سینیٹ نے کم عمری کی شادیوں کی روک تھام کا بل متفقہ طور پر منظور کرلیا، جس پر جے یو آئی کے سینیٹرز نے ایوان کا بائیکاٹ کردیا جبکہ صوبائی موٹر گاڑیاں آرڈیننس 1965 میں ترمیم اور چین پاکستان اقتصادی راہداری اتھارٹی ترمیمی بل بھی منظور کرلیا گیا۔

سینیٹ کا اجلاس قائم مقام چیئرمین سیدال خان کی صدارت میں شروع ہوا جس میں پیپلز پارٹی کی سینیٹر شیری رحمان کی جانب سے چائلڈ میرج بل پیش کیا گیا۔

شیری رحمان نے کہا کہ سولہ سولہ سال کی عمر میں بچیاں ماں بن جاتی ہیں، کم عمری میں شادی کے بعد بچیاں دوران زچگی فوت ہوجاتی ہیں، یہ بل 2013ء میں سینیٹ نے متفقہ طور منظور کیا ہوا ہے۔

جے یو آئی کے سینیٹر کامران مرتضیٰ نے کہا کہ یہ اسلامی نظام سے متصادم بل ہے اسے اسلامی نظریاتی کونسل میں بھیجا جائے۔

سینیٹر مولانا عطاء الرحمان نے کہا کہ ہمارے معاشرے میں والدین کی رضامندی کے بغیر آپ بچوں کو اپنی مرضی کی اجازت دے دیں گے تو یہ یورپی معاشرہ بن جائے گا، اسلامی معاشرے میں اگر والدین سے آپ ایک حق لیں گے تو اس کا نتیجہ کیا نکلے گا، جے یوآئی اس بل کی مخالفت کرے گی اور واک آؤٹ کرے گی، اس بل کو متعلقہ کمیٹی کے سپرد کیا جائے۔

شبلی فراز کا بیرون ملک دوروں کیلئے پارلیمنٹیرینز کے وفود میں اپوزیشن کو شامل نہ کرنے کا شکوہ

سینیٹر روبینہ قائم خانی نے کہا کہ یہ بل پہلے سندھ اسمبلی میں پیش ہوا یہ بل اسلامی نظریاتی کونسل سے پاس ہوچکا ہے، یہ لوگ دیہاتوں میں جاتے ہی نہیں، وہاں چھوٹی چھوتی بچیوں کی شادی کردی جاتی ہے، ہمارے معاشرے میں بچوں کے حقوق کے حوالے سے معاملات بڑے گھمبیر ہیں اس پر سینیٹر عطا الرحمان نے کہا کہ سندھ اسمبلی میں جے یو آئی کا کوئی ممبر نہیں ہے۔

سینیٹر دوست محمد نے کہا کہ یہ بل اسلامی نظریاتی کونسل میں جانا چاہیے۔

سینیٹر خلیل طاہر سندھو نے کہا کہ سوائے پاکستان کے دنیا کا کوئی ایک مسلم ملک دکھا دیں جہاں شادی کی عمر 18سال سے کم ہو۔

سینیٹر ایمل خان نے کہا کہ ہم جس بحث میں گھس رہے ہیں ہم یورپ اور دین میں انٹر فیئرنس کررہے ہیں، شادی کے لیے طے شدہ وقت سن بلوغت ہے، آپ وہاں قانون لائیں جہاں گن پوائنٹ پر شادیاں ہورہی ہیں، ہمیں مغرب کی تقلید نہیں کرنی چاہیے، اللہ کا دیا ہوا قانون سب سے بہتر ہے، بچی، بچی کے والدین کی مرضی ضروری ہے۔ سینیٹر زرقہ تیمور سہروردی نے کہا کہ ہم مسلمان ہیں اور بطور مسلم سوچنا چاہیے۔

مولانا عبدالواسع نے کہا کہ یہ بل کیوں متنازع بنانا چاہتے ہیں؟ نکاح، طلاق وغیرہ کے قوانین بنانا ہمارا اختیار ہی نہیں، ایک آئینی ادارہ موجودہ ہے تو ہم کیوں اس پر قانون سازی کرتے ہیں؟ اسلامی نظریاتی کونسل کے بغیر اگر یہ بل پاس ہوتا ہے تو ہم اس کی سخت مذمت کریں گے۔

سینیٹر فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ مولانا بتائیں اسلام میں کہاں لکھا ہوا ہے بلوغت کی عمر کیا ہے؟ ملکی قانون کہتا ہے 18 سال سے کم عمر بچہ ہے۔ سینیٹر ثمینہ ممتاز نے کہا کہ چائلڈ میرج ایک گناہ ہے مصر میں کم عمری کی شادیوں کی ممانعت ہے۔

مولانا عطاء الرحمان نے کہا کہ حضرت عائشہؓ کی شادی نوسال کی عمر میں ہوئی، بعض روایات کے مطابق بارہ سال کی عمر میں ہوئی، بعض روایات میں لکھا ہے 14سال کی عمرمیں شادی ہوئی۔

سینیٹر سرمد علی نے کہا کہ یہ دینی نہیں ایک معاشرتی مسئلہ ہے، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ کی مثال دی گئی ہے لیکن اس وقت سعودی عرب میں بھی شادی کی عمر18سال ہے۔

سینیٹر شیری رحمان نے کہا کہ ریاست کا حق ہوتا بلوغت کی عمر کا تعین کرنا، سندھ میں یہ قانون گیارہ سال سے رائج ہے، وفاقی شریعت کورٹ نے اس قانون کو کالعدم قرار نہیں دیا۔

سینیٹر نسیمہ احسان نے کہا کہ میں مبارک باد پیش کرنا چاہتی ہوں سینیٹر شیری رحمان کو، میری اپنی شادی 13سال کی عمر میں ہوئی، میں ساتویں جماعت میں پڑھتی تھی، ہرسسرال میرے سسرال جیسے نہیں ہوتے، آج کل 9، 10 سال کی عمر میں بچی بالغ ہورہی ہے تو کیا ہم اس عمرمیں بچیوں کی شادی کردیں؟

بعدازاں ڈپٹی اسپیکر نے چائلڈ میرج روکنے کے بل پر ایوان میں رائے شماری کی جس پر جے یو آئی کے سینیٹرز نے ایوان کا بائیکاٹ کردیا، ارکان نے بل متفقہ طور پر منظور کرلیا۔

سینیٹ کا اجلاس جمعرات کی صبح ساڑھے دس بجے تک ملتوی کردیا گیا۔

.

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: اسلامی نظریاتی کونسل رحمان نے کہا کہ سال کی عمر میں نے کہا کہ یہ کی شادی

پڑھیں:

نیا بلدیاتی قانون خوش آئند... نظام کے تسلسل کیلئے آئینی تحفظ دینا ہوگا!!

پنجاب حکومت نے حال ہی میں نیا بلدیاتی ایکٹ منظور کیا ہے جسے ماہرین خوش آئند قرار دے رہے ہیں۔

اس بل کا تفصیلی جائزہ لینے کیلئے ’’ایکسپریس فورم‘‘ میں ایک خصوصی مذاکرہ کا اہتمام کیا گیا جس میں حکومت، اکیڈیما اور سول سوسائٹی کے نمائندوں نے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ فورم میں ہونے والی گفتگو نذر قارئین ہے۔

 سمیع اللہ خان

(چیئرمین استحقاق کمیٹی و رکن سٹینڈنگ کمیٹی برائے لوکل باڈیز، پنجاب اسمبلی)

دنیا بھر میں لوکل گورنمنٹ سے گڈ گورننس ہوئی اور بہتر نتائج ملے ہیں، ہمیں بھی ان کے تجربات سے سیکھنا چاہیے۔ ہمارے ہاں تیسرے درجے کی حکومت قائم نہیں ہوسکی لہٰذا بلدیاتی نظام کے تسلسل کو یقینی بنانے کیلئے اسے آئینی تحفظ دینا ہوگا۔

اس حوالے سے کام بھی ہو رہا ہے۔پاکستان تحریک انصاف کی حکومت نے مسلم لیگ (ن) کے دورمیں 2016ء میں قائم ہونے والی بلدیاتی حکومتوں کو اقتدار میں آتے ساتھ ہی ختم کر دیا۔تحریک انصاف نے جمہوری نظام کے ساتھ اچھا نہیں کیا اور پھر بلدیاتی انتخابات نہ کروا کر مزید برا کیا۔ مجھے خوشی ہے کہ ہماری جماعت پاکستان مسلم لیگ (ن) نے اپنی روایت کو برقرار رکھتے ہوئے نہ صرف بلدیاتی ایکٹ بنایا ہے بلکہ اب ہم بلدیاتی انتخابات کی طرف بھی جا رہے ہیں۔ حلقہ بندیوں سمیت دیگر مراحل مکمل ہونے کے بعد آئندہ برس مارچ کے آخر یا اپریل کے آغاز میں الیکشن ہوں گے، امید ہے کوئی رکاوٹ نہیں آئے گی۔

نئے بلدیاتی ایکٹ کے حوالے سے مختلف افواہیں گردش کر رہی ہیں۔ لوگوں کو درست معلومات نہیں ہیں اور عوام کو گمراہ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔مجھے اس ایکٹ میں غیر جماعتی انتخابات کا لفظ کہیں نظر نہیں آیا۔ اس ایکٹ میں تو جماعتوں کے وجود کو تسلیم کیا گیا ہے۔ 9 امیدواروں کا پینل نہیں ہوگا، ہر کوئی آزاد حیثیت میں الیکشن لڑ سکتا ہے۔ الیکشن جیتنے کے بعد نمائندے کسی بھی پارٹی میں شامل ہوسکتے ہیں۔ نئے ایکٹ میں ڈسٹرکٹ کونسل کو ختم اور تحصیل کونسل کومضبوط کیا جائے گا، اس کے ساتھ ساتھ ٹاؤن و میونسپل کارپوریشن بھی بنا رہے ہیں۔ لاہور کے 10 ٹاؤنز بنیں گے اور ہر ٹاؤن کا ایک میئر اور دو ڈپٹی میئر ہوں گے۔

صوبے میں قائم اتھارٹیز اپنا کام کر رہی ہیں، مقامی حکومتوں کے نظام میں تمام اتھارٹیز کا ایک فورم ہوگا جس کا سربراہ سب سے بڑی تحصیل کاچیئرمین ہوگا، اس طرح بہتر کووارڈی نیشن سے عوامی مسائل حل کیے جائیں گے۔ نئے ایکٹ میں اگر کوئی خامی ہے تو اس کی اصلاح ہو سکتی ہے۔

اس وقت ضروی یہ ہے نظام کو آگے بڑھنے دیں، جب 60 ہزار سے زائد نمائندے منتخب ہو کر آئیں گے تو وہ اپنے مسائل خود ہی حل کرلیں گے ۔ وزیراعلیٰ پنجاب بلدیاتی انتخابات کے حق میں ہیں،و ہ چاہتی ہیں کہ مقامی حکومتوں کا مضبوط نظام قائم ہو، یقین ہے کہ بلدیاتی انتخابات کے انعقاد میں کوئی رکاوٹ نہیں آئے گی۔ انتخابات کے بعد لوکل گورنمنٹ فنانس کمیشن بھی قائم کیا جائے گا۔ پنجاب حکومت ہمیشہ سے کارکردگی میں آگے رہی ہے اور یہاں سب سے زیادہ کام کیا گیا ہے۔ پنجاب کی گورننس کا مقابلہ کسی بھی ملک بلکہ ہمارے ہمسایہ ملک بھارت سے بھی کیا جاسکتا ہے، ہماری کارکردگی اس سے بہتر ہے۔

پروفیسر ڈاکٹر امجد مگسی

(ڈائریکٹر پاکستان سٹڈی سینٹر، جامعہ پنجاب)

باقی صوبوں کی نسبت پنجاب مقامی حکومتوں کے حوالے سے بدقسمت صوبہ ہے۔ اب بھی یہاں ایک طویل عرصے کے بعد بلدیاتی انتخابات ہوں گے اور نظام قائم ہوگا۔ آخری مرتبہ 2015ء میں بلدیاتی انتخابات ہوئے جس کے نتیجے میں بننے والا بلدیاتی نظام مسائل کا شکار رہا اور نظام کا تسلسل بھی قائم نہ ہوسکا۔ بعدازاں 2019ء میں بلدیاتی ایکٹ بنا لیکن انتخابات نہ ہوئے۔ پھر 2022ء میں ایکٹ بنا مگر انتخابات نہیں ہوئے۔ اتنے برسوں میں لوگوں کے مسائل بڑھتے گئے۔ سموگ کا مسئلہ ہے۔ واٹر اینڈ سینی ٹیشن کا مسئلہ ہے۔

صفائی ستھرائی کے حوالے سے جو کام ہونا چاہیے تھا وہ درست انداز میں نہیں ہوا۔ ملک میں تیسرے درجے کی حکومت ہی موجود نہیں تھی تو لوگوں کے بنیادی مسائل کس طرح حل ہوتے۔ قومی و صوبائی حکومتوں کو چاہیے کہ وہ بلدیاتی حکومتوں کو اپنا بازو سمجھیں اور انہیں قائم کریں۔ میرے نزدیک بلدیاتی ایکٹ کا بننا خوش آئند ہے۔ مقامی حکومتیں سیاسی جماعتوں کے لیے نرسری کی حیثیت رکھتی ہیں کیونکہ یہاں سے قیادت ابھرتی ہے۔ بدقسمتی سے ہم نام تو لوکل گورنمنٹ کا دیتے ہیں لیکن سلوک لوکل باڈیز والا کیا جاتا ہے یہی وجہ ہے کہ درست نتائج برآمد نہیں ہوتے۔ مقامی حکومتوں کو آئین کے مطابق مالی اور انتظامی اختیارات نہیں دیے جاتے۔

نئے ایکٹ میں ضلعی حکومت ختم کر دی گئی ہے۔ اب نئے بلدیاتی ایکٹ کے مطابق ضلعی حکومتیں نہیں ہوں گی۔ دیہاتوں میں تحصیل کونسل اور شہروں میں میونسپل کارپوریشن ہوگی۔ایسا لگتا ہے کہ معاملات بیوروکریسی کے ہاتھ میں ہوں گے۔ تحصیل یا میونسپل کمیٹی کا چیئرمین ہوگا جس کیلئے ڈسٹرکٹ آفیسر سے رابطہ مشکل ہوگا۔ خدشہ ہے کہ اس نظام میں سرورس ڈیلوری کا مسئلہ آئے گا۔جب تک مقامی حکومتوں کو اختیارات نہیں دیے جائیں گے تب تک عوام کے مسائل حل نہیں ہوں گے اور نہ ہی اس نظام کوصحیح معنوں میں فائدہ ہوگا۔ بلدیاتی انتخابات براہ راست ہونے چاہئیں، جو نمائندے براہ راست الیکشن لڑ کے آتے ہیں ان میں خود اعتمادی ہوتی ہے اور ان کی کارکردگی بھی بہتر ہوتی ہے۔

پروفیسر ارشد مرزا

(نمائندہ سول سوسائٹی)

بلدیاتی ادارے سیاسی قیادت کے پروان چڑھنے کی ہیچری ہیں۔ 1979ء کے انتخابات کے بعد جو نمائندے لوکل گورنمنٹ میں آئے وہ ملکی سطح پر سیاست میں آگے گئے۔ بلدیاتی حکومت کا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ اس سے نمائندوں کو بنیادی سطح پر مسائل حل کرنے اور معاملات بہتر کرنے کی مہارت حاصل ہوتی ہے جو آگے چل کے ان کے کام آتی ہے۔ مہذب دنیا میں جہاں بھی بلدیاتی نظام موجود ہے وہاں پر معاملات اچھے انداز میں چلتے ہیں اور عوام کو فائدہ بھی ہوتا ہے۔ قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے اراکین کا حلقہ بڑا ہوتا ہے۔

اس میں کئی شہری و دیہی علاقے شامل ہوتے ہیں لہٰذا یہ ممکن نہیں ہے کہ تمام لوگوں کی اپنے نمائندے تک دسترس ہو۔ ایسے میں لوکل گورنمنٹ کے نمائندے عوام کے ساتھ ہوتے ہیں کیونکہ وہ ہر وقت اپنے علاقے میں ہوتے ہیں اور لوگوں کے مسائل فوری حل کرنے کی صلاحیت بھی رکھتے ہیں۔

یہ خوش آئند ہے کہ پنجاب میں نیا بلدیاتی ایکٹ منظور ہوچکا ہے، گورنر پنجاب کے دستخط کے بعد اب یہ باقاعدہ قانون بن گیا ہے لہٰذا اب ہمیں آگے کا سوچنا چاہیے۔ یہ الگ بات ہے کہ اس میں بہت ساری مفید تجاویز جو اس بل کی مشاورت کے دوران دی گئیں تھیں وہ شامل نہیں کی گئیں تاہم اب چونکہ قانون بن گیا ہے تو اس میں اگر مگر کی گنجائش نکالنے کے بجائے بلدیاتی انتخابات کروا کر مقامی حکومتوں کا نظام قائم کیا جائے۔

اس وقت سب سے ضروری نظام کا قائم ہونا ہے، تسلسل بنے تو مسائل خود بخود حل ہوتے جائیں گے۔ یہاں یہ بات قابل توجہ ہے کہ ملک میں جینڈر گیپ میں اضافہ ہوا ہے۔ اس وقت ملک بھر میں ایک کروڑ 30 لاکھ خواتین کے پاس شناختی کارڈ نہیں ہے۔ اب چونکہ پنجاب بلدیاتی انتخابات کی طرف بڑھ رہا ہے تو یہاں انتخابات سے پہلے ہنگامی بنیادوں پر خواتین کے شناختی کارڈ بناکر ووٹر لسٹوں میں ان کا درست اندراج کیا جائے۔

آئین پاکستان کے مطابق خواتین کو ان کے ووٹ کے حق سے محروم نہیں رکھا جاسکتا، اس حوالے سے الیکشن کمیشن آف پاکستان اور نادرا فوری طور پر کریش پروگرام کا آغاز کریں ۔ ووٹر ٹرن آؤٹ کی بات کریں تو خواتین کی شرح 42 فیصد کے قریب ہے۔ بلدیاتی انتخابات میں یہ شرح زیادہ ہونی چاہیے،ا س میں اضافے کیلئے کام کرنا ہوگا، خواتین ووٹرز کے مسائل دور کرنا ہوگے، انتخابی عمل میں ان کی شمولیت کو یقینی بنانا ہوگا۔ نئے بلدیاتی ایکٹ میں خواتین کیلئے صرف ایک نشست مختص کی گئی ہے جو کم ہے۔

ہمیں تمام طبقات کی بھرپور شمولیت یقینی بنانا ہوگی۔ ہمارے ہاں ووٹرز کا رویہ بھی جمہوری نہیں ہے۔ یہاں لوگ ذاتی مفاد، ملازمت، ذات پات، برادری یا کسی اور تعلق کی وجہ سے ووٹ دیتے ہیں۔ وہ یہ نہیں دیکھتے کہ نمائندے کی اہلیت کیا ہے، کیا وہ اپنے فرائض منصبی ادا کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے؟ الیکشن سے پہلے سول سوسائٹی، این جی اوز، حکومت سمیت سب کو کوشش کرنی چاہیے کہ ووٹرز کی تربیت کریں تاکہ وہ ایسے نمائندے منتخب کریں جن میں کام کرنے کی صلاحیت اور جذبہ ہو اور وہ صحیح معنوں میں ملک و قوم کی خدمت کر سکیں۔ یہاں یہ بات بھی غور طلب ہے کہ بلدیاتی انتخابات کے بعد نمائندوں کی ایک بڑی تعداد سامنے آئے گی۔ سوال یہ ہے کہ ان میں سے کتنے نمائندے بلدیاتی قانون کو پڑھیں گے اور کتنے نمائندوں میں یہ صلاحیت ہوگی کہ اپنا فرض پوری طرح سے ادا کر سکیں گے؟ ان میں سے تو بیشتر پہلی مرتبہ منتخب ہو کر آئیں گے لہٰذا ضروری ہے کہ تمام بلدیاتی نمائندوں کی لازمی تربیت کروائی جائے تاکہ گڈ گورننس کو فروغ دیا جاسکے۔

سلمان عابد

(سیاسی تجزیہ نگار)

بدقسمتی سے بلدیاتی حکومتوں کا نظام ہماری صوبائی حکومتوں کی ترجیحات میں شامل نہیں رہا۔ 18 ویں ترمیم کے بعد وفاق سے صوبوں کو تو اختیار منتقل ہوگئے لیکن صوبے اضلاع اور تحصیلوں کو اختیارات دینے کیلئے تیار نہیں ہیں بلکہ اتھارٹیاں اور کمپنیاں بنا کر ایک متبادل نظام کھڑا کر دیا گیا ہے۔

واٹراینڈ سینی ٹیشن، صاف ماحول، صفائی ستھرائی، ناجائز تجاوزات کا خاتمہ جیسے مسائل تو مقامی حکومتوں کے حل کرنے کے ہیںلیکن ان کے لیے تو الگ ادارے قائم کر دیے گئے ہیں، سوال یہ ہے کہ اب بلدیاتی نمائندے کیا کریں گے؟ میرے نزدیک یہ سب اتھارٹیاں اور کمپنیاں ان کے تابع ہونی چاہئیں۔ لاہور ہائی کورٹ کا 2013ء کا فیصلہ موجود ہے جس کے مطابق بلدیاتی انتخابات جماعتی بنیادوں پر ہوں گے۔ نئے بلدیاتی ایکٹ میں نظام غیر جماعتی انتخابات کی بات کی گئی ہے۔

انتخابات کے بعد جیتنے والے آزاد امیدوار کسی بھی جماعت میں شامل ہوسکیں گے۔ میثاق جمہوریت میں بھی پاکستان مسلم لیگ (ن) اور پاکستان پیپلز پارٹی نے یہ طے کیا تھا کہ بلدیاتی انتخابات جماعتی بنیادوں پر ہوں گے لہٰذا نئے بلدیاتی ایکٹ کے تحت غیر جماعتی انتخابات لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے اور میثاق جمہوریت دونوں کے منافی ہے۔ چیئرمین، نائب چیئرمین وغیرہ کے الیکشن براہ راست ہونے چاہئیں اور اختیارات بیورو کریسی کے بجائے عوامی نمائندوں کے پاس ہونے چاہئیں۔ اس وقت تعلیم، صحت، صفائی جیسے معاملات ڈپٹی کمشنرز چلا رہے ہیں۔ اضلاع کی سطح پر بھی ڈویلپمنٹ اتھارٹیاں قائم ہیں۔

نئے بلدیاتی ایکٹ میں ڈسٹرکٹ کونسل ختم، تحصیل اور میونسپل کارپوریشنز بنا ئی جا رہی ہیں، ایسا لگتا ہے کہ صوبے سے بیٹھ کر معاملات چلانے کی کوشش کی جائے گی۔اگر نظام ایسے ہی چلانا ہے تو پھر بلدیاتی نظام کیسے فعال ہوگا؟ بلدیاتی نمائندے انتخابات میں پینل سسٹم کے تحت حصہ لیں گے۔ 9 امیدواروں کا ایک پینل ہوگا اور ایک ہی ووٹ کے ذریعے پورے پینل کا انتخاب ہوگا۔ وزیراعلیٰ کا کام لاہور سے پورا صوبہ چلانا نہیں ہے۔

میگا سٹیز کی ترقی تیزی سے ہو رہی ہے، دور دراز وعلاقوں کا کوئی پرسان حال نہیں ہے۔ سیلاب آیا تو قومی و صوبائی اسمبلیوں کے نمائندے سیلاب زدہ علاقوں میں گئے۔ این ڈی ایم اے، پی ڈی ایم اے اور ڈی ڈی ایم اے موجود ہیں، ڈپٹی کمشنرزسیلاب کے دوران معاملات چلا رہے تھے۔ موثر جمہوری نظام کیلئے ضروری ہے کہ تیسرے درجے کی حکومت قائم کی جائے۔ بلدیاتی نظام کو آئین کے مطابق مالی، سیاسی اور انتظامی اختیارات دیے جائیں۔ ایسا لگتا ہے کہ نیا بلدیاتی ایکٹ عوامی نمائندوں کا نہیں بیوروکریسی کا ہے، اسے بہت زیادہ اختیارات دیے جا رہے ہیں۔

نئے بلدیاتی ایکٹ میں خواتین کی نمائندگی کم کردی گئی، اب دو کے بجائے ان کیلئے صرف ایک نشست مختص کی گئی ہے۔سابق وزیراعلیٰ شہباز شریف کے دور میں 2010ء کے بلدیاتی ایکٹ میں خواتین کی نمائندگی 33 فیصد کی گئی تھی، موجودہ ایکٹ تو خود مسلم لیگ (ن) کی اپنی پالیسی کے منافی ہے۔

جنرل (ر) پرویز مشرف کے دور کے بلدیاتی نظام میں خواتین آگے آئیں۔ وہ بلدیاتی نظام قدرے بہتر تھا لیکن اس سے لے کر آج تک یہاں بلدیاتی نظام کا تسلسل برقرار نہیں رہ سکا۔ ہر نئی آنے والے حکومت نے سب سے پہلے بلدیاتی نظام کو لپیٹا اور یہاں سب نے نئے نئے تجربات کیے ہیں۔ ہر مرتبہ قانون بھی بدل جاتا ہے اور نئی حلقہ بندیاں بھی ہوتی ہیں۔

اس سب کے باوجود بھی بلدیاتی نظام کا تسلسل قائم نہیں ہوتا۔ اس کیلئے ضروری ہے کہ بلدیاتی نظام کو آئینی تحفظ دیا جائے۔ اسے قومی و صوبائی اسمبلیوں کے ساتھ ہی منسلک کیا جائے اور ایک ساتھ ہی الیکشن کروا لیے جائیں۔ اگر ایسا ممکن نہیں ہے تو پھر عام انتخابات کے نتیجے میں آنے والے حکومت کو پابند کیا جائے کہ وہ 120 دن کے اندر اندر بلدیاتی انتخابات کروائے۔ اس کیلئے آئینی ترمیم ضروری ہے، سیاسی جماعتوں کو اس پر کام کرنا ہوگا۔ 

متعلقہ مضامین

  • 26ویں ترمیم نے ہمارے ججوں کو مفلوج کردیا، سہیل آفریدی
  • اے این پی کا سینیٹ انتخابات میں حصہ نہ لینے کا فیصلہ
  • 26 ویں ترمیم نے ہمارے ججوں کو مفلوج کردیا، سہیل آفریدی
  • الیکشن کمیشن کے پاس ریفرنس کے بغیر کسی سینیٹر کو نا اہل کرنے کا اختیار نہیں: بیرسٹر گوہر
  • کسی ’نیازی لاء‘ کا تصور قبول نہیں کیا جاسکتا، طلال چوہدری
  • اوکاڑہ میں "پنجاب دھی رانی پروگرام" کے تحت 150 اجتماعی شادیوں کا اہتمام
  • کنسرٹ تو دور اسرائیل اور نیتن یاہو کے قریب سے بھی نہیں گزرنا چاہتا؛ برطانوی گلوکار
  • مودی کی متنازع چائلد میرج ایکٹ کو مسلمانوں پر تھوپنے کی کوشش ناکام
  • نیا بلدیاتی قانون خوش آئند... نظام کے تسلسل کیلئے آئینی تحفظ دینا ہوگا!!
  • دہشتگردوں کی سرپرستی منظور نہیں، پاکستان نے استنبول مذاکرات میں افغان طالبان پر واضح کردیا