مشرق وسطی کی نئی عالمی صف بندی
اشاعت کی تاریخ: 19th, May 2025 GMT
(گزشتہ سے پیوستہ)
ابراہیمی معاہدے کے فریق ممالک میں سے کسی بھی ملک نے فلسطین کے ساتھ مشترکہ پلیٹ فارم پر بات چیت نہیں کی تھی۔ کیوں کہ یہ معاہدے بنیادی طور پر فلسطین سے الگ ہو کرطے پائے تھے۔ اہل غزہ اس معاہدے کے فریق نہیں ہیں۔ اس کے ساتھ ہی ایران بھی اس معاہدے کا فریق نہیں ہےلیکن ٹرمپ نےاپنےخطاب میں کہاہےکہ ایران حزب اللہ جیسی پراکسیز بند کرے تو ہم اس کے ساتھ معاہدہ کرنے کے لیے تیار ہیں۔
ایران کی وزارت خارجہ کئی مواقع پرکہہ چکی ہےکہ وہ امریکہ کےساتھ برابری کی سطح پر مذاکرات چاہتے ہیں، لہذا محسوس ہوتا ہےکہ ایران اس معاہدے کی جانب پیش رفت کرےگا اور شاید اس طرح دو ریاستی فارمولہ طےپاجائے۔ اگرفلسطین کوایک الگ ریاست تسلیم کرلیاجاتا ہےتو ابراہیمی معاہدے کامیاب ہوسکتے ہیں اور مشرق وسطی میں پائیدار امن قائم ہو سکتاہے۔ سعودی عرب کی بھی یہی خواہش ہے۔ ایران سعودیہ سفارتی تعلقات بہتر ہوئے ہیں۔ یہ دونوں ممالک دو ریاستی حل کےلئے ٹرمپ سے ایک پائیدار معاہدہ کر سکتے ہیں۔
یوں اگرفلسطین کا دو ریاستی حل نکل آتا ہے اور سب ممالک اسرائیل کو بھی تسلیم کر لیتے ہیں تو سوال یہ ہے کہ ایسی صورتحال میں پاکستان کیا کرے گا؟ پاکستان وہی کرے گا جو سعودی عرب کرے گا، اور سعودی عرب وہی کرے گا جس سے اس کی مسلم دنیا میں عزت بحال رہے۔ لگتا یہ ہے کہ عزہ کو نکال معاملات دو ریاستی مستقل حل کی طرف بڑھ رہے ہیں، اس سے کچھ ماہ قبل ٹرمپ نے یہ ارادہ بھی ظاہر کیا تھا کہ وہ عزہ کو خوبصورت رئیل سٹیٹ اور تفریح گاہ بنائیں گے، جس کی عملًا ابتدا کچھ عرصہ بعد ٹرمپ کے اس دورے کے بعد ہو سکتی ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ کے اس دورے سے دنیا کے سامنے ان کا مزاج کھل کر سامنے آیا ہے۔ ٹرمپ کو پیسہ چاہیے، پیسہ پھینک اور تماشا دیکھ اور کام کرا، اگر اسرائیل نے ٹرمپ کو پیسہ دکھایا ہے تو سعودی کرائون پرنس کے بعد ڈونلڈ ٹرمپ جب 12مئی کو متحدہ عرب امارات پہنچے تو وہاں بھی انہیں روایتی ڈانس کے ساتھ غیرمعمولی پروٹوکول دیا گیا اور ڈونلڈ ٹرمپ نے وہاں بھی سرمایہ کاری کے کامیاب وعدے و معاہدے کیےجس کے بعد 13 مئی کو ٹرمپ جب قطر پہنچے تو وہاں ان کا اس سے بھی زیادہ پرتپاک طریقے سے استقبال کیا گیا۔
قطر کی ریاست نے صدر ڈونلڈجےٹرمپ کوحسب موقع و محل ایک بوئنگ 747 ’’ٹرمپ فورس ون‘‘ نامی طیارہ تحفے میں دیا ہے، جس کی دم پر 24 قیراط سونےکا پورٹریٹ، سنہری اندرونی حصہ، اور سونے کا ایک ٹھوس واش روم شامل ہے۔ یہ بھی ٹرمپ دورے کی طرح ایک تاریخی تحفہ ہے جس کی قیمت 400 ارب ڈالرز بتائی جا رہی ہے، جسے قطری حکام نے ’’دوستی اور احترام کی علامت‘‘ قرار دیا۔
سرمایہ کاری، کاروبار اوراثاثوں کی خریداری کو کہتے ہیں جبکہ سرمایہ داری یا کیپٹل ازم ایسا نظام معیشت ہے جس میں تمام پیداوری ذرائع یا صنعتیں اور کاروبار نجی ملکیت میں ہوتے ہیں،جہاں حکومت کی مداخلت برائےنام ہوتی ہے۔ آزاد اورفری مارکیٹ اس نظام معیشت کی بنیادیں ہیں،اشیا کی طلب اور رسد سےان کی قیمتوں کا تعین ہوتا ہے،آپ مختلف کمپنیوں کے اسٹاک، بانڈز، یا رئیل اسٹیٹ میں سرمایہ کاری کر سکتے ہیں گویا یہ آپ کے اثاثے ہیں،سرمایہ کاری کا مقصد اپنے لگائے ہوئے سرمائے پر آمدنی یا منافع حاصل کرنا ہے۔
سعودی عرب کی امریکہ میں سرمایہ کاری کوئی نئی چیز نہیں ہے جسے بعض حاسد اور متعصب سوشل میڈیا ایکٹیوسٹ دفاع کے بدلے بھتہ یا خراج قرار دے رہیں مگر اب اس کے حجم میں اس دورے کی وجہ سے اضافہ ہوا ہے۔ نجی سرمایہ کاروں کی طرح ملک بھی دوسرے ممالک میں سرمایہ کاری کرتے ہیں،چین نے امریکہ میں مینوفیکچرنگ، رئیل اسٹیٹ، اور فنانس کے شعبوں میں 200 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کر رکھی ہے۔ امریکہ نے بھی چین میں مینوفیکچرنگ، ٹریڈ، فنانس، اورانشورنس کے شعبوں میں 127 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کی ہوئی ہےجبکہ خود امریکہ میں سرمایہ کاری کرنے والے پانچ بڑے ممالک میں جاپان 783 ارب ڈالر، کینیڈا 750 ارب ڈالر، جرمنی 658 ارب ڈالر، برطانیہ 636 ارب ڈالر، فرانس 370ارب ڈالر اور دیگر ممالک کی 1349ارب ڈالر کی سرمایہ کاری موجود ہے، سرمایہ کاری کرنے والا ملک اور جس ملک میں سرمایہ کاری کی جائے دونوں اس سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: میں سرمایہ کاری سرمایہ کاری کر دو ریاستی ارب ڈالر کے ساتھ کرے گا
پڑھیں:
اسرائیلی میڈیا نے جنگ بندی معاہدے کی مزید تفصیلات جاری کر دیں
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
اسرائیلی میڈیا کے مطابق غزہ میں جاری جنگ کے خاتمے کے لیے امن کوششیں تیز ہو گئی ہیں، اور حماس کی جانب سے لچک دار رویہ اختیار کیے جانے کی اطلاعات سامنے آئی ہیں۔
ذرائع کے مطابق قطر اور امریکا کی جانب سے پیش کی جانے والی نئی جنگ بندی تجاویز کا حماس جمعہ تک حتمی جواب دے سکتی ہے، جبکہ اسرائیل ان تجاویز کو پہلے ہی منظور کر چکا ہے۔ اگر حماس راضی ہو جاتی ہے تو اسرائیلی وفد فوری طور پر دوحہ روانہ ہو جائے گا۔
اسرائیلی میڈیا کا کہنا ہے کہ تل ابیب اس بات پر بھی آمادہ ہے کہ اگر جنگ بندی کا معاہدہ فوری طور پر نہ بھی ہو، تب بھی بات چیت جاری رکھنے کی تحریری ضمانت دینے کو تیار ہے۔ امریکا کی خواہش ہے کہ آئندہ ہفتے اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو کے دورہ واشنگٹن کے دوران جنگ بندی کا باضابطہ اعلان ہو، اور ڈونلڈ ٹرمپ نہ صرف اس کی ذاتی ضمانت دیں گے بلکہ اعلان بھی خود کریں گے۔
رپورٹس کے مطابق جنگ بندی مرحلہ وار ہوگی، جس میں پہلے مرحلے میں 10 زندہ اسرائیلی یرغمالیوں کی رہائی شامل ہے، جبکہ 18 اسرائیلیوں کی لاشوں کی واپسی تین مراحل میں کی جائے گی۔ فلسطینی قیدیوں کی رہائی پچھلے معاہدے کے طرز پر ہوگی، جس میں حماس اسیران کے نام فراہم کرے گی، جن میں سے بعض ایسے ہیں جن کی رہائی سے اسرائیل اب تک انکاری رہا ہے، اور یہی پہلو ممکنہ رکاوٹ بھی بن سکتا ہے۔
اسی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ اسرائیل امداد کی تقسیم کا موجودہ طریقہ، جو ایک امریکی کمپنی کے ذریعے ہو رہا ہے، برقرار رکھنا چاہتا ہے، جبکہ حماس چاہتی ہے کہ امداد اقوام متحدہ کے ذریعے تقسیم کی جائے۔ مزید یہ کہ حماس روزانہ 400 سے 600 امدادی ٹرکوں کے غزہ میں داخلے کا بھی مطالبہ کر رہی ہے۔
ادھر ایک اسرائیلی اخبار نے دعویٰ کیا ہے کہ حماس یرغمالیوں کی رہائی کی تقریب منعقد کرنے سے گریز کرے گی تاکہ اسے فتح کے طور پر پیش نہ کیا جائے۔ یاد رہے کہ سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ پہلے ہی اعلان کر چکے ہیں کہ اسرائیل نے 60 روزہ جنگ بندی کی شرائط تسلیم کر لی ہیں، اور اس دوران تمام فریقین جنگ کے خاتمے کی جامع حکمت عملی پر مل کر کام کریں گے۔ اس حوالے سے قطر اور مصر اہم تجاویز پیش کریں گے۔
اسرائیلی میڈیا کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ اگر سب کچھ طے پا گیا تو آئندہ دو ہفتوں میں غزہ جنگ ختم ہو سکتی ہے، اور بعد ازاں حماس کی جگہ غزہ کا انتظام چار عرب ممالک کو سونپا جا سکتا ہے۔