Express News:
2025-11-03@19:20:13 GMT

بہرملاقات

اشاعت کی تاریخ: 24th, May 2025 GMT

علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کا اردو زبان کی ترویج و تشکیل میں جو اہم کردار رہا ہے، اس میں ان خود نوشتوں نے بہت اہم کردار ادا کیا ہے جو وہاں لکھی گئیں۔ ان خیالات کا اظہار ہندوستان کی ریاست اتر پردیش کے ضلع علی گڑھ میں واقع عالمی شہرت یافتہ جامعہ علی گڑھ کے شعبہ عربی کے پروفیسر ابو سفیان اصلاحی نے بہرملاقات کی ایک نشست میں کیا جو روشنیوں کے شہر کراچی کی علمی درسگاہ جامعہ کراچی کی ڈاکٹر جمیل جالبی لائبریری میں منعقد ہوئی۔

علمی و ادبی شہرکے دل میں واقع اس عظیم الشان لائبریری کو دیکھ کر راقم کو بے حد مسرت ہوئی۔ اس وقت کے اکابرین کی دوستی محض ایک فرد تک محدود نہیں ہوتی تھی بلکہ آپس میں خاندانوں میں بھی باہم تعلقات استوار ہوتے وہ ہمارے خاندان کے سرپرست اعلیٰ کا بہت احترام کرتے اور محترم ابا سے تو دوستی تھی ہی گھر کے چھوٹے سب ان کی بڑے بھائی کی طرح تعظیم کرتے۔

ڈاکٹر جمیل جالبی 12جون 1929کو علی گڑھ میں پیدا ہوئے۔ بطور مورخ ادب اردو دنیا میں ان کا کوئی ہم عصر نہیں، مترجم کی حیثیت سے بھی ان کا کوئی نعم البدل نہیں۔ ان کی مرتب کردہ ضخیم اردو انگریزی لغت ایک تاریخی کارنامہ ہے۔ پاکستانی کلچر پر ان کی تصنیف سند کا درجہ رکھتی ہے۔ ان کا اصل نام محمد جمیل خان تھا، ان کے اجداد یوسف زئی پٹھان تھے۔

ان کی ابتدائی تعلیم علی گڑھ میں ہوئی۔ 1943 میں گورنمنٹ ہائی اسکول سہارنپور سے انھوں نے میٹرک کیا، میرٹھ کالج سے 1945 میں انٹر اور1947 میں بی اے کی سند حاصل کی۔ کالج کی تعلیم کے دوران صحافی سید جالب دہلوی ان کے آئیڈیل ہوا کرتے تھے، اسی نسبت سے انھوں نے اپنے نام کے ساتھ ’’جالبی‘‘ کا اضافہ کر لیا۔

تقسیم ہند کے بعد 1947 میں کراچی آگئے، بعد ازاں برصغیر پاک وہندکے نامور ماہر تعلیم ریاضی دان ڈاکٹر اللہ بخش کمالی کی خواہش پر انھیں بہادر یار جنگ ہائی اسکول میں ہیڈ ماسٹری کی پیش کش ہوئی جسے انھوں نے بخوشی قبول کرلیا۔

دوران ملازمت انھوں نے ایم اے، ایل ایل بی کی اسناد حاصل کیں۔1972ء میں سندھ یونیورسٹی سے ڈاکٹر غلام مصطفی خان کی نگرانی میں قدیم اردو ادب پر مقالہ لکھ کر پی ایچ ڈی اور 1978 میں مثنوی کدم راؤ پدم راؤ پر ڈی لٹ کی سند حاصل کی، بعد ازاں سی ایس ایس کے امتحان میں بھی کامیابی حاصل کی۔

1983 میں جامعہ کراچی کے وائس چانسلر مقرر ہوئے، 1987 میں مقتدرہ قومی زبان کے چیئرمین اور 1990 سے1997 تک اردو لغت بورڈ کے سربراہ تعینات ہوئے۔ نوے برس کی عمر میں18اپریل2019ء کو اس جہان فانی سے کوچ کرگئے اور یوں اردو ادب کا ایک درخشاں باب بند ہوگیا۔ ڈاکٹر ابوسفیان اصلاحی کی تصنیف ’’ اوراق علی گڑھ‘‘ ہر خاص وعام کی توجہ کا مرکز ہے خصوصاً نئی نسل کی آگاہی کے لیے جامعہ علی گڑھ کی ایک تاریخ ہے۔

اصلاحی صاحب ستر سے زائد کتابیں تصنیف کرچکے ہیں جن میں تقریبا بیس جامعہ علی گڑھ کے بانی اور علی گڑھ سے متعلق ہیں۔ آپ علی گڑھ کی تہذیب، تعلیم اور تحقیق پر مسلسل کام کررہے ہیں۔ سفیان صاحب اس بات کے خواہاں ہیں کہ تحقیق اور تنقید ایک دوسرے کے لیے لازم ہیں جب بھی کسی تحقیق پر تنقید کی جائے تو پورے علمی شان سے کی جانی چاہیے کسی بھی تحقیرکے بغیر۔

ان کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ اے ایم یو میں پہلی بارکسی مصنف کی نو تصانیف کا اجراء ایک ساتھ عمل میں آیا جو اردو زبان میں ہیں اور علی گڑھ تحریک اور بانی درسگاہ سے متعلق ہیں۔1857 کی جنگ آزادی میں مسلمانان ہند کی سخت ترین ناکامی کے باعث سرسید وقت کے تقاضوں کو دیکھتے ہوئے نئے علوم کے حصول پر زور دینے لگے۔

جس کی ایک بڑی وجہ یہ بھی تھی کہ سرسید یہ مشاہدہ کرچکے تھے کہ برطانوی حکومت انگریزی کو سرکاری زبان کے طور پرنافذ کرچکی تھی اور مسلمان چونکہ عربی، فارسی اور اردو زبانوں میں مشرقی علوم حاصل کرکے نچلے درجے کی ملازمت تو حاصل کرسکتے ہیں۔

پر اعلیٰ عہدوں تک رسائی نہیں حاصل کرسکتے اور برطانوی راج کے ہوتے ہوئے انگریزی زبان کی ہی حکمرانی ہوگی، اسی مصلحت پسندی کے سبب سرسید نے مسلمانان ہند پر انگریزی تعلیم کے حصول پر زور دیا چونکہ وہ جانتے تھے کہ انگریزوں کی غلامی سے نجات کا راستہ انگریزی تعلیم سے ہوکر ہی گزرتا ہے، جس کے زیر اثرایک مخصوص مکتبہ فکرکے عالموں نے یہ سمجھ لیا کہ سرسید اردو زبان کے مخالف تھے جب کہ وہ یہ جانتے تھے کہ ہندوستان کے کروڑوں باشندوں کی تعلیم کا مقصد اردوکو ذریعہ تعلیم بنائے بغیر ممکن نہیں۔

یہی وجہ ہے کہ اب ایک خود مختار اور آزاد مملکت پاکستان میں مادری زبان اردوکو ہر سطح پر، سرکاری و تعلیمی زبان کے طور پر نافذ کرنے کی ضرورت شدت اختیار کرچکی ہے تاکہ ہر خاص و عام کو کاروبار مملکت میں برابری کی سطح پر شامل کیا جاسکے لیکن افسوس صد افسوس سرسید کے وہ مصلحت پسندانہ نظریات جو غلام ہندوستان میں وضع کیے گئے تھے وہ آج بھی آزاد خود مختار مملکت میں قائد کی وفات کے بعد سے بہ طور نظریہ سرسیدجاری و ساری ہیں۔

ڈاکٹر اصلاحی کا زیادہ تر وقت مطالعے، تحریر و تحقیق میں گزرتا ہے جس کے زیر اثر وہ کئی سالوں سے دھوپ کی تمازت حاصل کرنے کے لیے بھی وقت نہ نکال سکے مگر پانچوں وقت کی باجماعت نماز کی ادائیگی میں کبھی خلل نہ پڑنے دیا۔ ان کی شخصیت کا خاصہ وقت کی پابندی ہے۔

ان کی نگاہ میں کسی بھی مضمون میں کچھ سیکھنا ہو تو جامعہ علی گڑھ سے بہترین جگہ کوئی اور نہیں۔تقریب میں شریک معروف اردو دان ڈاکٹر معین الدین عقیل نے کہا کہ آب بیتیاں بہت اہم ماخذ ہوتی ہیں۔ قارئین کی دلچسپی کے لیے ، دو اہم ماخذ جو اب تک غیر مطبوعہ ہیں۔ میری ڈاکٹر اصلاحی سے گزارش ہے کہ وہ اپنی مصروفیات میں سے وقت نکال کر ان کی اشاعت کروائیں۔

عام استفادے کے لیے تاکہ وہ محفوظ ہوجائیں آنے والی نسلوں کے لیے۔ میزبان تقریب ممتاز تاریخ داں ڈاکٹر نگار سجاد ظہیر نے کہا کہ کسی بھی علمی نشست کی حاصلات میں اگر آپ کے پاس کوئی فکر آئے تو وہ اس بات کی ترجمانی کرتی ہے کہ آپ یہاں سے کچھ نہ کچھ استفادہ کرکے اٹھے ہیں اور آج کی اس نشست کی میری حاصلات کچھ یوں ہیں کہ جو لوگ بہت زیادہ صاحب مطالعہ ہیں اور کتابوں کے درمیان رہتے ہیں وہ اپنی خود نوشت کچھ اس طرح مرتب کریں کہ جس میں ان تمام کتابوں کا تذکرہ بھی ہو جو ان کے مطالعے میں رہیں خواہ وہ کسی بھی نوعیت کی ہوں۔

جس طرح علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں آب بیتیاں لکھی گئی ہیں۔ اسی طرح ہمارے روشنیوں کے شہرکراچی میں ابھی تک اس طرح کا کوئی کام نہیں ہوا جو ہونا چاہیے تاکہ اس پروقار علمی شہرکی تہذیبی ادبی اقدار کو اجاگرکیا جاسکے۔ اس علمی نشست میں حمزہ فاروقی، نوشابہ صدیقی،حافظ سہیل شفیق، وقار شیرانی و دیگر صاحبان علم و عرفان نے بڑی تعداد میں شرکت کی۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: جامعہ علی گڑھ انھوں نے کسی بھی زبان کے حاصل کی کے لیے

پڑھیں:

کلین بیوٹی برانڈ

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

کلیفورنیا میں مقیم شینا زادہ کی نقصان دہ اجزا سے پاک کاسمیٹکس کی برانڈ ’کوساس‘ نے بین الاقوامی منڈیوں پر اپنی نگاہیں مرکوز کر دی ہیں۔ شینا زادہ نے لاس اینجلس میں واقع اپنے گھر سے فوربز میگزین کو دیے گئےانٹرویو میں بتایا: ’میں خوبصورت چیزیں بنانے کے لیے موجود ہوں۔ یہ میرا مقصد ہے، یعنی جلد کی دیکھ بھال کے جنونوں کے لیے میک اپ۔‘ 41 سالہ شینا نے 2015 میں کچھ لپ سٹکس کے شیڈز اور محدود توقعات کے ساتھ کوساس کی بنیاد رکھی، لیکن 10 سال بعد، یہ ’صاف خوبصورتی‘ کی سب سے کامیاب مثالوں میں سے ایک بن گیا ہے۔ اس تصور سے مراد وہ مصنوعات ہیں جو نقصان دہ کیمیکلز جیسے پیرا بینز اور سلفیٹ کے بغیر بنائی جاتی ہیں۔ فوربز کا اندازہ ہے کہ ایک دہائی کے بعد یہ کاروبار سالانہ 150 ملین ڈالر کی پروڈکٹس فروخت کرتا ہے، جس میں ساؤتھ بیچ سے سعودی عرب تک پھیلے ہوئے سٹورز میں تقریباً 200 مصنوعات شامل ہیں۔فوربز کے مطابق شینا کیلیفورنیا میں پلی بڑھی ہیں۔ ان کے والد ایک سٹور کیپر اور بعد میں میل مین تھے اور والدہ ایک مقامی مال میں کلینک کاسمیٹکس کی دکان پر کام کرتی تھیں۔ ان کا گھر میک اپ کے نمونوں اور بیوٹی میگزین سے بھرا ہوتا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ انہیں بھی رنگوں کا جنون ہو گیا اور نوعمری میں وہ اپنے دوستوں کو لپ سٹک اور آئی شیڈو کے انتخاب کے بارے میں ماہرانہ مشورے دیتی تھیں۔ یونیورسٹی میں حیاتیات کی تعلیم حاصل کرنے کے بعد، انہوں نے کچھ عرصے تک ایک لیب میں کام کیا، لیکن جلد ہی اپنا راستہ بدل لیا اور برانڈز کی ترقی سے متاثر ہو کر، انہوں نے بزنس ایڈمنسٹریشن میں ماسٹرز کی ڈگری حاصل کی اور 2015 میں اپنی بچت کے 70 ہزار ڈالرز کے ساتھ کوساس کا آغاز کیا۔ شینا زادہ کی کہانی خواب، خطرہ مول لینے اور تخلیقی صلاحیتوں کے امتزاج کی ایک نادر مثال ہے۔ ایک ایسا سفر جس کا آغاز چار سادہ لپ سٹکس سے ہوا تھا اور اب یہ 150 ملین ڈالر مالیت کی خوبصورتی کی سلطنت بن چکا ہے۔

ویب ڈیسک گلزار

متعلقہ مضامین

  • وفاقی تعلیمی بورڈ نے غیر ملکی اردو انٹرنیشنل طلبہ کے امتحانات کا شیڈول جاری کر دیا
  • وفاقی تعلیمی بورڈ اسلام آباد نے اردو انٹرنیشنل امتحان کا شیڈول جاری کر دیا
  • صرف 22 سال کی عمر میں 3نوجوانوں کو دنیا کے کم عمر ترین ارب پتی بننے کا اعزاز حاصل
  • کراچی، اسپتال کے اخراجات ادا کرنے کیلئے بچہ فروخت
  • خرابات فرنگ
  • ترکیہ کے رنگ میں رنگا پاکستان
  • کلین بیوٹی برانڈ
  • نادرونایاب تاریخ اردو نثر’’سیر المصنفین‘‘ اربابِ ذوق ِحصول کیلئے منظرعام پر
  • رنگِ ادب کا اقبال عظیم نمبر
  • نیوزی لینڈ نے ون ڈے سیریز میں انگلینڈ کو وائٹ واش کردیا