مچل جانسن کے آئی پی ایل مخالف بیان پر بھارتی میڈیا تلملا اُٹھا
اشاعت کی تاریخ: 16th, May 2025 GMT
انڈین پریمئیر لیگ (آئی پی ایل) سے متعلق سابق آسٹریلوی فاسٹ بولر مچل جانسن کے بیان پر بھارتی میڈیا تلملا اُٹھا۔
سابق آسٹریلوی کرکٹر مچل جانسن نے بھارتی کرکٹ بورڈ (بی سی سی آئی) پر الزام عائد کیا کہ بیرون ملک مقیم کھلاڑیوں پر ٹورنامنٹ کے بقیہ میچز کھیلنے کیلئے دباؤ ڈال جارہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اگر مجھے بھارت واپس جانے اور ٹورنامنٹ مکمل کرنے کا فیصلہ کرنا ہوتا تو میرا جواب "نہیں" ہوتا کیونکہ زندگی سے بڑھ کر کچھ نہیں ہے، کسی پر بھی اس کیلئے زورزبردستی نہیں کرنا چاہیے۔
مزید پڑھیں: کیا آئی پی ایل نہ کھیلنے والے غیر ملکیوں کو جرمانہ ہوگا؟
مچل جانسن نے کہا کہ اگر غیر ملکی کھلاڑی خود کو محفوظ نہیں سمجھ رہے تو آئی پی ایل انتظامیہ کو لیگ کو آگے بڑھا کر دوسری ونڈو تلاش کرنی چاہیے۔
مزید پڑھیں: دھرم شالہ کا خوف نہ نکل سکا، اسٹارک کا بھارت جانے سے انکار
سابق کرکٹر نے کہا کہ انڈین پریمئیر لیگ (آئی پی ایل) کو مالی نقصان بہرحال برداشت کرنا پڑے گا۔
واضح رہے کہ پاک بھارت کشیدگی کے بعد سیکیورٹی خدشات کے باعث غیر ملکی پلئیرز ہندوستان جانے سے کترا رہے ہیں جبکہ پی ایس ایل کے بقیہ میچز کیلئے نامور اسٹار نے اپنی آمد کا اعلان کرکے آئی پی ایل کی ریٹنگ کو شدید نقصان پہنچادیا ہے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: ا ئی پی ایل مچل جانسن
پڑھیں:
بھارتی حکومت کو کشمیر میں اپنی پالیسی پر از سرِنو غور کرنا چاہیئے، میرواعظ عمر فاروق
میرواعظ کشمیر نے کہا کہ اپنی زمین، اپنے مستقبل، اپنی عزت و وقار اور آزاد فلسطینی ریاست کے قیام کے ناقابلِ تنسیخ حق کو کسی بھی بامعنی تصفیے کی بنیاد بنایا جانا چاہیئے، بصورتِ دیگر امن صرف ایک خواب ہی رہیگا۔ اسلام ٹائمز۔ میرواعظ کشمیر مولوی محمد عمر فاروق نے لداخ کے معاملے میں بھارتی حکومت کی پالیسیوں کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ بدقسمتی ہے کہ حکومت ہند، لداخی عوام کی امنگوں کو پورا کرنے کے بجائے ان پر سختی برت کر معاملے کو مزید پیچیدہ بنا رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ تاریخ نے بارہا ثابت کیا ہے کہ امن زبردستی قائم نہیں کیا جا سکتا، امن اسی وقت پنپتا ہے جب عوام سے کیے گئے وعدے پورے ہوں اور محاذ آرائی کے بجائے مکالمے کو فروغ دیا جائے۔ بڈگام میں انجمن شرعی شیعان کے زیر اہتمام منعقدہ سیرت کانفرنس کے حاشیہ پر ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے بات کرتے ہوئے میرواعظ عمر فاروق نے کہا کہ افسوس ہے کہ مجھے اپنی قوم کے سامنے اپنا موقف پیش کرنے کا کوئی موقع نہیں دیا جا رہا۔ مسلسل تین جمعہ سے مجھے کسی وجہ کے بغیر نظر بند کیا گیا ہے، مجھے یہ بھی علم نہیں ہوتا کہ کب اور کیوں دوبارہ پابندیاں عائد کی جائیں گیں۔ حتیٰ کہ علماء کونسل کی پرامن مجالس کو بھی روکا جا رہا ہے۔
میرواعظ عمر فاروق نے دینی و سماجی تنظیموں پر پابندی، املاک کی ضبطی اور میڈیا اداروں کو ہراساں کرنے کا ابھی الزام عائد کیا تاکہ یہ ادارے ہمارا نقطہ نظر شائع نہ کریں جو ہمیشہ مثبت اور حل کی جانب رہنمائی کرنے والا رہے ہیں۔ میرواعظ عمر فاروق نے اس امر پر انتہائی افسوسناک کا اظہار کیا۔ انہوں نے ایک بار پھر پُرامن مذاکرات کی وکالت کرتے ہوئے کہا کہ ہمارا ہمیشہ یہی موقف رہا ہے کہ عزت و وقار کے ساتھ پُرامن بات چیت کی جائے، میری رائے میں بھارتی حکومت کو جموں و کشمیر پر اپنی پالیسی پر از سرِنو غور کرنا چاہیئے۔ طاقت کے استعمال اور بیانیے کو قابو میں رکھنے سے مسائل حل نہیں ہوتے۔ پراثر اور تعمیری مکالمہ ہی پائیدار امن کے قیام کا بہتر اور انسانی راستہ ہے۔
اوقاف کے معاملات پر گفتگو کرتے ہوئے میرواعظ عمر فاروق نے حکومت کو خبردار کیا کہ یہ بنیادی طور پر ایک مذہبی معاملہ ہے، قوم کو ہی یہ حق دیا جانا چاہیئے کہ وہ اپنے دینی اداروں کا انتظام خود مختاری اور وقار کے ساتھ انجام دیں۔ دینی اداروں کے تقدس کا احترام ضروری ہے۔ مذہبی معاملات میں مداخلت اور دخل اندازی فوری طور پر ختم ہونی چاہیئے، کیونکہ یہ عوام کے جذبات کو مجروح کرتی ہے اور غیر ضروری تنازع کو جنم دیتی ہے۔ میرواعظ عمر فاروق نے کہا کہ دنیا کے کسی بھی خطے میں جہاں تصادم ہو، وہاں حقیقی امن صرف اسی وقت قائم ہو سکتا ہے جب اس تنازعہ کے شکار لوگوں کو انصاف فراہم کیا جائے۔ فلسطین کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں غزہ کے مظلوموں کے ساتھ بھرپور یکجہتی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ہم دل سے چاہتے ہیں کہ جنگ بندی پر عمل ہو اور فلسطینی عوام کی نسل کشی ختم کی جائے لیکن صرف وقتی جنگ بندی کافی نہیں، بلکہ ایک حقیقی، منصفانہ اور پائیدار امن عمل کی ضرورت ہے۔
انہوں نے کہا کہ یہ چاہے مغرب کی طرف سے آئے یا اسلامی دنیا کی طرف سے، اس میں سب سے بڑھ کر فلسطینی عوام کی امنگوں کو شامل کرنا ہوگا۔ میرواعظ عمر فاروق نے کہا کہ اپنی زمین، اپنے مستقبل، اپنی عزت و وقار اور آزاد فلسطینی ریاست کے قیام کے ناقابلِ تنسیخ حق کو کسی بھی بامعنی تصفیے کی بنیاد بنایا جانا چاہیئے، بصورتِ دیگر امن صرف ایک خواب ہی رہے گا۔ انہوں نے مزید کہا کہ فلسطینی عوام کی دہائیوں پر محیط قربانیاں عالمی ضمیر اور بالخصوص عالمی قیادت کے لئے شرمندگی کا باعث ہیں، اور انصاف سے عاری کوئی بھی نام نہاد امن پالیسی دراصل تنازع کو طول دیتی ہے۔