چین کی میزبانی میں پاکستان اور افغانستان کے درمیان مذاکرات میں کیا ہونے جا رہا ہے؟
اشاعت کی تاریخ: 19th, May 2025 GMT
کل 20 مئی کو چین کے دارالحکومت بیجنگ میں پاکستان، افغانستان اور چین کے درمیان سہ فریقی مذاکرات ہوں گے، اس سے قبل پاک بھارت فوجی کشیدگی کے دوران تینوں ممالک کے درمیان 11 مئی کو مذاکرات ہوئے جس میں افغانستان کو چین کے اقتصادی راہداری کے منصوبے بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹو کا حصّہ بنانے کی بات کی گئی۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق افغانستان نے اسلام آباد اور بیجنگ کو یقین دہانی کروائی کہ وہ پاکستان کے ساتھ متصل اپنی سرحد کو محفوظ بنائے گا اور افغانستان میں بھارت کے اثرورسوخ کو محدود کیا جائے گا۔
یہ بھی پڑھیں افغان مہاجرین کی باعزت واپسی، اپنی سرزمین ایک دوسرے کیخلاف استعمال نہیں ہونے دینگے، پاکستان افغانستان کا اتفاق
کل 20 مئی کو سہ فریقی مذاکرات میں پاکستان کی نمائندگی نائب وزیراعظم و وزیرخارجہ اسحاق ڈار جبکہ افغانستان کی نمائندگی قائم مقام وزیرخارجہ امیرخان متقی کریں گے۔ اس سے قبل 19 اپریل کو پاکستانی نائب وزیراعظم و وزیرخارجہ اسحاق ڈار نے افغانستان کا دورہ کیا تھا جس میں پاکستان اور افغانستان کے درمیان امن اور تجارت کو فروغ دینے پر مثبت انداز میں بات چیت کی گئی۔
افغان طالبان اور بھارت کے تعلقاتان مذاکرات کی اہمیت اس وجہ سے بھی بڑھی جاتی ہے کہ ایک بھارتی سینیئر تجزیہ نگار پراوین ساھنی نے حال ہی میں کہا ہے کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان موجودہ فوجی کشیدگی کے دوران صرف دو ممالک نے بھارت کا ساتھ دیا، جن میں ایک اسرائیل اور دوسرا افغانستان شام ہے۔ ان شکوک کو اس بنا پر بھی تقویت ملتی ہے کہ 16 مئی کو بھارتی وزیر خارجہ جے شنکر اور افغان قائم مقام وزیرخارجہ امیرخان متقی کے درمیان کے ٹیلیفونک بات چیت ہوئی جس میں بھارتی وزیرخارجہ جے شنکر نے امیر خان متقی کا شکریہ ادا کیا کہ دونوں ملکوں کے درمیان بداعتمادی پیدا کرنے کی کوششوں کو کامیاب نہیں ہونے دیا گیا۔ بھارتی ذرائع ابلاغ کے مطابق امیرخان متقی نے بھارت سے افغان شہریوں کے لیے زیادہ ویزوں کے اجرا کی بات کی۔
یہاں یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ 22 اپریل کو پہلگام واقعے کے بعد جب بھارت نے پاکستان کے ساتھ واہگہ بارڈر کو بند کردیا تھا تو بندش کے بعد افغانستان نے جب پاکستان سے اپنے پھنسے ہوئے تجارتی ٹرکوں کی بھارت روانگی کے لیے بات کی تو پاکستانی وزارت خارجہ نے بلا توقف اُن کو اجازت دی جس کے بعد بھارتی ٹرک واہگہ کے راستے بھارت داخل ہوئے۔
پاکستان میں افغانستان کے راستے دہشتگردی کے پیچھے بھارتی معاونتپاکستانی دفترِ خارجہ اور ڈی جی آئی ایس پی آر متعدد بار یہ کہہ چُکے ہیں کہ پاکستان میں دہشتگردی کے واقعات کے پیچھے بھارت کا ہاتھ ہے، سانحہ جعفر ایکسپریس میں پاکستان نے بھارت کے ملوث ہونے کے ثبوت بھی پیش کیے، ٹی ٹی پی اور بی ایل اے پر بھارت کی سرپرستی کے حوالے سے الزامات بھی لگتے رہتے ہیں، اس کے بعد سوال یہ ہے کہ آیا پاکستان چین اور افغانستان کے درمیان سہ فریقی مذاکرات میں افغانستان کیا اپنی حدود میں بھارتی اثر و رسوخ کم کر پائے گا؟
پاکستان، چین اور افغانستان کے درمیان ہونے والے مذاکرات 2018 سے جاری ہیں، 2021 میں بھی تینوں ممالک کے وزرائے خارجہ کا اجلاس ہوا تھا جس میں جنگ بندی اور افغانستان میں قیام امن پر زور دیا گیا تھا۔
سہ فریقی مذاکرات کا ایجنڈابیجنگ میں ہونے والے سہ فریقی مذاکرات کا مقصد خطے میں امن، دہشتگردی کے خلاف تعاون اور اقتصادی راہداری جیسے پروگرام کے ذریعے اقتصادی ترقی اور تجارت کو فروغ دینا ہے۔
چین جہاں اس عمل میں بطور ایک ثالث اپنا کردار ادا کرکے پاکستان اور افغانستان کے درمیان کشیدگی کی فضا کو کم کرنا چاہتا ہے وہیں وسط ایشیائی ریاستوں کو مربوط کرنے اور اقتصادی راہداری بنانے میں چین سمیت اس خطے کے تمام ممالک کا مفاد شامل ہے۔
پاکستان کو ایک مشکل توازن قائم کرنے کے عمل کا سامنا ہے، مائیکل کوگلمینامریکی تھنک ٹینک وِلسن سینٹر سے وابستہ جنوبی ایشیائی اُمور کے ماہر مائیکل کوگلمین نے ان سہ فریقی مذاکرات پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان کو 2025 میں ایک مشکل توازن قائم کرنے کے عمل کا سامنا ہے جب عالمی مقابلے بازی کے دور میں اُس کے افغانستان کے ساتھ تعلقات کشیدہ اور چین کے ساتھ سی پیک کے ذریعے تزویراتی شراکت داری بڑھ رہی ہے۔
سہ فریقی مذاکرات اچھا قدم، نتائج کے بارے میں کچھ کہنا قبل از وقت ہے، مسعود خالدبیجنگ میں پاکستان کے 13 سال تک سفیر رہنے والے مسعود خالد نے وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ چین کی جانب سے یہ اچھا اقدام ہے جس میں وہ پاکستان اور افغانستان کو شامل کرکے امن اور استحکام کے لیے کوشش کررہا ہے، یہ سہ فریقی میکنزم طویل عرصے سے چل رہا ہے اور گزشتہ دنوں چین کے نمائندہ خصوصی نے پاکستان اور افغانستان کے دورے بھی کیے اور یہ مذاکرات بھی بنیادی طور پر چین کی دعوت پر ہو رہے ہیں جس میں افغانستان کو اس بات پر قائل کرنے کی کوشش کی جائے گی کہ افغان سرزمین دہشتگردی کے لیے استعمال نہ ہو۔
انہوں نے کہاکہ اسی چیز سے بہتری اور استحکام آئے گا، یہ اقدام بہت اچھا ہے لیکن اس کے نتائج کے بارے میں کچھ کہا نہیں جا سکتا کیونکہ افغان عمومی طور پر اپنی یقین دہانیوں کے معاملے میں غیر حتمی اور غیر یقینی سے صورتحال کا شکار نظر آتے ہیں۔ پتہ نہیں کہ وہ ٹی ٹی پی کو کنڑول کر نہیں سکتے یا کرنا نہیں چاہتے۔
ایک سوال کہ بھارت کے افغانستان کے ساتھ سفارتی تعلقات بہت بہتر ہو رہے ہیں؟ سفارتکار مسعود خالد نے کہا کہ اس وقت انڈیا ایک زخمی شیر ہے اور وہ ہر اُس صورتحال کا فائدہ اُٹھانا چاہے گا جو پاکستان کے خلاف ہو حالانکہ افغانستان کے معاملے میں ہمیں انڈیا کے مقابلے میں زیادہ قربت حاصل ہونی چاہیے کیونکہ ہمارا بارڈر افغانستان کے ساتھ ملتا ہے، ہماری زبان، ثقافت اور نسل کے تعلقات افغانستان کے ساتھ زیادہ ہیں اور اُس سے بڑھ کر افغان تجارت کا زیادہ تر انحصار پاکستان پر ہے۔
’میرے خیال سے پاکستان کے نمائندہ خصوصی برائے افغانستان محمد صادق بہت اچھا کام کررہے ہیں اور اُن کی کوششوں کی وجہ سے یہ مذاکرات ہو رہے ہیں، ہمیں افغانستان کو اپنی طرف مائل کرنا چاہیے۔
افغان طالبان کبھی بھی بھارت کے ساتھ تعلقات نہیں بنائیں گے، فخر کاکا خیلافغان اُمور کے ماہر اور تجزیہ نگار صحافی فخر کاکاخیل نے وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ افغان طالبان بلیک میلنگ کے لیے تو بھارت کے ساتھ تعلقات کا ذکر کر سکتے ہیں لیکن نظریاتی طور پر وہ چونکہ بھارت مخالف ہیں اس لیے وہ کبھی بھی بھارت کا ساتھ نہیں دیں گے۔
انہوں نے کہاکہ اس وقت پوری دنیا میں ٹریڈ وارز یعنی تجارتی جنگیں چل رہی ہیں اور افغان طالبان حکومت بھی بالکل نہیں چاہے گی کہ وہ تنہا ہو جائے جس سے اُس کو تجارتی خسارے کا سامنا کرنا پڑے۔
انہوں نے کہاکہ گزشتہ مہینوں میں جب پاکستان نے طورخم اور چمن بارڈرز کو بند کیا تو اُس سے دونوں ملکوں کو کافی تجارتی نقصان ہوا۔ چین اس خطّے میں ایک استحکام لانے والی طاقت کے طور پر کام کررہا ہے اور استحکام کے لیے امن ضروری ہے۔
انہوں نے نے کہاکہ چین کو گوادر کی بندرگاہ تک پہنچنے کے لیے مختصر ترین راستہ پاکستان کے شمال سے خیبرپختونخوا سے ہوتا ہوا بلوچستان سے گزرتا ہے اور یہ علاقہ امن و امان کے مسائل کا گڑھ ہے اور چین بطور ایک سہولت کار کے کام کر رہا ہے کیونکہ اُس کا اپنا مفاد بھی وابستہ ہے۔ دوسرا یہ کہ وسط ایشیائی ریاستوں کے ساتھ زمینی راستے افغانستان سے ہو کر گزرتے ہیں تو چین اس خطّے میں امن امان کے لیے مخلص ہے۔
یہ بھی پڑھیں پاکستان اور افغانستان: تاریخ، تضاد اور تعلقات کی نئی کروٹ
فخر کاکاخیل نے کہاکہ پاکستان، افغانستان اور ایران کو سمجھ آ چُکی ہے کہ پڑوسی نہیں بدلے جا سکتے اور اب ان تینوں ممالک کے درمیان پرامن بقائے باہمی کے حوالے سے بہتر سوجھ بوجھ بتدریج آتی چلی جا رہی ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
wenews افغان طالبان افغانستان بھارت بھارت افغانستان تعلقات پاکستان پاکستان بھارت کشیدگی چین سہ فریقی مذاکرات سی پیک وی نیوز.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: افغان طالبان افغانستان بھارت بھارت افغانستان تعلقات پاکستان پاکستان بھارت کشیدگی چین سہ فریقی مذاکرات سی پیک وی نیوز پاکستان اور افغانستان کے اور افغانستان کے درمیان افغانستان کے ساتھ سہ فریقی مذاکرات میں افغانستان افغانستان کو افغان طالبان دہشتگردی کے میں پاکستان کہ پاکستان پاکستان کے نے کہاکہ بھارت کے کہ افغان انہوں نے چین کے مئی کو ہے اور کے بعد کے لیے نے کہا
پڑھیں:
روس، یوکرین کے درمیان براہ راست مذاکرات کا دور مکمل، جنگ بندی پر کوئی معاہدہ نہ ہو سکا
استنبول میں یوکرین اور روس کے درمیان 3 سال بعد براہ راست مذاکرات ہوئے جو 2گھنٹے تک جاری رہے تاہم مذاکرات میں جنگ بندی پر کوئی معاہدہ نہ ہو سکا۔
غیر ملکی میڈیا کے مطابق ترکیہ کی میزبانی میں 2022 کے بعد روس اور یوکرینی حکام کے درمیان پہلی بار براہ راست مذاکرات ہوئے جس میں ترک وزیر خارجہ اور انٹیلی جنس ایجنسی کے سربراہ نے بھی شرکت کی۔
رپورٹ کے مطابق اس حوالے سے ترک وزارت خارجہ کے ذرائع نے بتایا کہ یوکرین اور روس کے درمیان مذاکرات کا یہ دور مکمل ہوگیا ہے اور دونوں ممالک کے درمیان2گھنٹے بات چیت جاری رہی۔
رپورٹ کے مطابق یوکرین 4 سال سے جاری جنگ کے خاتمے کے لیے غیر مشروط جنگ بندی چاہتا ہے جب کہ روس کا کہنا ہے کہ وہ یوکرین کے ساتھ تنازع کی بنیادی وجوہات کو حل کرنا چاہتا ہے۔
استنبول میں امن مذاکرات کا دور ختم ہونے کے بعد خبر ایجنسی سے گفتگو کرتے ہوئے یوکرینی عہدیدار نے کہا کہ آج روس، یوکرین مذاکرات کا مزید کوئی دور طے نہیں لیکن امکان موجود ہے اگر روسی وفد کو ماسکو سے مزید ہدایات ملتی ہیں تو ممکن ہے آج کچھ ہو جائے۔
دوسری جانب یوکرینی صدر ولادیمیر زیلنسکی نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ اگر مذاکرات ناکام ہو جاتے ہیں تو روس کے خلاف سخت اقدامات اٹھانے چاہیے۔
خیال رہے کہ روس یوکرین جنگ میں ہزاروں افراد کی ہلاکت اور اربوں ڈالرز کا انفراسٹرکچر تباہ ہو چکا ہے۔