جی بی میں گندم کی منصفانہ تقسیم کے حوالے سے اجلاس
اشاعت کی تاریخ: 8th, May 2025 GMT
اجلاس سے تبادلہ خیال کرتے ہوئے ڈائریکٹر جنرل محمد جعفر نے کہا کہ محکمہ خوراک انتہائی اہم محکمہ ہے اور پورے گلگت بلتستان کے عوام کی نظریں اور امیدیں اسی محکمے پر مرکوز ہیں، ایسے میں محکمے کے اوپر بھاری زمہ داریاں عائد ہوتی ہیں کہ وہ محنت اور لگن سے عوام الناس کو گھر کی دہلیز پر معیاری گندم و آٹے کی بروقت فراہمی یقینی بنائے۔ اسلام ٹائمز۔ ڈائریکٹر جنرل خوراک گلگت بلتستان محمد جعفر کی صدارت میں محکمہ خوراک گلگت بلتستان کا ایک اہم اجلاس ڈائریکٹوریٹ ہیڈکوآرٹر میں منعقد ہوا، جس میں مختلف ریجن کے ڈائریکٹرز، انفارمیشن ڈیپارٹمنٹ کی ٹیم، ڈائریکٹوریٹ ہیڈکوآرٹر کے مختلف شعبہ جات کے ڈپٹی ڈائریکٹرز اور اسسٹنٹ ڈائریکٹرز نے اجلاس میں شرکت کی۔ اجلاس میں مالی سال 26-2025ء کے لئے گندم ٹرانسپوٹیشن ٹینڈر، گندم و آٹے کی منصفانہ اور بروقت تقسیم، ترقیاتی منصوبوں کی پیشرفت، میکنیزم برائے پرائیویٹ آٹا پسائی و تقسیم کار، فوڈ ایکٹ کی عملدرآمد سٹیٹس اور صارفین کی ڈیٹا تصدیق کے حوالے سے اب تک کی صورت حال کے حوالے سے ڈائریکٹر جنرل خوراک کو تفصیلی بریفنگ دی گئی۔ اجلاس سے تبادلہ خیال کرتے ہوئے ڈائریکٹر جنرل محمد جعفر نے کہا کہ محکمہ خوراک انتہائی اہم محکمہ ہے اور پورے گلگت بلتستان کے عوام کی نظریں اور امیدیں اسی محکمے پر مرکوز ہیں، ایسے میں محکمے کے اوپر بھاری زمہ داریاں عائد ہوتی ہیں کہ وہ محنت اور لگن سے عوام الناس کو گھر کی دہلیز پر معیاری گندم و آٹے کی بروقت فراہمی یقینی بنائے۔ ترقیاتی منصوبوں کی درمیان رکاوٹوں کو دور کر کے بروقت مکمل کرے۔
انہوں نے مزید کہا کہ FMIS کے زریعے عوام الناس کے اندارج شدہ ڈیٹا کی تصدیق کا عمل نادرا کے ذریعے جلد از جلد مکمل کیا جائے تاکہ تصدیق شدہ ڈیٹا سامنے آ جائے اور کسی کا بھی حق تلفی نہ ہو۔ انہوں نے اجلاس میں زور دیکر کہا کہ گندم و آٹے کے معیار اور بروقت فراہمی و تقسیم کو ہر ضلع میں یقینی بنایا جائے اور عوام الناس کو گھر کی دہلیز پر معیاری گندم و آٹے کی فراہمی کے لئے ٹھوس اقدامات اٹھائے جائیں۔ آٹے کی پسائی کے عمل میں سختی کے ساتھ نگرانی کی ضرورت ہے تاکہ عوام کو معیاری آٹا میسر ہو سکے۔ فوڈ ایکٹ کی منظوری کے بعد اب محکمہ خوراک پر بھاری ذمہ داری آچکی ہے جس کو بہتر انداز میں سرانجام دینے کی ضرورت ہے۔ اجلاس کے آخر میں ڈائریکٹر جنرل خوراک نے محکمہ خوراک کے ڈسٹرکٹ ہیڈز پر زور دیکر کہا کہ اپنے اپنے اضلاع میں گندم و آٹے کی فراہمی و پسائی کی سختی کے ساتھ نگرانی کریں اور بیلک مارکیٹنگ میں ملوث ڈیلرز کے خلاف سخت ایکشن لیں۔ گندم و آٹے کے معاملے میں کسی بھی کوتاہی کو برداشت نہیں کیا جائے گا۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: ڈائریکٹر جنرل گندم و آٹے کی گلگت بلتستان محکمہ خوراک عوام الناس کہا کہ
پڑھیں:
آٹا و گندم کی اسمگلنگ اور فوڈ سکیورٹی؟
پنجاب اورسندھ سے آج کل آٹااورگندم کی خیبرپختونخوا اوربلوچستان کے راستے افغانستان کو اسمگلنگ کا دھندہ عروج پر ہےاور ہرہفتے اربوں روپےمالیت کا آٹا اور گندم افغانستان، ایران اور سینٹرل ایشیاء کےممالک میں بھجوایاجا رہا ہے، گھوسٹ سیڈکمپنیوں اور فلور ملز مالکان کی بڑی تعداد اس کالے دھندے میں شامل ہے، وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز شریف نے گندم کی ضلع بندی اس نیک نیتی کے تحت ختم کی تھی تاکہ پرائیویٹ سیکٹر جہاں سے جی چاہے گندم کی خریداری کرے تاکہ مارکیٹ میں ایک صحت مند مقابلے کی فضا بنے اور کاشتکار کو اس کی فصل کا مناسب معاوضہ مل سکے، نیک نیتی کےتحت دی گئی اس سہولت کا ناجائز فائدہ اٹھایاجارہا ہے، ستم بالائے ستم یہ ہے کہ اس میں مختلف قومی اور نجی بینکوں کے ایریا مینیجرز،زونل مینیجر، مقامی بنک مینیجرز سمیت مختلف افسران کی بڑی تعداد بھی ملوث ہے، اس ملی بھگت کا نتیجہ یہ ہے کہ نجی شعبہ بظاہر بنکوں سے قرضے لے کر 25 کروڑ عوام کی پورے سال کی ضرورت کی گندم ذخیرہ کر رہا ہے لیکن عملی صورتحال یہ ہے کہ بنکوں سے کروڑوں اربوں روپے کے قرضے لے کرخریدی گئی گندم کی بڑی مقدار ملی بھگت سے اورچوری چھپے بیرون ملک اسمگل کی جارہی ہے،مختلف اضلاع کے ڈپٹی کمشنرز اور ڈی پی اوز کو یا تو اس ’’واردات‘‘کا علم ہی نہیں یا پھر ان کا ’’حصہ‘‘ انہیں مل رہا ہے، اس لئے آج کل صورتحال یہ ہے آٹا و گندم مافیا کی پانچوں گھی میں ہیں اور اسمگلنگ کا دھندہ پورے زور و شور سے جاری ہے، نجی شعبے کے ذریعے ملک کی فوڈ سکیورٹی کا انتظام کرنے کےنام پرجاری اس اسمگلنگ کا نقصان یہ ہوگاکہ جب گندم کی کاشتکاروں سے خریداری مکمل ہو جائے گی تو اس کی قیمت میں تیزی سے اضافہ کردیاجائیگا اور خاص طور پر اگست ستمبر میں ملک میں ہاہا کار مچا دی جائے گی کہ گندم کی قلت پیدا ہو گئی ہے اس لئے روس اور یوکرین سے گندم فوری امپورٹ کی جائے، اگر ان دنوں عالمی مارکیٹ میں نرخ زیادہ ہوئے تو اسے جواز بنا کر پاکستان میں 2000 سے 2200 روپے من خریدی گئی گندم کا ریٹ اچانک 3000 سے 3200 روپے من کردیاجائےگا اورعوام کو دونوں ہاتھوں سے لوٹا جائے گا۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ پاکستان کے 25 کروڑ عوام کی سال بھر کی ضرورت کی گندم کا تخمینہ لگا کر پرائیویٹ سیکٹر میں گندم ذخیرہ کرنے کی پالیسی کی مانیٹرنگ سخت کی جائے، کیونکہ بہت سے فلور ملز اور سیڈ کمپنیوں کے مالکان نے بنکوں سے قرضے لے کر جو گندم اسٹور کر رکھی ہے اس کے اندر 60 سے 70 فیصد تک بھوسہ بھرا ہے، گوداموں میں گندم کی بوریوں کے جو پہاڑ لگے ہیں، ان کے اندر 60 سے 70 فیصد تک بھوسہ ہے صرف اوپر اوپر گندم کی بوریاں ہیں، وزیراعظم پاکستان میاں محمد شہبازشریف، وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز شریف اور وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ کو چاہیے کہ وہ مختلف نجی اور قومی بنکوں کے اعلیٰ افسران سے مل کر یہ امر یقینی بنائیں کہ بنکوں نے جو قرضے فوڈ سکیورٹی پالیسی کے تحت ملک میں گندم کے محفوظ ذخائرکےلئےدیئے ہیں ان سے خریدی گئی گندم واقعی محفوظ ذخائر کی صورت میں موجود بھی ہو۔پاکستان بھر میں رجسٹرڈ فلور ملز کی تعداد تقریباً 2,589ہے، جن میں سے صرف پنجاب میں 1,619 فلور ملز موجود ہیں۔ ان میں سے کئی فعال طور پر گندم کی پروسیسنگ اور آٹا بنانے کے عمل میں مصروف ہیں، جبکہ کچھ صرف سیزنل بنیادوں پر کام کرتی ہیں۔ خیبرپختونخوا، بلوچستان اور سندھ میں بھی سینکڑوں فلور ملز ہیں، جو مقامی اور برآمدی ضروریات کو پورا کرتی ہیں۔ بدقسمتی سے، بعض فلور ملز اسمگلنگ اور ذخیرہ اندوزی جیسے غیرقانونی دھندوں میں ملوث پائی گئی ہیں، جس سے قومی فوڈ سکیورٹی پر منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔
پاکستان میں رجسٹرڈ سیڈ کمپنیوں کی تعداد مختلف ذرائع کے مطابق 750 سے زائد ہے۔ ان میں سے 615 سے زیادہ صرف پنجاب میں کام کر رہی ہیں۔ یہ کمپنیاں گندم، مکئی، چاول اور دیگر فصلوں کے بیج مہیا کرتی ہیں۔ تاہم، کچھ جعلی یا ’’گھوسٹ‘‘سیڈ کمپنیاں بھی مارکیٹ میں سرگرم ہیں، جو حکومت سے سبسڈی یا بینکوں سے قرضہ حاصل کر کے گندم کی خریداری کے نام پر گودام بھر لیتی ہیں اور بعد ازاں وہی گندم اسمگل کر دیتی ہیں یا بلیک مارکیٹ میں فروخت کر دی جاتی ہے۔ہر سال فلور ملز اور سیڈ کمپنیاں لاکھوں میٹرک ٹن گندم خریدتی ہیں۔ اندازہ ہے کہ صرف پنجاب میں نجی شعبے نے 2024، 2025 ء کے موجودہ سیزن میں 6 سے 7ملین میٹرک ٹن گندم کی خریداری کرنی ہے۔ یہ خریداری بینکوں سے قرضہ لے کر کی جاتی ہے، جسے فوڈ سکیورٹی کے نام پر سبسڈی یا آسان شرائط پر جاری کیا جاتا ہے۔ فلور ملز اور سیڈ کمپنیاں ملک کی فوڈ سکیورٹی کا بنیادی ستون ہیں، لیکن غیر شفاف نظام، کرپشن اور کمزور ریگولیٹری میکنزم کی وجہ سے یہ ادارے ملک کو فائدہ پہنچانے کے بجائے بحران کی طرف دھکیل رہے ہیں۔ حکومت، خاص طور پر وزیراعظم، وزرائے اعلیٰ اور متعلقہ وزارتوں کو فوری طور پر بینکوں کے ساتھ مل کر اس سسٹم کی شفافیت یقینی بنانی چاہیے۔ گندم کی خرید و فروخت، اسٹوریج، اور استعمال پر ڈیجیٹل مانیٹرنگ سسٹم نافذ کیا جانا چاہیے تاکہ ذخیرہ اندوزی، ملاوٹ اور اسمگلنگ جیسے ناسور کا خاتمہ ممکن ہو سکے۔
حالیہ چند برسوں کے دوران وفاقی حکومت نے31 کسٹمز افسران کی نشاندہی کی ہے جو گندم سمیت ضروری اشیاء کی اسمگلنگ میں ملوث ہیں۔ وزارت داخلہ نے ایف بی آر کے چیئرمین کو کارروائی کے لیے کہا ہے،تاہم ابھی تک کوئی خاطر خواہ پیش رفت نہیں ہوئی۔ پاکستان میں 2024-25 ء کے لیے گندم کی پیداوار 31.4 ملین میٹرک ٹن تک پہنچنے کی توقع ہے، جو پچھلے سال کے مقابلے میں 11 فیصد زیادہ ہے، حکومت نے ستمبر 2023ء سے مارچ 2024ء کے درمیان 3.5 ملین میٹرک ٹن گندم درآمد کی، جس سے ملک کو ایک ارب ڈالر کا نقصان ہوا اور پاکستانی گندم کے کسان کو مناسب ریٹس بھی نہیں مل سکے۔ اگر آٹا و گندم کی اسمگلنگ کی روک تھام اور قابل اعتماد ذخائر کو یقینی نہ بنایا گیا تو چند ماہ بعد ایک بار پھر مصنوعی بحران پیدا کرکے عوام کو لوٹا جائے گا۔ مشتری ہوشیار باش