Express News:
2025-07-05@08:20:53 GMT

مسلمانوں کی وقف جائیدادوں پر مودی سرکار کا ڈاکہ

اشاعت کی تاریخ: 19th, May 2025 GMT

 اس سال ماہ جنوری میں بھارت کی وسطی ریاست ، مدھیہ پردیش کے تاریخی شہر، اجین میں مقامی حکام نے 2.1 ہیکٹر (5.27 ایکڑ) وسیع اراضی خالی کرنے کے لیے تقریباً 250 جائیدادوں کو بلڈوز کر دیا، جن میں مکانات، دکانیں اور ایک صدی پرانی مسجد بھی شامل تھی۔

یہ زمین مدھیہ پردیش وقف بورڈ کی تھی۔ عربی سے ماخوذ لفظ "وقف" سے مراد ایسی منقولہ یا غیر منقولہ جائیدادیں ہیں … مساجد، اسکول، قبرستان، یتیم خانے، اسپتال اور یہاں تک کہ خالی پلاٹ اور گھر جو مسلمانوں کی طرف سے مذہبی یا خیراتی مقاصد کی خاطر خدا کے لیے عطیہ کیے گئے ہوں۔ اس طرح کی جائیداد کی منتقلی اٹل ہوتی ہے اور ان کی فروخت یا کسی اور قسم کا استعمال ممنوع ہے۔

لیکن اجین کی وقف اراضی کو ایک نام نہاد ’’مہاکال کوریڈور‘‘بنانے کے لیے صاف کر دیا گیا جو شہر کے مشہور مہاکالیشور مندر کے ارد گرد ۱ بلین ڈالر کی لاگت سے بننے والا سرکاری منصوبہ ہے۔

بھارت کم از کم 25 کروڑ سے زیادہ مسلمانوں کا گھر ہے۔ دنیا میں اسی مملکت میں وقف اثاثوں کی سب سے بڑی تعداد موجود ہے ۔ایک تخمینے کی رو سے ان جائیدادوں کی تعداد آٹھ لاکھ بہتر ہزار ہے جو تقریباً چار لاکھ پانچ ہزار ہیکٹر (دس لاکھ ایکڑ) رقبے پر پھیلی ہوئی ہیں۔ ان کی تخمینہ قیمت تقریباً ساڑھے چودہ ارب ڈالر ہے جو پاکستانی کرنسی میں 4074 ارب روپے بنتے ہیں۔ ان کا انتظام ہر ریاست اور وفاق کے زیر انتظام علاقے میں وقف بورڈ کرتے ہیں۔

ایک ساتھ مل کر یہ بھارتی وقف بورڈ ملک کے سب سے بڑے شہری زمیندار ہیں اور جائیدادوں کی تعداد کے اعتبار سے بالترتیب فوج اور ریلوے کے بعد مجموعی طور پر تیسرے نمبر پر ہیں۔

کچھ عرصہ قبل ہندوستانی پارلیمنٹ نے بڑی سرعت سے کئی دہائیوں پرانے وقف ایکٹ میں مجوزہ ترامیم منظور کر لیں جو ان وقف بورڈوں کو کنٹرول کرتا چلا آرہا تھا اور جس نے کئی برسوں کے دوران زیادہ سے زیادہ طاقت ان کے ہاتھ میں دے دی تھی۔ وزیر اعظم نریندر مودی کی ہندو اکثریتی جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی طرف سے تجویز کردہ ترمیمی بل کی منظوری کے بعد بھارتی حکومت کو مسلم وقف املاک پر بے مثال اور بہت وسیع کنٹرول مل ہے۔

بھارتی مسلمانوں کی تنظیموں کا دعوی ہے، مودی انتظامیہ مسلم اقلیتی برادری کو مزید پسماندہ کرنے کے لیے اپنی پارلیمانی طاقت کا استعمال کر رہی ہے۔ بلکہ کئی مسلمان تو یہ کہتے ہیں کہ اس بل کی مدد سے مودی سرکار مسلمانوں کی وقف جائیدادوں پر قبضہ کرنا چاہتی ہے۔

تجویز کردہ ترمیمی بل پر بحث بھارتی ٹیلی ویژن پروگراموں کی گفتگو پر حاوی رہی۔اس دوران کچھ کارکنوں اور وکلا نے درج بالا اجین کیس کو ان گہرے مسائل کی ایک مثال کے طور پر اجاگر جنھوں نے وقف املاک کو طویل عرصے سے دوچار کر رکھا ہے۔مثلاً برسوں کی بدانتظامی جس کے نتیجے میں تجاوزات میں اضافہ ہوا اور اب خدشہ ہے کہ ترمیم شدہ قانون صورت حال مزید خراب کر سکتا ہے۔

براہ راست خلاف ورزی

مدھیہ پردیش سائز کے لحاظ سے بھارت کی دوسری سب سے بڑی ریاست ہے۔یہ پچھلے بائیس سال سے بی جے پی کے زیرِ انتظام رہی ہے، سوائے دسمبر 2018 ء سے مارچ 2020ء تک کے ایک مختصر عرصے میں جب مرکزی کانگریس پارٹی ریاستی اسمبلی میں اکثریت کھونے سے پہلے اقتدار میں تھی۔

دسمبر 2023ء میں ریاست کا وزیر اعلیٰ مقرر ہونے کے بعد سے اجین سے تعلق رکھنے والے بی جے پی کے سیاست دان موہن یادو کمبھ 2028ء کی تیاری کر رہے ہیں جو شہر کی دریائے شپرا کے کنارے ہر بارہ سال بعد منعقد ہونے والی ایک ہندو یاترا ہے۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ اس موقع پر لاکھوں عقیدت مندوں کی آمد متوقع ہے ۔لہذا حکومت نے مہاکلیشور مندر کے ارد گرد مسلمانوں کی وقف املاک کو گراد دیا تاکہ وہاں یاتریوں کے قیام کی جگہیں بنائی جا سکیں۔

ناقدین کا الزام ہے کہ ریاستی حکام نے 1985 ء کی ایک سرکاری دستاویز کو نظر انداز کر دیا جو یہ ثابت کرتی ہے کہ اجین میں مسلمانوں کی جن وقف جائیدادوں کو ڈھایا گیا ان میں ایک مسلم قبرستان واقع تھا اور وہاں ایک تاریخی مسجد بھی بنی تھی جہاں دو ہزار نمازی عبادت کر سکتے تھے۔ پچھلے برسوں کے دوران سیاسی روابط رکھنے والے بااثر بلڈرز نے وہاں رہائشی کالونی کے لیے غیر قانونی طور پر پلاٹ فروخت کیے۔ اس غیرقانونی سرگرمی کا نتیجہ یہ نکلا کہ جنوری میں خود حکومت نے 250 سے زائد مستقل تعمیرات منہدم کر دیں۔

سرکاری دستاویز سے انکشاف ہوتا ہے کہ جون 2023ء میں، اجین میں محکمہ محصولات کے ایک افسر نے وقف زمین پر قبضہ کرنے کے ریاستی انتظامیہ کے منصوبے پر اعتراض کیا۔ اپنے نوٹ میں افسر نے لکھا کہ مکینوں نے انہیں 1985ء کا گزٹ نوٹیفکیشن دکھایا، جس سے ثابت ہوا کہ یہ ایک وقف اراضی ہے۔

افسر نے تجویز پیش کی کہ اراضی حاصل کرنے کے لیے ریاستی وقف بورڈ سے ’’نو آبجیکشن سرٹیفکیٹ‘‘ حاصل کیا جانا چاہیے۔ تاہم ایک ماہ بعد اجین کی ضلعی انتظامیہ نے ایک حکم نامہ جاری کر دیا جس میں کہا گیا کہ "جب [زمین] سماجی مقصد کے لیے حاصل کی جائے تو اجازت کی ضرورت نہیں ہے"۔

وکیل سہیل خان کہتے ہیں ’’مسلمانوں کی وقف جائیدادیں گرانا وقف ایکٹ کی براہ راست خلاف ورزی ہے۔‘‘ خان نے اْجین کی مقامی انتظامیہ کے قبضے کو عدالت میں چیلنج کر رکھا ہے۔

اگرچہ حکومت نے ان لوگوں کو معاوضہ کے طور پر تین کروڑ تیس لاکھ روپے ادا کیے جن کے مکانات یا دکانیں جنوری میں منہدم کر دی گئی تھیں، لیکن شہر میں بہت سے لوگوں نے پوچھا کہ وقف بورڈ نے اس رقم کا دعویٰ کیوں نہیں کیا ؟ کیونکہ جن لوگوں کو معاوضہ ملا ، انھوں نے مبینہ طور پر پلاٹوں پہ مکانات اور دکانیں قائم کرنے کے لیے غیر قانونی طور پر قبضہ کر رکھا تھا ۔

جب صحافیوں نے مدھیہ پردیش وقف بورڈ کے چیئرمین اور اجین میں بی جے پی کے رہنما سنور پٹیل سے پوچھا کہ انہوں نے حصول کی مخالفت یا معاوضے کا دعویٰ کیوں نہیں کیا؟ تو انہوں نے کہا: "میں وہی کروں گا جو پارٹی حکم دے گی کیونکہ میں یہاں پارٹی کی وجہ سے ہوں۔"

سنور پٹیل کا دعوی ہے، وقف بورڈ نے اجین ضلعی انتظامیہ کو خط لکھ کر زمین پر غیر قانونی مکانات کے مکینوں کو معاوضہ ادا نہ کرنے کا کہا تھا ۔ لیکن اس نے یہ نہیں بتایا کہ اس نے انتظامیہ کو عدالت میں چیلنج کیوں نہیں کیا؟ پٹیل نے یہ بھی تسلیم کیا کہ ریاست میںمسلمانوں کی 90 فیصد سے زیادہ وقف املاک پر یا تو قبضہ کر لیا گیا ہے یا عدالتوں میں ان کے سلسلے میں مقدمے چل رہے ہیں۔

اسی دوران مدھیہ پردیش میں بی جے پی کے ترجمان، آشیش اگروال نے دعویٰ کیا کہ ریاستی حکومت نے اجین کی زمین "اپنی ضرورت اور طے شدہ قوانین کی پیروی کی بنیاد پر حاصل کی ہے "۔ اس نے صحافیوں سے مزید بات کرنے سے انکار کر دیا۔

تاریخ ہمیں معاف نہیں کرے گی

بھارت کے وقف بورڈ 1954ء کے وقف ایکٹ کے تحت قائم کیے گئے ہیں اور تب سے مسلمان حکومت کی مدد سے ان اداروں کو چلا رہے ہیں۔ آنے والے برسوں میں منظور کیے گئے مزید قوانین… 1995ء اور 2013ء نے وقف بورڈ کو مزید اختیارات دیے اور یہاں تک کہ وقف ٹربیونل بھی قائم کیے جو کہ متبادل عدالتیں ہیں اور جن کا مقصد وقف املاک سے متعلق تنازعات کو حل کرنا ہے۔

لیکن حالیہ فروری مہینے کے آخر میں مودی کی کابینہ نے وقف (ترمیمی) بل، 2024ء کے مسودے کو منظوری دے دی جس کے ذریعے پرانے قانون میں چودہ ترامیم کی گئی ہیں۔ کچھ متنازع مجوزہ ترامیم میں وقف بورڈ کے اراکان کے طور پر غیر مسلموں کی تقرری اور ضلعی انتظامیہ کے ساتھ "وقف" سمجھی جانے والی جائیدادوں کا لازمی رجسٹریشن شامل ہے۔

"یہ مساجد اور درگاہوں کی زمینوں پر قبضہ کرنے کا آغاز ہے۔ تاریخ ہمیں معاف نہیں کرے گی۔" اپوزیشن عام آدمی پارٹی (اے اے پی) کے رکن پارلیمنٹ سنجے سنگھ کہتے ہیں۔ سنگھ اس مشترکہ پارلیمانی کمیٹی (جے پی سی) کے 31 اراکان میں سے ایک ہیں جو مجوزہ ترامیم پر اپوزیشن کے اعتراضات پر بحث کرنے کے لیے بنائی گئی ہے۔

سپریم کورٹ کے وکیل، انس تنویر نے صحافیوں کو بتایا کہ اجین کیس "سیاسی مداخلت اور وقف اراضی کے انحطاط کی وسیع تر قومی تشویش کی عکاسی کرتا ہے"۔ انہوں نے کہا کہ بھارت میں وقف املاک کا انتظام طویل عرصے سے بدانتظامی اور تجاوزات سے دوچار ہے۔ جبکہ "وقف (ترمیمی) بل، 2024ء ممکنہ طور پر مسائل کو بڑھا دے گا۔‘‘

لیکن مدھیہ پردیش وقف بورڈ کے چیئرمین، سنور پٹیل نے دعویٰ کیا کہ حکومت کی طرف سے یہ ترامیم "موجودہ مسائل کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے اور بے ضابطگیاں دور کرنے کے لیے لائی گئی ہیں۔‘‘

جان بوجھ کر تصرف

 منصوبہ بند ترامیم نے بھارتی مسلمانوں کے مابین ان خدشات کو جنم دیا ہے کہ وہ حکومت کو وقف املاک پر زیادہ کنٹرول دے سکتے ہیں۔ تاہم بہت سے مسلم کمیونٹی لیڈروں اور وکلا کا کہنا ہے کہ موجودہ وقف ایکٹ قانون کے تحت بھی وقف زمینوں پر بڑے پیمانے پر قبضہ کیا گیا ہے۔

ماہرین آشکارا کرتے ہیں کہ مسلم وقف املاک کئی دہائیوں سے عملی طور پر بھارتی حکومت کے کنٹرول میں ہیں۔ اور اس دوران دانستہ طور پر قبضے، بدانتظامی اور بدعنوانی کی کئی مثالیں سامنے آ چکیں۔ وہ ضلعی ریونیو حکام اور دیگر حکام کے ذریعے مسلم وقف املاک کو منظم طریقے سے منتقل کرنے، وسیع پیمانے پر غیر قانونی قبضے اور وقف اراضی کو نجی ملکیت میں تبدیل کرنے کی شکایت کرتے ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ مسلمانوں کی زیادہ تر وقف زمینوں یا جائیدادوں کو حکومت کے محکمہ محصولات نے غیر وقف قرار دے دیا ہے۔ یہ ریاستی ادارہ زمین کا ریکارڈ رکھتا اور ان پر ٹیکس وصول کرتا ہے۔

مدھیہ پردیش وقف بورڈ نے 1960ء کی دہائی کے آخر اور 1980ء کی دہائی میں اب تک اپنی جائیدادوں کے دو سروے کیے ہیں۔ وہ ظاہر کرتے ہیں کہ تئیس ہزار سے زیادہ جائیدادوں پر اس کا کنٹرول تھا۔ بعد کے برسوں میں اس نے اپنے ریکارڈ کو ڈیجیٹائز کیا اور بہتر شناخت کے لیے جیو ٹیگ بھی کر دیا۔

ماہرین تاہم یہ بھی الزام لگاتے ہیں کہ حکومت کے محکمہ محصولات نے زمینی ریکارڈ دانستہ پرانا کر دیا ہے جو اکثر آزادی سے پہلے کے سروے پر مبنی ہوتا ہے۔ 1954ء کے وقف ایکٹ کے تحت محکمے کے لیے وقف بورڈ کے سروے کی بنیاد پر اپنے اراضی ریکارڈ میں متعلقہ تبدیلیاں کرنا لازمی قرار دیا گیا تھا، اس کے باوجود ریونیو ریکارڈ کو اپ ڈیٹ نہیں کیا گیا۔ مثال کے طور پر اجین میں 1985ء کے گزٹ کے مطابق 1014 وقف جائیدادیں تھیں، لیکن ان میں سے کوئی بھی وقف املاک کے طور پر ریونیو ریکارڈ میں درج نہیں ۔

"ان 1014 اثاثوں میں سے368 سرکاری ملکیت کے طور پر درج ہیں، 454 نجی کے طور پر اور 192 جایئدادوں کے ریکارڈ یا تو نامکمل ہیں یا مکمل طور پر غائب ہیں۔" مدھیہ پردیش ہائی کورٹ میں اْجین میں مقیم وکیل آشر وارثی کی طرف سے دسمبر میں دائر کی گئی مفاد عامہ کی عرضی میں یہ اعدادوشمار پیش کیے گئے۔

2000ء کی دہائی کے آخر میں شروع ہونے والی زمینی ریکارڈ کی ڈیجیٹلائزیشن نے اس مسئلے کو مزید پیچیدہ کر دیا۔ چونکہ اس سافٹ ویئر میں صرف دو کالم تھے… سرکاری اور نجی لہذا ریونیو ریکارڈ میں مسلمانوں کی وقف جایئدادوں کو ملکیت کے طور پر اکثر سرکاری کالم میں منتقل کر دیا گیا۔

"اس کی وجہ سے بھوپال کی تاریخی موتی مسجد جو1857ء میں بنائی گئی تھی، ایک سرکاری جائیداد کے طور پر رجسٹرڈ ہے جو مضحکہ خیز بات ہے۔" مسعود خان کہتے ہیں جو وقف اراضی کی بحالی کے لیے مہم چلانے والے کمیونٹی گروپ کے رکن ہیں۔ خان نے وقف ٹریبونل میں شکایت درج کرائی ہے، جس میں درخواست کی گئی ہے کہ وہ ریونیو ڈپارٹمنٹ کو ہدایت دے ، وہ اپنے ریکارڈ میں مسجد کے بارے میں تصحیح کرے۔

بدانتظامی اور کرپشن

مسلمانوں کا کہنا ہے کہ اجین پر قبضہ کوئی الگ تھلگ واقعہ نہیں بلکہ مدھیہ پردیش اور ہندوستان کے دیگر حصوں میں جنم لینے والے عام چلن کا حصہ ہے۔

آشر وارثی کی درخواست میں کہا گیا ہے کہ "ریاستی حکومتوں اور اس کے عہدیداروں کی نظروں کے عین سامنے، دن دیہاڑے مسلمانوں کی وقف املاک کی منظم اور جان بوجھ کر لوٹ مار کی جارہی ہے"۔ اس میں مزید کہا گیا ہے کہ 2001ء سے 2023ء کے درمیان مدھیہ پردیش وقف بورڈ اور اقلیتی بہبود کی وفاقی وزارت کے متعدد خطوط اور مدھیہ پردیش حکومت کو اپنے ریونیو ریکارڈ میں تصحیح کرنے کا مشورہ دینے کے باوجود اس نے اس معاملے پر ’’کان بہرے ‘‘ کر لیے ۔یوں وقف املاک کی لوٹ مار بلا روک ٹوک جاری رہنے کی سرکاری اجازت دے دی گئی۔

سپریم کورٹ کے وکیل اور وقف قانون کے ماہر محمود پراچہ کہتے ہیں "محصول کے ریکارڈ کے ساتھ مسلمانوں کی وقف اراضی کے ریکارڈ کا مماثل نہ ہونا ملک بھر میں عام فعل بن چکا۔اسی لیے تجاوزات قائم کرنے والے کھل کر غیر اخلاقی اور غیر قانونی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہیں۔"

جنوری 2021ء میں مدھیہ پردیش کی حکومت نے ایک این جی او کو بھوپال میں مسلمانوں کی 1.

2 ہیکٹر (2.88ایکڑ) وقف اراضی حاصل کرنے کا اختیار دے دیا جس کے ٹرسٹیوں میں بی جے پی کے لیڈر بھی شامل ہیں۔ مسلم اکثریتی علاقے میں واقع اس جگہ کو ریاستی ریکارڈ میں ایک قبرستان کے طور پر نامزد کیا گیا تھا اور اس پر نصف درجن قبریں بنی ہوئی تھیں۔

اس سے پہلے کہ وقف بورڈ کا ٹریبونل یا کوئی عدالت حصول پر روک لگانے کا حکم دے، این جی او نے اس کے گرد ایک دیوار تعمیر کی اور پھر وہاں کمیونٹی ہال تعمیر کرنے کے منصوبے کا اعلان کر دیا۔ جب مسلمانوں نے اس ناانصافی کے خلاف احتجاج کیا تو حکام نے علاقے میں کرفیو نافذ کر دیا۔ احتجاج روکنے کے لیے پولیس اہلکاروں کی بھاری نفری تعینات کر دی۔

"وقف ایکٹ ضلعی انتظامیہ اور حکومت کو مسلمانوں کی وقف جائیدادوں پر بنی غیر مجاز تعمیرات ہٹانے کا پابند بناتا ہے، لیکن جب حکومت خود ہی تجاوزات میں ملوث ہو جائے تو قانون کی پاسداری کون کرے گا؟" مسلم وکلا کہتے ہیں۔

وقف بورڈ کے ارکان کا کہنا ہے کہ بھوپال، اندور اور مدھیہ پردیش کے دیگر شہروں میں سینکڑوں مسلم وقف املاک پر یا تو ریاستی حکومت نے قبضہ کر رکھا ہے یا وہ بااثر نجی افراد کے قبضے میں ہیں۔

وقف بورڈ کے ایک رکن نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر صحافیوں کو بتایا’’مدھیہ پردیش پولیس کا ہیڈکوارٹر، بھوپال پولیس کنٹرول روم، ٹریفک پولیس اسٹیشن اور بہت سے دوسرے سرکاری دفاتر وقف کی ملکیتی زمین پر بنائے گئے ہیں،‘‘ انہوں نے مزید کہا کہ ریاستی دارالحکومت سے ایک سو سے زائد قبرستان غائب ہوچکے جہاں کبھی چودہ سو کے قریب قبرستان تھے۔

اس کے علاوہ وقف بورڈ کے ذریعے متعین کردہ جائیداد کے نگراں جنھیں "متوّلی" کہا جاتا ہے، وقف اراضی کی دھوکے دہی سے فروخت یا وقف جائیداد میں غیر مجاز تعمیرات میں ملوث پائے گئے ہیں۔

دسمبر 2024ء میں مدھیہ پردیش پولیس نے اندور میں ایک وقف املاک کے سابق نگراں، ناصر خان نامی ایک شخص کو ذاتی فائدے کے لیے وقف دستاویزات میں جعلسازی کرنے اور شہر میں کروڑوں کی وقف جائیداد فروخت کرنے کے الزام میں گرفتار کیا تھا۔ پولیس کو اس کے گھر سے جعلی لیٹر ہیڈ اور وقف بورڈ کے سرکاری ٹکٹ ملے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ برسوں کی سرکاری اور نجی تجاوزات، بدعنوانی اور بدانتظامی نے بھارت بھر میں پھیلی مسلمانوں کی وقف املاک کو غیر محفوظ بنا دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اب وقف ایکٹ میں نئی ترامیم متعارف کروا کر مودی حکومت قانونی طور پر ان پر قبضہ کرنا چاہتی ہے۔

وکیل پراچہ کہتے ہیں کہ "بڑھتی ہوئی آبادی کے ساتھ زمینوں کی قیمتیں آسمان کو چھو رہی ہیں۔ چونکہ مسلم وقف بورڈ پورے ہندوستان میں اہم مقامات پر بڑے پیمانے پر جائیدادوں کے مالک ہیں، اس لیے مودی سرکار تازہ ترین ترامیم کا استعمال کرتے ہوئے ایک ہی بار میں ان زمینوں پر کنٹرول حاصل کرنا چاہتی ہے۔"

ذریعہ: Express News

پڑھیں:

سلگتا سندھ اور سندھ سرکار

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

سندھ کے عوام اس وقت امن وامان، صحت، تعلیم اور صاف پانی کی بنیادی انسانی ضروریات سمیت بے شمارمسائل کا شکار ہیں۔ تیل، گیس، کوئلہ، کارونجھر پہاڑ ودیگر قدرتی وسائل سے مالا مال ہونے کے باوجو سندھ کے عوام غربت وافلاس اور محرومیوں کا شکار ہیں۔ ویسے تو سن ستر سے پیپلزپارٹی اقتدار میں ہے لکین گزشتہ سترہ سال سے تسلسل کے ساتھ سندھ میں حکمران ہے، حیرت کی بات ہے حکمرانوں کے اثاثوں ومحلات میں تو مسلسل اضافہ ہوتا جارہا ہے مگر عوام کی حالت روز بہ روز دگر گوں ہوتی جا رہی ہے، وفاقی حکومت بھی این ایف سی ایوارڈ، کراچی کے پینے کے پانی کے منصوبے K۔4 سے لے کر حیدرآباد۔ سکھر موٹروے کی تعمیر تک سندھ کے عوام کے ساتھ انصاف نہیں کرپا رہی ہے جس کی وجہ عوام کے اندر احساس محرومی بڑھ رہا ہے۔ جس پر ان کو ضرور نظرثانی کرنی چاہیے۔ پاکستان صرف ایک صوبے کا نہیں بلکہ چاروں صوبوں کا نام ہے۔ ہم اس کالم میں سندھ کے سلگتے چند اہم مسائل کی نشاندہی کریں گے۔
امن وامان: سندھ میں قیام امن نمبر ون مسئلہ ہے۔ امن سے ہی سندھ کی تعلیم تعمیر و ترقی وابستہ ہے مگر بدقسمتی سے حکومت، سندھ میں امن کے قیام اور جرائم پیشہ افراد کے خاتمے میں ناکام ثابت ہوئی ہے۔ کم وبیش گزشتہ 17 سال سے تسلسل سے پیپلزپارٹی برسر اقتدار ہے۔ پچھلے سال 200 ارب قیام امن کے لیے بجٹ رکھا گیا اور اب اس سال 234 ارب رکھا گیا ہے مگر پولیس رینجرز اور دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں پر قومی دولت خرچ کرنے کے باوجود سندھ کے عوام امن کو ترس گئے ہیں۔ یہ حکومتی ناکامی ہے پورا سندھ ڈاکووں کے حوالے ہے عملاً سندھ میں ڈاکو راج قائم ہے، عوام دن میں اور نہ ہی رات میں محفوظ ہیں۔ گزشتہ روز 19 جون کو کندھکوٹ میں دن دھاڑے جماعت اسلامی سندھ کے نائب حافظ نصراللہ چنا سے ڈاکووں نے گن پوائنٹ پر گاڑی موبائل اور نقد رقم چھینی اور دھڑلے سے فرار ہوئے جب یہ ایک معزز و سیاسی رہنما کے ساتھ دن دیہاڑے ایسی واردات ہو سکتی ہے تو پھر عام آدمی کے ساتھ کیا حال ہوگا۔ سندھ حکومت سے مایوس اور مجبور ہوکر ضلع کشمور سندھ کے عوام دارالحکومت اسلام آباد میں امن کی بھیک مانگنے نیشنل پریس کلب پر دھرنا دیکر بیٹھے رہے، جماعت اسلامی کے مرکزی رہنما لیاقت بلوچ، جے یو آئی کے مولانا عبدالغفور حیدری اور سول سوسائٹی کے لوگوں نے دھرنے کے شرکاء سے اظہار یکجہتی بھی کیا۔ اس سے پہلے بھی جماعت اسلامی کے مرکزی امیر حافظ نعیم الرحمن نے کندھ کوٹ پہنچ کر بدامنی کے خلاف دھرنے میں شرکت کی اور خطاب کیا تھا۔ اس سے قبل جب سراج الحق جماعت اسلامی کے مرکزی امیر تھے تو انہوں نے بھی کندھ کوٹ اور شکارپور میں بدامنی کے خلاف ریلیوں اور دھرنوں کی قیادت اور خطاب کیا تھا، جماعت اسلامی سندھ نے امن کی بحالی کے لیے کئی بار احتجاجی مظاہرے ودھرنے اور سکھر میں ایک بڑی آل سندھ کل جماعتی کانفرنس بھی منعقد کرچکی ہے، جس کی پاداش میں جماعت اسلامی سندھ کی قیادت کو انتقامی کاروایوں اور مقدمات کا بھی سامنا کرنا پڑا۔
کارپوریٹ فارمنگ: حکومت نے سندھ
کے عوام کے احتجاج، سول سوسائٹی، سیاسی جماعتوں کے تحفظات اور مخالفت کے باوجود فوج کی حمایت یافتہ کمپنی کے ساتھ باضابطہ طور پر معاہدہ کے تحت اسے 6 اضلاع میں 52 ہزار ایکڑ سے زائد زمین کارپوریٹ فارمنگ کے لیے دی ہے۔ معاہدے کے تحت سندھ میں مقامی انتظامیہ نے تقریباً 52 ہزار 713 ایکڑ بنجر زمین کی نشاندہی کی ہے، اس میں خیرپور میں 28 ہزار ایکڑ، تھرپارکر میں 10 ہزار ایکڑ، دادو میں 9 ہزار 305 ایکڑ، ٹھٹھہ میں ہزار ایکڑ، سجاول میں 3 ہزار 408 ایکڑ اور بدین میں ہزار ایکڑ زمین شامل ہے، یہ تمام زمین ’گرین پاکستان انیشی ایٹو‘ کو عملی جامہ پہنانے کے لیے آئندہ 20 برس کے لیے مذکورہ کمپنی کے حوالے کی، اس کا مقصد ملک میں کارپوریٹ فارمنگ کا تصور لا کر زرعی طریقوں کو جدید شکل میں ڈھالنا ہے۔ سندھ کے وزیراعلیٰ وپیپلزپارٹی قیادت اس کو نگران حکومت کی کارستانی قرار دیتے ہیں اگر ایسی بات ہے تو سندھ حکومت اسی معاہدے کو ختم کرنا کا اختیار رکھتی تھی۔ سندھ حکومت نے کارپوریٹ فارمنگ کے لیے مفت زمین بھی دی، سندھ کے حصے کا پانی بھی دیا اور اب کارپوریٹ فارمنگ کے لیے سندھ کے بجٹ سے 4 ارب روپے بھی دیے ہیں، گویا کمپنی کو سندھ دشمن منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کے لیے بجٹ سے زمین کاشت کرنے کے لیے کھاد، گاڑی، ٹریکٹر، تھریشر فراہم کی جا رہی ہے! سندھ کے وسائل کارپوریٹ فارمنگ کے نام پر کمپنی سرکار کے حوالے کرنا ناقابلِ قبول ہے یہ ایک حقیقت ہے کہ پیپلز پارٹی نے ہمیشہ سندھ کی قیمت پر اقتدار کا سودا کیا۔ سندھ حکومت نے بجٹ میں کارپوریٹ فارمنگ کے لیے چار ارب روپے مختص کر کے سندھ کے عوام کے ساتھ سنگین دھوکا کیا ہے۔ پیپلز پارٹی کا ماضی بھی گواہ ہے، ہوس اقتدار میں دوہرے بلدیاتی نظام، چشمہ جہلم لنک کینال منصوبہ، اور صدارتی محل میں صدر پاکستان کی جانب سے چھے کینالوں کی منظوری جیسے فیصلے سندھ کے مفاد کے خلاف کیے تھے۔ اب کارپوریٹ فارمنگ کے نام پر سندھ کے عوام کے پیسے سے سندھ کی زمینیں کمپنی سرکار کے حوالے کی جائیں گی، اور صدیوں سے ان زمینوں پر آباد ہزاروں مقامی افراد کو بیدخل کر کے دربدر کر دیا جائے گا۔
پانی: بھارتی آبی جارحیت، موسمیاتی تبدیلی اور ٹیل کی وجہ سندھ میں پانی کی کمی کی وجہ سے آبادگار و کاشت کار سخت پریشان ہیں۔ ملک کے سب سے بڑے شہر کراچی، حیدرآباد سکھر سمیت سندھ کے کئی شہروں اور اضلاع کے عوام پینے کے پانی کے لیے بھی سراپا احتجاج ہیں۔ دوسری جانب سندھ کے سخت احتجاج و مخالفت پر سی سی آئی اجلاس میں وزیراعظم شہباز شریف کی جانب سے دریائے سندھ پر متنازع نہروں پر کام بند کرنے کے اعلان کے باوجود چولستان و چوبارہ کے لیے حکومت پنجاب کے بجٹ میں رقم مختص کرنا پاکستان دشمنی ہے۔ اس فیصلے نے پیپلزپارٹی کے جشن اور مراد علی شاہ کے دعووں کا پول کھول دیا ہے۔ سندھ کے عوام کبھی بھی اپنے حق سے دستبردار نہیں ہوں گے۔ دریائے سندھ ہمارے لیے لائف لائن ہے۔ پنجاب حکومت کے فیصلے سے پاکستان کی قومی وحدت کو ضرب لگنے کا خدشہ ہے۔ اس وقت بھی کارپوریٹ فارمنگ کے نام پر سندھ کی زمینوں پر قبضوں اور متنازع نہروں کی تعمیرکے خلاف سندھ میں احتجاج کا سلسلہ جاری ہے۔
صحت: صحت و تعلیم جیسی بنیادی سہولت اپنے عوام کو مفت میں فراہم کرنا حکومت کی اولین ذمے داری ہے، دنیا بھر میں یہ سہولتیں حکومتیں دیتی ہیں مگر سندھ حکومت کی نااہلی کی وجہ سے یہاں دونوں پرائیویٹ اور مہنگی ہیں۔ گزشتہ سال 292 ارب روپے بجٹ میں رکھنے کے باوجود سرکاری اسپتالوں میں ویکسین نہیں ملتی۔ ایک طرف بلاول زرداری اور پیپلز پارٹی کی قیادت سندھ میں گمس و این آئی سی وی ڈی، سمیت عالمی معیار کی صحت کی سہولتوں کا دعوی ٰ کرتے نہیں تھکتے تو دوسری جانب ضلع خیرپور کے ایم پی اے نعیم کھرل کے بیرون ملک علاج کے لیے 7 کروڑ روپے منظور کیے جاتے ہیں۔ بجٹ سیشن کے دوران ایم پی اے جمیل سومرو لاڑکانہ میں جدید اسپتال کا مطالبہ کرتے ہیں اس بجٹ میں لاڑکانہ میں جدید سہولتوں سے آراستہ اسپتال کی تعمیر کے لیے 10 ارب رکھے گئے ہیں۔ اندازہ لگائیں کہ 17 سال سے اقتدار میں ہونے کے باوجود پیپلز پارٹی اپنے شہر میں ایک جدید سہولتوں سے آراستہ اسپتال نہیں بنا سکی تو باقی شہروں کی کیا صورتحال ہوگی۔ البتہ کرپشن میں سندھ حکومت نے رکارڈ قائم کیے ہیں۔ حال ہی میں ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل پاکستان نے قومی ادارہ برائے امراض قلب کراچی (این آئی سی وی ڈی) میں کرپشن پر وزیراعلیٰ سندھ کو خط لکھا ہے، جس کے مطابق اس ادارے میں بے ضابطگیاں پائی گئیں جن میں تعیناتیاں، من پسند افراد کو نوازنے، اضافی اخراجات، پروکیومنٹ پر پیرا لگائے گئے ہیں اور قومی خزانے کو 40 ارب کے نقصان کا ذکر کیا گیا ہے۔ یہ صحت کے شعبے میں صرف ایک ادارے میں کرپشن کا حال ہے۔

تعلیم: تعلیم کی مد میں گزشتہ سال 458 ارب روپے رکھے گئے تھے مگر ایمرجنسی کے باوجود اس وقت بھی 78 لاکھ سے زائد بچے اسکول سے باہر ہیں۔ 25 ہزار اساتذہ غیر حاضر ہیں۔ تعلیمی ادارے واش روم، پانی اور چار دیواری سمیت بنیادی سہولت سے محروم ہیں۔ اس مرتبہ 613 ارب تعلیم کا بجٹ رکھا گیا ہے، مگر سندھ کا تعلیمی انفرا اسٹرکچر تباہ ہے۔ 613 ارب روپے کا مطلب کل بجٹ کا 18 فی صد تعلیم کے لیے رکھا گیا ہے۔ سندھ میں کرپشن، جعلی بھرتیوں اور ملازمین کی تنخواہیں و پینشن کی خوربرد کے مقدمات اور نیب میں تحقیقات بھی اسی محکمہ کے خلاف چل رہی ہیں۔ چاروں صوبوں میں دو ہزار ارب سے زیادہ کا بجٹ ہے مگر تعلیمی صورتحال سے ہر باشعور فرد اچھی طرح واقف ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق سندھ میں 5 سے 16 سال کی عمر کے بچوں کی کل تعداد 16,891,397 ہے! جن میں سے، اسکول سے باہر بچوں کی تعداد 7,818,248 (46.2 فی صد) ہے یعنی تقریباً ہر دوسرا بچہ تعلیم سے محروم ہے۔ مصنوعی ذہانت کے اس دور میں یہ ہے سندھ کا تعلیمی نظام!
مورو واقعہ: جتوئی خاندان کے خلاف انتقامی کاروائی: مورو ضلع نوشہرو فیروز میں متنازع نہروں کے ایشو پر احتجاج کے دوران پولیس نے براہ راست گولیاں چلائیں جس کے نتیجے میں احتجاج پرتشدد ہوگیا اور وزیر داخلہ کے بنگلے کو بھی نقصان پہنچا۔ مظاہرین میں سے دو افراد شہید ہوگئے۔ حکومتی نااہلی اور انتظامیہ کی غلط حکمت عملی کی وجہ سے صورتحال خراب ہوگئی۔ اس کی آڑ میں جتوئی خاندان پر انتقامی کارروائیوں کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع کردیا گیا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ پیپلز پارٹی کی حکومت مخالفین کے خلاف انتقامی کارروائیوں میں اندھی ہوگئی ہے۔ سابق وزیراعظم غلام مصطفیٰ جتوئی کے بیٹے سابق وفاقی وزیر غلام مرتضیٰ جتوئی سمیت خاندان پر جھوٹے مقدمات اور سندھ کے پانی پر ڈاکا کے خلاف پر امن احتجاج کرنے والوں پر براہِ راست گولیاں چلانا شہید ہونے والے افراد کی لاشوں پر قبضہ اور بجرانی لغاری گوٹھ پر دھاوا بول کر گھروں کو مسمار اور مقدمات قابل تشویش اور غیر جمہوری و غیر انسانی رویہ ہے۔ ریاست و حکومت کے خلاف سرگرمیوں کے اگر ان پر کوئی الزامات ہیں تو آئین و قانون کے مطابق عملدرآمد کیا جائے۔
بجٹ: مالی سال 25/26 کے لیے ساڑھے 34 ارب کا بجٹ رکھا گیا ہے۔ وفاق کی طرح سندھ کا بجٹ بھی اعدادو شمار کے گورکھ دھندے کے سوا کچھ نہیں ہے۔ ملک کے سب سے بڑے شہر کراچی کو نظر انداز کیا گیا ہے۔ 3000 ارب کا ٹیکس دینے والے شہر کو K- 4 منصوبہ کے لیے صرف 3 ارب رکھے گئے ہیں۔ مطلب وفاقی اور صوبائی حکومت، کے فور منصوبہ کو عملی طور ختم کرچکی ہے۔ تاکہ لائن میں پانی آنے کے بجائے عوام ٹینکر کے ذریعے پانی خریدیں۔ ماہرین کے مطابق اگر 40 ارب رکھے جاتے تو یہ منصوبہ پایہ تکمیل تک پہنچ سکتا تھا۔ سندھ حکومت کی سنجیدگی کا اندازہ اس سے بات سے لگائیں کہ وزیر اعلیٰ ہائوس کے چائے بسکٹ کے لیے 1 ارب 32 کروڑ رکھے گئے تھے اب مزید اضافہ کیا گیا ہے اسی طرح گورنر ہائوس کے چائے بسکٹ کے لیے 1 ارب 18 کروڑ رکھے گئے ہیں۔ سندھ میں کوئی ایسا ماڈل شہر نہیں بن سکا جس ڈرینج سسٹم، انفرا اسٹرکچر بہتر اور گلی محلے صاف ستھرے نظر آئیں۔ سندھ اسمبلی نے مالی سال 2025-26 کے لیے 156 ارب روپے مالیت کا ضمنی بجٹ منظور کر لیا۔ حکومت کی جانب سے 84 مطالبات زر پیش کیے گئے، جبکہ اپوزیشن کی جانب سے پیش کی گئی 735 کٹوتی کی تحاریک کو مسترد کر دیا گیا۔ ملک وقوم کی بہتری کے بجائے ذاتی مفادات کو ترجیح دینے کا حکومتی رویہ عوام ملک اور سیاست کے لیے خطرناک ہے۔ عوام مہنگائی بدامنی بجلی گیس کے بحران کا شکار ہیں اور حکومتی ٹولے کی عیاشی وفضول خرچیاں ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہی ہیں۔ مطلب یہ کہ چہرے تبدیل ہوتی رہتے ہیں، حکمرانوں کے بینک بیلنس ومحلات میں اضافہ ہوتا جاتا ہے مگر عوام کی قسمت میں کوئی تبدیلی نہیں آتی۔ حقیقی تبدیلی اور سندھ کی ترقی کے لیے عوام کو شعور کا مظاہرہ اور اسمبلی سمیت ہر شعبے میں اہل ودیانتدار قیادت کا انتخاب کرنا ہوگا۔

متعلقہ مضامین

  • مودی سرکار کے ساتھ ساتھ بھارتی نوجوان بھی جھوٹ میں ماہر، جنگ میں پاکستانی جواب کو کام سے جان چھڑانے کا بہانہ بنا لیا
  • کرکٹ میں سیاست، مودی سرکار نے بھارتی ٹیم کا دورہ بنگلا دیش ملتوی کردیا
  • سلگتا سندھ اور سندھ سرکار
  • پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ غریب عوام کی جیبوں پر ڈاکہ ہے، صابر حسین اعوان
  • مودی سرکار کی خارجہ پالیسی پر شدید تنقید
  • مودی سرکار کی خارجہ پالیسی نعرے بازی تک محدود
  • مودی سرکار کی خارجہ پالیسی نعرے بازی تک محدود؛بھارت عالمی سطح پر تنہائی کا شکار
  • مودی نے مسلمانوں سے سر چھپانے کا حق بھی چھین لیا، صرف ایک ضلع میں 700 سے زائد گھر مسمار
  • بھارت کے سابق جرنیل کی اپنی مسلح افواج اور مودی سرکار کو اہم وارننگ
  • مودی سرکار کا ’اذان‘ پر نیا وار، مساجد کے لاؤڈ اسپیکر پر پابندی