آج 25 کروڑ پاکستانی سپاہی بن چکے ہیں، انور مقصود
اشاعت کی تاریخ: 10th, May 2025 GMT
معروف مصنف اور دانشور انور مقصود نے حالیہ پاک-بھارت کشیدگی کے تناظر میں قوم سے اظہارِ یکجہتی کرتے ہوئے کہا ہے کہ مشکل حالات میں ہی اندازہ ہوتا ہے کہ فوج کی اہمیت کیا ہے، اور آج 25 کروڑ پاکستانی سپاہی بن چکے ہیں۔
انہوں نے حالیہ گفتگو میں کہا کہ ان کے پاس ہتھیار نہیں، لیکن ان کا قلم ہی ان کا اصل ہتھیار ہے، اور وہ جو کچھ بھی کر سکتے ہیں، وہ اپنے وطن کے لیے کریں گے۔ انور مقصود نے اس بات پر زور دیا کہ جنگ شروع کرنا آسان جبکہ ختم کرنا بہت مشکل ہوتا ہے، اس لیے ضروری ہے کہ حالات مزید نہ بگڑیں۔
انہوں نے بھارت کے پانچ طیارے گرنے پر خوشی کے بجائے معصوم پاکستانیوں کی جانوں کے ضیاع پر دکھ کا اظہار کیا۔ انور مقصود کا کہنا تھا کہ پرچم کی عزت سب کے لیے برابر ہے، جیسے ایک بھارتی اپنے پرچم کی عزت کرتا ہے محبت کرتا ہے، ویسے ہی وہ بھی پاکستانی پرچم کی عزت کرتے ہیں۔
View this post on InstagramA post shared by Arts Council of Pakistan Karachi (@acpkhiofficial)
آخر میں انہوں نے کہا کہ وقت کے ساتھ حالات بدل چکے ہیں، اور اب کسی بھی ملک کو جنگ کی طرف نہیں جانا چاہیے۔ ان کا کہنا تھا کہ سب کو ملک کی ترقی کے لیے متحد ہو کر حکومت اور فوج کی رہنمائی میں آگے بڑھنا ہوگا۔
.ذریعہ: Express News
پڑھیں:
پاکستان کے 30 کروڑ ڈالر کے مقروض نکلے 5 ممالک
اسلام آباد: دنیا کے پانچ ممالک پاکستان کے مجموعی طور پر **30 کروڑ 45 لاکھ ڈالر** کے مقروض ہیں، اور یہ رقم گزشتہ کئی دہائیوں سے واجب الادا ہے۔
آڈٹ رپورٹ کے مطابق سری لنکا، بنگلا دیش، عراق، سوڈان اور گنی بساؤ ان ممالک میں شامل ہیں جنہیں حکومتِ پاکستان نے 1980 اور 1990 کی دہائی میں ایکسپورٹ کریڈٹ کی مد میں قرضے دیے تھے۔ موجودہ پاکستانی کرنسی میں یہ رقم 86 ارب روپے سے تجاوز کر چکی ہے۔
آڈٹ رپورٹ کے مطابق:
عراق نے سب سے زیادہ رقم، یعنی **23 کروڑ 13 لاکھ ڈالر** ادا نہیں کیے۔
سوڈان کے ذمے 4 کروڑ 66 لاکھ ڈالر واجب الادا ہیں۔
بنگلا دیش نے شوگر پلانٹ اور سیمنٹ پراجیکٹس کے تحت **2 کروڑ 14 لاکھ ڈالر کی ادائیگی کرنی ہے۔
گنی بساؤ سے 36 لاکھ 53 ہزار ڈالر کی وصولی ہونا باقی ہے۔
پہلے بھی نشاندہی ہو چکی ہے
رپورٹ میں بتایا گیا کہ **2006-07** میں بھی آڈیٹر جنرل نے ان بقایاجات کی نشاندہی کی تھی۔ وقتاً فوقتاً ان ممالک کو یاد دہانی کے خطوط اور ڈیمانڈ نوٹسز بھی بھیجے گئے، لیکن کوئی خاطر خواہ پیش رفت نہ ہو سکی۔
آڈیٹر جنرل نے تجویز دی ہے کہ رقم کی واپسی کے لیے یہ معاملہ **بین الاقوامی اور سفارتی سطح** پر مؤثر انداز میں اٹھایا جائے، تاکہ حکومت پاکستان اپنے کروڑوں ڈالر واپس حاصل کر سکے۔