Express News:
2025-09-24@13:00:01 GMT

پاکستان کے لیے ایک نازک موڑ

اشاعت کی تاریخ: 25th, June 2025 GMT

حالیہ ایران اسرائیل جنگ نے مشرق وسطیٰ کو خطرناک دہانے پر لا کھڑا کیا ہے۔ یہ صورتحال نہ صرف خطے کے ممالک بلکہ عالمی برادری کے لیے بھی تشویش کا باعث بنی ہوئی ہے تاہم صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے جنگ بند کرادی ہے ۔ایران اور اسرائیل کے درمیان کشیدگی کوئی نئی بات نہیں بلکہ یہ کئی دہائیوں پر محیط ہے۔

دونوں ممالک ایک دوسرے کو خطے کے لیے خطرہ سمجھتے ہیں۔ اسرائیل ایران کے جوہری پروگرام اور خطے میں اس کی بڑھتی ہوئی عسکری موجودگی کو اپنی سلامتی کے لیے چیلنج قرار دیتا ہے جب کہ ایران اسرائیل کو ایک غاصب ریاست اور فلسطینیوں پر مظالم کا ذمے دار ٹھہراتا ہے۔ حالیہ جنگ نے خطے کو ایک بڑے تصادم کے دہانے پر لا کھڑا کیا ہے۔ امریکا جس کو دنیا کے ہر ملک کا’’ ہمسایہ‘‘ ہونے کا درجہ حاصل ہے اس کی ایران کے خلاف براہ راست جنگی جارحیت نے خدشات میں مزید اضافہ ہی کیا ہے۔

 پاکستان جو اس خطے کا ایک اہم کھلاڑی اور ایران کا ہمسایہ ہے، اس کشیدگی سے براہ راست متاثر ہو سکتا ہے۔ میں نے گزشتہ ہفتہ بیرون ملک گزرا جہاں پر پاکستانی تارکین وطن سے ملاقاتیں رہیں، وہ پاکستان کے ہمسایہ میں جنگ کے پھیلتے بادل دیکھ کر پریشانی کا شکار ہیں، انھیں اس صورتحال پر گہری تشویش ہے خاص طور پر جب کہ پاکستان کے جوہری پروگرام کے حوالے سے عالمی طاقتیں وقتاً فوقتاً اپنے تحفظات کا اظہار کرتی رہتی ہیں۔

ان محب وطن پاکستانیوں کی پریشانی یہ ہے کہ کہیں اس جنگ کے سائے پاکستان تک نہ آجائیں۔ پاکستان نے دشمن ہمسائے بھارت کے جارحانہ عزائم کے سد باب کے لیے جو ہری طاقت کے ذریعے پیش بندی کر رکھی ہے اور ہماری یہ جوہری طاقت عالمی طاقتوں کو ہمیشہ کھٹکتی رہتی ہے۔ اس صورتحال کے پیش نظریہ سوال اہمیت اختیار کر گیا ہے کہ آیا یہ جنگ پاکستان کے لیے کتنی مہلک ثابت ہو سکتی ہے۔

بیرون ملک مقیم پاکستانیوں اور بین الاقوامی برادری کے خدشات میں سب سے اہم پہلو پاکستان کا جوہری پروگرام ہے۔ خطے میں کسی بھی بڑی کشیدگی کے نتیجے میں پاکستان پر اثرات مرتب ہونا لازمی بات ہے۔

اگرچہ پاکستان نے ہمیشہ اپنے ہمسایوں کے ساتھ ہمیشہ اچھے تعلقات کی بات کی ہے اور اس جنگ میں ایران کی حمایت کا اعلان کیا ہے لیکن اگر جنگ کا دائرہ پھیل جاتا تو علاقائی عدم استحکام کا بڑھنا لازم ہوجاتا ہے۔ یہ ایک ایسی صورتحال ہو سکتی ہے جہاں پاکستان کو عالمی دباؤ کا سامنا کرنا پڑے گا ۔ یہ پاکستان کے لیے ایک بہت بڑا چیلنج ہو گا۔اس نازک وقت میں ہماری سیاسی اور عسکری قیادت نے دانشمندی کا مظاہرہ کیا ہے ، اور ایسی پالیسی اختیار کی ہے کہ جنگ کے مہک شعلوں سے اپنے آپ کو محفوظ رکھا ہے۔

پاکستان نے ہمیشہ مشرق وسطیٰ میں امن و استحکام کی وکالت کی ہے۔ تاریخی طور پر پاکستان کے ایران کے ساتھ مضبوط برادرانہ تعلقات ہیں۔ اس صورتحال میں پاکستان کے لیے ایک متوازن اور محتاط حکمت عملی اپنانا ناگزیر ہے۔ پاکستان اس وقت ثالثی کا کردار ادا کر سکتا ہے تاکہ کشیدگی کو مزید بڑھنے سے روکا جا سکے۔

پاکستان کے ایران اور اہم عالمی طاقتوں کے ساتھ رابطے اسے ایک منفرد پوزیشن میں لاتے ہیں جہاں وہ پرامن حل کے لیے راہ ہموار کر سکتا ہے۔ اسلامی دنیا میں اپنی اہم حیثیت کو بروئے کار لاتے ہوئے پاکستان او آئی سی پر ایک مضبوط آواز بن سکتا ہے جو کشیدگی کے مکمل خاتمے اور پرامن مذاکرات کی حمایت کرے۔

 پاکستان جو پہلے ہی دہشت گردی کے خلاف جنگ میں مصروف ہے کسی اور نئے محاذ کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ سرحدوں پر اضافی دباؤ اور ممکنہ طور پر علاقائی پراکسی جنگوں کا پھوٹنا پاکستان کی سلامتی کو مزید خطرے میں ڈال سکتا ہے۔پاکستان کے لیے ضروری ہے کہ وہ اس نازک صورتحال میں دانشمندی اور حکمت عملی سے کام لے۔ اسے ایک متوازن خارجہ پالیسی کو برقرار رکھنا چاہیے جو علاقائی امن و استحکام کو فروغ دے اور سفارتی سطح پر فعال کردار ادا کرتے ہوئے تنازعے کو کم کرنے کے لیے تمام ممکنہ راستے تلاش کیے جائیں۔

اس کے ساتھ ساتھ اندرونی محاذ پر مضبوطی اور اتحاد وقت کی اہم ضرورت ہے تاکہ کسی بھی بیرونی دباؤ کا سامنا کیا جا سکے۔ پاکستان کو اپنے بہترین مفاد میں رہتے ہوئے ایک ذمے دار ریاست کا کردار ادا کرنا ہو گا تاکہ اس خطرے کو ٹالا جا سکے۔ یہ وقت ہے کہ پاکستان نہ صرف اپنے مفادات کا تحفظ کرے بلکہ خطے میں امن کے قیام کے لیے بھی اپنا بھرپور کردار ادا کرے۔

ایران کے بھر پور جنگی جواب کے بعد عالمی طاقتوں کو شاید اس بات کا بہت جلد ادراک ہو گیا کہ یہ جنگ تیسری عالمی جنگ میں تبدیل ہو سکتی ہے اور جتنی جلدی ہو سکے اس خدشے کو ختم کیا جائے ۔ اسی لیے صدر ٹرمپ نے جنگ ختم کرانے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔

 چین اور روس جیسی دو بڑی طاقتیں اس خطے میں اپنا ایک وزن اور مقام رکھتی ہیں اگر وہ اس جنگ میں براہ راست کود پڑتیں تو پھر امریکا کے لیے اس جنگ کو طوالت دینا شاید مشکل ہو جاتا اس تناظر میں امریکی صدر نے ایک جانب تو ایران پر جارحیت کی اور دوسری جانب مذاکرات کا راستہ اختیار کیا جس کے نتائج میں ایران اور اسرائیل جنگ بندی پر رضامند ہو گئے ہیں جس کا باقاعدہ اعلان بھی امریکی صدر کی جانب سے سامنے آیا ہے۔

پاکستان کے ہمسائیہ میں چھڑی خطرناک جنگ کے بادل جلد چھٹ جانا پاکستان کے مستقبل کے لیے نیک شگون ثابت ہو گا۔ اس بات کا آنے والے دنوں میں علم ہوگا کہ اس جنگ بندی کے اثرات کیا ہوں گے۔ دیکھتے ہیں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی یہ نئی چال کس کروٹ بیٹھتی ہے۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: پاکستان کے لیے ایران کے سکتا ہے کے ساتھ جنگ کے کیا ہے

پڑھیں:

ایران میں 8 نئے جوہری بجلی گھر بنانے کے لیے روس سے معاہدہ اس ہفتے متوقع

ایران اور روس نے ایک دہائی سے تعطل کے شکار ایٹمی تعاون کے منصوبے کو آگے بڑھاتے ہوئے معاہدے پر دستخط کرنے کا اعلان کیا ہے۔

مجوزہ معاہدے کے تحت اسلامی جمہوریہ میں 8 نئے جوہری بجلی گھر تعمیر کیے جائیں گے۔

ایران کے نائب صدر اور اٹامک انرجی آرگنائزیشن کے سربراہ محمد اسلامی پیر کو ماسکو پہنچے، جہاں انہوں نے میڈیا سے گفتگو بھی کی۔

انہوں نے بتایا کہ  معاہدے کی بات چیت مکمل ہو چکی ہے اور اس ہفتے دستخط کے ساتھ دونوں ممالک عملی اقدامات کے مرحلے میں داخل ہو جائیں گے۔

ایرانی اور روسی میڈیا رپورٹس کے مطابق، یہ معاہدہ تہران کے اُس ہدف کا حصہ ہے جس کے تحت وہ 2040 تک 20 گیگاواٹ ایٹمی توانائی کی پیداواری صلاحیت حاصل کرنا چاہتا ہے۔

ایران کی سرکاری خبر رساں ایجنسی ایرنا نے مزید بتایا کہ نئے ری ایکٹروں میں سے 4 بوشہر میں قائم کیے جائیں گے۔

روس پہلے ہی ایران کا پہلا ایٹمی بجلی گھر بوشہر میں تعمیر کر چکا ہے، جو 2011 میں فعال ہوا اور 2013 میں مکمل ہوا تھا، حالانکہ اس پر امریکا نے سخت اعتراض کیا تھا۔

یہ اعلان ایسے وقت سامنے آیا ہے جب ایران کے مغرب کے ساتھ تعلقات انتہائی کشیدہ ہیں۔

مغربی طاقتوں کا الزام ہے کہ تہران 2015 کے اُس جوہری معاہدے پر مکمل عمل درآمد کرنے میں ناکام رہا ہے جس کا مقصد ایران کو ایٹمی ہتھیار بنانے سے روکنا تھا۔

ایران ان الزامات کی تردید کرتے ہوئے مؤقف اپناتا آیا ہے کہ اس کا ایٹمی پروگرام صرف پُرامن مقاصد کے لیے ہے۔

روس نے بھی ایران کے ایٹمی پروگرام کے دفاع میں کہا ہے کہ وہ تہران کے پُرامن ایٹمی توانائی کے حق کی حمایت کرتا ہے، لیکن ایک ایٹمی ہتھیاروں سے لیس ایران کے خلاف ہے۔

اسی دوران، اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے جمعے کے روز ایک قرارداد کا مسودہ مسترد کر دیا تھا جس کے ذریعے ایران پر پابندیاں مستقل طور پر ختم کرنے کی کوشش کی گئی تھی۔

برطانیہ، فرانس اور جرمنی نے تجویز دی ہے کہ اگر ایران عالمی ایٹمی معائنہ کاروں کو مکمل رسائی دے، افزودہ یورینیم سے متعلق خدشات دور کرے اور امریکا کے ساتھ بات چیت دوبارہ شروع کرے تو وہ پابندیوں کے دوبارہ نفاذ کو 6 ماہ کے لیے مؤخر کرنے پر آمادہ ہیں۔

یورپی طاقتوں نے مزید ایک دہائی پرانے ایٹمی معاہدے کے تحت ’اسنیپ بیک‘ میکنزم کو فعال کرتے ہوئے تہران پر عدم تعمیل کا الزام لگایا اور ایران پر اقوام متحدہ کی منجمد پابندیاں بحال کرنے کے حق میں ووٹ بھی دیا۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

افزودہ یورینیم اقوام متحدہ امریکا ایٹمی پروگرام ایٹمی معائنہ کار ایران تہران جرمنی جوہری بجلی گھر روس سلامتی کونسل فرانس

متعلقہ مضامین

  • پاک۔سعودی دفاعی معاہدے میں ایران کی شمولیت ضروری ہے: حافظ نعیم الرحمٰن
  • پاکستان سعودی عرب دفاعی معاہدے میں ایران کو بھی شامل کیا جائے، حافظ نعیم الرحمٰن
  • ’امریکا سے مذاکرات کا کوئی فائدہ نہیں، ایران یورینیئم کی افزودگی نہیں روکے گا‘
  • روس ایران میں 8 نئے جوہری بجلی گھر تعمیر کرے گا
  • اترپردیش میں ہندوتوا شدت پسندوں کا امام مسجد پر بہیمانہ تشدد، حالت نازک
  • ایران میں 8 نئے جوہری بجلی گھر بنانے کے لیے روس سے معاہدہ اس ہفتے متوقع
  • استعمار اور ایٹم بم کی تاریخ
  • اگر دوبارہ ایران اسرائیل جنگ ہوئی تو اسرائیل باقی نہیں رہیگا، ملیحہ محمدی
  • ایران میں سزائے موت کی منتظر شریفہ محمدی کا کیس؟
  • ایران اور پاکستان کے درمیان ہفتہ وار پروازوں کو بڑھا کر 24 کر دیا گیا