مزید بڑھانا چاہتا ہے، سعودی عرب میں مقیم پاکستانی تعمیر و ترقی میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ ہم پاکستان کو اپنا دوسرا گھر سمجھتے ہیں، پاکستانی خصوصاً خیبر پختونخوا کے عوام اور قبائل کی محبت و خلوص کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا، سعودی عرب پاکستان کو ایک مستحکم، خوشحال اور ترقی یافتہ ملک دیکھنے کا خواہاں ہے۔

متعلقہ مضامین

  • مریم نواز ڈی ایچ کیو ہسپتال پاکپتن پہنچ گئیں، شکایات کے انبار، سی ای او ہیلتھ، ایم ایس کی گرفتاری کا حکم
  • پاکستان کی کرپٹو سفارتکاری اور امریکی صدر کیلئے نوبل انعام کی حمایت ٹیرف سے بچنے کی حکمت عملی کا حصہ  ، فنانشل ٹائمز کا دعویٰ
  • ’بس بہت ہو گیا‘، نادیہ خان کی فنکاروں کو آخری وارننگ، قانونی کارروائی کی دھمکی
  • پلاسٹک کیلیے عملی اقدامات کرنے جا رہے ہیں، مریم نواز
  • بھارت؛ کم عمر طالبعلم کیساتھ جنسی تعلقات استوار کرنے پر 40 سالہ خاتون ٹیچر گرفتار
  • اسد قیصر کی سعودی سفیر نواف بن سعید المالکی سے ملاقات
  • چیٹ جی پی ٹی نے خاتون کو ’ساڑھے 65 لاکھ‘ کے قرض سے چھٹکارہ دلوا دیا
  • مودی کے بیانات، خطے میں آگ یا راکھ؟
  • پہلگام واقعے پر کواڈ کا غیر جانبدار مؤقف، پاکستان کی سفارتی حکمت عملی کامیاب
  • کواڈ ممالک کا غیر جانب دار مؤقف: پاکستان کی سفارتی حکمت عملی کامیاب