علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کا اردو زبان کی ترویج و تشکیل میں جو اہم کردار رہا ہے، اس میں ان خود نوشتوں نے بہت اہم کردار ادا کیا ہے جو وہاں لکھی گئیں۔ ان خیالات کا اظہار ہندوستان کی ریاست اتر پردیش کے ضلع علی گڑھ میں واقع عالمی شہرت یافتہ جامعہ علی گڑھ کے شعبہ عربی کے پروفیسر ابو سفیان اصلاحی نے بہرملاقات کی ایک نشست میں کیا جو روشنیوں کے شہر کراچی کی علمی درسگاہ جامعہ کراچی کی ڈاکٹر جمیل جالبی لائبریری میں منعقد ہوئی۔
علمی و ادبی شہرکے دل میں واقع اس عظیم الشان لائبریری کو دیکھ کر راقم کو بے حد مسرت ہوئی۔ اس وقت کے اکابرین کی دوستی محض ایک فرد تک محدود نہیں ہوتی تھی بلکہ آپس میں خاندانوں میں بھی باہم تعلقات استوار ہوتے وہ ہمارے خاندان کے سرپرست اعلیٰ کا بہت احترام کرتے اور محترم ابا سے تو دوستی تھی ہی گھر کے چھوٹے سب ان کی بڑے بھائی کی طرح تعظیم کرتے۔
ڈاکٹر جمیل جالبی 12جون 1929کو علی گڑھ میں پیدا ہوئے۔ بطور مورخ ادب اردو دنیا میں ان کا کوئی ہم عصر نہیں، مترجم کی حیثیت سے بھی ان کا کوئی نعم البدل نہیں۔ ان کی مرتب کردہ ضخیم اردو انگریزی لغت ایک تاریخی کارنامہ ہے۔ پاکستانی کلچر پر ان کی تصنیف سند کا درجہ رکھتی ہے۔ ان کا اصل نام محمد جمیل خان تھا، ان کے اجداد یوسف زئی پٹھان تھے۔
ان کی ابتدائی تعلیم علی گڑھ میں ہوئی۔ 1943 میں گورنمنٹ ہائی اسکول سہارنپور سے انھوں نے میٹرک کیا، میرٹھ کالج سے 1945 میں انٹر اور1947 میں بی اے کی سند حاصل کی۔ کالج کی تعلیم کے دوران صحافی سید جالب دہلوی ان کے آئیڈیل ہوا کرتے تھے، اسی نسبت سے انھوں نے اپنے نام کے ساتھ ’’جالبی‘‘ کا اضافہ کر لیا۔
تقسیم ہند کے بعد 1947 میں کراچی آگئے، بعد ازاں برصغیر پاک وہندکے نامور ماہر تعلیم ریاضی دان ڈاکٹر اللہ بخش کمالی کی خواہش پر انھیں بہادر یار جنگ ہائی اسکول میں ہیڈ ماسٹری کی پیش کش ہوئی جسے انھوں نے بخوشی قبول کرلیا۔
دوران ملازمت انھوں نے ایم اے، ایل ایل بی کی اسناد حاصل کیں۔1972ء میں سندھ یونیورسٹی سے ڈاکٹر غلام مصطفی خان کی نگرانی میں قدیم اردو ادب پر مقالہ لکھ کر پی ایچ ڈی اور 1978 میں مثنوی کدم راؤ پدم راؤ پر ڈی لٹ کی سند حاصل کی، بعد ازاں سی ایس ایس کے امتحان میں بھی کامیابی حاصل کی۔
1983 میں جامعہ کراچی کے وائس چانسلر مقرر ہوئے، 1987 میں مقتدرہ قومی زبان کے چیئرمین اور 1990 سے1997 تک اردو لغت بورڈ کے سربراہ تعینات ہوئے۔ نوے برس کی عمر میں18اپریل2019ء کو اس جہان فانی سے کوچ کرگئے اور یوں اردو ادب کا ایک درخشاں باب بند ہوگیا۔ ڈاکٹر ابوسفیان اصلاحی کی تصنیف ’’ اوراق علی گڑھ‘‘ ہر خاص وعام کی توجہ کا مرکز ہے خصوصاً نئی نسل کی آگاہی کے لیے جامعہ علی گڑھ کی ایک تاریخ ہے۔
اصلاحی صاحب ستر سے زائد کتابیں تصنیف کرچکے ہیں جن میں تقریبا بیس جامعہ علی گڑھ کے بانی اور علی گڑھ سے متعلق ہیں۔ آپ علی گڑھ کی تہذیب، تعلیم اور تحقیق پر مسلسل کام کررہے ہیں۔ سفیان صاحب اس بات کے خواہاں ہیں کہ تحقیق اور تنقید ایک دوسرے کے لیے لازم ہیں جب بھی کسی تحقیق پر تنقید کی جائے تو پورے علمی شان سے کی جانی چاہیے کسی بھی تحقیرکے بغیر۔
ان کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ اے ایم یو میں پہلی بارکسی مصنف کی نو تصانیف کا اجراء ایک ساتھ عمل میں آیا جو اردو زبان میں ہیں اور علی گڑھ تحریک اور بانی درسگاہ سے متعلق ہیں۔1857 کی جنگ آزادی میں مسلمانان ہند کی سخت ترین ناکامی کے باعث سرسید وقت کے تقاضوں کو دیکھتے ہوئے نئے علوم کے حصول پر زور دینے لگے۔
جس کی ایک بڑی وجہ یہ بھی تھی کہ سرسید یہ مشاہدہ کرچکے تھے کہ برطانوی حکومت انگریزی کو سرکاری زبان کے طور پرنافذ کرچکی تھی اور مسلمان چونکہ عربی، فارسی اور اردو زبانوں میں مشرقی علوم حاصل کرکے نچلے درجے کی ملازمت تو حاصل کرسکتے ہیں۔
پر اعلیٰ عہدوں تک رسائی نہیں حاصل کرسکتے اور برطانوی راج کے ہوتے ہوئے انگریزی زبان کی ہی حکمرانی ہوگی، اسی مصلحت پسندی کے سبب سرسید نے مسلمانان ہند پر انگریزی تعلیم کے حصول پر زور دیا چونکہ وہ جانتے تھے کہ انگریزوں کی غلامی سے نجات کا راستہ انگریزی تعلیم سے ہوکر ہی گزرتا ہے، جس کے زیر اثرایک مخصوص مکتبہ فکرکے عالموں نے یہ سمجھ لیا کہ سرسید اردو زبان کے مخالف تھے جب کہ وہ یہ جانتے تھے کہ ہندوستان کے کروڑوں باشندوں کی تعلیم کا مقصد اردوکو ذریعہ تعلیم بنائے بغیر ممکن نہیں۔
یہی وجہ ہے کہ اب ایک خود مختار اور آزاد مملکت پاکستان میں مادری زبان اردوکو ہر سطح پر، سرکاری و تعلیمی زبان کے طور پر نافذ کرنے کی ضرورت شدت اختیار کرچکی ہے تاکہ ہر خاص و عام کو کاروبار مملکت میں برابری کی سطح پر شامل کیا جاسکے لیکن افسوس صد افسوس سرسید کے وہ مصلحت پسندانہ نظریات جو غلام ہندوستان میں وضع کیے گئے تھے وہ آج بھی آزاد خود مختار مملکت میں قائد کی وفات کے بعد سے بہ طور نظریہ سرسیدجاری و ساری ہیں۔
ڈاکٹر اصلاحی کا زیادہ تر وقت مطالعے، تحریر و تحقیق میں گزرتا ہے جس کے زیر اثر وہ کئی سالوں سے دھوپ کی تمازت حاصل کرنے کے لیے بھی وقت نہ نکال سکے مگر پانچوں وقت کی باجماعت نماز کی ادائیگی میں کبھی خلل نہ پڑنے دیا۔ ان کی شخصیت کا خاصہ وقت کی پابندی ہے۔
ان کی نگاہ میں کسی بھی مضمون میں کچھ سیکھنا ہو تو جامعہ علی گڑھ سے بہترین جگہ کوئی اور نہیں۔تقریب میں شریک معروف اردو دان ڈاکٹر معین الدین عقیل نے کہا کہ آب بیتیاں بہت اہم ماخذ ہوتی ہیں۔ قارئین کی دلچسپی کے لیے ، دو اہم ماخذ جو اب تک غیر مطبوعہ ہیں۔ میری ڈاکٹر اصلاحی سے گزارش ہے کہ وہ اپنی مصروفیات میں سے وقت نکال کر ان کی اشاعت کروائیں۔
عام استفادے کے لیے تاکہ وہ محفوظ ہوجائیں آنے والی نسلوں کے لیے۔ میزبان تقریب ممتاز تاریخ داں ڈاکٹر نگار سجاد ظہیر نے کہا کہ کسی بھی علمی نشست کی حاصلات میں اگر آپ کے پاس کوئی فکر آئے تو وہ اس بات کی ترجمانی کرتی ہے کہ آپ یہاں سے کچھ نہ کچھ استفادہ کرکے اٹھے ہیں اور آج کی اس نشست کی میری حاصلات کچھ یوں ہیں کہ جو لوگ بہت زیادہ صاحب مطالعہ ہیں اور کتابوں کے درمیان رہتے ہیں وہ اپنی خود نوشت کچھ اس طرح مرتب کریں کہ جس میں ان تمام کتابوں کا تذکرہ بھی ہو جو ان کے مطالعے میں رہیں خواہ وہ کسی بھی نوعیت کی ہوں۔
جس طرح علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں آب بیتیاں لکھی گئی ہیں۔ اسی طرح ہمارے روشنیوں کے شہرکراچی میں ابھی تک اس طرح کا کوئی کام نہیں ہوا جو ہونا چاہیے تاکہ اس پروقار علمی شہرکی تہذیبی ادبی اقدار کو اجاگرکیا جاسکے۔ اس علمی نشست میں حمزہ فاروقی، نوشابہ صدیقی،حافظ سہیل شفیق، وقار شیرانی و دیگر صاحبان علم و عرفان نے بڑی تعداد میں شرکت کی۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: جامعہ علی گڑھ انھوں نے کسی بھی زبان کے حاصل کی کے لیے
پڑھیں:
قائداعظم یونیورسٹی کی ملکیتی زمین کتنی، سی ڈی اے نے بالآخر تصدیق کردی
قائد اعظم یونیورسٹی کی انتظامیہ وفاقی ترقیاتی ادارے سی ڈی اے سے تحریری طور پر ملکیتی رقبے کی تفصیلات حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئی۔
یہ بھی پڑھیں: سرور خواجہ قائد اعظم یونیورسٹی کے بزنس ایڈمنسٹریشن میں پریکٹس کے ممتاز پروفیسر مقرر
اسلام آباد کے انتظام کے ذمہ دار ادارے سی ڈی اے نے نوٹیفکیشن کے ذریعے یونیورسٹی کی زیر ملکیت زمین 1700 اعشاریہ 8 ایکڑ تسلیم کرلی ہے۔
کیو ایس رینکنگ کے مطابق اعلیٰ تعلیمی شعبے میں پاکستان کی صف اول کی جامعہ کی زمین کے حوالے سے معاملات طویل عرصے سے متنازع رہے ہیں۔
یونیورسٹی کی زمین ملکیتی زمین کے حوالے سے گزشتہ سالوں میں دونوں اداروں کے درمیان متعدد بات رابطہ کاری ہوئی جو ناکام ہوئی۔
اس حوالے سے وائس چانسلر ڈاکٹر نیاز اختر نے وی نیوز کو بتایا ہے کہ یہ ہم سب کے لیے خوشی کی خبر ہے کہ سی ڈی اے نے یونیورسٹی کا اصلی زمینی ملکیتی رقبہ تسلیم کر لیا ہے۔
ڈاکٹر نیاز اختر نے کہا کہ ہم نے اس کے لیے مسلسل کوششیں کیں اور یونیورسٹی کو اس حوالے سے تنازعات کا سامنا کرنا پڑ مگر بالآخر ہمیں کامیابی ملی۔
وائس چانسلر کے مطابق قائد اعظم یونیورسٹی پاکستان کی نمبر ون جامعہ ہے جس کا تعلیمی نظام مسلسل پھیل رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس سال بھی ہم نے متعدد پروگرامز نئے شروع کیے ہیں جس کے لیے انفراسٹرکچر درکار ہوتا ہے۔
ڈاکٹر نیاز نے کہا کہ ہم آج نہیں بلکہ آج سے کئی سال آگے کی ضروریات دیکھ رہے ہیں اس لیے وسیع زمین کی دستیابی یقینی بنانا ضروری تھا۔
مزید پڑھیے: عید سے چند روز قبل قائداعظم یونیورسٹی میں ’ہولی‘ کیوں منائی گئی؟
ان کا کہنا تھا کہ ہماری کوشش ہے کہ سی ڈی اے یونیورسٹی کے زیر قبضہ زمین کی ’ڈی مارکیشن‘ کر کے ہمیں اس حوالے سے بھی آگاہ کرے۔
انہوں نے کہا کہ یہ چیز ریکارڈ پر ہونی چاہیے کہ یونیورسٹی کے پاس اس زمین کا کتنا قبضہ موجود ہے جو سی ڈی اے نے نوٹیفکیشن کے ذریعے یونیورسٹی کی ملکیت تسلیم کی ہے۔
مزید پڑھیں: سی ڈی اے کا غیر قانونی تعمیرات اور پلاٹس پر ایکشن، اب تک کہاں کہاں کارروائی ہوچکی ہے؟
ڈاکٹر نیاز نے تسلیم کیا کہ یونیورسٹی کی زمین پر اب بھی قبضہ موجود ہے مگر جامعہ براہ راست اس مسئلے میں شامل نہیں ہونا چاہتی اور اس کی کوشش ہے کہ متعلقہ ادارے اس حوالے سے اقدامات کریں اور کل ملکیتی زمین پر قبضہ ممکن بنانے میں کردار ادا کریں۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
سی ڈی اے قائداعظم یونیورسٹی قائداعظم یونیورسٹی اور سی ڈی اے قائداعظم یونیورسٹی کی ملکیتی زمین وائس چانسلر قائد اعظم یونیورسٹی ڈاکٹر نیاز اختر