تعلیم یا تشدد؟ اسکولوں میں بچوں پر جسمانی سزا کا جائزہ
اشاعت کی تاریخ: 24th, May 2025 GMT
پاکستان میں تعلیم و تدریس کے حوالے سے استاد کی مار ایک روایتی جملہ ہے۔ یہ بات اکثر سننے میں آتی ہے کہ اگر کسی کو بچپن میں استاد کی مار پڑ گئی ہوتی تو وہ ایسا نہ ہوتا جیسا اب ہے بلکہ بالکل سُدھر گیا ہوتا۔
ہمارے معاشرے میں استاد کا رعب اور ڈنڈا تربیت کا لازمی جزو تصور کیا جاتا ہے، اور ’’مار نہیں پیار‘‘ جیسا تصور یا تو کمزور بچوں کے لیے مخصوص سمجھا جاتا ہے یا مغربی معاشروں کی نقالی۔
روایتی سوچ بمقابلہ جدید تحقیق
روایتی طور پر استاد اور مدرس کی مار کو طالب علموں کی بہتری سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ تاہم مغرب میں یہ تصور مکمل طور پر بدل چکا ہے۔ وہاں بچوں کی جسمانی اور دماغی نشوونما کے لیے اس بات پر زور دیا جاتا ہے کہ انہیں عزت دی جائے، ڈرایا نہ جائے، اور ان کی شخصیت کو نرمی اور رہنمائی کے ذریعے نکھارا جائے۔
ماہرین نفسیات اور تعلیمی محققین کا ماننا ہے کہ جسمانی سزا نہ صرف بچے کے اعتماد کو کم کرتی ہے بلکہ اس کے اندر سیکھنے کی فطری خواہش کو بھی دبا دیتی ہے۔ اگرچہ بعض اوقات جسمانی سزا کا فوری نتیجہ نظم و ضبط کی شکل میں نظر آتا ہے، لیکن طویل المدت اثرات میں خوف، ذہنی دباؤ، غصہ، اور بغاوت جیسے رویے جنم لیتے ہیں۔
پاکستان میں صورتحال
پاکستان کے سرکاری و نجی اسکولوں کے علاوہ مذہبی مدارس سے بھی اساتذہ کی جانب سے بچوں کو مارنے کے واقعات کی خبریں مسلسل آتی رہتی ہیں۔ اخبارات، ٹی وی رپورٹس اور سوشل میڈیا پر ان واقعات کی ویڈیوز نے عوامی شعور کو بیدار کیا ہے، تاہم عملی طور پر ابھی بہت سا کام باقی ہے۔
قانونی طور پر پاکستان میں بچوں پر جسمانی سزا کے خلاف مختلف قوانین موجود ہیں، جیسے کہ چائلڈ پروٹیکشن ایکٹ، لیکن ان پر عملدرآمد بہت محدود ہے۔ اساتذہ کی تربیت اور مانیٹرنگ کا مؤثر نظام نہ ہونے کی وجہ سے تشدد کا یہ سلسلہ جاری ہے۔
یونیسیف کی رپورٹ اور عالمی اعداد و شمار
کھیل کے پہلے عالمی دن کے موقع پر یونیسیف کی رپورٹ کے مطابق پانچ سال سے کم عمر کے 60 فیصد بچوں کو گھروں میں باقاعدگی سے نفسیاتی یا جسمانی سزا کا سامنا ہوتا ہے۔ ان میں سے 33 کروڑ بچوں کو جسمانی سزا دی جاتی ہے، جو کہ ایک انتہائی افسوسناک اور تشویشناک حقیقت ہے۔ یہ اعداد و شمار ہمیں مجبور کرتے ہیں کہ ہم اس مسئلے کو سنجیدگی سے لیں اور سوچیں کہ کیا واقعی مار پیٹ ایک مؤثر تدریسی طریقہ ہے؟
کیا مارنے سے تعلیم بہتر ہوتی ہے؟
یہ ایک اہم سوال ہے جس پر والدین، اساتذہ، اور پالیسی سازوں کو غور کرنا چاہیے۔ کیا ایک ڈرا ہوا بچہ واقعی بہتر سیکھتا ہے؟ یا وہ صرف استاد کے خوف سے وقتی طور پر خاموش اور تابع بن جاتا ہے؟ تحقیق کہتی ہے کہ خوف کے ماحول میں سیکھنے کا عمل رک جاتا ہے۔ بچہ سوال کرنے سے گھبراتا ہے، غلطی کرنے سے ڈرتا ہے، اور نتیجتاً اس کی تخلیقی صلاحیتیں دب جاتی ہیں۔
متبادل کیا ہے؟
اس کا متبادل ’’مثبت نظم و ضبط‘‘ (Positive Discipline) ہے، جو دنیا بھر میں کامیابی سے اپنایا جا رہا ہے۔ اس میں اساتذہ بچوں سے مشفقانہ انداز میں بات کرتے ہیں، ان کے جذبات کو سمجھتے ہیں، اور نظم و ضبط قائم رکھنے کے لیے بات چیت، رہنمائی، اور حوصلہ افزائی کو ترجیح دیتے ہیں۔ ایسے ماحول میں بچہ اعتماد کے ساتھ سیکھتا ہے، سوال کرتا ہے، غلطی کرتا ہے اور اس سے سیکھتا ہے۔
استاد کا کردار
استاد محض علم دینے والا فرد نہیں ہوتا بلکہ وہ بچے کی شخصیت سازی میں مرکزی کردار ادا کرتا ہے۔ اگر استاد محبت، توجہ، اور احترام کا ماحول فراہم کرے تو بچہ نہ صرف علمی لحاظ سے بہتر بنتا ہے بلکہ ایک بہتر انسان بھی بن کر ابھرتا ہے۔
وقت آگیا ہے کہ ہم ’’مار کے حق میں‘‘ دلائل کو چھوڑ کر ’’پیار سے تربیت‘‘ کے جدید اصولوں کو اپنائیں۔ بچوں کو مار کر سکھانا ایک پرانا اور ناکام طریقہ ہے، جو نہ صرف ان کی ذہنی صحت کو نقصان پہنچاتا ہے بلکہ تعلیم کے مقصد کو بھی فوت کر دیتا ہے۔ معاشرے کو اساتذہ کی تربیت، والدین کی آگاہی، اور قوانین پر عملدرآمد کے ذریعے جسمانی سزا کے خلاف مشترکہ جدوجہد کرنی ہوگی۔
اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہمارے بچے اعتماد، ذہانت، اور تخلیقی سوچ کے ساتھ بڑے ہوں، تو ہمیں انہیں ایک ایسا ماحول دینا ہوگا جہاں ان کی عزت کی جائے، نہ کہ انہیں سزا کا نشانہ بنایا جائے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: ہے بلکہ جاتا ہے بچوں کو سزا کا
پڑھیں:
لاہور: رشوت کے الزام میں گرفتار این سی سی آئی اے افسران کے جسمانی ریمانڈ کا حکمنامہ جاری
—فائل فوٹوضلع کچہری لاہور نے رشوت کے الزام میں گرفتار این سی سی آئی اے افسران کے جسمانی ریمانڈ کا حکمنامہ جاری کر دیا۔ جوڈیشل مجسٹریٹ نعیم وٹو نے دو صفحات پر مشتمل تحریری فیصلہ جاری کیا ہے۔
تحریری فیصلے کے مطابق ایف آئی اے کے تفتیشی نے ملزموں کے مزید جسمانی ریمانڈ کی استدعا کی، ایف آئی اے کے وکیل کے مطابق ملزموں کے خلاف آمدن سے زائد اثاثے بنانے کی تفتیش شروع کی، وکیل کا اعتراض آیا ایف آئی آر میں 90 لاکھ کا ذکر ہے، ریکوری 4 کروڑ سے زائد کیسے ہوئی، ملزمان عام نہیں، اس لیے ان سے تفتیش کا طریقے کار بھی عام نہیں۔
فیصلے میں کہا گیا کہ پراسیکیوٹر کے مطابق یہ وائٹ کالر کرائم ہے ملزم سب طریقے کار جانتے ہیں، ملزموں کی پہلے انکوائری ہوئی جس سے پتہ چلا یہ رشوت وصول کرتے ہیں۔
جوڈیشل مجسٹریٹ نعیم وٹو نے کہا کہ گزشتہ 3 دن کے جسمانی ریمانڈ میں بھاری رقم ریکور ہونا اہم پیش رفت ہے، اس اسٹیج پر ملزموں کو مقدمے سے ڈسچارج نہیں کر سکتے، عدالت نے تفتیشی افسر کی استدعا منظور کرتے ہوئے 3 دن کا جسمانی ریمانڈ دیا۔ 3 نومبر کو ملزمان کو دوبارہ عدالت کے روبرو پیش کیا جائے۔