آئندہ وفاقی بجٹ پر ورچوئل تکنیکی سطح کی بات چیت شروع ہوچکی ہے، عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم اایف) کا اندازہ ہے کہ پاکستان کی مجموعی آمدنی اگلے مالی سال میں تقریباً 200 کھرب روپے تک پہنچ جائے گی، جو اس وقت کے 170 کھرب 800 ارب روپے کے تخمینے سے زیادہ ہے، آئی ایم ایف نے قرضوں کی ادائیگی کے لیے اخراجات پر سخت کنٹرول پر زور دیا ہے۔

نجی اخبار کی رپورٹ کے مطابق ویڈیو لنک پر 3 دن کی تکنیکی بات چیت کے بعد بجٹ کی تکمیل پر پالیسی سطح کی رسمی بات چیت پیر (19 مئی) کو شروع ہوگی اور جمعہ (23 مئی) تک جاری رہے گی، آئی ایم ایف کے اسٹاف مشن اور پاکستانی حکام کے درمیان اگلے سال کے بجٹ اقدامات اور میکرو اکنامک فریم ورک پر معاہدے کے نتیجے میں 2 جون کو وفاقی بجٹ کا اعلان کیا جائے گا۔

عالمی مالیاتی فنڈ نے پہلے ہی اہم اقتصادی اشاریوں، بشمول مالی اور مندی کی پالیسیوں کے لیے اپنی پیشگوئیاں کر دی ہیں، جس میں اقتصادی ترقی کی شرح 3.

6 فیصد اور اوسط افراط زر 7.7 فیصد تک رہنے کی پیشگوئی کی گئی ہے، اس کا مطلب یہ ہے کہ افراطِ زر کی شرح موجودہ سال کی 5.1 فیصد کی اوسط سے نمایاں طور پر زیادہ ہوگی۔

اقتصادی نمو اور افراطِ زر کے ملاپ سے حکومت کے ریونیو کی وصولی میں اضافے کی توقع کی جا رہی ہے، جو موجودہ سال کی تقریباً 120 کھرب 400 ارب روپے کی تخمینہ شدہ وصولی سے 10 کھرب 400 ارب روپے سے زیادہ ہوگا، تاہم فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کی وصولی کے علاوہ، ریونیو کی بنیاد میں توسیع صوبائی حکومتوں کی طرف سے ملے گی، زرعی آمدنی سے اضافی ٹیکس کی وصولی اہم ثابت ہوگی۔

اگلے سال کے لیے مجموعی آمدنی کا ہدف 190 کھرب 900 ارب روپے یاجی ڈی پی کا 15.2 فیصد ہے، جب کہ موجودہ سال کے لیے بجٹ کے تخمینوں کے مطابق یہ 170 کھرب 800 ارب روپے یا جی ڈی پی کا 15.9 فیصد ہے، آئی ایم ایف کا خیال ہے کہ پاکستانی حکام کو اخراجات پر کنٹرول پر توجہ دینا جاری رکھنی چاہیے، اخراجات کو موجودہ سال میں جی ڈی پی کے 21.6 فیصد سے کم کر کے اگلے سال 20.3 فیصد پر لانا چاہیے۔

لیکن پھر بھی اگلے سال اخراجات تقریباً 260 کھرب 570 ارب روپے تک پہنچ جائیں گے، جب کہ بجٹ کے تخمینوں کے مطابق اخراجات تقریباً 180 کھرب 900 ارب روپے ہوں گے، دونوں فریقین میں آمدنی کی وصولی اور نظرثانی شدہ اخراجات بالخصوص حال ہی میں سیکیورٹی صورتحال کی وجہ سے پیدا ہونے والے اخراجات کے آخری اعداد و شمار پر بات چیت باقی ہے۔

آئی ایم ایف کے مطابق پاکستان کو اس سال جی ڈی پی میں مالیاتی خسارہ 5.6 فیصد سے کم کر کے اگلے سال 5.1 فیصد کرنا ہے جو کہ تقریباً 60 کھرب 670 ارب روپے ہے، حکومت سے یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ وہ آمدنی اور منفی سود کے اخراجات تقریباً 20 کھرب 100 ارب روپے کا بنیادی سرپلس برقرار رکھے، جو قرض کے لیے کلیدی شرط ہے۔

اس ہدف کو حاصل کرنے کی توقع ہے کہ یہ قرض کے جی ڈی پی کے تناسب کو موجودہ 77.6 فیصد سے کم کر کے مالی سال 26 میں 75.6 فیصد تک لے آئے گا، دوسری طرف، وزارت خزانہ نے تمام وزارتوں اور ڈویژنز کو کہا ہے کہ وہ ایک اضافی پروفارما (فارم سی تھری) جمع کرائیں تاکہ سبسڈی کے لیے ماحولیاتی اجزا کو ٹیگ کیا جا سکے، سالانہ بجٹ میں مختص تمام فنڈز میں ماحولیاتی امور کی رپورٹنگ کو بڑھایا جائے اور اس کو وسیع کیا جاسکے۔

تمام وزارتوں اور اداروں کو جاری کردہ ایک سرکلر کے مطابق سبسڈیز کے لیے ماحولیاتی ٹیگنگ آئی ایم ایف کے ساتھ طے کردہ توسیعی فنڈ سہولت (ای ایف ایف) کے تحت لازم ہے۔

وفاقی بجٹ میں ماحولیاتی اہمیت کو موافقت، تخفیف، اور منتقلی کی 3 کیٹیگریز میں ترتیب دینا لازمی تقاضہ ہے۔

حکومت کے ماتحت عوامی پبلک سیکٹر ڈیولپمنٹ پروگرام (پی ایس ڈی پی) کے تحت عوامی اخراجات کو ٹیگ کیا جارہا ہے اور یہ عمل اب دی گئی گرانٹس اور سبسڈیز جیسے دوسرے اخراجات تک بڑھایا جا رہا ہے، تاکہ مجموعی طور پر عوامی سطح پر ماحولیاتی اخراجات کی شناخت کی جا سکے۔

Post Views: 3

ذریعہ: Daily Mumtaz

کلیدی لفظ: ا ئی ایم ایف موجودہ سال وفاقی بجٹ کے مطابق اگلے سال کی وصولی ارب روپے جی ڈی پی بات چیت کے لیے کیا جا

پڑھیں:

77 سال بعد چینی کی قیمتوں پر حکومتی کنٹرول ختم کرنے کا فیصلہ

اسلام آباد : حکومت نے 77 سال بعد شوگر انڈسٹری کو ڈی ریگولیٹ کرنے کا فیصلہ کرلیا، ڈی ریگولیٹ کرنےکی سمری رواں ہفتےوزیر اعظم کو پیش کی جائے گی۔

تفصیلات کے مطابق وفاقی حکومت نے 77 سال بعد ملک میں چینی کی قیمتوں اور شوگر انڈسٹری پر حکومتی کنٹرول ختم کرنے کی تیاری کر لی ہے۔وزارتِ غذائی تحفظ کے ذرائع بتایا کہ شوگر انڈسٹری کو مکمل طور پر ڈی ریگولیٹ کرنے کی سمری تیار کر لی گئی ہے، جو رواں ہفتے وزیر اعظم کو پیش کی جائے گی۔ذرائع کا کہنا تھا کہ وفاقی وزیر برائے غذائی تحفظ رانا تنویر حسین یہ سمری وزیر اعظم کو پیش کریں گے۔ سمری میں نئی شوگر ملز لگانے پر پابندی ختم کرنے کی بھی تجویز دی گئی ہے۔ڈی ریگولیشن کے بعد حکومت کا چینی کی درآمد و برآمد کا اختیار ختم ہو جائے گا جبکہ حکومت کا قیمتوں کے تعین کا سرکاری اختیار بھی ختم ہو جائے گا اور چینی کی قیمتیں اوپن مارکیٹ کے مطابق طے ہوں گی۔

دوسری جانب ملک بھر میں چینی کی بڑھتی ہوئی قیمتیں عوام کے لیے شدید مشکلات پیدا کردی ہے ، کراچی میں چینی 180 سے 190 روپے فی کلو میں فروخت ہو رہی ہے۔فیصل آباد اور سکھر میں قیمت 200 روپے فی کلو تک پہنچ گئی جبکہ لاہور سمیت دیگر شہروں میں بھی چینی کی قیمتوں میں مسلسل اضافہ جاری ہے۔شہریوں کا کہنا ہے کہ حکومت کو منافع خوروں کے خلاف سخت کارروائی کرنی چاہیے .تاکہ روزمرہ استعمال کی یہ بنیادی ضرورت عام آدمی کی پہنچ میں رہے۔

متعلقہ مضامین

  • چین کا نوجوانوں کی شادی کے اخراجات اٹھانے کا اعلان
  • وفاقی حکومت نے حالیہ تباہ کن سیلاب سے ہونے والے مالی نقصانات کی جامع رپورٹ جاری کر دی
  • وفاقی حکومت نے تباہ کن سیلاب سے مالی نقصانات کی تفصیلات جاری کردیں
  • 77 سال بعد چینی کی قیمتوں پر حکومتی کنٹرول ختم کرنے کا فیصلہ
  • ترقی کی رفتار بڑھانے کیلئے آبادی کا کنٹرول ناگزیر ہے: وزیر خزانہ
  • وفاقی حکومت کا پری پیڈ میٹرنگ پراجیکٹ شروع کرنے کا فیصلہ
  • کوئٹہ میں ایک کلو چینی 230 روپے کی ہوگئی
  • وفاقی حکومت کا شوگر سیکٹر مکمل ڈی ریگولیٹ کرنے کا فیصلہ، پنجاب میں 27 شوگر ملز نے کرشنگ شروع کردی
  • فی کلو چینی کی قیمت 230 روپے تک پہنچ گئی
  • پنجاب حکومت کا کرشنگ میں تاخیر کرنے والی شوگر ملز کے خلاف کریک ڈاون کا فیصلہ