تہران کی سڑکوں پر دوڑتی ہوئی لڑکیاں ہاتھوں میں بینر، آنکھوں میں آنسو اور دلوں میں آگ کوئی احتجاج کر رہی ہے ،کوئی خاموش کھڑی ہے مگر سب کی نگاہیں کسی بہترکل کی متلاشی ہیں۔ ایران میں آج جو کچھ ہو رہا ہے وہ فقط ایک ملک کی اندرونی سیاست نہیں بلکہ عورت کے وجود اس کی خود مختاری کی بات ہے۔
دو سال قبل ایک نوجوان لڑکی مہسا امینی صرف اس لیے ماری گئی کہ اس کے اسکارف کا انداز ایران کی اخلاقی پولیس کو پسند نہیں آیا۔ اس ایک موت نے ایک صدی کی خاموشی توڑ دی۔
زن زندگی آزادی فقط نعرہ نہیں رہا ،یہ احتجاج یہ فریاد یہ دعا بن چکا ہے۔مگر آج جب ہم ان بہادر بیٹیوں کی جدوجہد کو خراج دے رہے ہیں تو ضروری ہے کہ ایک بات کو واضح کیا جائے عورت کی آزادی اور فحاشی میں فرق ہے۔ میں عورت کی آزادی کی حامی ہوں، اس کے لباس، رائے زندگی اور خوابوں پر اس کا حق مانتی ہوں۔ مگر میں اس آزادی کے نام پر کسی بھی بے راہ روی، تجارتی جنسیت یا ثقافتی سطحیت کی وکالت نہیں کرتی۔ ہم نے آزادی کی قیمت چکائی ہے، فکری دیوالیہ پن اس کا نعم البدل نہیں ہو سکتا۔
اسی طرح یہ مسئلہ صرف ایران یا کسی مسلمان اکثریتی ملک کا نہیں۔ اگر فرانس میں پولیس ایک لڑکی کے سر سے زبردستی اسکارف اتارتی ہے تو میں اس کے خلاف بھی اسی شدت سے لکھتی ہوں۔ لباس کا انتخاب عورت کا حق ہے، چاہے وہ اسکارف ہو یا اسکارف نہ پہننے کا فیصلہ۔ یہ اختیار نہ مولوی کو ہونا چاہیے نہ مغربی سیکولر ریاست کو۔
سوال صرف ایک ہے کیا ہم عورت کو جیتے جاگتے انسان کے بجائے اب بھی ایک چیز سمجھتے ہیں؟ ریاست ،مذہب، بازار تینوں نے عورت پر قبضہ جمانے کی کوشش کی ہے۔
کہیں اس کا بدن پردے میں قید کر کے تو کہیں اسے نیم برہنہ اشتہارات میں بیچ کر۔ہم عورت کو دیوی بھی کہتے ہیں اور فاحشہ بھی۔ وہ ماں ہو تو قابلِ احترام محبوبہ ہو تو شک کی سزا وار اور اگر وہ احتجاج کرے تو ریاست کا ہدف۔ مگر وہ خاموش کیوں رہے؟ اس کے لہجے میں آگ کیوں نہ ہو؟ایران کی بیٹیاں آج چیخ رہی ہیں کہ ہمیں جینے دو۔ وہ اخلاقی پولیس کے ہاتھوں نہیں اُس سوچ کے ہاتھوں قتل ہو رہی ہیں جو عورت کو سانس لیتا ہوا وجود نہیں مانتی۔ مگر دوسری طرف ہم نے یورپ میں بھی دیکھ لیا کہ جب ایک مسلمان لڑکی حجاب پہننا چاہے تو سیکولر ازم کے علمبردار اس سے بھی خائف ہو جاتے ہیں۔
یہ کیسی دنیا ہے؟ جہاں اگر عورت خود فیصلہ کرے تو وہ مجرم ٹھہرے؟ یہ فیصلہ کوئی مولوی کرے یا کوئی فرانس کا پولیس افسر دونوں غلط ہیں۔ عورت کی آزادی اُس کی مرضی ہے۔ اس کی تعلیم نوکری لباس محبت سب کچھ اس کے اختیار میں ہونا چاہیے۔ ہم یہ مطالبہ کرتے ہیں فریاد نہیں۔
امریکی سیاہ فام شاعرہ Maya Angelou کی نظم I Still Rise ایک ایسی نظم ہے جو ایران، افغانستان، پاکستان، فلسطین، فرانس اور پوری دنیا کی عورتوں کی بازگشت ہے۔
میں پھر بھی اٹھتی ہوں
مایا اینجلو
ممکن ہے کہ تم مجھے تاریخ میں نیچ دکھاؤے
اپنے تلخ، الجھے ہوئے جھوٹوں سے
ہوسکتا ہے تم مجھے خاک میں روند ڈالو
لیکن، پھر بھی، میں بگولے کی مانند آٹھ آؤں گی
کیا میری شوخی تمہیں پریشان کردیتی ہے؟
تمہیں اداسی نے کیوں گھیر لیا ہے؟
اس لیے کہ میں یوں چل رہی ہوں گویا میرے پاس تیل کے کنویں ہیں
جو میری بیٹھک میں تیل خارج کرے ہیں
ہزار چاند اور سورج کی مانند،
مدوجزر کے تیقن کے ساتھ،
جیسے امیدیں امنڈتی ہیں موجوں کی طرح،
میں پھر اٹھتی ہوں۔
کیا تم مجھے ہوا دیکھنا چاہتے تھے؟
سر جھکا ہوا اور نگاہیں زمیں پہ جمی؟
کندھے آنسوؤں کی مانند گرتے ہوئے
میری آہ وزاری سے شکستہ۔
کیا میری سرکشی سے تمہاری توہین ہوتی ہے؟
اسے زیادہ سنجیدگی سے نہ لو
کیونکہ میں یوں ہنستی ہوں گویا میرے پاس
سونے کی کانیں ہوں جو میں نے اپنے آنگن میں کھودی ہیں۔
ممکن ہے تم اپنے الفاظ سے مجھے ہلاک کر ڈالو
اپنی نگاہوں کی کاٹ سے ٹکڑے ٹکڑے کردو
اپنی نفرت سے میری جان لے لو
لیکن، تب بھی، میں صبا کی مانند آٹھوں گی۔
(اس نظم کا اردو ترجمہ ہماری دوست زینت حسام نے کیا ہے۔)
یہ نظم صرف کسی ایک عورت کی نہیں بلکہ یہ ہم سب کی ہے۔ ایران کی آہو دریائی کی، پاکستان کی مختاراں بی بی کی اور فلسطین کی ان بیٹیوں کی جو بارود کے سامنے اپنی آنکھیں بند نہیں کرتیں۔ دنیا کو عورت سے ڈر لگتا ہے کیونکہ جب وہ اپنی آنکھ کھولتی ہے تو سچ بولتی ہے۔ جب وہ قدم اٹھاتی ہے تو روایتیں ہل جاتی ہیں۔ جب وہ لکھتی ہے تو نسلیں جاگتی ہیں۔
ایران کی موجودہ تحریک جو مہسا امینی کی شہادت سے شروع ہوئی، اب صرف لباس کے انتخاب کی جنگ نہیں رہی۔ یہ ایک گہرے سماجی سیاسی اور ثقافتی بحران کی نمایندہ بن چکی ہے۔ ایرانی خواتین برسوں سے اس جبر کا سامنا کر رہی ہیں جو ایک طرف مذہبی انتہا پسندی کے نام پر ان کے جسم اور ذہن پر قبضہ چاہتا ہے اور دوسری طرف ایک ایسی ریاست جو تنقید کو بغاوت سمجھتی ہے، وہ ان سے سانس لینے کا حق بھی چھیننا چاہتی ہے۔ یہ لڑکیاں صرف اس لیے گرفتار کی گئیں کہ وہ ہنستے ہوئے بازار چلی گئیں یا انھوں نے اپنا اسکارف ڈھیلا کر لیا۔ کسی کے ناخنوں پر سرخ پالش تھی تو کسی نے اپنی سالگرہ کی خوشی میں موسیقی بجالی اور اس سب کی سزا کیا ملی؟ کوڑے قید اور خاموشی کی تلقین۔
اس تحریک میں سب سے متاثر کن بات یہ ہے کہ اس کی قیادت نوجوان لڑکیاں کر رہی ہیں۔ وہ جنھوں نے آنکھ کھولی تو آنکھ پر نقاب تھا جن کے ہونٹوں پر پہلا لفظ خاموش لکھا گیا مگر اب وہ چیخ رہی ہیں، گاتی ہیں اور لکھتی ہیں۔ انھوں نے سوشل میڈیا کو بطور ہتھیار استعمال کیا اور اپنی آواز پوری دنیا تک پہنچائی۔ ان کی بہادری کی گونج نیویارک، برلن، لاہور اور استنبول تک سنائی دی۔یہ وہ لڑکیاں ہیں جو جانتی ہیں کہ شاید انھیں کل زندہ نہ رہنے دیا جائے مگر وہ آج سچ بولنا چاہتی ہیں۔ انھوں نے اپنے خوف کو پگھلا کر آگ بنا لیا ہے۔ وہ جل رہی ہیں مگر روشنی دے رہی ہیں۔ وہ کہتی ہیں’’ ہمیں مت بتاؤ کہ ہمیں کیا پہننا ہے،ہمیں یہ بتاؤ کہ تمہیں عورت سے اتنا خوف کیوں ہے؟‘‘یہ سوال صرف ایران کے لیے نہیں، پوری دنیا کے لیے ہے۔
یہ بھی نہ بھولیں کہ ایرانی معاشرے میں خواتین نے ہمیشہ علمی ادبی اور ثقافتی میدانوں میں گراں قدر خدمات انجام دی ہیں۔ فوروق فرخ زاد جیسی شاعرہ سیمین دانشور جیسی ادیبہ اور نسرین ستودہ جیسی وکیل اس بات کی دلیل ہیں کہ جبر کے سائے میں بھی روشنی پیدا کی جا سکتی ہے۔ آج کی نسل انھی چراغوں سے روشنی لے کر آگے بڑھ رہی ہے۔ انھوں نے ثابت کیا ہے کہ وہ صرف مظلوم نہیں مزاحمت کی علامت بھی ہیں اور یہی مزاحمت تاریخ کو بدلتی ہے۔ ایران کی بیٹیاں آج کی دنیا کے ضمیر کو جھنجھوڑ رہی ہیں۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: انھوں نے کی مانند ایران کی رہی ہیں عورت کی ہیں جو
پڑھیں:
ایران اسرائیل جنگ بندی
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
ایران اسرائیل جنگ بندی کا اعلان ہوگیا ہے، واشنگٹن کا فیصلہ یہی کہ اب دونوں میں جو فریق بھی خلاف وزی کرے گا، وہ امریکا کے غضب کا شکار بنے گا، امریکا کا یہ اعلان محض ایک گیڈر بھبکی ہے، وہ اسرائیل کے سامنے کیسے اور کیوں غضب ناک ہوگا؟ یہ وہی امریکا ہے جو اسرائیل کو بچانے کے لیے میدان میں کودا تھا، بہر حال اس وقت جنگ بندی نافذ العمل ہے، بہتر یہی ہے کہ جنگ بندی رہے، مگر یہ امریکا جو جنگ بندی کی خلاف ورزی پر غضب ناک ہونے کا اور برے نتائج کا سامنا کرنے کا چیلنج دے رہا ہے وہ اسرائیل کو فلسطینیوں پر ظلم سے اسے باز کیوں نہیں کر رہا؟ بہت واضح ہے کہ جنگ بندی کیوں ہوئی؟ اسرائیلی حکومت کہہ رہی ہے اور مسلسل دعویٰ کر رہی ہے کہ اس نے جنگ بندی کے لیے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی تجویز اُس وقت قبول کی جب ایران پر حملوں کے مقاصد حاصل کیے جا چکے تھے اس کے خیال میں ایران کے جوہری ہتھیاروں اور بیلسٹک میزائل پروگرام کا خاتمہ ہو چکا ہے۔ چلیے دیکھتے ہیں کہ سچ کیا ہے؟ ابھی ذرا گرد بیٹھ جانے دیں، ایران بھی اپنا حساب کتاب لگا لے پھر اس کے فیصلوں کو دیکھیں گے کہ وہ کیا فیصلہ کرتا ہے۔
امریکا کے ایرانی جوہری تنصیبات پر حملوں کے بعد پوری دنیا کو یہی لگ رہا تھا کہ مشرقِ وسطیٰ جنگ اب پھیل جائے گی، پورا خطہ اس کے شعلوں کی لپیٹ میں آ جائے گا، اچانک جنگ بندی کا اعلان سامنے آ گیا، ابھی جنگ بندی ہوئی ہے سچ سامنے آنا ہے، ہر ملک دیکھ رہا ہے کہ اب کیا ہونے جارہا ہے ہوسکتا ہے کہ شاید ایران خطے میں اَمن اور ہم آہنگی کی طرف بڑھے لیکن کس قیمت پر، حالیہ جنگ میں اسرائیل نے ایران پر حملہ کیا اور اس کی فوجی قیادت کے علاوہ درجن بھر سے زائد سینئر ترین جوہری سائنسدانوں کو نشانہ بنایا یہ کوئی معمولی نقصان تو نہیں، نہایت غیر معمولی نقصان ہے، ایک پوری کور ہی ختم ہوگئی ہے۔ اب نئی ٹیم آئے گی، نئی صلاحتیں ہوں گی، اور نئی ترجیحات۔
اسرائیل کا موقف ہے کہ ایران نے اُس کے خلاف خطے کے دیگر ممالک میں مختلف پراکسیز بنا رکھی ہیں جن کے ذریعے وہ اسرائیل پر حملہ آور ہوتا رہتا ہے، اسرائیل کیا کم تھا یا کم ہے؟ اس نے تو ایران میں اپنا نیٹ ورک بنایا ہوا تھا، دفاعی ماہرین کے نزدیک حالیہ جنگ میں اسرائیل نے ایران کو ناقابل ِ تلافی نقصان پہنچایا تاہم ایران نے بھی اسرائیل کو جواب دیا، اس نے خود کو طاقتور حریف ثابت کرتے ہوئے اپنی بقاء کو یقینی بنایا خاص طور پر جب اسرائیل کی خواہش کے مطابق ایرانی حکومت کی تبدیلی ممکن نہیں ہو سکی، بلکہ اس کے برعکس ایران میں مخالف قوتیں بھی موجودہ ایرانی حکومت کے ساتھ آ کھڑی ہوئیں۔ پاکستان، ترکیہ اور عرب ممالک کے علاوہ بھی دنیا کے زیادہ تر ممالک نے سفارتی سطح پر ایران کا ساتھ دیا اور آخر کار امریکی صدر نے بھی یہ کہہ دیا کہ وہ ایران میں حکومت کی تبدیلی میں کسی قسم کی کوئی دلچسپی نہیں رکھتے، اِس سے افراتفری بڑھتی ہے جو وہ نہیں دیکھنا چاہتے، وہ سب کچھ پُرسکون دیکھنا چاہتے ہیں جنگیں مسائل کا حل نہیں ہوتیں بلکہ مزید کئی مسائل کو جنم دیتی ہیں، بات چیت اور مذکرات ہی وہ واحد راستہ ہے جس پر چل کر تنازعات کا حل تلاش کیا جا سکتا ہے، روس اور یوکرین جنگ کے علاوہ فلسطین اور کشمیر کے مسائل کا حل بھی بات چیت اور مذاکرات کے ذریعے جلد ہی نکال لینا چاہیے۔