پاکستانی عورت کی زندگی میں سب سے بڑا سوال یہی ہوتا ہے کہ وہ شادی کو ترجیح دے گی یا کیریئر کو؟
یہ سوال بظاہر سادہ معلوم ہوتا ہے، لیکن جب ہم اس کی تہہ میں جاتے ہیں تو احساس ہوتا ہے کہ یہ ایک گہرا سماجی نفسیاتی اور تہذیبی مسئلہ ہے۔
پاکستان جیسے روایتی معاشرے میں کسی بھی خاتون کے لیے ذاتی ترجیحات اکثر اجتماعی توقعات کے نیچے دب جاتی ہیں۔ یہاں عورت کی کام یابی کا معیار آج بھی اکثر اس کی شادی شدہ زندگی کی کام یابی سے ہی ناپا جاتا ہے اور اگر وہ اپنی پیشہ وارانہ زندگی میںکام یاب ہو بھی گئی ہے، تو اس کی یہ کام یابی بھی گویا مرد کی کام یابی سے مشروط کر دی جاتی ہے جب کہ مرد کی کام یابی کو اس کی محنت کا صلہ سمجھا جاتا ہے، یہی سوچ عورت کے حوصلے کو توڑنے میں کلیدی کردار ادا کرتی ہے۔
ایک لڑکی جب جوان ہوتی ہے، تو اس کے لیے سب سے پہلے جس چیز کی تیاری کی جاتی ہے وہ ’شادی‘ ہے، چاہے وہ کتنی بھی تعلیم یافتہ ہو، کتنی بھی باصلاحیت ہو، مگر خاندان اور معاشرہ اس سے یہی امید باندھ لیتا ہے کہ اس کی اصل پہچان ایک اچھی بیوی اور بہو بننے میں ہے۔
ایسے میں اگر وہ اپنی پیشہ ورانہ زندگی کو سنوارنے کی کوشش کرے، تو اکثر اسے یہ نصیحت بہت ہی تسلی سے کر دی جاتی ہے، نوکری کا کیا ہے، شادی کے بعد سب چھوڑنا ہی پڑے گا، لڑکیوں کا اصل مقام تو چولھا چکی ہے، اور یہی ذہنیت کیرئیر بنانے کی راہ میں رکاوٹ پیدا کرتی ہے۔ اس روایتی اور جدید اقدار کے ٹکراؤ نے لڑکیوں کے لیے پہلے شادی یا پہلے کیریئر کا فیصلہ مزید پیچیدہ بنا دیا ہے۔
ایک طرف خاندانی اور سماجی توقعات ہیں، جو شادی کو عورت کی بنیادی ذمہ داری قرار دیتی ہیں اور 18 سال کے بعد تو ان پر یہ دباؤ بڑھا دیا جاتا ہے کہ وہ جلد از جلد شادی کر کے گھر گرہستی سنبھال لیں، تو دوسری طرف کالج سے یونیورسٹی میں اعلیٰ تعلیم کی خاطر جانے والی لڑکیاں اپنے خوابوں اور صلاحیتوں کو عملی جامہ پہنانے کی خواہش رکھتی ہیں، کیوں کہ اعلیٰ تعلیم ان کا صرف خواب ہی نہیں ہوتی، بلکہ وہ اپنی پیشہ ورانہ ترقی کے امکانات بھی اس میں روشن دیکھتی ہیں، جو انھیں خود مختاری اور شناخت فراہم کرتے ہیں۔
یہ مسئلہ کسی ایک طبقے تک محدود نہیں۔ چاہے دیہات ہوں یا شہری علاقے، ہر جگہ ایک لڑکی اس سوال کا سامنا کر رہی ہے کہ آیا اُسے جلد شادی کر لینی چاہیے یا اپنی تعلیم اور کیریئر کو ترجیح بنانا چاہیے۔ بعض خاندانوں میں لڑکیوں کو اعلیٰ تعلیم دلوائی جاتی ہے، مگر جب بات نوکری یا خودمختاری کی آتی ہے، تو یہی خاندان ایک روایتی کردار کی توقع کرتے ہیں، جہاں عورت شادی کے بعد صرف گھر اور بچوں کی دیکھ بھال کرے۔
دوسری طرف کچھ خواتین ایسی بھی ہیں، جو شادی اور کیریئر دونوں میں توازن پیدا کرنے کی کوشش اکیلے کر رہی ہوتی ہیں۔ شوہر کا تعاون نہ ہونے کے برابر ہوتا ہے، کیوں کہ شوہر خاتون سے یہ توقع کرتا ہے کہ وہ اپنی نوکری ترک کر دے یا کم از کم اپنے کیریئر کو محدود کر لے، تاکہ گھریلو ذمہ داریوں میں کوئی کمی نہ آئے۔ وہیں کچھ ایسے بھی شوہر ہیں، جو بیوی کی پیشہ ورانہ ترقی کی حمایت تو کرتے ہیں، لیکن ان کی تعداد بہت کم ہے اور انھیں بھی سماجی دباؤ کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
یوں ہمارے سماج میں شادی کے بعد کیرئیر بناتی لڑکی کے لیے بے شمار چیلنج ہیں، سسرال اور شوہر کی رضامندی حاصل کرنا، بچوں کی پرورش کے ساتھ پیشہ ورانہ ذمہ داریاں نبھانا، اور سب سے بڑھ کر معاشرتی دباؤ جھیلتے جھیلتے وہ ذہنی دباؤ کا شکار ہونے لگتی ہیں، ان سے ہمیشہ یہ توقع کی جاتی ہے کہ وہ گھر اور دفتر دونوں جگہ بہترین کارکردگی دکھائیں، جب کہ ہر وقت بہترین کارکردگی دکھانا ممکن نہیں ہے۔
نفسیاتی طور پر یہ مسئلہ عورت کے لیے خاصا پیچیدہ بن جاتا ہے۔ وہ ایک طرف اپنے خوابوں کو ترک کرنے پر افسوس محسوس کرتی ہے، تو دوسری طرف سماجی توقعات پر پورا نہ اترنے پر خود کو ہی قصوروار سمجھنے لگتی ہے۔ اور شدید ذہنی کرب میں مبتلا ہو جاتی ہے۔ یہ معاشرتی دُہرے تضادات خواتین کو احساس جرم میں مبتلا کر دیتے ہیں اور تبھی خواتین اپنے کیریئر کی فیصلہ سازی میں ابہام کا شکار ہو جاتی ہیں اور وہ مقام جو اتنی محنت کے بعد حاصل کیا ہوتا ہے، وہ کسی کی ایک اجازت کا محتاج ہو کر رہ جاتا ہے، تب انھیں لگتا ہے کہ ان کی زندگی میں کی گئی ساری محنت اکارت گئی اور پھر اپنی زندگی میں اپنی مرضی کا کوئی بھی فیصلہ لینے میں وہ پر اعتماد نہیں رہتیں۔
اس الجھن کا سب سے تکلیف دہ پہلو یہ ہے کہ لڑکیوں کو اس کے اپنے ہی ہمیشہ یہ باور کراتے ہیں کہ شادی ہی اس کی اصل منزل ہے گویا کہ اس کی تعلیم خواب محنت اور شناخت صرف اس وقت تک اہم ہیں جب تک وہ کسی مرد کے نام کی ہو کر گھر کی چار دیواری میں قید نہ ہو جائے کیریئر کو ہمارے سماجی ڈھانچے میں سوائے ایک ’’’شوق‘‘ سے زیادہ کچھ نہیں سمجھا جاتا، جو شادی کے بعد اکثر خود بخود ہی ختم ہو جاتا ہے یا کر دیا جاتا ہے۔
اس مسئلے کا کوئی ایک حل نہیں، لیکن کچھ نکات ایسے ہیں جو عورت کو بہتر فیصلہ کرنے میں مدد دے سکتے ہیں۔ سب سے پہلے اگر وہ شادی اور کیریئر دونوں کو متوازن رکھنا چاہتی ہے، تو اسے ایک ایسا ساتھی چننا ہوگا، جو اس کی پیشہ ورانہ زندگی کو خوش دلی سے قبول کرے۔
دوسرا خاندانوں کو بھی اپنی سوچ میں لچک پیدا کرنی ہوگی۔ لڑکیوں کو صرف اس لیے اعلیٰ تعلیم سے نہ روکا جائے کہ شادی کے بعد ان کے لیے صرف گھر داری اہم ہے، بلکہ انھیں حقیقی معنوں میں خودمختار بنایا جائے، تاکہ اگر شادی کے بعد کوئی بھی معاشی مسائل آئیں، تو وہ اس سے نبٹنے کے لیے پیشہ وارانہ قابلیت کو بروئے کار لا کر اپنے پیروں پر کھڑی ہو سکیں اور کسی کی محتاج نہ ہوں۔ حکومت اور معاشرتی ادارے بھی اس معاملے میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔
دفاتر اور کام کی جگہوں کو خواتین کے لیے زیادہ دوستانہ بنانا، بچوں کی دیکھ بھال کے لیے مناسب سہولتیں فراہم کرنا، اور گھریلو ذمہ داریوں میں مردوں کی شمولیت کو فروغ دینا، یہ سب ایسے اقدامات ہیں جو شادی اور کیریئر میں توازن پیدا کرنے میں مددگار ثابت ہو سکتے ہیں۔
آخر میں، یہ سمجھنا ضروری ہے کہ شادی اور کیریئر کا معاملہ ایک ذاتی انتخاب ہونا چاہیے، نہ کہ معاشرتی دباؤ کا نتیجہ۔ ہر عورت کی خواہش، حالات اور خواب مختلف ہوتے ہیں، اور ہمیں انھیں ان کی پسند کے مطابق جینے دینا چاہیے۔ تبدیلی آہستہ آہستہ آتی ہے، اگر ہم اپنی سوچ میں وسعت پیدا کریں، تو یہ مسئلہ ایک مخمصے سے نکل کر ایک مثبت انتخاب بن سکتا ہے، جہاں خواتین اپنی صلاحیتوں کو مکمل طور پر استعمال کر کے اپنی زندگی کے فیصلے خود کر سکتی ہیں۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: شادی اور کیریئر شادی کے بعد کی کام یابی پیشہ ورانہ کیریئر کو زندگی میں ہے کہ وہ جاتا ہے وہ اپنی عورت کی ہوتا ہے جاتی ہے کے لیے
پڑھیں:
محبت کی شادی پر رنج، افغان جوڑے کو پشاور میں قتل کردیا گیا
پشاور(نیٹ نیوز) پشاور میں دیر کالونی میں سفاک قاتل نے پسند کی شادی کرنے والے بھانجے اور بھتیجی کو ان کے گھر کے اندر فائرنگ کرکے قتل کر دیا اور فرار ہوگیا۔ پولیس کو رپورٹ درج کراتے ہوئے مقتول کے 19سالہ بھائی طارق حکیم نے بتایا ان کے 18سالہ بھائی عدنان اور ان کی اہلیہ کی ایک سال قبل پسند کی شادی ہوئی جبکہ کرم میں مقیم افغانستان سے تعلق رکھنے والے ان کے ماموں سردار کو اس پر رنج تھا۔ درخواست گزار نے بتایا ماموں 4روزقبل ان کے گھر آیا تھا اور بھائی اور بھابی کو فائرنگ کرکے فرار ہوگیا۔پولیس نے ملزم کی گرفتاری کے لیے کارروائی شروع کر دی ہے۔