عید قرباں قریب آتے ہی جہاں گلی محلوں میں جانوروں سے رونق بڑھ جاتی ہے، وہیں ان جانوروں کا خیال بھی خوب رکھا جاتا ہے۔ اب جبکہ عیدالاضحٰی میں کم دن رہ گئے ہیں تو گلی محلوں میں ابھی سے جانور نظر آنے لگے ہیں۔ لیکن اکثر دیکھنے میں آیا ہے کہ قربانی کے جانور بے قابو ہو جاتے ہیں اور شہریوں کی دوڑیں لگوا دیتے ہیں۔
سوشل میڈیا پر قربانی کے جانور کی ایک ایسی ویڈیو نے توجہ حاصل کر لی ہے، وائرل ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ کراچی کے علاقے دہلی کالونی میں اونٹ نے شہری کا ہاتھ دبوچ لیا اور بہت ہی مشکل سے وہ اسے چھڑانے میں کامیاب ہوا۔ ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ شہری اونٹ کے منہ کے آگے ہاتھ لہرا رہا تھا۔
ویڈیو وائرل ہوئی تو صارفین کی جانب سے اس پر مختلف تبصرے کیے گئے، ایک صارف نے لکھا کہ بچت ہوگئی ورنہ اونٹ ہاتھ کی ہڈی تک توڑ دیتا، پھر بھی بہت بری طرح اونٹ نے ہاتھ دبوچ کرکاٹا ہے۔
صارف نے لکھا کہ عام سی بات ہے جب جانور نئی جگہ پر آتا ہے تو غصے میں ہوتا ہے اس لیے سب سے آسان طریقہ ہے اس کو اکیلا چھوڑ دیں اور آس پاس رش نہ لگائیں ایسے قربانی کا جانور 2,3 دن میں ٹھیک ہوجاتا ہے۔
ایک صارف نے لکھا کہ شکر کریں اونٹ نے گردن نہیں پکڑی ورنہ اونٹ گردن پکڑ کر بندے کو پٹخ دیتا ہے۔ ملک بلال اعوان نے مزاحیہ انداز میں لکھا کہ یہ صاحب اونٹ کے دانت چیک کرنے لگے تھے تو اونٹ نے تسلی سے چیک کروا دیے۔ جبکہ ایک صارف کا کہنا تھا کہ ’چاچا کو فنکاری دکھانے کا کس نے کہا تھا‘۔

چوہدری عمران نے شہری تو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ اس طرح کا شوق پورا کرنے سے پہلے جانور کو چارا کھلا لینا چاہیے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
اونٹ عید الاضحی عید قربان قربانی کے جانور.
ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: اونٹ
عید الاضحی
قربانی کے جانور
پڑھیں:
تغیراتی موسمیاتی تبدیلی سے بچاﺅ کیلئے ماحولیاتی مالکاری پاکستان کا حق ہے. ڈاکٹر محمد فیصل
لندن(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔13 اکتوبر ۔2025 ) برطانیہ کےلئے پاکستانی ہائی کمشنر
ڈاکٹر محمد فیصل نے کہا ہے کہ تغیراتی
موسمیاتی تبدیلی سے بچا ﺅ کےلئے بین الاقوامی ماحولیاتی مال کاری
پاکستان کا حق ہے، طوفانی بارشیں، تباہ کن سیلاب، گرمی کی شدید لہر اور پگھلتے گلیشیئرز سے بچا ﺅکیلئے اقدامات انتہائی ضروری ہیں برطانوی جریدے میں شائع اپنے مضمون میں ڈاکٹر فیصل نے لکھا کہ پاکستان کے تباہ کن
سیلاب ظاہر کرتے ہیں کہ ہمیں مناسب اور موثر موسمیاتی مالیات کی ضرورت ہے، پاکستان میں تباہ کن سیلاب آئے ہیں، دنیا نے کینیڈا اور یونان کی جھلسا دینے والی گرمی کا بھی مشاہدہ کیا ہے، عالمی آب و ہوا کے بحران کی بڑھتی ہوئی علامات ذمہ داروں کو غیر متناسب طور پر متاثر کر رہی ہیں.
ڈاکٹر محمد فیصل نے لکھا کہ اقوام متحدہ کے مطابق گزشتہ 20 سال کے مقابلے میں آب و ہوا سے متعلق آفات تقریبا دوگنا ہو گئی ہیں، ترقی پذیر ممالک موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کا خمیازہ بھگت رہے ہیں، یہ اثرات فوری توجہ طلب اور عالمی ضرورت کی نشاندہی کرتا ہے ڈاکٹر فیصل نے بتایا کہ دنیا بھر میں باہمی تعاون کے ساتھ سرمایہ کاری فراہم کرنے کیلئے کلائمنٹ فنانسنگ ایک بنیادی اصلاحات ہے ، پاکستان میں حالیہ سیلاب نے ایک انسانی تباہی کو جنم دیا، جون سے اب تک ایک ہزار سے زیادہ اموات ہو چکی ہیں، اس مدت میں سیلاب سےاموات گزشتہ سال کے مقابلے 3 گنا اور 2022 کے تباہ کن سیلاب سے بھی زیادہ ہے.
انہوں نے لکھا کہ عالمی درجہ حرارت میں اضافے سے گلیشیئرز کے پگھلنے کا شدید خطرہ غیر معمولی طور پر بڑھ گیا ہے، پاکستان عالمی سطح پر گرین ہاﺅس گیسوں کے اخراج میں 1 فیصد سے بھی کم حصہ ڈالتا ہے، معمولی کاربن کے اخراج کے باوجود پاکستان موسمیاتی جنگ کے فرنٹ لائنز پر ہے جو اس نے شروع ہی نہیں کی ڈاکٹر محمد فیصل نے کہا کہ دنیا موسمیاتی ناانصافی سے پیدا عدم استحکام کی متحمل نہیں ہو سکتی، ترقی پذیر قومیں پہلے ہی اہم مسائل سے نبردآزما ہیں، صرف پاکستان میں 2022 کے سیلاب میں بحالی اور تعمیر نو کےلئے تخمینہ 16.3 بلین ڈالر درکار تھے، سیلاب میں بحالی اور تعمیر نو کے لیے بین الاقوامی ڈونرز نے 8.5 بلین ڈالر سے زیادہ کا وعدہ کیا.
انہوں نے کہا کہ زیادہ تر امداد یا تو کبھی تقسیم نہیں کی گئی یا پاکستان کےلئے مختص دیگر پروگراموں سے کی گئی تھی، سیلاب بحالی کی امداد تقسیم نہ کرنا موسمیاتی تبدیلی کے مالیاتی ڈھانچے میں اہم خامی کو نمایاں کرتا ہے، پاکستان کو 2023 اور 2030 کے درمیان موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے کیلئے152 بلین ڈالر کا تخمینہ لگایا گیا ہے. ڈاکٹر محمد فیصل نے لکھا کہ ترقی یافتہ ممالک کو موسمیاتی فنانس میں سالانہ 100 بلین ڈالر دینے کے اپنے وعدے کا احترام کرنا چاہئے، پاکستان جیسے متاثرہ ممالک کو براہ راست ادائیگیاں ابھی تک زیر التوا ہیں، ناگزیر اثرات سے نمٹنے کےلئے نئے، اضافی گرانٹ پر مبنی وسائل اور مکمل سرمایہ کاری کی ضرورت ہے پاکستانی ہائی کمشنر نے لکھا کہ گرین بانڈز، پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ اور پالیسی فریم ورک کی بھی ضرورت ہے، پاکستان "اڑان پاکستان پروگرام "کے ایک حصے کے طور پر موسمیاتی تبدیلی سے نمٹ رہا ہے، مساوی موسمیاتی مالیات میں سرمایہ کاری واضح کرتی ہے کہ ہمارا اجتماعی مستقبل ایک دوسرے سے جڑا ہوا ہے.