پاکستان کی سرزمین پر دہشت گردی کے واقعات ایک عرصے سے جاری ہیں۔بھارت ہمیشہ سے پاکستان کو اندر سے کمزور کرنے کی کوششوں میں لگا ہواہے۔ یہ دشمنی صرف سرحدی تنازعات یا سیاسی اختلافات تک محدود نہیں بلکہ یہ ایک انتہائی گہری سازش ہے جس کا مقصد پاکستان کی سلامتی کو نقصان پہنچانا ہے۔خضدار حملہ اس سازش کا ایک واضح مظہر ہے ۔خضدار حملے کے تانے بانے بھارت سے ملتے ہیں، جہاں سے دہشت گردوں کو تربیت دے کر پاکستان میں تخریب کاری کے لیے بھیجا جاتا ہے۔پاکستانی حکام نے متعدد بار اس بات کی نشاندہی کی ہے کہ بھارت کی خفیہ ایجنسی ’’را‘‘ پاکستان میں دہشت گردی کی کارروائیوں میں ملوث ہے۔ جوہر ٹاؤن دھماکے میں مقامی دہشت گردوں کے بھارتی خفیہ ایجنسی ’’را‘‘ سے روابط کی تصدیق ہوئی تھی۔ اسی طرح، کراچی سے بھی ’’را‘‘ کا ایک بڑا اور خطرناک نیٹ ورک پکڑا گیا تھا جو کئی شہروں میں دہشت گردی کی منصوبہ بندی کر رہا تھا۔ ان شواہد سے واضح ہوتا ہے کہ بھارت پاکستان میں دہشت گردی کی کارروائیوں کے پیچھے ہے۔اسی حوالے سے فتنہ الخوارج اور فتنہ الہندوستان جیسے گروہوں کا کردار انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ یہ گروہ اسلام کے نام پر فرقہ واریت، دہشت گردی، اور تشدد کا بیج بوتے ہیں تاکہ مسلمانوں کے درمیان نفرت اور انتشار پھیلائیں۔ خوارج کی تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ یہ وہ گروہ ہیں جو اپنی انتہا پسندی اور فرقہ وارانہ سوچ کی بنا پر اسلام کے اصولوں سے دور ہو چکے ہیں اور صرف فساد پھیلانے پر تلے رہتے ہیں۔ آج بھی یہ گروہ بیرونی طاقتوں کی مالی و عسکری معاونت سے مسلح ہو کر ہمارے ملک میں دہشت گردی کے واقعات کو جنم دے رہے ہیں۔ ان کا مقصد صرف اور صرف پاکستان کو کمزور کرنا ہے تاکہ وہ اپنے جغرافیائی، اقتصادی، اور سیاسی مفادات حاصل کر سکیں۔پاکستان میں خضدار میں حملے کے لئے دہشت گردوں کو نہ صرف مالی معاونت دی گئی بلکہ ذہنی تربیت بھی دی گئی۔دہشت گردوں کو اس بات کی تربیت دی جاتی ہے کہ وہ کس طرح نہتے شہریوں پر حملے کریں، خودکش حملے کریں اور عوام میں خوف و ہراس پھیلائیں۔ اس تربیت کا مقصد ہمارے ملک کی ترقی کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کرنا اور عوامی اعتماد کو کمزور کرنا ہے۔
دہشت گردوں کی تربیت کا عمل نہایت سنجیدہ اور منظم طریقے سے کیا جاتا ہے۔ نہ صرف عسکری مہارت دی جاتی ہے بلکہ نفسیاتی تربیت بھی دی جاتی ہے تاکہ یہ دہشت گرد اپنی دہشت گردانہ کارروائیوں کو بھرپور طریقے سے انجام دے سکیں۔ ان کو بتایا جاتا ہے کہ کس طرح ایک معمولی واقعے کو بڑے پیمانے پر پھیلایا جائے تاکہ اس کے اثرات زیادہ دیرپا ہوں۔ انہیں دہشت گردی کے جدید طریقے، ہتھیاروں کا استعمال، اور سائبر ٹیکنالوجی کے استعمال کی تربیت بھی دی جاتی ہے۔ اس پورے عمل کا مقصد پاکستان کو اندر سے توڑنا اور دہشت گردی کی لہر کو بڑھانا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمیں ان نیٹ ورکس کی اصل حقیقت کو سمجھ کر سخت اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔پاکستان میں اس قسم کے حملوں کا ایک بڑا سبب داخلی انتشار اور فرقہ واریت کو ہوا دینا بھی ہے۔ دشمن یہی چاہتا ہے کہ ہمارے درمیان اختلافات پیدا ہوں، قوم ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو اور ہم اپنی ترقی کے راستے سے ہٹ جائیں۔ اس لیے ہمیں ہر سطح پر اتحاد قائم کرنا ہوگا اور دہشت گردوں کے خلاف اجتماعی محاذ بنانا ہوگا۔ اگر ہم اپنے اختلافات کو پس پشت ڈال کر ملکی سلامتی کو مقدم رکھیں تو کوئی بھی دشمن ہماری قوم کو نقصان نہیں پہنچا سکتا۔ہماری حکومت نے دہشت گردی کے خلاف بہت سی مؤثر پالیسیاں اور اقدامات کیے ہیں جن کے نتیجے میں دہشت گردوں کی کمر ٹوٹ چکی ہے، لیکن یہ کافی نہیں۔ پاکستان کے ہر شہری کو بھی چاہیے کہ وہ دہشت گردی کے خلاف اپنی ذمہ داری سمجھ کر ہر قسم کی مشکوک سرگرمیوں کی اطلاع متعلقہ اداروں کو دے۔ عوامی سطح پر شعور بیدار کرنے کے لیے تعلیمی اداروں، میڈیا، اور مذہبی رہنماؤں کو اپنی ذمہ داریوں کو بہتر طریقے سے نبھانا ہوگا تاکہ لوگ دہشت گردی کی اصل حقیقت سے آگاہ ہوں اور دشمن کی سازشوں کا پتہ چلے۔یہ بھی حقیقت ہے کہ بھارت کے ساتھ جاری کشیدگی کے باعث ہماری سرحدوں پر سیکورٹی کا چوکنا رہنا انتہائی ضروری ہے۔ بھارت کی جانب سے پاکستان کی داخلی سلامتی میں مداخلت اور دہشت گردی کی کارروائیوں میں مدد ایک واضح دشمنی ہے جس کا جواب مضبوطی سے دینا ہوگا۔ نہ صرف پاکستان کی افواج بلکہ تمام سیکیورٹی اداروں کو بھی چاہیے کہ وہ ہر ممکنہ خطرے کا پیشگی اندازہ لگائیں اور اس کے لیے مؤثر حکمت عملی تیار کریں۔ خوارج اور فتنہ الہندوستان جیسے گروہوں کا قیام ایک بڑا مسئلہ ہے، یہ گروہ پاکستان کی سلامتی کے لیے ایک خطرہ ہیں، اس لیے ان کے خلاف سخت قانون سازی اور مؤثر نفاذ کی ضرورت ہے۔ ہمیں ایسے عناصر کو بے نقاب کرنا ہوگا اور ان کی پشت پناہی کرنے والوں کو بھی بے دخل کرنا ہوگا۔
پاکستان کی تاریخ اور موجودہ حالات ہمیں بتاتے ہیں کہ دہشت گردی کا خاتمہ صرف عسکری کاروائیوں سے ممکن نہیں بلکہ اس کے لیے معاشرتی، تعلیمی اور سیاسی محاذ پر بھی کام کرنا ہوگا۔ ہمیں اپنے نوجوانوں کو ایسے پروپیگنڈے سے بچانا ہوگا جو انہیں غلط راستے پر لے جاتا ہے۔ تعلیم اور شعور ہی وہ ہتھیار ہیں جن سے ہم دہشت گردی کے خلاف مؤثر مزاحمت کر سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ، ہمیں اپنی معیشت کو مضبوط کرنا ہوگا تاکہ غربت اور بے روزگاری جیسے مسائل کا خاتمہ ہو اور نوجوان دہشت گردی کی طرف مائل نہ ہوں۔ پاکستان کو حکومتی اور عوامی سطح پر متحد ہو کر اس چیلنج کا مقابلہ کرنا ہوگا۔ صرف اسی صورت میں ہم اپنے وطن کو دہشت گردی کے ناسور سے پاک کر سکتے ہیں۔ یاد رکھیں، یہ جنگ صرف حکومت کی نہیں بلکہ ہر پاکستانی کی جنگ ہے۔ ہمیں اپنے اتحاد، عزم اور حب الوطنی سے دشمنوں کے ناپاک عزائم کو ناکام بنانا ہوگا۔ پاکستان کا مستقبل روشن ہے، بشرطیکہ ہم سب مل کر اس کی حفاظت کریں۔
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: دہشت گردی کی دہشت گردی کے پاکستان میں پاکستان کی پاکستان کو دی جاتی ہے کرنا ہوگا کے خلاف کا مقصد جاتا ہے کے لیے
پڑھیں:
پانی جنگ کا ہتھیار نہیں،بھارت ریاستی دہشت گردی بند کرے،پاکستان
بھارت نے پھر گمراہ کن معلومات، انحراف اور انکار کا سہارا لیا ہے، گول مول باتیں حقائق کو نہیں چھپا سکتیں،پاکستانی مندوب
بھارت دنیا بھر میں دہشت گردی اور ٹارگٹ کلنگ کی سرپرستی کرتا ہے، اقوام متحدہ کیسلامتی کونسل میں مباحثے میں اظہار خیال
اقوام متحدہ میں پاکستان کی مندو ب صائمہ سلیم نے بھارت کو دوٹوک الفاظ میں کہا ہے کہ وہ ریاستی دہشت گردی بند کرے اور بامعنی مذاکرات کا آغاز کرے،پانی زندگی ہے، جنگ کا ہتھیار نہیں صائمہ سلیم نے یہ بات سلامتی کونسل کے کھلے مباحثے کے دوران بھارتی کے بیان پر ردعمل میں کہی.صائمہ سلیم نے کہا کہ بھارت نے ایک بار پھر گمراہ کن معلومات، انحراف اور انکار کا سہارا لیا ہے بھارت کی جانب سے گول مول باتیں حقائق کو نہیں چھپا سکتیں صائمہ سلیم نے دوٹوک انداز میں کہا کہ ہندوستان مقبوضہ جموں و کشمیر میں شہریوں کو بیدریغ قتل اور زخمی کرتا ہے، پاکستان پر بلا اشتعال حملے کرکے شہریوں کو نشانہ بناتا ہے۔کینیڈا میں سکھ رہنما ہردیپ سنگھ نجر کے قتل اور امریکا میں سکھ رہنما گرپتونت سنگھ کے قتل کی سازش کی جانب اشارہ کرتے ہوئے صائمہ سلیم نے سلامتی کونسل کو یاد دلایا کہ بھارت نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا بھر میں دہشت گردی اور ٹارگٹ کلنگ کی سرپرستی کرتا ہے۔صائمہ سلیم نے کہا کہ پاکستان نے بین الاقوامی برادری کے ساتھ مل کر پہلگام واقعے کی مذمت کی اگر بھارت کے پاس چھپانے کے لیے کچھ نہیں تھا تو اسے چاہیے تھا کہ وہ اس واقعے کی غیر جانبدار، معتبر اور آزادانہ تحقیقات پر رضامند ہوتا پہلگام واقعہ کے بعد مودی سرکار کی جانب سے سندھ طاس معاہدہ یکطرفہ طورپر معطل کیے جانے کو ہدف بناتے ہوئے صائمہ سلیم نے کہا کہ بھارت نے دریائوں کے بہا ئوکو روکنے کی کوشش کی ہے جو پاکستان کے 24 کروڑ عوام کے لیے زندگی کی علامت ہیں پانی زندگی ہے، جنگ کا ہتھیار نہیں۔صائمہ سلیم نے اراکین کو یاد دلایا کہ 6 سے 10 مئی کے دوران ہندوستان نے پاکستان کے خلاف کھلی جارحیت کا ارتکاب کیا اور بلااشتعال حملے کرکے معصوم شہریوں کو نشانہ بنایا ان حملوں میں 40 شہری شہید ہوئے جن میں 7 خواتین اور 15 بچے شامل ہیں، جبکہ 121 افراد زخمی ہوئے جن میں 10 خواتین اور 27 بچے شامل ہیں. پاکستان میں دہشت گردی کی حالیہ بہیمانہ وارداتوں کی جانب سے اشارہ کرتے ہوئے صائمہ سلیم نے کہا کہ بھارت مسلسل دہشت گرد گروہوں کو مالی اور عملی مدد فراہم کرتا ہے جن میں ٹی ٹی پی، بی ایل اے اور مجید بریگیڈ شامل ہیں، جن کا مقصد پاکستان میں معصوم شہریوں کا قتل ہے 21 مئی کو بلوچستان کے ضلع خضدار میں ایک اسکول بس پر بزدلانہ حملے میں معصوم بچوں کی جانیں لی گئیں اور درجنوں زخمی ہوئے۔سلامتی کونسل مباحثے میں صائمہ سلیم نے کہا کہ اگر ہندوستان واقعی امن، سلامتی اور اچھے ہمسائیگی کے اصولوں پر کاربند ہے، تو اسے چاہیے کہ وہ ریاستی دہشت گردی بند کرے، کشمیری عوام پر ظلم و ستم کا سلسلہ ختم کرے، بین الاقوامی قوانین، اقوام متحدہ کے منشور اور دوطرفہ معاہدات کی پاسداری کرے اور جموں و کشمیر کے تنازعے کے پرامن حل کے لیے بامعنی مذاکرات کا آغاز کرے، جیسا کہ سلامتی کونسل کی متعلقہ قراردادوں اور کشمیری عوام کی خواہشات کے مطابق ہے.