کسی دانا دانشور بلکہ ’’دانہ شناس‘‘ یعنی ماڈرن خواتین کے سبجیکٹ اسپیشلسٹ کا قول زرین ہے کہ خوش لباس خاتون وہ ہوتی ہے جسے پتہ ہو کہ کہاں کہاں کیا کیا ’’نہیں‘‘ پہننا چاہیے۔سلیقہ شعار خاتون وہ ہوتی ہے جسے پتہ ہو کہ کہاں کہاں کس کس چیز پر ’’ڈسکاؤنٹ‘‘ یا بائی ون گیٹ ون فری ( buy one get one free) کا سلسلہ چل رہا ہے چاہے وہ کتوں کے بسکٹ یا بلیوں کے صابن ہی کیوں نہ ہوں۔اور اس کے گھر میں کتا بلی ہو ہی نا۔اور ایجوکیٹڈ عورت وہ ہوتی ہے جسے اپنے’’ہنسی بند‘‘ (شوہر) پر ہر طرح کا شک کرنے کا عارضہ لاحق ہو۔
ہمارے ایک عزیز کو جب ایک دفتر میں ایک ڈھنگ کی ملازمت ملی اس زمانے میں ملازمت’’مل‘‘ جاتی تھی خریدنا نہیں پڑتی اور قائد اعظم کی سندات کے علاوہ ڈگریاں بھی کام آجاتی تھیں تو اس کی کھوپڑی میں تعلیم یافتہ بیوی سے شادی کرنے کا پھوڑا نکل آیا اور پھر اسے ایک تعلیم یافتہ بیوی مل گئی جو ایک اسکول میں استانی بھی تھی گویا چپڑیاں اور دو دو لیکن اسے یہ علم نہیں تھا کہ محترمہ اپنے ساتھ جہیز میں ایک’’سبز گیلی چھڑی‘‘ بھی لائی تھی جو ہنسی بند یا ہسبینڈ پر استعمال کرنے کے لیے تھی۔چنانچہ وہ صبح وشام (دوپہر کو وہ اسکول میں ہوتی تھی اس لیے دوپہر کا ’’ڈوز‘‘ رات کو دیتی تھی چھڑی یہ تھی۔ اس لیے اس نے ہنسی بند کے اس روئیے کا نوٹس لیا اور چونکہ وہ کوئی جاہل عورت نہیں ایجوکیٹڈ تھی اس لیے سمجھ گئی کہ’’ہنسی بند‘‘ کے اس روئیے کے اندر کچھ کالا کالا ضرور ہے۔
گاؤں میں تو ایسا کچھ تھا نہیں اس نتیجے پر پہنچی کہ جو کچھ کالا کالا ہے دفتر یا شہر میں ہے۔ ان دنوں ہنسی بند کا تبادلہ مردان میں ہوا تھا۔وہ کوئی جاہل عورت تو تھی نہیں ایجوکیٹڈ تھی اس لیے شوہر کو رنگے ہاتھوں اور باثبوت پکڑنے کا فیصلہ کرلیا۔اور یہیں پر قرعہ فال بنام من دیوانہ ایک دن میرے پاس آکر بولی، لالا آپ کے تو ہر جگہ تعلقات ہیں مردان میں کوئی ایسا آدمی ڈھونڈئیے جو ’’اس‘‘ کی نگرانی اور پیچھا کرے۔ وہ کوئی جاہل عورت تو تھی نہیں ایجوکیٹڈ تھی اس لیے پرس کھول کر ایک پانچ سو کا نوٹ بھی مجھے پکڑا دیا۔میں نے اسے یقین دلایا کہ بے فکر ہوجائے میرے پاس ایک سے بڑھ کر ایک ہوشیار آدمی موجود ہے۔ وہ چلی گئی تو میں نے سوچنا شروع کیا یہ تو مجھے پتہ تھا کہ اس کا شوہر ایسا آدمی نہیں بلکہ اس ایک ایجوکیٹڈ خاتون کی وجہ سے وہ عورتوں سے اتنا الرجک ہوچکا ہے کہ ایسے تانگے میں بھی نہیں بیٹھتا جن میں خواتین ہوں اور بس میں بھی خواتین کی سیٹ سے دور آخری سیٹ پر بیٹھتا تھا ؎
پانی سے سگ گزیدہ ڈرے جس طرح اسد
ڈرتا ہوں آئینے سے کہ مردم گزیدہ ہوں
لیکن اگر اسے یہ سمجھاتا تو وہ کوئی جاہل عورت تو تھی نہیں ایجوکیٹڈ تھی۔اس کے جانے کے بعد میں نے کافی دیر لگا کر وہاں بیٹھے بیٹھے پورا اسکرپٹ تیار کیا، آدمی بھی اس کے ہنسی بند کے پیچھے لگا لیا۔ چند روز بعد آئی تو میں نے فرفر وہ رپورٹ سنائی کہ ہمارا آدمی اس کا تعاقب کررہاتھا کہ وہ ایک گلی میں مڑ گیا لیکن تعاقب کرنے والے نے گلی میں دیکھا تو غائب تھا شاید کسی’’گھر‘‘ میں گھس گیا تھا۔
وہ کوئی جاہل عورت تو تھی نہیں ایجوکیٹڈ تھی اس لیے میری توقع کے مطابق تجویز پیش کی کہ آدمی کو پہلے ہی گلی میں بٹھائے رکھا جائے وہ ایک اور پانچ سو کا نوٹ دے کر چلی گئی تو میں نے اس آدمی کی اگلی رپورٹ تیار کی کہ اس دن اس کا ہنسی بند آیا ہی نہیں۔وہ کوئی جاہل عورت تو تھی نہیں اس لیے اب کے ہم نے دو آدمی کردیے ایک گلی میں بیٹھا رہے اور دوسرا دفتر سے پیچھا کرے لیکن اگلی رپورٹ میں پیچھا کرنے والے نے کہا کہ بیچ بازار میں وہ اچانک ٹیکسی میں بیٹھ کر غائب ہوگیا۔ اگلے پروگرام میں تعاقب کرنے والے دو کردیے اور میں نے اگلی اور آخری رپورٹ تیار کرلی۔
وہ آئی تو میں نے آسکرٹائپ اداکاری کرتے ہوئے خود کو سخت پریشان دکھایا اور کہا، تمہارے اس ہنسی بند نے تو سارا معاملہ چوپٹ کردیا ہے دونوں آدمی اس کا تعاقب کر رہے تھے کہ وہ تھانے میں گھس گیا اور تھوڑی دیر میں پولیس والوں نے ہمارے ان آدمیوں کو پکڑ لیا۔ تمہارے ہنسی بند نے بتایا کہ ہاں یہی دونوں ہیں۔ الزام یہ تھا کہ دو مشکوک آدمی اس کا پیچھا کررہے ہیں شاید قتل یا اغوا کرنے کے لیے پولیس والوں نے ان آدمیوں کو’’سچائی‘‘ کے کمرے میں پہنچادیا، بیچارے کیا کرتے سچ بتادیا پھر ان دونوں کے لواحقین کو خبر کر دی گئی تو انھوں نے آکر پولیس والوں سے مذاکرات کیے اور تیس ہزار میں سمجھوتہ طے پاگیا۔ وہ کوئی جاہل عورت تو تھی نہیں ایجوکیٹڈ تھی زرد پڑ گئی تو میں نے’’ مرے‘‘ پر آخری’’دُرہ‘‘ مارتے ہوئے کہا کہ ان لوگوں نے مجھے دھمکی دی ہے کہ وہ کل یہاں آئیں گے اور ہم پر جرگہ بٹھائیں گے اور جرگے کو سارا قصہ سناکر ہرجانے کا مطالبہ کریں گے۔
اس کا چہرہ زرد تو پہلے سے تھا اب کانپنے بھی لگی۔بولی لالا خدا کے لیے ان لوگوں کو یہاں آنے سے روک دو پھر پرس کھول کر دس ہزار روپے میز پر رکھتے ہوئے بولی باقی گھر جاکر بجھواتی ہوں۔وہ چلی گئی تو میں نے اندرونی دروازے کی طرف منہ کرتے کہا آجاؤ اور اس کا ہنسی بند اندر آگیا، میں نے پہلے سے بٹھا رکھا تھا اس کی بند ہنسی کھل گئی تھی لیکن اب تک کی ساری رقم دراز سے نکال کردیتے ہوئے کہا۔ہنسومت۔جب اوکھلی میں سر دیا ہے تو موسلوں کا سامنا کرو، چلے تھے ایجوکیٹڈ بیوی رکھنے کو۔اب بھگتو اور وہ بھگتنے لگا، وقت پر دفتر سے سیدھا گھر آتا ہے، گھر کے کاموں میں بیوی اس کا ہاتھ بٹاتی ہے ،دوستوں کو بھی تیاگ چکا ہے لیکن گیلی سبز چھڑی کی مار سہنے کے لیے چرس کا سہارا لینے لگا ہے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: گئی تو میں نے گلی میں کے لیے تھا کہ
پڑھیں:
دنیا بھر کے اہل عقیدت کربلا جا رہے ہیں اور اہل پاکستان
اسلام ٹائمز: برادر مکرم سبوخ سید جو رحمۃ اللعالمین اتھارٹی پاکستان کے وفد کے ساتھ عراق گئے تھے کے پاس حاضر ہوئے، انہوں نے اپنے سفر عراق کے ایسے عالی شان واقعات سنائے کہ بار بار آنکھیں نم ہو رہی تھیں۔ کہنے لگے ہم نجف میں تھے ایک خاتون ہماری طرف آئی، ہم سمجھے کوئی مانگنے والی ہے۔ ذرا گریز کرنے لگے، پھر سوچا کہ اتنی وجیہ خاتون مانگنے والی تو نہیں ہو سکتی۔ وہ ہمارے پاس آئی اور کہا آپ دور سے آئے ہیں میرا گھر آپ کے لیے حاضر ہے، میرے گھر میں نہانے کے لیے حمام اور آرام دہ کمرے موجود ہیں۔ آپ کو چلنا بھی نہیں پڑے گا میں سواری کا بندو بست بھی کرکے آئی ہوں۔ شاہ جی بتا رہے تھے کہ وہ یہ سب ایسے کہہ رہی تھی جیسے بھیک مانگ رہی ہو۔ اللہ اکبر، محبت حسینؑ سرمایہ دارانہ نظام کی بنیادوں کو ہلا رہی ہے۔ تحریر: ڈاکٹر ندیم عباس
مشہور امریکی صحافی جکسن ہینکل نے ٹویٹ کیا کہ میں اربعین واک کے لیے عراق جا رہا ہوں، ان کی اس ٹویٹ سے کمنٹس کا ایک طوفان آگیا۔ جکسن امریکہ میں رہتے ہیں مگر یوں سمجھیے ان کی روح فلسطین میں رہتی ہے۔ وہ ہر وقت اہل فلسطین کے لیے آواز بلند کرتے ہیں اور امریکی فیصلہ سازوں کی منافقت اور اسرائیلی مظالم کا پردہ چاک کرتے رہتے ہیں۔ غزہ میں جاری نسل کشی کے خلاف مسلسل مہم چلا رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ عرب نوجوانوں میں کافی مقبول ہیں مگر جیسے ہی انہوں نے عراق اور مشی پر جانے کا اعلان کیا آل سعود اور استعمار کے گماشتے ان پر حملہ آور ہوگئے کہ وہ آخر کیوں اس واک میں شریک ہو رہے ہیں؟ سب سے قابل رحم حالت ان کوتاہ فکر لوگوں کی تھی جو ایک مذہب سے بھی آزاد خیال جکسن کو یہ سمجھا رہے تھے کہ کربلا جانا شرعی طور پر حرام ہے اس لیے آپ کو وہاں نہیں جانا چاہیئے۔ یہ خطے پر امریکی اسلام کے اثرات ہیں جو لوگوں کو حریت پسندوں کے امام کی زیارت سے روکتے ہیں۔ جکسن نے عراق پہنچ کر فلسطین کانفرنس میں شرکت کی اور بہت بہترین انداز میں اہل فلسطین کا مقدمہ پیش کیا۔ اب وہ مسلسل اپڈیٹ کر رہے ہیں کہ کیسے اربعین واک دنیا بھر کے مظلوموں بالخصوص اہل فلسطین کے لیے آواز بن رہی ہے۔ بچے، جوان اور مزاحمت کار کیسے نسل پرستوں اور نسل کشی کرنے والوں کے خلاف ردعمل کا اظہار کر رہے ہیں۔
سچی بات ہے آج کل سوشل میڈیا کو اس لیے نہیں دیکھ رہا کہ ہر طرف اربعین کی ویڈیوز اور مشی کے تذکرے ہیں۔ جسم یہاں اور دل اسی راستے پر ہے، یوں لگتا ہے وہیں کہیں ہم بھی عازم کربلا ہیں۔ اللہ کے تکوینی ارادے کی طاقت کا عملی اظہار ہے آج لوگ عراقی صحرا کی پچپن درجہ حرارت گرمی میں سوئے کربلا بڑھ رہے ہیں۔اہل عراق کے جود و سخی اور محبت اہلبیتؑ بلکہ عشق اہلبیتؑ کی ایسی حیرت انگیز مثالیں دیکھنے کو ملتی ہیں کہ انسان حیران رہ جاتا ہے۔ کل برادر مکرم سبوخ سید جو رحمۃ اللعالمین اتھارٹی پاکستان کے وفد کے ساتھ عراق گئے تھے کے پاس حاضر ہوئے، انہوں نے اپنے سفر عراق کے ایسے عالی شان واقعات سنائے کہ بار بار آنکھیں نم ہو رہی تھیں۔ کہنے لگے ہم نجف میں تھے ایک خاتون ہماری طرف آئی، ہم سمجھے کوئی مانگنے والی ہے۔ ذرا گریز کرنے لگے، پھر سوچا کہ اتنی وجیہ خاتون مانگنے والی تو نہیں ہو سکتی۔ وہ ہمارے پاس آئی اور کہا آپ دور سے آئے ہیں میرا گھر آپ کے لیے حاضر ہے، میرے گھر میں نہانے کے لیے حمام اور آرام دہ کمرے موجود ہیں۔ آپ کو چلنا بھی نہیں پڑے گا میں سواری کا بندو بست بھی کرکے آئی ہوں۔ شاہ جی بتا رہے تھے کہ وہ یہ سب ایسے کہہ رہی تھی جیسے بھیک مانگ رہی ہو۔ اللہ اکبر، محبت حسینؑ سرمایہ دارانہ نظام کی بنیادوں کو ہلا رہی ہے۔ جب سماج اپنے والدین کو گھروں سے باہر نکال رہا ہے تو محبت حسینؑ یہ تربیت کر رہی ہے کہ سنت ابراہیمیؑ پر عمل کرتے ہوئے مہمانوں کو تلاش کرو اور گھر لا کر ان کی بہترین خدمت کرو۔
اس بار اہل پاکستان کی کمی کو ایران و عراق ہر جگہ محسوس کیا جا رہا ہے۔ کچھ فلائٹس چلیں اور خوش قسمت عشاق حسینؑ مشی میں کربلا پہنچ گئے مگر ہزاروں کی تعداد میں غریب زائرین اپنی حسرتیں لیے وطن میں ہی منتظر رہ گئے، حکومت نے بلوچستان میں جو مسائل بتائے ہیں وہ یقینا ہوں گے اور پچھلے ایک ہفتے میں بلوچستان میں ایک سو سے زیادہ دہشتگردوں کی ہلاکتیں بھی یہی بتاتی ہیں کہ واقعات کچھ بڑی پلاننگ کی گئی تھی جس کی بھنک ہمارے اداروں کو پڑ گئی۔ اس سب سے زائرین کے دکھوں کا مداوا نہیں ہوتا۔ وعدہ کیا گیا تھا کہ فوری طور پر فلائٹس چلیں گی۔ آج کی تاریخ تک اس میں کوئی بڑی پیش رفت نہیں ہوئی غالبا صرف ایک فلائٹ غالبا کوئٹہ سے تفتان ہوئی ہے۔ پاکستان کی پارلیمنٹ میں بار بار اس پر بحث ہو رہی ہے اور حکومت سے وضاحت طلب کی جا رہی ہے۔ یہ بہت بڑی نااہلی ہے بلوچستان کے حالات سب کے سامنے تھے اور ہمارے وزیر داخلہ محترم جناب محسن نقوی صاحب کبھی ایران اور کبھی عراق اربعین کے حوالے سے مسلسل مصروف نظر آئے۔ سچ پوچھیں تو ہم پر امید تھے کہ اس بار ہمیں اربعین میں زیادہ سہولیات مسیر آئیں گی اور بڑی تعداد میں اہل وطن اربعین کے موقع پر شریک مشی ہو سکیں گے۔ ویزے اور چند ابتدائی معاملات کے حوالے سے کچھ اچھی خبریں بھی سننے کو ملیں۔
میٹنگز اور ساری دوڑ دھوپ کا نتیجہ صفر نکلا کہ زائرین کے سفرِ اربعین پر ہی پابندی لگا دی گئی۔ حکومت پورا سال سوئی رہتی ہے اور آخری ماہ میں بہت سے ایس او پیز یاد آ جاتے ہیں۔ اللہ کے بندوں لاکھوں اہل وطن کے مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچا رہے ہو، کسی نے عمر بھر پائی پائی جمع کرکے نواسہ پیغمبرﷺ کے پاس جانے کے وسائل مہیا کیے ہیں، کچھ نے کمیٹیاں ڈالی ہیں، کچھ نے جانور فروخت کیے ہیں اور کچھ تو قرض لے کر عازم کربلا ہونا چاہتے تھے مگر بیروکریسی کی نااہلیوں کی وجہ سے ان جذبات کا خون کیا گیا۔ ہر سال یہ شوشہ چھوڑ دیا جاتا ہے کہ فیری سروس شروع کی جائے گی۔ اب تو یہ لگنے لگا ہے کہ یہ باقاعدہ ڈس انفارمیشن مہم کا حصہ ہے کہ اس طرح کے بیانات دے کر اہل وطن کی آنکھوں میں دھول جھونکی جائے اور جیسے ہی اربعین گزر جائے پھر سے خواب خرگوش میں مبتلا ہو جائیں۔
یہاں ہر طرح کا مافیا عروج پر ہے ،بائی ائر روٹ والے اور بسوں کے کاروبار سے وابستہ طاقتور گروہ کبھی نہیں چاہیں گے کہ فیری سروس شروع ہو، اس سے ان کے استحصال کا راستہ بند ہو جائے گا۔ بہت سے اور لوگ بھی ہیں جن کا کاروبار زائرین کے نام پر حکومتی خزانہ لوٹنے سے چلتا ہے ان کا ذریعہ آمدن بھی بند ہونے کا خطرہ ہے۔ اس لیے یہ گروہ زائرین کے لیے کسی بھی آسانی کے خلاف ہیں۔ زاہدان سے کوئٹہ دو اڑھائی گھنٹے کی فلائٹ ہے، ایک بہت موثر آپریشن ڈیزائن کیا جا سکتا ہے جس سے زائرین بروقت منزل مقصود تک پہنچ جائیں۔ کراچی سے ایرانی بندرہ گاہ چاہ بہار تک فاصلہ 347 ناٹیکل میل ہے اور یہ سفر چودہ گھنٹے میں مکمل ہو سکتا ہے۔ یہ مہنگا بھی ہو تو پندرہ سے بیس ہزار کرایہ لگے گا۔ کراچی سے بصرہ بھی دو دنوں کا سفر ہے جس میں کسی قسم کا کوئی خطرہ نہیں ہے۔ حکومت جلد از جلد اہل پاکستان کے اس مسئلے کو ترجیحی بنیادوں پر حل کرے گا جب مختلف آپشنر ہوں گے تو سفری اخراجات میں بھی کمی آئے گی۔