Express News:
2025-11-23@05:35:31 GMT

ہنسی بند اور سبز گیلی چھڑی

اشاعت کی تاریخ: 17th, May 2025 GMT

کسی دانا دانشور بلکہ ’’دانہ شناس‘‘ یعنی ماڈرن خواتین کے سبجیکٹ اسپیشلسٹ کا قول زرین ہے کہ خوش لباس خاتون وہ ہوتی ہے جسے پتہ ہو کہ کہاں کہاں کیا کیا ’’نہیں‘‘ پہننا چاہیے۔سلیقہ شعار خاتون وہ ہوتی ہے جسے پتہ ہو کہ کہاں کہاں کس کس چیز پر  ’’ڈسکاؤنٹ‘‘ یا بائی ون گیٹ ون فری ( buy one get one free) کا سلسلہ چل رہا ہے چاہے وہ کتوں کے بسکٹ یا بلیوں کے صابن ہی کیوں نہ ہوں۔اور اس کے گھر میں کتا بلی ہو ہی نا۔اور ایجوکیٹڈ عورت وہ ہوتی ہے جسے اپنے’’ہنسی بند‘‘ (شوہر) پر ہر طرح کا شک کرنے کا عارضہ لاحق ہو۔ 

ہمارے ایک عزیز کو جب ایک دفتر میں ایک ڈھنگ کی ملازمت ملی اس زمانے میں ملازمت’’مل‘‘ جاتی تھی خریدنا نہیں پڑتی اور قائد اعظم کی سندات کے علاوہ ڈگریاں بھی کام آجاتی تھیں تو اس کی کھوپڑی میں تعلیم یافتہ بیوی سے شادی کرنے کا پھوڑا نکل آیا اور پھر اسے ایک تعلیم یافتہ بیوی مل گئی جو ایک اسکول میں استانی بھی تھی گویا چپڑیاں اور دو دو لیکن اسے یہ علم نہیں تھا کہ محترمہ اپنے ساتھ جہیز میں ایک’’سبز گیلی چھڑی‘‘ بھی لائی تھی جو ہنسی بند یا ہسبینڈ پر استعمال کرنے کے لیے تھی۔چنانچہ وہ صبح وشام (دوپہر کو وہ اسکول میں ہوتی تھی اس لیے دوپہر کا ’’ڈوز‘‘ رات کو دیتی تھی چھڑی یہ تھی۔ اس لیے اس نے ہنسی بند کے اس روئیے کا نوٹس لیا اور چونکہ وہ کوئی جاہل عورت نہیں ایجوکیٹڈ تھی اس لیے سمجھ گئی کہ’’ہنسی بند‘‘ کے اس روئیے کے اندر کچھ کالا کالا ضرور ہے۔

گاؤں میں تو ایسا کچھ تھا نہیں اس نتیجے پر پہنچی کہ جو کچھ کالا کالا ہے دفتر یا شہر میں ہے۔ ان دنوں ہنسی بند کا تبادلہ مردان میں ہوا تھا۔وہ کوئی جاہل عورت تو تھی نہیں ایجوکیٹڈ تھی اس لیے شوہر کو رنگے ہاتھوں اور باثبوت پکڑنے کا فیصلہ کرلیا۔اور یہیں پر قرعہ فال بنام من دیوانہ ایک دن میرے پاس آکر بولی، لالا آپ کے تو ہر جگہ تعلقات ہیں مردان میں کوئی ایسا آدمی ڈھونڈئیے جو ’’اس‘‘ کی نگرانی اور پیچھا کرے۔ وہ کوئی جاہل عورت تو تھی نہیں ایجوکیٹڈ تھی اس لیے پرس کھول کر ایک پانچ سو کا نوٹ بھی مجھے پکڑا دیا۔میں نے اسے یقین دلایا کہ بے فکر ہوجائے میرے پاس ایک سے بڑھ کر ایک ہوشیار آدمی موجود ہے۔ وہ چلی گئی تو میں نے سوچنا شروع کیا یہ تو مجھے پتہ تھا کہ اس کا شوہر ایسا آدمی نہیں بلکہ اس ایک ایجوکیٹڈ خاتون کی وجہ سے وہ عورتوں سے اتنا الرجک ہوچکا ہے کہ ایسے تانگے میں بھی نہیں بیٹھتا جن میں خواتین ہوں اور بس میں بھی خواتین کی سیٹ سے دور آخری سیٹ پر بیٹھتا تھا  ؎

پانی سے سگ گزیدہ ڈرے جس طرح اسد

ڈرتا ہوں آئینے سے کہ مردم گزیدہ ہوں

لیکن اگر اسے یہ سمجھاتا تو وہ کوئی جاہل عورت تو تھی نہیں ایجوکیٹڈ تھی۔اس کے جانے کے بعد میں نے کافی دیر لگا کر وہاں بیٹھے بیٹھے پورا اسکرپٹ تیار کیا، آدمی بھی اس کے ہنسی بند کے پیچھے لگا لیا۔ چند روز بعد آئی تو میں نے فرفر وہ رپورٹ سنائی کہ ہمارا آدمی اس کا تعاقب کررہاتھا کہ وہ ایک گلی میں مڑ گیا لیکن تعاقب کرنے والے نے گلی میں دیکھا تو غائب تھا شاید کسی’’گھر‘‘ میں گھس گیا تھا۔

وہ کوئی جاہل عورت تو تھی نہیں ایجوکیٹڈ تھی اس لیے میری توقع کے مطابق تجویز پیش کی کہ آدمی کو پہلے ہی گلی میں بٹھائے رکھا جائے وہ ایک اور پانچ سو کا نوٹ دے کر چلی گئی تو میں نے اس آدمی کی اگلی رپورٹ تیار کی کہ اس دن اس کا ہنسی بند آیا ہی نہیں۔وہ کوئی جاہل عورت تو تھی نہیں اس لیے اب کے ہم نے دو آدمی کردیے ایک گلی میں بیٹھا رہے اور دوسرا دفتر سے پیچھا کرے لیکن اگلی رپورٹ میں پیچھا کرنے والے نے کہا کہ بیچ بازار میں وہ اچانک ٹیکسی میں بیٹھ کر غائب ہوگیا۔ اگلے پروگرام میں تعاقب کرنے والے دو کردیے اور میں نے اگلی اور آخری رپورٹ تیار کرلی۔

وہ آئی تو میں نے آسکرٹائپ اداکاری کرتے ہوئے خود کو سخت پریشان دکھایا اور کہا، تمہارے اس ہنسی بند نے تو سارا معاملہ چوپٹ کردیا ہے دونوں آدمی اس کا تعاقب کر رہے تھے کہ وہ تھانے میں گھس گیا اور تھوڑی دیر میں پولیس والوں نے ہمارے ان آدمیوں کو پکڑ لیا۔ تمہارے ہنسی بند نے بتایا کہ ہاں یہی دونوں ہیں۔ الزام یہ تھا کہ دو مشکوک آدمی اس کا پیچھا کررہے ہیں شاید قتل یا اغوا کرنے کے لیے پولیس والوں نے ان آدمیوں کو’’سچائی‘‘ کے کمرے میں پہنچادیا، بیچارے کیا کرتے سچ بتادیا پھر ان دونوں کے لواحقین کو خبر کر دی گئی تو انھوں نے آکر پولیس والوں سے مذاکرات کیے اور تیس ہزار میں سمجھوتہ طے پاگیا۔ وہ کوئی جاہل عورت تو تھی نہیں ایجوکیٹڈ تھی زرد پڑ گئی تو میں نے’’ مرے‘‘ پر آخری’’دُرہ‘‘ مارتے ہوئے کہا کہ ان لوگوں نے مجھے دھمکی دی ہے کہ وہ کل یہاں آئیں گے اور ہم پر جرگہ بٹھائیں گے اور جرگے کو سارا قصہ سناکر ہرجانے کا مطالبہ کریں گے۔

اس کا چہرہ زرد تو پہلے سے تھا اب کانپنے بھی لگی۔بولی لالا خدا کے لیے ان لوگوں کو یہاں آنے سے روک دو پھر پرس کھول کر دس ہزار روپے میز پر رکھتے ہوئے بولی باقی گھر جاکر بجھواتی ہوں۔وہ چلی گئی تو میں نے اندرونی دروازے کی طرف منہ کرتے کہا آجاؤ اور اس کا ہنسی بند اندر آگیا، میں نے پہلے سے بٹھا رکھا تھا اس کی بند ہنسی کھل گئی تھی لیکن اب تک کی ساری رقم دراز سے نکال کردیتے ہوئے کہا۔ہنسومت۔جب اوکھلی میں سر دیا ہے تو موسلوں کا سامنا کرو، چلے تھے ایجوکیٹڈ بیوی رکھنے کو۔اب بھگتو اور وہ بھگتنے لگا، وقت پر دفتر سے سیدھا گھر آتا ہے، گھر کے کاموں میں بیوی اس کا ہاتھ بٹاتی ہے ،دوستوں کو بھی تیاگ چکا ہے لیکن گیلی سبز چھڑی کی مار سہنے کے لیے چرس کا سہارا لینے لگا ہے۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: گئی تو میں نے گلی میں کے لیے تھا کہ

پڑھیں:

پاکستان، چین اور امریکا ایک مثلث

ایک انگریزی کہاوت ہے کہ ’’ عمل کی آواز الفاظ کی جھنکار سے زیادہ ہوتی ہے۔‘‘ اب اگر اس کہاوت کو سامنے رکھ کر پاکستان اور چین کی دوستی کو بیان کیا جائے کہ یہ دوستی ’’ ہمالیہ سے اونچی، سمندر سے گہری اور شہد سے میٹھی ہے‘‘ لیکن اس کے ساتھ اگر عمل یا کارروائی کو دیکھا جائے تو انگریزی کہاوت پر یقین آجاتا ہے۔

دنیا اس وقت نہایت تیزی سے ایک تبدیلی کے عمل سے گزر رہی ہے۔ پرانی دوستیاں ٹوٹ رہی ہے اور نئے رشتے استوار کیے جا رہے ہیں۔

 پاکستان اور عرب دنیا کی اسرائیل کی جانب بالواسطہ یا بلاواسطہ جو موجودہ حکمت عملی ہے، آج سے صرف چند سال پہلے تک اس کا تصور بھی محال تھا۔

بنگلہ دیش میں حسینہ واجد کو سزائے موت، یہ حسینہ واجد اور بھارت کے لیے یکساں پیغام ہے اور تو اور نیپال نے بھی بھارتی کیمپ سے نکلنے کے لیے کمر کس لی ہے۔

 بدقسمتی سے تاریخ کے اس اہم موڑ پر پاکستان ابہام کا شکار نظر آتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ چین اور روس اس بات پر متفق ہے کہ اب امریکا کو ایشیا سے نکلنا ہوگا۔

امریکا ویسے بھی ایک بجھتا ہوا چراغ ہے اور وہ اس وقت اپنے سپر پاور رہنے کی بقا کی جنگ لڑ رہا ہے اور ہمارے خطے میں اس وقت اس کے اتحادی عرب ممالک اور پاکستان ہیں۔

عرب ممالک کو خوف ہے کہ اگر انھوں نے امریکا کا ساتھ نہ دیا، تو ان کی بادشاہت ختم کردی جائے گی۔ اس تناظر میں آپ عرب ممالک کی امریکا میں سرمایہ کاری کے اعلانات کو دیکھیں تو ساری بات سمجھ میں آتی ہے۔

یہ خطرہ صرف بادشاہت کو ہی نہیں بلکہ کچھ ایسا ہی خوف جمہوری حکومتوں کو بھی ہوتا ہے کہ جس میں ہم بھی نہ صرف شامل ہیں بلکہ اس کا تجربہ بھی رکھتے ہیں۔

 دوسری جنگ عظیم کے بعد دنیا دو سپر پاور کے درمیان تقسیم ہوگئی تھی، ایک امریکا اور دوسرا سوویت یونین۔

1962 کی ہندوستان اور چین کی جنگ کے بعد چین نے خود کو سوویت یونین کے بعد ایشیا کی دوسری بڑی عسکری قوت کے طور پر تسلیم کروایا تھا لیکن ہندوستان یہ ماننے کو تیار نہیں، کیونکہ اس خطے کا ایک ہی ’’چوہدری‘‘ ہوسکتا ہے اور وہ ہندوستان بننا چاہتا ہے۔

سوویت یونین اپنی پے در پے حماقتوں اور سازشوں کے نتیجے میں ٹوٹ گیا اور چین کے لیے میدان کھل گیا۔ آج چین ہر زاویے سے امریکا کے علاوہ دنیا کی دوسری سپر پاور ہے کہ جس کو روس نے بھی قبول کر لیا ہے اور اسی لیے اب چین امریکا کے لیے براہ راست خطرہ ہے۔

اب یہاں سے ہندوستان کے کردار کا آغاز ہوتا ہے۔ امریکا چین کو ہندوستان کے ذریعے قابو میں رکھنا چاہتا ہے اور ان کے درمیان براہ راست تصادم اس کی دیرینہ ترجیح ہے۔ اس کی اس خواہش کے درمیان پاکستان رکاوٹ ہے۔

 سب کو پتہ ہے کہ پاکستان چین کی پہلی دفاعی لکیر ہے، اس لیے چین پاکستان کے دفاع سے غافل ہونے کا متحمل نہیں ہوسکتا ہے۔ ہم نے اس صورتحال میں چین کے ساتھ یارانہ اور امریکا کے ساتھ بھی دوستانہ حکمت عملی اختیار کی ہوئی ہے جو نقصان دہ ہوسکتی ہے۔

ویسے بھی دو کشتیوں کے سوار کے لیے درسی کتابوں میں کچھ اچھا نہیں لکھا ہوا ہے۔ ہمیں یہ ماننا اور سمجھنا ہوگا کہ حقیقی جنگ امریکا اور چین کے درمیان ہے اور اس میں ہم دونوں کے حلیف نہیں ہوسکتے۔

ہماری اس حکمت عملی سے کبھی کبھی چین کی جانب سے دبے الفاظ میں تشویش کا اظہار بھی کیا جاتا ہے اور ایسا محسوس ہورہا ہے کہ چین نے متبادل حکمت عملی پر کام بھی شروع کردیا ہے۔

بنگلہ دیش اور نیپال میں تبدیلی اسی عالمی بلواسطہ جنگ کا حصہ ہے کہ جس میں اگر ضرورت پڑی تو آگے چل کر ہندوستان کی شمال مشرقی ریاستوں کو بھی شامل کیا جاسکتا ہے کہ جن کو سات بہنیں ان کی جغرافیائی قربت کی وجہ سے کہتے ہیں۔

افغانستان نے ایک وقت میں چین کے کہنے پر پاکستان سے مفاہمت کا آغاز کیا تھا جو آج بری طرح مجروح ہوگیا ہے اور ہم افغانستان کے ساتھ قریب قریب جنگ کے دہانے پر کھڑے ہیں۔

امریکا کی حکمت عملی دنیا پر اپنی اجارہ داری قائم رکھنے کے لیے چین مخالف ہی رہے گی اور اس لیے ہندوستان امریکا کی ضرورت ہی نہیں بلکہ مجبوری ہے اور اسی مجبوری نے پچھلے دروازے کی سفارت کاری کے ذریعے ان کے تعلقات بہتر کیے ہیں۔

ہندوستان نے سمجھ لیا ہے کہ چینی اسلحے کا مقابلہ صرف امریکی اسلحے سے ہی کیا جاسکتا ہے اور روس اس میدان میں بہت پیچھے رہ گیا ہے۔ یورپ نقد مانگتا ہے کیونکہ اس کا چین سے براہ راست کوئی تصادم نہیں ہے۔ اس صورتحال میں ایک امریکا ہی بچتا ہے جو اس پر سرمایہ کاری کرے گا کیونکہ اس میں اس کا بھی مفاد ہے۔

ہندوستان امریکا سے F35 اسٹیلتھ جہاز اور دیگر جدید جنگی ساز و سامان اور سیٹلائیٹ ٹیکنالوجی لینا چاہتا ہے۔ پاکستان کو اس وقت اعلیٰ درجے کی سفارت کاری اور مدبر قیادت کی ضرورت ہے۔ دنیا ہم سے اپنی غلاظت صاف کروانا چاہتی ہے اور ماضی میں بھی دوسروں کی جنگیں لڑنے میں ہمارا کردار کوئی قابل ستائش نہیں رہا ہے۔

اس لیے ان حالات میں بہت ضروری ہے کہ یہ دیکھا جائے کہ آنے والے دنوں میں پاکستان اپنے کارڈز کیسے کھیلے گا؟ ہر چند کہ یہ تو وقت ہی بتائے گا لیکن اس وقت ہمیں بیرونی دشمنوں کے ساتھ ساتھ اپنی صفوں میں بھی کالی بھیڑوں پر نظر رکھنے کی ضرورت ہے۔

آنے والا وقت غیر یقینی ہی نہیں، بلکہ مشکل بھی ہوگا اور اس مثلث میں ہم کیا کردار ادا کرتے ہیں وہ ہمارے مستقبل کا تعین کرے گا۔ اللہ اس مشکل وقت میں پاکستان کا حامی و ناصر ہوں۔

متعلقہ مضامین

  • کیا پاکستان عظیم مملکت ہے؟
  • دہشت گردی اور افغانستان
  • وفاق ، آئین اور وحدتیں
  • آپ کی ترجیحات…
  • پاکستان، چین اور امریکا ایک مثلث
  • جمہوریت: سَراب
  • مستقبل؟
  • روس،یوکرین جنگ: یورپ کس حد تک جائے گا؟
  • کنجی
  • ذکرِ فیض چلے!