ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای نے الزام عائد کیا ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کا خطے میں امن کی بات کرنے والا بیان جھوٹ پر مبنی ہے، امریکی صدر نے اپنے خلیجی دورے کے دوران کہا تھا کہ وہ خطے میں امن چاہتے ہیں۔

نجی اخبار میں شائع برطانوی خبر رساں ادارے ’رائٹرز‘ کی رپورٹ کے مطابق اس کے برعکس، خامنہ ای نے کہا کہ امریکا اپنی طاقت کا استعمال کرتا ہے تاکہ صیہونی (اسرائیلی) حکومت کو 10 ٹن وزنی بم دیے جا سکیں، جو وہ غزہ کے بچوں کے سروں پر گرا سکے۔

ٹرمپ نے جمعہ کے روز متحدہ عرب امارات سے روانگی کے بعد ایئر فورس ون میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ ایران کو اپنے جوہری پروگرام کے بارے میں امریکی تجویز پر جلد عمل کرنا ہوگا ورنہ ’کچھ برا ہونے والا ہے‘۔

خامنہ ای نے کہا کہ ٹرمپ کے ریمارکس اتنے بے وقعت ہیں کہ ان کا جواب دینا بھی مناسب نہیں، اس طرح کی باتیں، بولنے والے اور امریکی عوام دونوں کے لیے شرمندگی کا باعث ہیں۔

ایران کے سرکاری میڈیا کے مطابق انہوں نے تہران میں ایک مذہبی مرکز کی تقریب میں کہا کہ بلاشبہ، اس خطے میں فساد، جنگ اور تنازع کی جڑ صیہونی حکومت ہے، ایک خطرناک، مہلک اور کینسر جیسا ٹیومر، جسے جڑ سے اکھاڑ پھینکنا ہوگا، اور اسے اکھاڑا جائے گا۔

اس سے قبل ہفتے کے روز ایرانی صدر مسعود پزشکیاں نے تہران میں بحریہ کی ایک تقریب میں کہا تھا کہ ٹرمپ ایک طرف امن کی بات کرتے ہیں اور دوسری طرف دھمکیاں دیتے ہیں، ہم کس بات پر یقین کریں؟

ایرانی صدر کا کہنا تھا کہ ایک طرف وہ امن کی بات کرتے اور دوسری طرف جدید ترین ہتھیاروں سے قتل عام کی دھمکیاں دیتے ہیں، ایران جوہری مذاکرات جاری رکھے گا لیکن دھمکیوں سے خوفزدہ نہیں ہوگا، ہم جنگ نہیں چاہتے۔

اگرچہ ٹرمپ نے جمعہ کے روز کہا تھا کہ ایران کے پاس اس کے جوہری پروگرام سے متعلق ایک امریکی تجویز موجود ہے، ایرانی وزیر خارجہ عباس عراقچی نے ایکس (سابقہ ٹوئٹر) پر ایک پوسٹ میں کہا تھا کہ تہران کو ایسی کوئی تجویز موصول نہیں ہوئی۔

انہوں نے کہا کہ ایسا کوئی منظر نامہ نہیں، جس میں ایران اپنے پرامن مقاصد کے لیے محنت سے حاصل کردہ (یورینیم) افزودگی کے حق سے دستبردار ہو۔

Post Views: 2.

ذریعہ: Daily Mumtaz

کلیدی لفظ: کہا تھا کہ خامنہ ای کی بات کہا کہ

پڑھیں:

ایران سے جنگ کے بعد اسرائیل میں شدید اقتصادی بحران

اسلام ٹائمز: اخبار کیلکولیسٹ کی ویب سائٹ نے اس بارے میں لکھا: "قیمتوں میں اضافہ رکا نہیں ہے اور بڑی کمپنیوں کے علاوہ پرچون کی دکانوں نے بھی اپنی قیمتیں بڑھا دی ہیں۔ بعض نے پرانی چیزیں نئے ناموں سے بیچنا شروع کر دی ہیں۔ اکثر کمپنیوں نے کنسیشن کم کر دی ہے اور قیمتیں تعین کرنے کا طریقہ کار بھی بدل دیا ہے۔" قیمتوں میں اضافہ ایسے وقت انجام پا رہا ہے جب صیہونی آبادکار جنگی حالات کے باعث کھانے پینے کی اشیاء ذخیرہ کرنے کی کوشش میں مصروف ہیں۔ جنگ کے ابتدائی دنوں میں ہی سپر مارکیٹس اور دکانیں خالی ہو گئی تھیں اور غذائی اشیاء کی شدید قلت ہو گئی تھی۔ قیمتوں میں ہوشربا اضافے کا ایک سبب غذائی اشیاء کی شدید قلت بھی ہے۔ رپورٹس کے مطابق اکثر صیہونی آبادکار جو جنگ سے پہلے مقبوضہ فلسطین چھوڑ کر چلے گئے تھے واپس آنے کا ارادہ نہیں رکھتے۔ تحریر: فاطمہ محمدی
 
ایران کے خلاف جنگ نے پورے مقبوضہ فلسطین میں غاصب صیہونی رژیم پر کاری ضربیں لگائی ہیں۔ ان کا ایک نتیجہ وسیع پیمانے پر صیہونی آبادکاروں کی اسرائیل چھوڑ کر دیگر ممالک کی جانب سفر کی صورت میں ظاہر ہوا ہے۔ ایران کے خلاف بارہ روزہ جنگ کے آغاز میں ہی بڑی تعداد میں صیہونی آبادکار اسرائیل چھوڑ کر جانا شروع ہو گئے تھے۔ عبرانی ذرائع ابلاغ نے ایران کے خلاف جنگ کے سنگین نتائج کی جانب اشارہ کرتے ہوئے لکھا ہے: "قیمتوں میں بے پناہ اضافہ اور سیکورٹی خدشات کے باعث کم از کم ایک تہائی اسرائیلی شہری اسرائیل چھوڑ کر چلے جانے کا سوچ رہے ہیں۔" عبرانی ذرائع ابلاغ میں شائع ہونے والی رپورٹس میں کہا گیا ہے کہ اسرائیلی کمپنیوں نے اعلان کیا ہے کہ وہ چاکلیٹ، کافی، کولڈ ڈرنک، چاول اور چند دیگر زیادہ استعمال ہونے والی اشیاء کی قیمتیں نہیں بڑھائیں گے۔
 
دوسری طرف 52 فیصد اسرائیلی شہریوں نے قیمتوں میں بہت زیادہ اضافے کے بعد اپنی مالی حالت ابتر ہو جانے کی خبر دی ہے۔ اقتصادی اخبار کولیکٹو سے وابستہ فیکٹو اسٹریٹجک ریسرچ نامی کمپنی کی جانب سے انجام پانے والے سروے کے نتائج سے ظاہر ہوتا ہے کہ غذائی اشیاء کی قیمتوں میں اضافہ اس سے کہیں زیادہ ہے جو ذرائع ابلاغ میں بیان کیا گیا ہے اور اس کے نتیجے میں صیہونی آبادکاروں کی کھانے پینے کی عادات بھی متاثر ہوئی ہیں اور وہ بہت سی غذائیں چھوڑ دینے پر مجبور ہو گئے ہیں۔ اس سروے میں شرکت کرنے والے افراد کی اکثریت یعنی 95 فیصد نے بتایا کہ خاص طور پر گذشتہ ایک سال کے دوران زندگی کے اخراجات میں ہوشربا اضافہ ہوا ہے۔ اسی طرح ان میں سے 30 فیصد نے بتایا کہ وہ اقتصادی مسائل کی وجہ سے اسرائیل چھوڑ کر چلے جانے کا ارادہ رکھتے ہیں۔
 
80 فیصد شرکت کرنے والے افراد شدید مہنگائی کا ذمہ دار موجودہ حکومت کو ٹھہرا رہے تھے اور شدید مالی اور اقتصادی بحران کے باعث اس کی سرزنش کرنے میں مصروف تھے۔ مختلف رپورٹس میں شائع ہونے والے اعداد و شمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ اسرائیلی معیشت شدید جمود کا شکار ہو چکی ہے۔ 52 فیصد شرکت کرنے والے افراد نے اپنی مالی حالت شدید خراب ہونے کی اطلاع دی ہے جبکہ 25 فیصد کا کہنا تھا کہ زندگی کے اخراجات کے لیے وہ اپنے اہلخانہ، دوستوں یا فلاحی مراکز پر انحصار کر رہے ہیں۔ شرکت کرنے والے تمام افراد اس بات پر اتفاق نظر رکھتے تھے کہ جنگی حالات اور ان کے نتیجے میں پیدا ہونے والی اقتصادی مشکلات نے اسرائیلی شہریوں کا لائف اسٹائل شدید متاثر کر دیا ہے۔
 
اس سروے رپورٹ کے نتائج کی روشنی میں 90 فیصد شرکت کرنے والوں نے بتایا کہ انہوں نے شدید مہنگائی کی بدولت اپنا طرز زندگی تبدیل کر لیا ہے۔ 60 فیصد آبادکاروں کا کہنا تھا کہ اب وہ ہوٹل جا کر کھانا نہیں کھاتے یا ہوٹلنگ میں کمی کر دی ہے کیونکہ قیمتوں میں شدید اضافہ ہو گیا ہے۔ 42 فیصد نے کہا کہ انہوں نے سپر مارکیٹس سے خرید میں کمی کر دی ہے اور کھانے پینے کی اشیاء خریدنا کم کر دی ہیں۔ اسی طرح 36 فیصد افراد نے بتایا کہ وہ باہر سے کھانا منگوانا بہت کم کر دیا ہے۔ عبرانی میڈیا کی رپورٹس کے مطابق ایران سے جنگ کے بعد اکثر آبادکار توقع کر رہے تھے کہ زندگی معمول پر آ جائے گی لیکن کھانے پینے کی اشیاء کی قیمتیں بہت زیادہ بڑھ گئی ہیں۔ عبرانی اخبار کیلکولیسٹ نے رپورٹ دی ہے کہ یکم جولائی سے قیمیتیں بڑھ جائیں گی۔
 
اخبار کیلکولیسٹ کی ویب سائٹ نے اس بارے میں لکھا: "قیمتوں میں اضافہ رکا نہیں ہے اور بڑی کمپنیوں کے علاوہ پرچون کی دکانوں نے بھی اپنی قیمتیں بڑھا دی ہیں۔ بعض نے پرانی چیزیں نئے ناموں سے بیچنا شروع کر دی ہیں۔ اکثر کمپنیوں نے کنسیشن کم کر دی ہے اور قیمتیں تعین کرنے کا طریقہ کار بھی بدل دیا ہے۔" قیمتوں میں اضافہ ایسے وقت انجام پا رہا ہے جب صیہونی آبادکار جنگی حالات کے باعث کھانے پینے کی اشیاء ذخیرہ کرنے کی کوشش میں مصروف ہیں۔ جنگ کے ابتدائی دنوں میں ہی سپر مارکیٹس اور دکانیں خالی ہو گئی تھیں اور غذائی اشیاء کی شدید قلت ہو گئی تھی۔ قیمتوں میں ہوشربا اضافے کا ایک سبب غذائی اشیاء کی شدید قلت بھی ہے۔ رپورٹس کے مطابق اکثر صیہونی آبادکار جو جنگ سے پہلے مقبوضہ فلسطین چھوڑ کر چلے گئے تھے واپس آنے کا ارادہ نہیں رکھتے۔
 
دوسری طرف صیہونی ذرائع ابلاغ پر لاگو شدید سینسرشپ کے باوجود ایران کے خلاف جنگ میں صیہونی رژیم کو پہنچنے والے شدید نقصانات منظرعام پر آنا شروع ہو گئے ہیں۔ جنگ بندی کے بعد صیہونی ذرائع ابلاغ کنٹرول شدہ معلومات دھیرے دھیرے اور مرحلہ وار منظرعام پر لا رہے ہیں۔ گذشتہ چند دنوں میں صیہونی میڈیا پر شائع ہونے والی اقتصادی رپورٹس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ایران کے میزائل حملوں نے مختلف فوجی اور دیگر مراکز کو 12 ارب ڈالر کا نقصان پہنچایا ہے۔ رپورٹس سے ظاہر ہوتا ہے کہ بالواسطہ طور پر پہنچنے والے نقصانات کو بھی شامل کیا جائے تو یہ رقم 20 ارب ڈالر تک جا پہنچتی ہے۔ عبرانی اخبار یدیعوت آحارنوت کے مطابق صرف حکومتی خزانے کو ایران کے خلاف جنگ میں 7 ارب ڈالر کا نقصان ہوا ہے۔

متعلقہ مضامین

  • ایران کیخلاف دوبارہ جنگ کی تیاریاں اور ان کے تباہ کن ممکنہ نتائج
  • آیت اللہ خامنہ ای مسلمانوں کے رہبر، مخالفانہ تحقیری زبان قبول نہیں، آیت اللہ حافظ ریاض نجفی
  • ایران سے جنگ کے بعد اسرائیل میں شدید اقتصادی بحران
  • ہیکرزگروپ کا امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور اہم حکومتی شخصیات کے ای میل پیغامات افشا کرنے کا اعلان
  • ایرانی ہیکرز کی ٹرمپ کے قریبی ساتھیوں کی ای میلز افشا کرنے کی دھمکی
  • ایران پھر ایٹمی پروگرام کی طرف بڑھا تو یہ ان کے لیے آخری اقدام ہوگا: ٹرمپ
  • اسرائیل تلوار کی دھار پر
  • ٹرمپ میڈیا پر برتری ثابت کرنے کی کوشش میں ہیں‘ ایرانی سپریم لیڈر
  • ٹرمپ کا یوٹرن! ایران سے بات چیت کی تمام خبروں کی تردید کر دی
  • ایران سے مذاکرات کی خبریں بے بنیاد ہیں، ٹرمپ کا واضح ردعمل