ججوں کی سینیارٹی لسٹ دہائیوں میں بنتی ہے،راتوں رات سینیارٹی لسٹ ایگزیکٹو کے ذریعے تبدیل کرنا غاصبانہ عمل ہے،وکیل فیصل صدیقی
اشاعت کی تاریخ: 26th, May 2025 GMT
اسلام آباد(ڈیلی پاکستان آن لائن)اسلام آباد ہائیکورٹ میں ججز سینیارٹی اورتبادلے سے متعلق درخواستوں پر کراچی بار کے وکیل فیصل صدیقی نے دلائل دیتے ہوئے کہاکہ ججوں کی سینیارٹی لسٹ دہائیوں میں بنتی ہے،ٹرانسفر کرکے ججوں کی سینیارٹی لسٹ راتوں رات تبدیل نہیں کی جا سکتی،راتوں رات سینیارٹی لسٹ ایگزیکٹو کے ذریعے تبدیل کرنا غاصبانہ عمل ہے۔
نجی ٹی وی چینل جیو نیوز کے مطابق اسلام آبادہائیکورٹ میں ججز سنیارٹی اور تبادلے سے متعلق درخواستوں پر سماعت ہوئی،جسٹس محمد علی مظہر کی سربراہی میں پانچ رکنی آئینی بنچ نے سماعت کی،وکیل کراچی بار فیصل صدیقی نے کہاکہ اسلام آباد ہائیکورٹ قیام کا قانون آئین کے آرٹیکل 175کے تحت بنا ہے،قانون میں صوبوں سے ججز کی تقرری کا ذکر ہے،جسٹس محمد علی مظہر نے کہاکہ آپ کا کہنا ہے اسلام آباد ہائیکورٹ میں ججز تبادلہ پر نہیں آ سکتے،فیصل صدیقی نے کہا کہ تبادلہ ہو بھی جائے تو مستقل نہیں ہوگا، تبادلہ پر واپس جانے پر جج کودوبارہ حلف نہیں اٹھاناہوگا، اگر دوبارہ اٹھایا بھی جائے تو پہلے حلف کا تسلسل ہوگا۔
سوشل میڈیا پلیٹ فارمز سے منسلک 184 ملین سے زائد پاسورڈز لیک ہونے کا انکشاف
جسٹس محمد علی مظہر نے کہاکہ انڈیا کی طرح یہاں بھی ہائیکورٹس ججز کی ایک سنیارٹی لسٹ ہو تو کیا ہوگا، جسٹس شکیل احمد نے کہاکہ سینیارٹی لسٹ یکساں ہو توبھی کوئی جھگڑا نہیں ہوگا، فیصل صدیقی نے کہا کہ مشترکہ سینیارٹی لسٹ پر سب ججز نتائج سے آگاہ ہوں گے،جج کا مستقبل تبادلہ کرنا جوڈیشل کمیشن اختیارات لینے کے مترادف ہے ،جسٹس محمد علی مظہر نے کہاکہ کیا آرٹیکل 175اے کی وجہ سے تبادلہ کا آرٹیکل 200ختم ہو گیا؟کیا آرٹیکل 175اے کے بعد ججز کا تبادلہ نہیں ہو سکتا؟انڈیامیں تو جج کا تبادلہ رضامندی کے بغیر کیا جاتا ہے،فیصل صدیقی نے کہاکہ انڈیا میں ججز کی سینیارٹی لسٹ مشترکہ ہے،جسٹس محمد علی مظہر نے کہاکہ آپ یہ کہنا چاہتے ہیں آرٹیکل 175اے نے آرٹیکل 200کو ہی ختم کردیا؟
پنجاب میں آندھی و طوفان سے ہونے والے 80 فیصد نقصانات کی وجہ سولر پینلز قرار
وکیل فیصل صدیقی نے کہاکہ ججوں کی سینیارٹی لسٹ دہائیوں میں بنتی ہے،ٹرانسفر کرکے ججوں کی سینیارٹی لسٹ راتوں رات تبدیل نہیں کی جا سکتی،راتوں رات سینیارٹی لسٹ ایگزیکٹو کے ذریعے تبدیل کرنا غاصبانہ عمل ہے،جسٹس محمد علی مظہر نے کہاکہ ججز ٹرانسفر کیلئے 2ہائیکورٹس چیف جسٹس اور چیف جسٹس پاکستان نے رائے دی،ایک جج کے ٹرانسفر کے عمل میں چار درجات پر عدلیہ کی شمولیت ہوتی ہے،اگر ایک درجے پر بھی انکار ہو تو جج ٹرانسفر نہیں ہو سکتا، اگر ٹرانسفر ہونے والا جج انکار کردے تو عمل رک جائے گا، متعلقہ ہائیکورٹس کے چیف جسٹس میں سے کوئی ایک بھی انکار کردے تو عمل رک جائے گا، پہلے تین مراحل کے بعد چیف جسٹس پاکستان انکار کردیں تو بھی عمل رک جائے گا، اگر سب کچھ ایگزیکٹو کے ہاتھ میں ہوتا تو الگ بات تھی،ججز ٹرانسفر کے عمل میں چار جوڈیشل فورمز سے رائے لی گئی،وکیل کراچی بار فیصل صدیقی نے کہاکہ قانون کے عمل میں بدنیتی کا مظاہرہ کیا گیا، سنییارٹی کے معاملے میں عدلیہ کو اندھیرے میں رکھا گیا۔
دنیا کے اہم ترین ملک نے فلسطینی ریاست کو باضابطہ طور پر تسلیم کرنے کا اعلان کر دیا
عدالت نے کراچی بار کے وکیل فیصل صدیقی کے دلائل مکمل ہونے پر ججز ٹرانسفر اینڈ سینیارٹی کیس کی سماعت کل تک ملتوی کردی ،اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان کل دلائل جاری رکھیں گے۔
مزید :.ذریعہ: Daily Pakistan
کلیدی لفظ: جسٹس محمد علی مظہر نے کہاکہ ججوں کی سینیارٹی لسٹ فیصل صدیقی نے کہاکہ وکیل فیصل صدیقی ایگزیکٹو کے اسلام ا باد نے کہاکہ ا کراچی بار راتوں رات چیف جسٹس ا رٹیکل نہیں ہو
پڑھیں:
آج والدین اپنے بچوں کو مار نہیں سکتے: عدنان صدیقی
پاکستانی شوبز انڈسٹری کے معروف اداکار عدنان صدیقی کا کہنا ہے کہ ہمارے وقت میں والدین بچوں کو مارا کرتے تھے لیکن آج والدین اپنے بچوں کو مار نہیں سکتے۔
حال ہی میں اداکار نے ایک پوڈکاسٹ میں بطور مہمان شرکت کی، جہاں انہوں نے اپنے بچپن کی یادیں تازہ کیں اور بچوں کی تربیت کے حوالے سے اپنے خیالات کا اظہار بھی کیا۔
انٹرویو کے دوران ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے انہوں نے اپنی چند عادتوں کا ذکر کیا جو بچوں کی تربیت کرتے ہوئے انہوں نے اپنے والد سے اپنائیں۔
انہوں نے کہا کہ میں چاہتا ہوں کہ بچے وقت پر سو جایا کریں، باہر کا کھانا نہ کھائیں یا کم کھائیں۔ ایک وقت تھا میرے والد بھی مجھے ان چیزوں سے روکا کرتے تھے اور اب میں اپنے بچوں کو منع کرتا ہوں تاکہ ان میں نظم و ضبط قائم رہے۔
انہوں نے بتایا کہ ہمارے والد صرف منع نہیں کرتے تھے بلکہ مارتے بھی تھے، ہمارے وقتوں میں والدین بچوں کو مارا کرتے تھے لیکن آج ایسا نہیں ہے، آج آپ اپنے بچوں کو مار نہیں سکتے اور مارنا چاہیے بھی نہیں کیونکہ آج کے بچے برداشت نہیں کرسکتے۔
عدنان صدیقی کا کہنا ہے کہ بچوں کو سکھانے کے لیے ایک یا دو تھپڑ تو ٹھیک ہیں لیکن مارنا نہیں چاہیے۔ بچوں کو یہ معلوم ہونا چاہیے کہ اگر وہ کسی چیز کو لے کر والدین سے جھوٹ کہہ رہے ہیں تو وہ غلط کام کر رہے ہیں، والدین سے چیزوں کو نہ چھپائیں۔
انہوں نے یہ بھی کہا کہ ہمارے وقتوں میں بچوں اور والدین کے درمیان فاصلہ ہوا کرتا تھا بات نہیں ہوتی تھی لیکن آج کے بچے والدین سے کھل کر بات کرتے ہیں اور ہم بھی یہ وقت کے ساتھ ساتھ سیکھ گئے ہیں کہ مارنے کے بجائے بات کرنا زیادہ ضروری ہے۔