ہم آج بھی پی ٹی آئی کی بچھائی بارودی سرنگیں ہٹا رہے ہیں، احسن اقبال
اشاعت کی تاریخ: 12th, June 2025 GMT
ہم آج بھی پی ٹی آئی کی بچھائی بارودی سرنگیں ہٹا رہے ہیں، احسن اقبال WhatsAppFacebookTwitter 0 12 June, 2025 سب نیوز
اسلام آباد(آئی پی ایس) وفاقی وزیر منصوبہ بندی احسن اقبال نے کہا ہے کہ وزیراعظم شہبازشریف نے دلیرانہ قیادت کا مظاہرہ کرتے ہوئے سیاسی طور پر غیر مقبول اور معاشی طور پر ناگزیر اقدمامات کیے، پی ٹی آئی دور میں ملک اندرونی طور پر دیوالیہ ہوچکا تھا، ہم آج بھی پی ٹی آئی کی بچھائی بارودی سرنگیں ہٹارہے ہیں۔
اسلام آباد میں وفاقی ترقیاتی بجٹ کے حوالے سے پریس کانفرنس کرتے ہوئے وزیر منصوبہ بندی احسن اقبال نے کہا کہ گزشتہ حکومت میں پاکستان اندرونی طور پر دیوالیہ ہوگیا تھا، تباہ کن سیلاب سے معیشت کو اربوں ڈالر کو نقصان پہنچا، پی ٹی آئی دور مین صرف چور چور کےنعرےلگائےگئے۔
انہوں نے کہاکہ پی ٹی آئی معیشت میں بارودی سرنگیں بچھا کر گئی تھی، ہم آج بھی بارودی سرنگوں کو ہٹا رہے ہیں، پی ٹی آئی نے 4 سالوں میں کوئی بڑے منصوبہ شروع نہیں کیا۔
روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔
WhatsAppFacebookTwitter پچھلی خبروزیراعظم شہباز شریف ایک روزہ دورے پر متحدہ عرب امارات پہنچ گئے وزیراعظم شہباز شریف ایک روزہ دورے پر متحدہ عرب امارات پہنچ گئے بھارت میں 250 مسافروں سے بھرا ائیر انڈیا کا طیارہ تباہ جدہ: چوہدری حسنین گوندل اور چوہدری امجد گجر کی جانب سے عید ملن پارٹی، پاکستانی کمیونٹی کی بھرپور شرکت ریکارڈ پر ریکارڈ قائم! سٹاک مارکیٹ ایک لاکھ 26 ہزار پوائنٹس کی بلند ترین سطح پر اسلام آباد ہائی کورٹ کا ایف آئی اے کو فرحت اللہ بابر کو ہراساں کرنے سے روکنے کا حکم پیپلز پارٹی نے بجٹ کے خلاف ملک گیر احتجاج کا اعلان کردیاCopyright © 2025, All Rights Reserved
رابطہ کریں ہمارے بارے ہماری ٹیم.ذریعہ: Daily Sub News
کلیدی لفظ: بارودی سرنگیں احسن اقبال پی ٹی ا ئی ہم ا ج بھی
پڑھیں:
پنجابی کھوج گڑھ: للیانی کی مٹی سے اٹھنے والی علمی بیداری کی داستان
پنجاب کی دھرتی نے کئی انقلاب دیکھے مگر للیانی کی خاموش زمیں پر لکھی جانے والی کہانی کچھ اور ہی ہے۔ جس جگہ مہاراجہ دلیپ سنگھ نے انگریزوں کے سامنے ہتھیار ڈالے اور سکھ سلطنت کے زوال کی ابتدا ہوئی، وہی سرزمین آج پنجابی زبان اور ثقافت کے ایک بڑے تحقیقی مرکز کا گہوارہ بن چکی ہے، پنجابی کھوج گڑھ۔
یہ بھی پڑھیں: میں ٹھیٹھ پنجابی ہوں، دل چاہتا ہے اپنی زبان کو بطور مضمون متعارف کرایا جائے، مریم نواز
ڈی ڈبلیو میں شائع ہونے والی فاروق اعظم کی رپورٹ کے مطابق یہ نہ کوئی سرکاری ادارہ ہے اور نہ ہی کسی یونیورسٹی سے وابستہ تحقیقی مرکز بلکہ یہ ایک عام پرائمری اسکول ٹیچر کا غیرمعمولی خواب ہے جس نے ماں بولی سے عشق کو زندگی کا مشن بنایا۔
شاعر، محقق، مؤرخ اور پنجابی شعور کے سرخیل اقبال قیصر نے للیانی کے نواح میں وہ کام اکیلے کیا ہے جو وہ شاید پورے ادارے بھی نہ کر پاتے۔
خاک سے خواب تک: ایک استاد کی کہانیقصور میں پیدا ہونے والے اقبال قیصر کا خاندان قیام پاکستان کے وقت فیروز پور سے ہجرت کر کے لاہور آیا۔ بچپن جھگیوں میں گزرا، والد ڈرائیور تھے لیکن ماں کی سنائی ہوئی پنجابی کہانیاں دل میں کچھ ایسا بسا گئیں کہ زبان اور ثقافت سے جذباتی تعلق امر ہو گیا۔
وہ کہتے ہیں کہ مولوی عبدالستار کا پنجابی قصہ یوسف زلیخا پہلی کہانی تھی جس نے میرے اندر پنجابی کی چنگاری سلگائی۔
میٹرک میں ان کی پہلی کتاب دو پتر اناراں دے شائع ہوئی اور پھر تحقیق، لکھنے اور پنجابی بولنے کو وقار دینے کا سفر شروع ہوا۔
مزید پڑھیے: دنیا بھر میں ’پنجابی زبان‘ میں ٹیٹو بنوانے کا رجحان کس نمبر پر ہے؟
’سجن‘ اخبار، پنجابی ادب کے بزرگوں کی قربت، اور ثقافتی شناخت کی تلاش نے ان کی سوچ کو وہ گہرائی بخشی جو بعد میں پنجابی کھوج گڑھ جیسے خواب کی بنیاد بنی۔
جب نوکری گئی، تو خواب پروان چڑھاسنہ1998 میں ان کی شہرہ آفاق کتاب Historical Sikh Shrines in Pakistan منظرِ عام پر آئی، جس نے عالمی سطح پر مقبولیت حاصل کی۔ مگر دلچسپ بات یہ کہ جب وہ اس کتاب کی تشہیر کے لیے مشیگن گئے تو واپسی پر ملازمت سے فارغ کر دیے گئے۔ لیکن اقبال قیصر نے مایوسی کو موقع بنایا۔ کتاب کی آمدنی سے پونے 7 ایکڑ زمین خریدی اور للیانی میں ایک ایسی دانش گاہ قائم کی جس کا تصور بھی اس وقت ناممکن سمجھا جاتا تھا۔
پنجابی کھوج گڑھ، نہ صرف ایک لائبریری یا تحقیقی مرکز ہے بلکہ یہ پنجابی تہذیب، روایت اور تاریخی شعور کا جیتا جاگتا مظہر ہے۔ یہاں پنجابی ثقافت کی گمشدہ کڑیاں جوڑی جا رہی ہیں۔ بلھے شاہ سے بھگت سنگھ، گُر مکھی سے شاہ مکھی، سکھ تاریخ سے لوک ادب تک۔
پنجابی فلموں کا پوسٹر میوزیم: ایک بصری خزانہسنہ2005 میں قیصر صاحب نے پنجابی فلموں کے نایاب پوسٹرز پر مبنی ایک میوزیم کھولا، جہاں تقسیم سے پہلے کی 35 اور بعد ازاں کی 300 سے زائد فلموں کے پوسٹرز موجود ہیں۔ ان کے بقول اگر ہم یہ سب محفوظ نہ کرتے تو شاید پنجابی فلم کی تاریخ کا کوئی ریکارڈ ہی باقی نہ رہتا۔
وہ ایک دلچسپ انکشاف کرتے ہیں کہ پہلی بولتی پنجابی فلم مرزا صاحباں کی ہیروئن خورشید بانو تھیں جبکہ شیلا عرف پنڈ دی کڑی میں نور جہاں اور ان کی کزن حیدر باندی نے مرکزی کردار نبھایا اور تینوں کا ہی تعلق قصور سے تھا۔ اور یہی وجہ ہے کہ ان کے بقول پنجابی فلموں کے پکچوریل میوزیم کے لیے قصور سے زیادہ موزوں جگہ کوئی نہیں۔
کھوج گڑھ میں جین مت سے سکھ روایت تکسال 2017 میں قیصر صاحب کی کتاب ’اجڑے دراں دے درشن‘ منظر عام پر آئی جس میں جین مندروں کی تاریخ کو فکشن کے انداز میں پیش کیا گیا۔ ملک بھر کے سفر کے بعد انہوں نے 25 جین مندروں کو دستاویزی شکل دی۔ ایک ایسا کام جو اس سے پہلے کسی نے نہیں کیا تھا۔
مزید پڑھیں: پنجابی ادب کا درخشاں ستارہ غروب، معروف شاعر تجمل کلیم انتقال کرگئے
کھوج گڑھ میں ان کی لائبریری، تحقیقی کام، رسائل و جرائد اور درجن بھر کتابیں آج بھی پنجابی ادب کے طالبعلموں، محققین اور ثقافت کے متوالوں کے لیے مشعلِ راہ ہیں۔ ان کا اگلا خواب اس تمام مواد کو ڈیجیٹل کرنا ہے تاکہ دنیا بھر کے پنجابی نوجوان اس سے فائدہ اٹھا سکیں، چاہے وہ گُر مکھی پڑھتے ہوں یا شاہ مکھی۔
اقبال قیصر کا کہنا ہے کہ آج کل ملک میں پنجابی زبان میں کانفرنسیں منعقد ہوتی ہیں، پنجابی کتابوں کے پبلشرز موجود ہیں، اسمبلی میں پنجابی زبان میں تقاریر ہوتی ہیں اور سوشل میڈیا پر ہر لہجے، ہر علاقے کا پنجابی مواد وائرل ہو رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ موسیقی نے دونوں طرف کے پنجابیوں کو جوڑ دیا ہے۔ اب پنجابی صرف بولی نہیں بلکہ ایک مشترکہ ثقافتی شناخت بن چکی ہے۔
پنجابی کھوج گڑھپنجابی کھوج گڑھ اقبال قیصر کا خواب ہے لیکن اس کی چھاؤں میں پلنے والی نسلوں کے لیے یہ ایک ورثہ، تحریک اور روشنی کی علامت بن چکا ہے۔ للیانی کی مٹی آج شعور، تحقیق اور فخر کا استعارہ بن چکی ہے۔
یہ ایک یاد دہانی ہے کہ اگر ایک استاد، تنہا وسائل کے بغیر، پنجابی زبان کو بچانے کا بیڑہ اٹھا سکتا ہے تو ریاست، ادارے اور سماج کیا کچھ نہیں کر سکتے؟
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
اقبال قیصر پنجابی بولی پنجابی زبان پنجابی کھوج گڑھ