مسلمانوں کی وقف جائیدادوں پر مودی سرکار کا ڈاکہ
اشاعت کی تاریخ: 19th, May 2025 GMT
اس سال ماہ جنوری میں بھارت کی وسطی ریاست ، مدھیہ پردیش کے تاریخی شہر، اجین میں مقامی حکام نے 2.1 ہیکٹر (5.27 ایکڑ) وسیع اراضی خالی کرنے کے لیے تقریباً 250 جائیدادوں کو بلڈوز کر دیا، جن میں مکانات، دکانیں اور ایک صدی پرانی مسجد بھی شامل تھی۔
یہ زمین مدھیہ پردیش وقف بورڈ کی تھی۔ عربی سے ماخوذ لفظ "وقف" سے مراد ایسی منقولہ یا غیر منقولہ جائیدادیں ہیں … مساجد، اسکول، قبرستان، یتیم خانے، اسپتال اور یہاں تک کہ خالی پلاٹ اور گھر جو مسلمانوں کی طرف سے مذہبی یا خیراتی مقاصد کی خاطر خدا کے لیے عطیہ کیے گئے ہوں۔ اس طرح کی جائیداد کی منتقلی اٹل ہوتی ہے اور ان کی فروخت یا کسی اور قسم کا استعمال ممنوع ہے۔
لیکن اجین کی وقف اراضی کو ایک نام نہاد ’’مہاکال کوریڈور‘‘بنانے کے لیے صاف کر دیا گیا جو شہر کے مشہور مہاکالیشور مندر کے ارد گرد ۱ بلین ڈالر کی لاگت سے بننے والا سرکاری منصوبہ ہے۔
بھارت کم از کم 25 کروڑ سے زیادہ مسلمانوں کا گھر ہے۔ دنیا میں اسی مملکت میں وقف اثاثوں کی سب سے بڑی تعداد موجود ہے ۔ایک تخمینے کی رو سے ان جائیدادوں کی تعداد آٹھ لاکھ بہتر ہزار ہے جو تقریباً چار لاکھ پانچ ہزار ہیکٹر (دس لاکھ ایکڑ) رقبے پر پھیلی ہوئی ہیں۔ ان کی تخمینہ قیمت تقریباً ساڑھے چودہ ارب ڈالر ہے جو پاکستانی کرنسی میں 4074 ارب روپے بنتے ہیں۔ ان کا انتظام ہر ریاست اور وفاق کے زیر انتظام علاقے میں وقف بورڈ کرتے ہیں۔
ایک ساتھ مل کر یہ بھارتی وقف بورڈ ملک کے سب سے بڑے شہری زمیندار ہیں اور جائیدادوں کی تعداد کے اعتبار سے بالترتیب فوج اور ریلوے کے بعد مجموعی طور پر تیسرے نمبر پر ہیں۔
کچھ عرصہ قبل ہندوستانی پارلیمنٹ نے بڑی سرعت سے کئی دہائیوں پرانے وقف ایکٹ میں مجوزہ ترامیم منظور کر لیں جو ان وقف بورڈوں کو کنٹرول کرتا چلا آرہا تھا اور جس نے کئی برسوں کے دوران زیادہ سے زیادہ طاقت ان کے ہاتھ میں دے دی تھی۔ وزیر اعظم نریندر مودی کی ہندو اکثریتی جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی طرف سے تجویز کردہ ترمیمی بل کی منظوری کے بعد بھارتی حکومت کو مسلم وقف املاک پر بے مثال اور بہت وسیع کنٹرول مل ہے۔
بھارتی مسلمانوں کی تنظیموں کا دعوی ہے، مودی انتظامیہ مسلم اقلیتی برادری کو مزید پسماندہ کرنے کے لیے اپنی پارلیمانی طاقت کا استعمال کر رہی ہے۔ بلکہ کئی مسلمان تو یہ کہتے ہیں کہ اس بل کی مدد سے مودی سرکار مسلمانوں کی وقف جائیدادوں پر قبضہ کرنا چاہتی ہے۔
تجویز کردہ ترمیمی بل پر بحث بھارتی ٹیلی ویژن پروگراموں کی گفتگو پر حاوی رہی۔اس دوران کچھ کارکنوں اور وکلا نے درج بالا اجین کیس کو ان گہرے مسائل کی ایک مثال کے طور پر اجاگر جنھوں نے وقف املاک کو طویل عرصے سے دوچار کر رکھا ہے۔مثلاً برسوں کی بدانتظامی جس کے نتیجے میں تجاوزات میں اضافہ ہوا اور اب خدشہ ہے کہ ترمیم شدہ قانون صورت حال مزید خراب کر سکتا ہے۔
براہ راست خلاف ورزی
مدھیہ پردیش سائز کے لحاظ سے بھارت کی دوسری سب سے بڑی ریاست ہے۔یہ پچھلے بائیس سال سے بی جے پی کے زیرِ انتظام رہی ہے، سوائے دسمبر 2018 ء سے مارچ 2020ء تک کے ایک مختصر عرصے میں جب مرکزی کانگریس پارٹی ریاستی اسمبلی میں اکثریت کھونے سے پہلے اقتدار میں تھی۔
دسمبر 2023ء میں ریاست کا وزیر اعلیٰ مقرر ہونے کے بعد سے اجین سے تعلق رکھنے والے بی جے پی کے سیاست دان موہن یادو کمبھ 2028ء کی تیاری کر رہے ہیں جو شہر کی دریائے شپرا کے کنارے ہر بارہ سال بعد منعقد ہونے والی ایک ہندو یاترا ہے۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ اس موقع پر لاکھوں عقیدت مندوں کی آمد متوقع ہے ۔لہذا حکومت نے مہاکلیشور مندر کے ارد گرد مسلمانوں کی وقف املاک کو گراد دیا تاکہ وہاں یاتریوں کے قیام کی جگہیں بنائی جا سکیں۔
ناقدین کا الزام ہے کہ ریاستی حکام نے 1985 ء کی ایک سرکاری دستاویز کو نظر انداز کر دیا جو یہ ثابت کرتی ہے کہ اجین میں مسلمانوں کی جن وقف جائیدادوں کو ڈھایا گیا ان میں ایک مسلم قبرستان واقع تھا اور وہاں ایک تاریخی مسجد بھی بنی تھی جہاں دو ہزار نمازی عبادت کر سکتے تھے۔ پچھلے برسوں کے دوران سیاسی روابط رکھنے والے بااثر بلڈرز نے وہاں رہائشی کالونی کے لیے غیر قانونی طور پر پلاٹ فروخت کیے۔ اس غیرقانونی سرگرمی کا نتیجہ یہ نکلا کہ جنوری میں خود حکومت نے 250 سے زائد مستقل تعمیرات منہدم کر دیں۔
سرکاری دستاویز سے انکشاف ہوتا ہے کہ جون 2023ء میں، اجین میں محکمہ محصولات کے ایک افسر نے وقف زمین پر قبضہ کرنے کے ریاستی انتظامیہ کے منصوبے پر اعتراض کیا۔ اپنے نوٹ میں افسر نے لکھا کہ مکینوں نے انہیں 1985ء کا گزٹ نوٹیفکیشن دکھایا، جس سے ثابت ہوا کہ یہ ایک وقف اراضی ہے۔
افسر نے تجویز پیش کی کہ اراضی حاصل کرنے کے لیے ریاستی وقف بورڈ سے ’’نو آبجیکشن سرٹیفکیٹ‘‘ حاصل کیا جانا چاہیے۔ تاہم ایک ماہ بعد اجین کی ضلعی انتظامیہ نے ایک حکم نامہ جاری کر دیا جس میں کہا گیا کہ "جب [زمین] سماجی مقصد کے لیے حاصل کی جائے تو اجازت کی ضرورت نہیں ہے"۔
وکیل سہیل خان کہتے ہیں ’’مسلمانوں کی وقف جائیدادیں گرانا وقف ایکٹ کی براہ راست خلاف ورزی ہے۔‘‘ خان نے اْجین کی مقامی انتظامیہ کے قبضے کو عدالت میں چیلنج کر رکھا ہے۔
اگرچہ حکومت نے ان لوگوں کو معاوضہ کے طور پر تین کروڑ تیس لاکھ روپے ادا کیے جن کے مکانات یا دکانیں جنوری میں منہدم کر دی گئی تھیں، لیکن شہر میں بہت سے لوگوں نے پوچھا کہ وقف بورڈ نے اس رقم کا دعویٰ کیوں نہیں کیا ؟ کیونکہ جن لوگوں کو معاوضہ ملا ، انھوں نے مبینہ طور پر پلاٹوں پہ مکانات اور دکانیں قائم کرنے کے لیے غیر قانونی طور پر قبضہ کر رکھا تھا ۔
جب صحافیوں نے مدھیہ پردیش وقف بورڈ کے چیئرمین اور اجین میں بی جے پی کے رہنما سنور پٹیل سے پوچھا کہ انہوں نے حصول کی مخالفت یا معاوضے کا دعویٰ کیوں نہیں کیا؟ تو انہوں نے کہا: "میں وہی کروں گا جو پارٹی حکم دے گی کیونکہ میں یہاں پارٹی کی وجہ سے ہوں۔"
سنور پٹیل کا دعوی ہے، وقف بورڈ نے اجین ضلعی انتظامیہ کو خط لکھ کر زمین پر غیر قانونی مکانات کے مکینوں کو معاوضہ ادا نہ کرنے کا کہا تھا ۔ لیکن اس نے یہ نہیں بتایا کہ اس نے انتظامیہ کو عدالت میں چیلنج کیوں نہیں کیا؟ پٹیل نے یہ بھی تسلیم کیا کہ ریاست میںمسلمانوں کی 90 فیصد سے زیادہ وقف املاک پر یا تو قبضہ کر لیا گیا ہے یا عدالتوں میں ان کے سلسلے میں مقدمے چل رہے ہیں۔
اسی دوران مدھیہ پردیش میں بی جے پی کے ترجمان، آشیش اگروال نے دعویٰ کیا کہ ریاستی حکومت نے اجین کی زمین "اپنی ضرورت اور طے شدہ قوانین کی پیروی کی بنیاد پر حاصل کی ہے "۔ اس نے صحافیوں سے مزید بات کرنے سے انکار کر دیا۔
تاریخ ہمیں معاف نہیں کرے گی
بھارت کے وقف بورڈ 1954ء کے وقف ایکٹ کے تحت قائم کیے گئے ہیں اور تب سے مسلمان حکومت کی مدد سے ان اداروں کو چلا رہے ہیں۔ آنے والے برسوں میں منظور کیے گئے مزید قوانین… 1995ء اور 2013ء نے وقف بورڈ کو مزید اختیارات دیے اور یہاں تک کہ وقف ٹربیونل بھی قائم کیے جو کہ متبادل عدالتیں ہیں اور جن کا مقصد وقف املاک سے متعلق تنازعات کو حل کرنا ہے۔
لیکن حالیہ فروری مہینے کے آخر میں مودی کی کابینہ نے وقف (ترمیمی) بل، 2024ء کے مسودے کو منظوری دے دی جس کے ذریعے پرانے قانون میں چودہ ترامیم کی گئی ہیں۔ کچھ متنازع مجوزہ ترامیم میں وقف بورڈ کے اراکان کے طور پر غیر مسلموں کی تقرری اور ضلعی انتظامیہ کے ساتھ "وقف" سمجھی جانے والی جائیدادوں کا لازمی رجسٹریشن شامل ہے۔
"یہ مساجد اور درگاہوں کی زمینوں پر قبضہ کرنے کا آغاز ہے۔ تاریخ ہمیں معاف نہیں کرے گی۔" اپوزیشن عام آدمی پارٹی (اے اے پی) کے رکن پارلیمنٹ سنجے سنگھ کہتے ہیں۔ سنگھ اس مشترکہ پارلیمانی کمیٹی (جے پی سی) کے 31 اراکان میں سے ایک ہیں جو مجوزہ ترامیم پر اپوزیشن کے اعتراضات پر بحث کرنے کے لیے بنائی گئی ہے۔
سپریم کورٹ کے وکیل، انس تنویر نے صحافیوں کو بتایا کہ اجین کیس "سیاسی مداخلت اور وقف اراضی کے انحطاط کی وسیع تر قومی تشویش کی عکاسی کرتا ہے"۔ انہوں نے کہا کہ بھارت میں وقف املاک کا انتظام طویل عرصے سے بدانتظامی اور تجاوزات سے دوچار ہے۔ جبکہ "وقف (ترمیمی) بل، 2024ء ممکنہ طور پر مسائل کو بڑھا دے گا۔‘‘
لیکن مدھیہ پردیش وقف بورڈ کے چیئرمین، سنور پٹیل نے دعویٰ کیا کہ حکومت کی طرف سے یہ ترامیم "موجودہ مسائل کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے اور بے ضابطگیاں دور کرنے کے لیے لائی گئی ہیں۔‘‘
جان بوجھ کر تصرف
منصوبہ بند ترامیم نے بھارتی مسلمانوں کے مابین ان خدشات کو جنم دیا ہے کہ وہ حکومت کو وقف املاک پر زیادہ کنٹرول دے سکتے ہیں۔ تاہم بہت سے مسلم کمیونٹی لیڈروں اور وکلا کا کہنا ہے کہ موجودہ وقف ایکٹ قانون کے تحت بھی وقف زمینوں پر بڑے پیمانے پر قبضہ کیا گیا ہے۔
ماہرین آشکارا کرتے ہیں کہ مسلم وقف املاک کئی دہائیوں سے عملی طور پر بھارتی حکومت کے کنٹرول میں ہیں۔ اور اس دوران دانستہ طور پر قبضے، بدانتظامی اور بدعنوانی کی کئی مثالیں سامنے آ چکیں۔ وہ ضلعی ریونیو حکام اور دیگر حکام کے ذریعے مسلم وقف املاک کو منظم طریقے سے منتقل کرنے، وسیع پیمانے پر غیر قانونی قبضے اور وقف اراضی کو نجی ملکیت میں تبدیل کرنے کی شکایت کرتے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ مسلمانوں کی زیادہ تر وقف زمینوں یا جائیدادوں کو حکومت کے محکمہ محصولات نے غیر وقف قرار دے دیا ہے۔ یہ ریاستی ادارہ زمین کا ریکارڈ رکھتا اور ان پر ٹیکس وصول کرتا ہے۔
مدھیہ پردیش وقف بورڈ نے 1960ء کی دہائی کے آخر اور 1980ء کی دہائی میں اب تک اپنی جائیدادوں کے دو سروے کیے ہیں۔ وہ ظاہر کرتے ہیں کہ تئیس ہزار سے زیادہ جائیدادوں پر اس کا کنٹرول تھا۔ بعد کے برسوں میں اس نے اپنے ریکارڈ کو ڈیجیٹائز کیا اور بہتر شناخت کے لیے جیو ٹیگ بھی کر دیا۔
ماہرین تاہم یہ بھی الزام لگاتے ہیں کہ حکومت کے محکمہ محصولات نے زمینی ریکارڈ دانستہ پرانا کر دیا ہے جو اکثر آزادی سے پہلے کے سروے پر مبنی ہوتا ہے۔ 1954ء کے وقف ایکٹ کے تحت محکمے کے لیے وقف بورڈ کے سروے کی بنیاد پر اپنے اراضی ریکارڈ میں متعلقہ تبدیلیاں کرنا لازمی قرار دیا گیا تھا، اس کے باوجود ریونیو ریکارڈ کو اپ ڈیٹ نہیں کیا گیا۔ مثال کے طور پر اجین میں 1985ء کے گزٹ کے مطابق 1014 وقف جائیدادیں تھیں، لیکن ان میں سے کوئی بھی وقف املاک کے طور پر ریونیو ریکارڈ میں درج نہیں ۔
"ان 1014 اثاثوں میں سے368 سرکاری ملکیت کے طور پر درج ہیں، 454 نجی کے طور پر اور 192 جایئدادوں کے ریکارڈ یا تو نامکمل ہیں یا مکمل طور پر غائب ہیں۔" مدھیہ پردیش ہائی کورٹ میں اْجین میں مقیم وکیل آشر وارثی کی طرف سے دسمبر میں دائر کی گئی مفاد عامہ کی عرضی میں یہ اعدادوشمار پیش کیے گئے۔
2000ء کی دہائی کے آخر میں شروع ہونے والی زمینی ریکارڈ کی ڈیجیٹلائزیشن نے اس مسئلے کو مزید پیچیدہ کر دیا۔ چونکہ اس سافٹ ویئر میں صرف دو کالم تھے… سرکاری اور نجی لہذا ریونیو ریکارڈ میں مسلمانوں کی وقف جایئدادوں کو ملکیت کے طور پر اکثر سرکاری کالم میں منتقل کر دیا گیا۔
"اس کی وجہ سے بھوپال کی تاریخی موتی مسجد جو1857ء میں بنائی گئی تھی، ایک سرکاری جائیداد کے طور پر رجسٹرڈ ہے جو مضحکہ خیز بات ہے۔" مسعود خان کہتے ہیں جو وقف اراضی کی بحالی کے لیے مہم چلانے والے کمیونٹی گروپ کے رکن ہیں۔ خان نے وقف ٹریبونل میں شکایت درج کرائی ہے، جس میں درخواست کی گئی ہے کہ وہ ریونیو ڈپارٹمنٹ کو ہدایت دے ، وہ اپنے ریکارڈ میں مسجد کے بارے میں تصحیح کرے۔
بدانتظامی اور کرپشن
مسلمانوں کا کہنا ہے کہ اجین پر قبضہ کوئی الگ تھلگ واقعہ نہیں بلکہ مدھیہ پردیش اور ہندوستان کے دیگر حصوں میں جنم لینے والے عام چلن کا حصہ ہے۔
آشر وارثی کی درخواست میں کہا گیا ہے کہ "ریاستی حکومتوں اور اس کے عہدیداروں کی نظروں کے عین سامنے، دن دیہاڑے مسلمانوں کی وقف املاک کی منظم اور جان بوجھ کر لوٹ مار کی جارہی ہے"۔ اس میں مزید کہا گیا ہے کہ 2001ء سے 2023ء کے درمیان مدھیہ پردیش وقف بورڈ اور اقلیتی بہبود کی وفاقی وزارت کے متعدد خطوط اور مدھیہ پردیش حکومت کو اپنے ریونیو ریکارڈ میں تصحیح کرنے کا مشورہ دینے کے باوجود اس نے اس معاملے پر ’’کان بہرے ‘‘ کر لیے ۔یوں وقف املاک کی لوٹ مار بلا روک ٹوک جاری رہنے کی سرکاری اجازت دے دی گئی۔
سپریم کورٹ کے وکیل اور وقف قانون کے ماہر محمود پراچہ کہتے ہیں "محصول کے ریکارڈ کے ساتھ مسلمانوں کی وقف اراضی کے ریکارڈ کا مماثل نہ ہونا ملک بھر میں عام فعل بن چکا۔اسی لیے تجاوزات قائم کرنے والے کھل کر غیر اخلاقی اور غیر قانونی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہیں۔"
جنوری 2021ء میں مدھیہ پردیش کی حکومت نے ایک این جی او کو بھوپال میں مسلمانوں کی 1.
اس سے پہلے کہ وقف بورڈ کا ٹریبونل یا کوئی عدالت حصول پر روک لگانے کا حکم دے، این جی او نے اس کے گرد ایک دیوار تعمیر کی اور پھر وہاں کمیونٹی ہال تعمیر کرنے کے منصوبے کا اعلان کر دیا۔ جب مسلمانوں نے اس ناانصافی کے خلاف احتجاج کیا تو حکام نے علاقے میں کرفیو نافذ کر دیا۔ احتجاج روکنے کے لیے پولیس اہلکاروں کی بھاری نفری تعینات کر دی۔
"وقف ایکٹ ضلعی انتظامیہ اور حکومت کو مسلمانوں کی وقف جائیدادوں پر بنی غیر مجاز تعمیرات ہٹانے کا پابند بناتا ہے، لیکن جب حکومت خود ہی تجاوزات میں ملوث ہو جائے تو قانون کی پاسداری کون کرے گا؟" مسلم وکلا کہتے ہیں۔
وقف بورڈ کے ارکان کا کہنا ہے کہ بھوپال، اندور اور مدھیہ پردیش کے دیگر شہروں میں سینکڑوں مسلم وقف املاک پر یا تو ریاستی حکومت نے قبضہ کر رکھا ہے یا وہ بااثر نجی افراد کے قبضے میں ہیں۔
وقف بورڈ کے ایک رکن نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر صحافیوں کو بتایا’’مدھیہ پردیش پولیس کا ہیڈکوارٹر، بھوپال پولیس کنٹرول روم، ٹریفک پولیس اسٹیشن اور بہت سے دوسرے سرکاری دفاتر وقف کی ملکیتی زمین پر بنائے گئے ہیں،‘‘ انہوں نے مزید کہا کہ ریاستی دارالحکومت سے ایک سو سے زائد قبرستان غائب ہوچکے جہاں کبھی چودہ سو کے قریب قبرستان تھے۔
اس کے علاوہ وقف بورڈ کے ذریعے متعین کردہ جائیداد کے نگراں جنھیں "متوّلی" کہا جاتا ہے، وقف اراضی کی دھوکے دہی سے فروخت یا وقف جائیداد میں غیر مجاز تعمیرات میں ملوث پائے گئے ہیں۔
دسمبر 2024ء میں مدھیہ پردیش پولیس نے اندور میں ایک وقف املاک کے سابق نگراں، ناصر خان نامی ایک شخص کو ذاتی فائدے کے لیے وقف دستاویزات میں جعلسازی کرنے اور شہر میں کروڑوں کی وقف جائیداد فروخت کرنے کے الزام میں گرفتار کیا تھا۔ پولیس کو اس کے گھر سے جعلی لیٹر ہیڈ اور وقف بورڈ کے سرکاری ٹکٹ ملے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ برسوں کی سرکاری اور نجی تجاوزات، بدعنوانی اور بدانتظامی نے بھارت بھر میں پھیلی مسلمانوں کی وقف املاک کو غیر محفوظ بنا دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اب وقف ایکٹ میں نئی ترامیم متعارف کروا کر مودی حکومت قانونی طور پر ان پر قبضہ کرنا چاہتی ہے۔
وکیل پراچہ کہتے ہیں کہ "بڑھتی ہوئی آبادی کے ساتھ زمینوں کی قیمتیں آسمان کو چھو رہی ہیں۔ چونکہ مسلم وقف بورڈ پورے ہندوستان میں اہم مقامات پر بڑے پیمانے پر جائیدادوں کے مالک ہیں، اس لیے مودی سرکار تازہ ترین ترامیم کا استعمال کرتے ہوئے ایک ہی بار میں ان زمینوں پر کنٹرول حاصل کرنا چاہتی ہے۔"
ذریعہ: Express News
پڑھیں:
عالمی برادری دیرینہ تنازعہ کو حل کرانے کیلئے مثبت کردار ادا کرے، صدر آزاد کشمیر
استقبالیہ سے خطاب کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ تنازعہ کشمیر کے حل کیلئے ثالثی کی پیشکش سے بھارت کا مسئلہ کشمیر کو اندرونی معاملہ قرار دینے کا بیانیہ زمین بوس ہو گیا ہے۔ اسلام ٹائمز۔ صدر آزاد جموں و کشمیر بیرسٹر سلطان محمود چوہدری نے کہا ہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی طرف سے مسئلہ کشمیر کو عالمی مسئلہ قرار دینے اور تنازعہ کشمیر کے حل کیلئے ثالثی کی پیشکش سے بھارت کا مسئلہ کشمیر کو اندرونی معاملہ قرار دینے کا بیانیہ زمین بوس ہو گیا ہے جس پر انڈین میڈیا اور مودی سرکار تلملا اُٹھے ہیں، افواج پاکستان نے بھارت کی جنگی جارحیت کا منہ توڑ جواب دیا ہے جس پر پوری قوم کو اپنی بہادر افواج پر فخر ہے اور ہم پاک افواج کو اس کامیابی پر خراج تحسین پیش کرتے ہیں۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے یہاں سہنسہ میں وزیر مال چوہدری محمد اخلاق کی طرف سے اُن کی رہائش گاہ پر اپنے اعزاز میں دیے گئے استقبالیہ سے بطور مہمان خصوصی خطاب کرتے ہوئے کیا۔ اس موقع پر صدر آزاد کشمیر بیرسٹر سلطان محمود چوہدری نے اپنے خطاب میں مزید کہا کہ مسئلہ کشمیر کے اصل فریق کشمیری عوام ہیں اور مسئلہ کشمیر کا حل کشمیری عوام کی مرضی و منشا کے مطابق حل کرانے کے لئے اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق کشمیری عوام کو حق خودارادیت ملنا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ جنوبی ایشیا میں امن کی کنجی مسئلہ کشمیر کے حل میں مضمر ہے لہذا عالمی برادری بالخصوص امریکہ کو اقوام متحدہ کی قراردادوں کے تحت مسئلہ کشمیر کو کشمیری عوام کی خواہشات کے مطابق حل کرانے کے لئے آگے بڑھ کر اپنا کردار ادا کرنا ہو گا تاکہ خطے میں امن کا قیام ممکن ہو سکے۔
انہوں نے کہا کہ بھارت نے پہلگام میں فالس فلیگ آپریشن کو بنیاد بنا کر پاکستانی سرحدوں کی خلاف ورزی کی اور مقبوضہ کشمیر کے اندر بھی کشمیری عوام پر عرصہ حیات مزید تنگ کر دیا ہے، مودی سرکار ہندوتوا کی پالیسیوں پر گامزن ہو کر اکھنڈ بھارت کے خواب دیکھ رہی ہے لیکن افواج پاکستان نے مودی سرکار کی انتہا پسندانہ پالیسیوں، جنگی جنون اور اکھنڈ بھارت بنانے کے خواب کو غلط ثابت کرتے ہوئے بھارت کے ایسے ناپاک عزائم کو خاک میں ملا دیا ہے، مودی سرکار کی اس ناکامی پر اب بھارت کی عوام مودی سرکار سے سوال اور مودی سے استعفیٰ کا مطالبہ کر رہی ہے۔