Daily Ausaf:
2025-11-24@22:00:09 GMT

مظلوم امت کا انتقام

اشاعت کی تاریخ: 15th, May 2025 GMT

تاریخ انسانیت میں مظلوموں کی آہیں بے اثر نہیں رہتیں۔ جو قومیں صدیوں تک ظلم سہتی رہیں جب ان کی دعائیں عرش تک پہنچتی ہیں تو پھر عرش سے فیصلہ زمین پر نازل ہوتا ہے۔ مسلمانانِ عالم پچھلی چند دہائیوں سے ایک مستقل کرب میں مبتلا ہیں۔ ہر طرف مسلمانوں کا لہو بہایا جا رہا ہے۔ کہیں مذہب کے نام پر، کہیں جغرافیے کے، اور کہیں صرف اس لیے کہ وہ مسلمان ہیں۔
یاد کیجیے عراق کو جب 2003 ء میں امریکا اور اس کے اتحادیوں نے جھوٹے ہتھیاروں کے بہانے حملہ کیا۔ صدام حسین کا اقتدار خواہ کیسا بھی ہو مگر اس حملے کے بعد عراق میں جو قیامت ٹوٹی اس نے لاکھوں انسانوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔ معصوم بچے، عورتیں، بوڑھے سب امریکا کی آزادی کے نام پر جلتے رہے۔پھر افغانستان آیا۔ 2001 ء کے بعد سے اب تک وہ ملک خاک و خون میں نہایا ہوا ہے۔ طالبان، القاعدہ، داعش، اور امریکی فوجی، سب نے اس دھرتی کو تختہ مشق بنایا۔ وہاں کی مسجدیں، اسکول، ہسپتال سب ملبہ بن گئے۔ ڈرون حملے عام ہوئے۔ شادی بیاہ کی محفلیں لاشوں میں بدل گئیں۔ کس نے نہیں دیکھا وہ منظر جب ایک بچہ باپ کی لاش سے لپٹ کر چیخ رہا تھا: بابا اٹھو، یہ سب جھوٹ ہے نا؟پھر فلسطین کی باری آئی۔ غزہ کی پٹی کو دنیا کی سب سے بڑی جیل کہا گیا۔ اسرائیلی فوج ہر رمضان میں، ہر عید پر، بچوں کو شہید کرتی ہے، عورتوں کو قید کرتی ہے، گھروں کو گرا دیتی ہے۔ مغرب کا ضمیر خاموش رہتا ہے، اقوام متحدہ کی قراردادیں صرف کاغذی دکھاوے بن کر رہ گئیں۔
اور شام؟ لبنان؟ یمن؟ ہر جگہ آگ، بارود، دھماکے، اور لاشیں۔ کہیں امریکہ، کہیں روس، کہیں ایران، کہیں سعودی عرب سب کے مفادات وہاں خون کی صورت بہہ رہے ہیں۔ ان مظالم کو دیکھ کر صرف دل ہی نہیں پھٹتا، ایمان بھی کانپ اٹھتا ہے کہ ہم آخر کب تک خاموش تماشائی بنے رہیں گے؟
ایسے میں سوشل میڈیا پر ایک عرب بھائی کا عربی کمنٹ وائرل ہوا جو ہم سب کی اجتماعی کیفیت کی ترجمانی کرتا ہے:’’بہت وقت گزر گیا۔ ان محروم آنکھوں نے ایک ہی منظر بار بار دیکھا:کافروں کو مسلمانوں پر آسمان سے آگ اور لوہا برساتے ہوئے۔کبھی عراق کے آسمان شعلوں سے بھر گئے،کبھی فلسطین کی گلیاں خون سے رنگین ہو گئیں،کبھی افغانستان کے پہاڑ لرز اٹھے، اور کبھی شام و لبنان کی زمین پر آسمان سے قیامت نازل ہوئی۔‘‘
لیکن آج…!آج ان آنکھوں نے وہ منظر دیکھا جس نے برسوں کی پیاس بجھا دی۔ہم نے دیکھا کہ پاکستان کے شاہینوں نے گا پوجنے اور اس کا پیشاب پینے والوں پر آسمان سے آگ برسائی۔ دل کی دھڑکنیں سجدہ ریز ہو گئیں۔ایسا سکون دل میں اترا جو لفظوں میں بیان نہیں ہو سکتا۔اے اللہ! تیرے ہی لیے ہے تمام تعریف۔ہزار بار شکر کہ تو نے ہمیں یہ دن دکھایا۔یہ تیرا ہی فضل ہے کہ مظلوموں کی دعائیں سنی گئیں،اور ظالموں پر آسمان سے بجلی گری!یہ کمنٹ صرف ایک جذباتی اظہار نہیں یہ ایک احساسِ زخم ہے۔ یہ کرب کی گواہی ہے جو عراق سے لے کر کشمیر تک پھیلا ہوا ہے۔ پاکستان کے حالیہ اقدامات نے جہاں دشمن کو پیغام دیا ہے کہ ہم جاگ رہے ہیں، وہیں امت مسلمہ کے مظلوم دلوں میں امید کی کرن جگا دی ہے۔
کشمیر بھی اسی کہانی کا ایک باب ہے۔ پچھلے 75 برسوں سے کشمیری عوام بھارتی ریاستی دہشت گردی کا شکار ہیں۔ پیلٹ گن سے آنکھیں چھینی گئیں، ہزاروں نوجوان لاپتہ کیے گئے، بیٹیوں کی عصمت دری کو ریاستی پالیسی کے طور پر استعمال کیا گیا اور جب بھارت نے 5 اگست 2019 ء کو کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کی تب ساری دنیا خاموش رہی۔
ایسے میں اگر کوئی مظلوم قوم دیکھے کہ ظالم پر بھی آسمان سے آگ برسی ہے تو یہ اس کے لیے کسی عید سے کم نہیں ہوتا۔ یہ صرف جذباتی فتح نہیں ایک پیغام ہے کہ مظلوموں کی دعائیں کبھی رائیگاں نہیں جاتیں۔
آج پاکستان کے شاہینوں نے صرف دشمن کے عزائم کو خاک میں نہیں ملایا بلکہ پوری امت کو یہ پیغام دیا ہے کہ اگر نیت، ایمان اور قربانی ہو تو تاریخ کا رخ موڑا جا سکتا ہے۔ ہمیں صرف ہتھیار نہیں نظریہ بھی چاہیے۔ صرف فوجی طاقت نہیں اجتماعی شعور بھی چاہیے۔
اب وقت آ گیا ہے کہ مسلمان ممالک محض مذمتی بیانات سے آگے بڑھیں۔ OIC کو حقیقتا مسلم اتحاد کا مظہر بننا ہوگا۔ معاشی، عسکری، سفارتی میدانوں میں ایک دوسرے کا ہاتھ تھامنا ہوگا۔ ورنہ تاریخ گواہ ہے، جو قومیں بکھری رہیں وہ صفحہ ہستی سے مٹ گئیں۔آخر میں صرف اتنا کہوں گا:یہ وقت کسی مخصوص ملک، جماعت یا فوج کی فتح کا نہیں یہ پوری امت مسلمہ کے دل کی دھڑکن کی بحالی ہے۔ظلم جتنا بھی بڑھ جائے، دعا کا ہتھیار ہمیشہ قوی رہتا ہے۔اور جب دعا آسمان پر پہنچتی ہے، تو جواب بھی وہیں سے آتا ہے۔ کبھی آگ، کبھی بجلی، اور کبھی شاہینوں کے روپ میں۔

.

ذریعہ: Daily Ausaf

پڑھیں:

جرنیلی سڑک

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

251122-03-7
شرَفِ عالم
میں: آج کا عنوان تو بی بی سی والے رضا علی عابدی کا وہ سفرنامہ ہے نا جو پہلے ایک قسط وار ریڈیو پروگرام اور بعد میں کتاب کی صورت میں شائع ہوا تھا؟

وہ: ماضی میں شارع اعظم اور اُترا پتھا کہلائی جانے والی یہ سڑک ڈھائی ہزار سال قبل تعمیر کی گئی تھی جو ہندوستان کو وسطی ایشیائی ممالک سے جوڑتی تھی۔ ساڑھے تین ہزار کلومیٹر سے زائد کی یہ طویل سڑک بنگلا دیش میانمر بارڈر کے علاقے تیکناف سے ہوتی ہوئی چٹاگانگ، ڈھاکا، کلکتہ، کانپور، آگرہ، علی گڑھ، دہلی، امرتسر، چندی گڑھ، پاکستان میں لاہور، راولپنڈی، پشاور سے ہوتی ہوئی کابل میں اختتام پذیر ہوتی ہے۔ سولھویں صدی میں شیرشاہ سوری نے کابل سے کلکتہ تک اس سڑک کو از سرِنو تعمیرکیا اور اس طویل راستے کو مسافروں کے آرام اور سہولت کے لیے مزید بہتر بنایا، مہماں سرائے اور فاصلوں کی بہتر جانچ کے لیے ہر کوس یعنی کم وبیش ہر دومیل کے فاصلے پر مینار تعمیر کیے۔

جہاں تک جرنیلی سڑک کا تعلق ہے اصل میں یہ ایک سفر کا احوال ہے۔ اس سفر میں مصنف نے ان تمام علاقوں کی تہذیب وثقافت، رسوم ورواج اسی طرح بیان کردیے ہیں جیسا انہوں نے مشاہدہ کیا، جس میں میلے ٹھیلے، باجے گاجے، شادی بیاہ، دھوم دھڑکا، شہر، قصبے، دیہات، موسم کا احوال، اطراف کے حالات، شب برات کے پٹاخے اور اس طویل سڑک سے جڑی عروج وزوال کی داستانوں کا تذکرہ سب ہی کچھ شامل ہے۔

میں: لیکن آج اس جرنیلی سڑک کے ذکر کی کیا ضرورت پیش آگئی؟

وہ: اصل میں ایسی ہی ایک اور سڑک میرے ذہن میں آگئی جس کی لمبائی تو محض آٹھ دس کلومیٹر کے لگ بھگ ہے، لیکن یہ چھوٹی سی سڑک ہمارے وطن کے طول وعرض پہ پھیلی ہوئی ہے۔ اس سڑک پر موجود علامتی ایوان ِ عدل ہو یا قانون سازوں کی مہماں سرائے، یہ دونوں ہی اس رستے پر بزور ترازو اور بزور بازو رقم ہونے والی عروج وزوال کی تمام ہی داستانوں کے گواہ بھی ہیں اور وجہ بھی۔

میں: گواہ کی حد تک تو تمہاری بات درست ہے مگر اس جرنیلی سڑک پر پیش آنے والی عروج وزوال کی ان داستانوں کی وجہ یہ ایوان ِ عدل اور مہماں سرائے شاید نہیں ہیں۔ بلکہ شاید اس کی وجہ وہ صدر مقامِ عام ہے جہاں سے یہ جرنیلی سڑک اصل میں شروع ہوتی ہے، اور اس کی جانب سے لگائے گئے واحد مینار کی عقابی نظریں ہیں، جو ان دونوں مقامات پر بیک وقت نگاہ جمائے ہوئے ہیں کہ وہاں رہنے والوں اور گزرنے والوں کا دھوپ سینکنے کے دوران اگر کبھی انگڑائی لینے کا دل چاہے تو عقابی نظروں کو دیکھ کر فوراً ہاتھ نیچے ڈھلک جاتے ہیں اور اس موقع پر حسرت موہانی یادآجاتے ہیںؔ

انگڑائی بھی وہ لینے نہ پائے اٹھا کے ہاتھ
دیکھا مجھے تو چھوڑ دیے مسکرا کے ہاتھ

اس اعتبار سے دیکھو تو مجھے تو یہاں کے مکین مجبور ولاچار نظر آتے ہیں، جیسے ان کے بس میں کچھ ہے ہی نہیں۔ یہ سب تو بس حکم کے غلام ہیں، یعنی عارضی بنیادوں پر پیرول پر رکھے گئے ملازم۔ جیسے جیسے حکم دیا جاتا ہے ویسے ویسے آداب بجالاتے ہیں۔ دائیں مڑ، بائیں مڑ، ہوشیار، آسان باش وغیرہ وغیرہ۔ بقول میرؔ

ناحق ہم مجبوروں پر یہ تہمت ہے مختاری کی

چاہتے ہیں سو آپ کرے ہیں ہم کو عبث بدنام کیا

وہ: کیسی مجبوری اور کہاں کی بدنامی اگر غور کرو تو یہ باہمی مفادکی تجارت پر مبنی انتہائی منافع بخش کاروبار ہے۔ نہ اس کا عام آدمی سے کوئی لینا دینا ہے، اور نہ ملک وملت سے کوئی سروکار، یہ تو بس ایک کاروبار ہے۔ اور کاروبار میں گھاٹا کس کو اچھا لگتا ہے۔ ہر بیوپاری چاہتا ہے کہ اس کی مصنوعات بازار میں ہاتھوں ہاتھ فروخت ہوں۔ بس زیادہ نہیں صرف اچھی مارکیٹنگ کی ضرورت ہوتی ہے، جس کے لیے کبھی ریپر بدلنا پڑتا ہے، کبھی پروڈکٹ کا نام تو کبھی سلوگن، جسے ہمارے ہاں عرف عام میں بیانیہ کہا جاتا ہے۔ اس مقصد کے لیے پہلے سے منتخب کردہ دو معروف ایجنسیوں کو اپنی ضرورت کے حساب سے باری باری مارکیٹنگ کے لیے اشتہاری ایجنڈا بتا کر تحریری بریفنگ پکڑا دی جاتی ہے اور جس کی پیشکش دل کو بھا جاتی ہے وہ کبھی کبھی ٹینڈر کی بولی ہار کر بھی سر کا تاج بن جاتا ہے۔ اور ایسا پہلی بار اس وقت ہوا جب دو کو سبق سکھانے کے لیے ایک تیسری ایجنسی کی خدمات حاصل کی گئیں مگر معاملہ اس وقت خراب ہوگیا جب اس کا دیا گیا سلوگن کمپنی کے بجائے عوام کے دل کو زیادہ بھاگیا۔ اور تم تو جانتے ہو جرنیلی سڑک کے مینار پر لگی عقابی نظروں سے آج تک کون بچ سکا ہے، آن کی آن میں اس تیسری ایجنسی کا بوریا بستر لپیٹ دیا گیا۔ اور وہ دن ہے اور آج کا دن، وہی کہنہ مشق پرانی ایجنسیاں اس بار مل کر پوری وفا شعاری اور عزم وحوصلے کے ساتھ اپنے کام پر جتی ہوئی ہیں۔ کیوںکہ اشتہاری ایجنسی کو تو اپنے پندرہ فی صد کمیشن کی فکر ہوتی ہے، اب اسے دی گئی بریف کسی آئینی ترمیم کو منظور کرانے کی ہو یا کسی اور بڑے تاجر کے ساتھ زیادہ بڑے تجارتی معاہدے کی تکمیل کی۔ اسے بس ایک پرکشش پریزینٹیشن بناکر پہلے اپنے باس کو پھرکلائنٹ کے سامنے پیش کرنا ہوتی ہے۔ اور رہی منظوری تو بظاہر پس پردہ باس اپنا اثرو رسوخ اس چابک دستی سے استعمال کرتا ہے ہر پیشکش چٹکی بجاتے منظور ہوجاتی ہے اور دونوں ایجنسیوں کا منافع طے شدہ معاہدے کے تحت ہر مہینے ان کے اکائونٹس میں ٹرانسفر کردیا جاتا ہے۔ ایجنسیاں اپنی کامیابی پر پھولے نہیں سماتیں۔ پھر وہ اپنی ان نام نہاد کامیابیوں پر علٰیحدہ سے اشتہاری مہم چلا کر وہ شورو غوغا مچاتی ہیں کہ الامان الحفیظ۔

ذرا سوچو اس سے منافع بخش کاروبار اور کون سا ہوگا؟ جس میں مسلسل کامیابی کا بس ایک ہی نسخہ ہے۔ مسلسل تابعداری۔ اور یہ گھاگ ایجنسیاں اس کلیے پر ہمیشہ عمل پیرا رہی ہیں کہ ’’Client is always right.‘‘

میں: میری سمجھ میں تمہاری بات کچھ کچھ آرہی ہے۔ شیرشاہ سوری کی جرنیلی سڑک ہو یا ہماری مختصر سی جرنیلی سڑک عروج وزوال کی داستانیں دونوں ہی پر بکھری پڑی ہیں۔ فرق صرف ان سڑکوں سے فائدہ اور سہولت اٹھانے والوں کا ہے۔ قدیم سڑک سے توکیا تاجر کیا آجر، ہر خاص وعام نے نہ جانے کتنا اور مسلسل فائدہ اٹھایا اور شاید قیامت تک اٹھاتے رہیںگے لیکن ہماری جرنیلی سڑک سے آج تک کسی عام آدمی کو تو کوئی فیض نہیں پہنچا۔ لیکن مذکورہ بالا کاروبار سے وابستہ خود کو سب سے خاص سمجھنے والے تمام افراد دہائیوں سے اس سڑک کے دونوں جانب ڈیرے ڈالے بیٹھے ہیں اور خوب مزے کررہے ہیں۔ بقول شاعرؔ

نئی ترمیم کی سواری ہے
اور گٹھ جوڑ بھی مثالی ہے
آگئی راس یہ جرنیلی سڑک
یہی آئینِ وفاداری ہے

سیف اللہ

متعلقہ مضامین

  • مقبول رہنما کبھی الیکشن کا بائیکاٹ نہیں کرتے، کارکردگی سے بڑھ کر کوئی بیانیہ نہیں، مریم نواز
  • رضاکار فورس بسیج، امریکہ کیلئے معمہ
  • بھارت جتنی کوششیں کرلے مگر اپنے ناپاک عزائم میں کبھی کامیاب نہیں ہو سکتا، بلال سلیم قادری
  • سب تماشا ہے!
  • انسانی روحوں کا ڈریم ٹائم تصور
  • خاندان‘ وصیت اور وراثت میں چلنے والی پارٹیاں کبھی انقلاب نہیں لاسکتیں‘حافظ نعیم الرحمن
  • عورت کو نعرے نہیں حقوق چاہئیں،خواتین بیدار ہو گئیں،ڈاکٹر حمیرا طارق
  • فتنہ الہندوستان اور ان کے سہولت کاروں کو کہیں بھی چھپنے کی جگہ نہیں ملے گی؛ محسن نقوی
  • خاندانوں، وراثت اور وصیت پر چلنے والے کبھی کوئی بڑا انقلاب نہیں لاسکتے: حافظ نعیم الرحمٰن
  • جرنیلی سڑک