یوکرین: تازہ حملوں میں روس نے کییف اور اوڈیسا کو نشانہ بنایا
اشاعت کی تاریخ: 10th, June 2025 GMT
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 10 جون 2025ء) یوکرین میں حکام کا کہنا ہے کہ منگل کی صبح دارالحکومت، کییف اور بندرگاہی شہر اوڈیسا روس کی جانب سے "بڑے پیمانے پر" ڈرون حملوں کی زد میں آئے۔
یوکرین کے خلاف یہ تازہ روسی حملے پیر کے اس حملے کے ایک روز بعد ہوئے ہیں، جسے یوکرین کے حکام نے جنگ کے آغاز کے بعد سے اب تک کا سب سے بڑا ڈرون حملہ قرار دیا تھا۔
اس حملے میں رات کے دوران ریکارڈ 479 ڈرون فائر کیے گئے۔ کییف پر 'بڑے پیمانے کے' ڈرون حملےیوکرینی حکام نے بتایا کہ منگل کی رات کو مسلسل دوسرے دن کییف بڑے پیمانے پر ڈرون حملے کی زد میں آیا اور چونکہ فضائی دفاع آنے والے ڈرونز کو روکنے میں مصروف تھا، اس لیے دھماکے اور فائرنگ کی آوازیں پورے شہر میں گونجتی رہیں۔
(جاری ہے)
کییف کے میئر وٹالی کلِٹسکو نے ٹیلی گرام پر اپنی ایک پوسٹ میں لوگوں کو تنبیہ کی کہ " پناہ گاہوں میں رہیں! دارالحکومت پر بڑے پیمانے پر حملہ جاری ہے۔
"کییف کی فوجی انتظامیہ کے سربراہ تیمور تاکاچینکو نے ٹیلی گرام پر بتایا کہ روسی "ڈرون بیک وقت شہر کے کئی اضلاع پر حملہ کر رہے ہیں۔" حکام کے مطابق نصف رات کے بعد کم از کم چار اضلاع میں ایمرجنسی سروسز نے خدمات انجام دیں۔
فرانسیسی خبر رساں ایجنسی اے ایف پی اور روئٹرز کے صحافیوں سمیت عینی شاہدین نے درجنوں دھماکوں اور فائرنگ کی آوازیں سنی ہیں۔
کئی رہائشی عمارتوں اور کاروں کو نقصان پہنچا جبکہ کچھ ملبہ ایک اسکول کے قریب گرا۔ کییف سے فوری طور پر کسی جانی نقصان کی اطلاع نہیں ملی۔اس سے ایک روز پہلے ہی روس نے یوکرین پر اپنا سب سے بڑا ڈرون حملہ کیا تھا، جس کے بارے میں ماسکو کا دعویٰ ہے کہ یہ روس کے اندر یوکرین کے حالیہ حملوں کا بدلہ ہے۔
یوکرین کی فوج نے یہ کہتے ہوئے کہ حملے ابھی بھی جاری ہیں، لوگوں پر زور دیا ہے کہ وہ پناہ گاہیں تلاش کریں۔
اوڈیسا پر حملے میں ایک شخص ہلاکیوکرین کے حکام نے بتایا کہ منگل کی رات جنوبی بندرگاہی شہر اوڈیسا پر ایک "بڑے پیمانے پر" روسی ڈرون حملے کے نتیجے میں ایک شخص ہلاک اور کم از کم چار زخمی ہو گئے۔
علاقائی گورنر اولیا کیپر نے کہا کہ حملوں میں زچگی کے ہسپتال اور ایک ہنگامی طبی سہولت کے ساتھ ساتھ رہائشی عمارتوں کو بھی نقصان پہنچا ہے۔
کیپر نے ٹیلی گرام پر اپنی پوسٹ میں لکھا: "ایک 59 سالہ شخص ہلاک ہو گیا۔" انہوں نے مزید کہا کہ طبی عملے حملوں میں زخمی ہونے والے چار افراد کا علاج کر رہے ہیں۔ گورنر نے یہ بھی کہا کہ اوڈیسا کے مرکز میں رہائشی عمارتوں کو نقصان پہنچا ہے۔
روسی حملوں سے قبل ہسپتال کے مریضوں اور عملے کو نکال لیا گیا تھا۔ کیپر کی طرف سے شیئر کی گئی تصاویر میں ٹوٹی ہوئی کھڑکیاں اور عمارت کے اگلے حصے کو نقصان پہنچتے دکھایا گیا ہے۔
ادارت: جاوید اختر
.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے بڑے پیمانے پر یوکرین کے
پڑھیں:
بھوک، ڈرون، دہشت اور موت: غزہ کے ہسپتال میں گزارے 30 منٹ کا احوال
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ UN اردو۔ 03 اکتوبر 2025ء) اقوام متحدہ کی امدادی ٹیموں نے غزہ کے عارضی ہسپتالوں میں مخدوش صورت حال کے بارے میں خبردار کیا ہے جہاں نومولود آکسیجن سے محروم ہیں اور روزانہ بڑی تعداد میں زخمی بچے لائے جا رہے ہیں جو روٹی کی تلاش میں ڈرون حملوں کا نشانہ بنتے ہیں۔
اقوام متحدہ کے ادارہ برائے اطفال (یونیسف) کے ترجمان جیمز ایلڈر نے ایک ہسپتال کے مختصر دورے کا ذکر کرتے ہوئے کہا ہے کہ انہوں نے جہاں بھی نظر دوڑائی، بچے یا تو تکلیف میں تھے یا جان کی بازی ہار چکے تھے۔
مرکزی غزہ کے علاقے دیر البلح میں واقع الاقصیٰ اسپتال میں ایک چھ سالہ بچی لائی گئی جو فضائی حملے میں زخمی ہوئی تھی اور اس کے زخم دیکھنا آسان نہیں تھا۔ اس کے بالوں میں ربن اور کلپ دکھائی دے رہے تھے جس سے اندازہ ہوتا تھا کہ والدین نے کس قدر محبت سے اس کی دیکھ بھال کی تھی۔(جاری ہے)
Tweet URLبدقسمتی سے یہ بچی ان کی آنکھوں کے سامنے دم توڑ گئی اور انہوں نے یہ سب کچھ اور ایسے دیگر کئی مناظر ہسپتال میں صرف 30 منٹ کے دورے میں دیکھے۔
بھوکوں پر ڈرون سے فائرنگانہوں نے بتایا کہ ہسپتال میں ان کے سامنے تین ایسے بچے لائے گئے جو ڈرون کی فائرنگ کا نشانہ بنے تھے۔اطلاعات کے مطابق، ایسی بیشتر ہلاکتیں خوراک کی تلاش میں نکلے لوگوں پر فائرنگ سے ہو رہی ہیں۔ انہوں نے ہسپتال کے فرش پر پڑے ایک زخمی بچے کو دیکھا جسے غزہ امدادی فاؤنڈیشن کے مرکز میں گولی لگی تھی۔ علاوہ ازیں، ہسپتال میں موجود دیگر لوگوں میں بھی بیشتر کو گولیوں، بموں کے ٹکڑوں یا جلنے کے زخم آئے تھے۔
ترجمان نے بتایا ہے کہ دو سالہ جنگ میں تقریباً ایک ہزار نومولود بچے بھی ہلاک ہو چکے ہیں جبکہ ناقابل علاج بیماریوں کے سبب موت کے منہ میں جانے والوں کی تعداد نامعلوم ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ غزہ کے 36 میں سے صرف 14 ہسپتال کسی حد تک فعال ہیں جہاں ہر جا بیمار اور زخمی لوگوں کا رش دکھائی دیتا ہے۔
موت، خوف اور انخلاجیمز ایلڈر نے بتایا ہے کہ انہوں نے ہسپتال میں ایک ایسی بچی کو بھی دیکھا جسے کچھ ہی دیر قبل ملبے سے نکالا گیا تھا اور اس کا جسم گرد سے ڈھکا ہوا تھا اور چہرے پر شدید خوف کے آثار نمایاں تھے۔
انہیں جس عمارت کے ملبے سے نکالا گیا وہاں کچھ ہی دیر پہلے ہونے والے حملے میں ان کی والدہ اور بہن ہلاک ہو گئی تھیں۔انہوں نے کہا غزہ میں ہزاروں لوگ تباہ شدہ عمارتوں کے ملبے تلے دبے ہیں جن میں بیشتر کے بارے میں خدشہ ہے کہ وہ ہلاک ہو چکے ہیں۔ اسرائیلی فوج کی جانب سے غزہ شہر سے مکمل انخلا کا حکم دیے جانے کے بعد لوگوں کی بڑی تعداد جنوب کی جانب نقل مکانی کر رہی ہے۔
ان میں ہزاروں بچے بھی شامل ہیں جن کی نگاہیں آسمان پر ٹکی رہتی ہیں کہ کہیں کوئی ڈرون ان پر حملہ نہ کر دے۔ بہت سے بچوں کے پاؤں میں جوتے بھی نہیں ہوتے جبکہ ان کی بڑی تعداد جنگ میں جسمانی طور پر معذور ہو چکی ہے جو انتہائی کٹھن حالات میں ایک مرتبہ پھر نقل مکانی پر مجبور ہیں۔امدادی کارکنوں کی ہلاکتیںغیرسرکاری ادارے 'ڈاکٹرز ود آؤٹ بارڈرز' (ایم ایس ایف) نے غزہ میں اپنے 14ویں طبی کارکن کی ہلاکت کی تصدیق کی ہے۔
عمر حائق نامی یہ کارکن دیرالبلح میں ایک حملے کا نشنہ بنے جبکہ ان کے چار ساتھی زخمی ہوئے۔مقبوضہ فلسطینی علاقے میں 'ڈبلیو ایچ او' کے نمائندے ڈاکٹر رک پیپرکورن نے کہا ہے کہ طبی کارکن خوفزدہ ہیں۔ انہیں کہیں تحفظ حاصل نہیں ہے اور بالخصوص ان کے لیے شمالی غزہ میں کام کرنا ممکن نہیں رہا۔
انٹرنیشنل کمیٹی آف ریڈ کراس کے عہدیدار کرسٹین کارڈن نے کہا ہے کہ غزہ میں کوئی بھی جگہ حتیٰ کہ فیلڈ ہسپتال بھی محفوظ نہیں ہیں اور وہاں بھی تحفظ کی کوئی ضمانت نہیں دی جا سکتی۔