پاکستان کے لیے ایک نازک موڑ
اشاعت کی تاریخ: 25th, June 2025 GMT
حالیہ ایران اسرائیل جنگ نے مشرق وسطیٰ کو خطرناک دہانے پر لا کھڑا کیا ہے۔ یہ صورتحال نہ صرف خطے کے ممالک بلکہ عالمی برادری کے لیے بھی تشویش کا باعث بنی ہوئی ہے تاہم صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے جنگ بند کرادی ہے ۔ایران اور اسرائیل کے درمیان کشیدگی کوئی نئی بات نہیں بلکہ یہ کئی دہائیوں پر محیط ہے۔
دونوں ممالک ایک دوسرے کو خطے کے لیے خطرہ سمجھتے ہیں۔ اسرائیل ایران کے جوہری پروگرام اور خطے میں اس کی بڑھتی ہوئی عسکری موجودگی کو اپنی سلامتی کے لیے چیلنج قرار دیتا ہے جب کہ ایران اسرائیل کو ایک غاصب ریاست اور فلسطینیوں پر مظالم کا ذمے دار ٹھہراتا ہے۔ حالیہ جنگ نے خطے کو ایک بڑے تصادم کے دہانے پر لا کھڑا کیا ہے۔ امریکا جس کو دنیا کے ہر ملک کا’’ ہمسایہ‘‘ ہونے کا درجہ حاصل ہے اس کی ایران کے خلاف براہ راست جنگی جارحیت نے خدشات میں مزید اضافہ ہی کیا ہے۔
پاکستان جو اس خطے کا ایک اہم کھلاڑی اور ایران کا ہمسایہ ہے، اس کشیدگی سے براہ راست متاثر ہو سکتا ہے۔ میں نے گزشتہ ہفتہ بیرون ملک گزرا جہاں پر پاکستانی تارکین وطن سے ملاقاتیں رہیں، وہ پاکستان کے ہمسایہ میں جنگ کے پھیلتے بادل دیکھ کر پریشانی کا شکار ہیں، انھیں اس صورتحال پر گہری تشویش ہے خاص طور پر جب کہ پاکستان کے جوہری پروگرام کے حوالے سے عالمی طاقتیں وقتاً فوقتاً اپنے تحفظات کا اظہار کرتی رہتی ہیں۔
ان محب وطن پاکستانیوں کی پریشانی یہ ہے کہ کہیں اس جنگ کے سائے پاکستان تک نہ آجائیں۔ پاکستان نے دشمن ہمسائے بھارت کے جارحانہ عزائم کے سد باب کے لیے جو ہری طاقت کے ذریعے پیش بندی کر رکھی ہے اور ہماری یہ جوہری طاقت عالمی طاقتوں کو ہمیشہ کھٹکتی رہتی ہے۔ اس صورتحال کے پیش نظریہ سوال اہمیت اختیار کر گیا ہے کہ آیا یہ جنگ پاکستان کے لیے کتنی مہلک ثابت ہو سکتی ہے۔
بیرون ملک مقیم پاکستانیوں اور بین الاقوامی برادری کے خدشات میں سب سے اہم پہلو پاکستان کا جوہری پروگرام ہے۔ خطے میں کسی بھی بڑی کشیدگی کے نتیجے میں پاکستان پر اثرات مرتب ہونا لازمی بات ہے۔
اگرچہ پاکستان نے ہمیشہ اپنے ہمسایوں کے ساتھ ہمیشہ اچھے تعلقات کی بات کی ہے اور اس جنگ میں ایران کی حمایت کا اعلان کیا ہے لیکن اگر جنگ کا دائرہ پھیل جاتا تو علاقائی عدم استحکام کا بڑھنا لازم ہوجاتا ہے۔ یہ ایک ایسی صورتحال ہو سکتی ہے جہاں پاکستان کو عالمی دباؤ کا سامنا کرنا پڑے گا ۔ یہ پاکستان کے لیے ایک بہت بڑا چیلنج ہو گا۔اس نازک وقت میں ہماری سیاسی اور عسکری قیادت نے دانشمندی کا مظاہرہ کیا ہے ، اور ایسی پالیسی اختیار کی ہے کہ جنگ کے مہک شعلوں سے اپنے آپ کو محفوظ رکھا ہے۔
پاکستان نے ہمیشہ مشرق وسطیٰ میں امن و استحکام کی وکالت کی ہے۔ تاریخی طور پر پاکستان کے ایران کے ساتھ مضبوط برادرانہ تعلقات ہیں۔ اس صورتحال میں پاکستان کے لیے ایک متوازن اور محتاط حکمت عملی اپنانا ناگزیر ہے۔ پاکستان اس وقت ثالثی کا کردار ادا کر سکتا ہے تاکہ کشیدگی کو مزید بڑھنے سے روکا جا سکے۔
پاکستان کے ایران اور اہم عالمی طاقتوں کے ساتھ رابطے اسے ایک منفرد پوزیشن میں لاتے ہیں جہاں وہ پرامن حل کے لیے راہ ہموار کر سکتا ہے۔ اسلامی دنیا میں اپنی اہم حیثیت کو بروئے کار لاتے ہوئے پاکستان او آئی سی پر ایک مضبوط آواز بن سکتا ہے جو کشیدگی کے مکمل خاتمے اور پرامن مذاکرات کی حمایت کرے۔
پاکستان جو پہلے ہی دہشت گردی کے خلاف جنگ میں مصروف ہے کسی اور نئے محاذ کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ سرحدوں پر اضافی دباؤ اور ممکنہ طور پر علاقائی پراکسی جنگوں کا پھوٹنا پاکستان کی سلامتی کو مزید خطرے میں ڈال سکتا ہے۔پاکستان کے لیے ضروری ہے کہ وہ اس نازک صورتحال میں دانشمندی اور حکمت عملی سے کام لے۔ اسے ایک متوازن خارجہ پالیسی کو برقرار رکھنا چاہیے جو علاقائی امن و استحکام کو فروغ دے اور سفارتی سطح پر فعال کردار ادا کرتے ہوئے تنازعے کو کم کرنے کے لیے تمام ممکنہ راستے تلاش کیے جائیں۔
اس کے ساتھ ساتھ اندرونی محاذ پر مضبوطی اور اتحاد وقت کی اہم ضرورت ہے تاکہ کسی بھی بیرونی دباؤ کا سامنا کیا جا سکے۔ پاکستان کو اپنے بہترین مفاد میں رہتے ہوئے ایک ذمے دار ریاست کا کردار ادا کرنا ہو گا تاکہ اس خطرے کو ٹالا جا سکے۔ یہ وقت ہے کہ پاکستان نہ صرف اپنے مفادات کا تحفظ کرے بلکہ خطے میں امن کے قیام کے لیے بھی اپنا بھرپور کردار ادا کرے۔
ایران کے بھر پور جنگی جواب کے بعد عالمی طاقتوں کو شاید اس بات کا بہت جلد ادراک ہو گیا کہ یہ جنگ تیسری عالمی جنگ میں تبدیل ہو سکتی ہے اور جتنی جلدی ہو سکے اس خدشے کو ختم کیا جائے ۔ اسی لیے صدر ٹرمپ نے جنگ ختم کرانے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔
چین اور روس جیسی دو بڑی طاقتیں اس خطے میں اپنا ایک وزن اور مقام رکھتی ہیں اگر وہ اس جنگ میں براہ راست کود پڑتیں تو پھر امریکا کے لیے اس جنگ کو طوالت دینا شاید مشکل ہو جاتا اس تناظر میں امریکی صدر نے ایک جانب تو ایران پر جارحیت کی اور دوسری جانب مذاکرات کا راستہ اختیار کیا جس کے نتائج میں ایران اور اسرائیل جنگ بندی پر رضامند ہو گئے ہیں جس کا باقاعدہ اعلان بھی امریکی صدر کی جانب سے سامنے آیا ہے۔
پاکستان کے ہمسائیہ میں چھڑی خطرناک جنگ کے بادل جلد چھٹ جانا پاکستان کے مستقبل کے لیے نیک شگون ثابت ہو گا۔ اس بات کا آنے والے دنوں میں علم ہوگا کہ اس جنگ بندی کے اثرات کیا ہوں گے۔ دیکھتے ہیں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی یہ نئی چال کس کروٹ بیٹھتی ہے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: پاکستان کے لیے ایران کے سکتا ہے کے ساتھ جنگ کے کیا ہے
پڑھیں:
ایران سے تجارت اور چینی کا بحران
بلوچستان کے پہاڑوں پر اس دن سورج بڑی بے قراری سے نکلا ہوگا کیوں کہ اس نے جلد از جلد اسلام آباد کے اس منظرکو دیکھنا تھا۔ جب برادر اسلامی اور پڑوسی ملک ایران، جہاں سے کبھی تہذیب بھی آتی رہی، ثقافت بھی آ کر چھائی رہی، علما مشائخ، اولیائے کرام کے قافلے بھی آتے رہے اور لاہور کا تجارتی قافلہ کبھی اصفہان،کبھی شیراز میں فروکش ہوتا رہا۔ ملتان کی سوغاتیں اور دستکاریاں، زاہدان و سرد تہران میں ہاتھوں ہاتھ خریدے جاتے رہے۔
پشاورکے قصہ خوانی بازار میں ایران کے قصے مزے لے لے کر بیان کیے جاتے تھے۔ پریوں کی کہانیاں، طلسماتی کہانیاں اکثر بچوں کی نانیاں سنایا کرتی تھیں۔ ایسے میں کوئی کہے کہ کسی ’’ نانی کا ٹیکہ‘‘ بھی ایران میں ہے تو کچھ غلط نہ تھا۔ دل سے دل جڑے ہوئے تھے اور تجارتی قافلے رواں دواں تھے۔
باہمی تجارت زوروں پر تھی، پنجاب سے اس کی خوشبو دوبالا ہو جاتی اور ایرانی آغا ( تاجر ) تمام لیکن نظر تو ایسی لگی، ایسی لگی کہ انگریزوں کی آمد کے ساتھ ہی یہ تجارت سکڑتی چلی گئی۔ کہتے ہیں کہ تین ارب ڈالر تک کی سالانہ باہمی تجارت ہے جس میں ایران کا پلہ بھاری ہے کیوں کہ ایران سے تقریباً سوا ارب ڈالر کی درآمدات اور پاکستان سے برآمدات ایک ارب کے لگ بھگ یا اس سے کچھ زیادہ پاکستانی روپے کی شکل میں 2023-24 کے دوران ایران کے لیے پاکستانی برآمدات کی مالیت 2 کھرب 94 ارب 59 کروڑ روپے کی تھی۔
بہرحال باہمی تجارت 3 ارب ڈالر سے کم کی ہے۔ اب اسے کیسے 10 ارب ڈالر تک پہنچانا ہے، یہ اہم سوال ہے۔ تین ارب ڈالر سے تجارت کو 10 ارب ڈالر تک لے جانا ممکن ہے۔
قیہ معاہدہ دونوں ممالک کے درمیان تجارت کو باقاعدہ بنانے اور فروغ دینے کے لیے ایک بنیادی دستاویز ہے۔ اس کے تحت محصولات (ٹیرف) اور دیگر تجارتی رکاوٹوں کو کم کرنے پر اتفاق کیا گیا ہے اور نئی بارڈر مارکیٹ قائم کرنے پر زور دیا گیا ہے۔ اس سے سرحدی علاقوں میں رہنے والے لوگوں کو کاروبار کے لیے مواقعے ملیں گے۔
ایک ایسا نظام وضع کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے جو ادائیگیوں کو آسان اور محفوظ بنائے تاکہ بین الاقوامی پابندیوں کے باعث تجارت متاثر نہ ہو۔ زراعت، سائنس و ٹیکنالوجی، اطلاعات و مواصلات ، ثقافت، سیاحت اور موسمیات جیسے شعبوں میں تعاون کے لیے مفاہمتی یادداشتوں پر دستخط کیے گئے ہیں۔ ان معاہدوں کا اصل مقصد باہمی تجارت کو 10 ارب ڈالر تک لے جائیں تو اس کے لیے اصل تعاون اور اصل کاروباری حجم میں اضافہ اور درحقیقت برآمدات برائے ایران میں اضافہ اسی وقت ممکن ہے جب حکومتی سیکریٹری سے نکل کر کاٹن انڈسٹری کے اونر، مل کے مالکان، برآمد کنندگان اور امپورٹرز کے ہاتھ میں آ جائے تو پھرکمال ہو جائے گا۔
ان تاجروں کو کارخانہ داروں کو گھریلو انڈسٹری کے مالکان کو ایران بھیجا جائے، اب یہاں پر حکومتی شراکت کام کرے، سفارت خانے کا عملہ ان لوگوں کو اچھی طرح بریفنگ دے۔ بڑے بڑے ایرانی درآمد کنندگان کی فہرست تھما دے اور سب سے آخر میں بازار کا راستہ بتا دے۔ آپ یقین کریں شام تک ان لوگوں کے ہاتھوں میں کروڑوں ڈالرز کے آرڈرز ہوں گے۔صبح ایک پراٹھا اور ایک کپ چائے اور جب چائے میں چینی نہ ہو تو یہی ناشتہ احتجاج بن جاتا ہے۔
گاؤں کے ایک مٹی کے گھر سے لے کر شہر کے بڑے بڑے ہوٹلوں میں آج کل ایک ہی سوال سنائی دے رہا ہے کہ چینی گئی کہاں؟ گاؤں کا بوڑھا کسان جانتا ہے کہ وہ 70 کی دہائی میں راشن کارڈ سے اپنے حصے کی چینی دو روپے ساٹھ پیسے فی سیر خرید کر لاتے تھے اور ہر ایک کے کپ میں چینی ڈلتی تھی۔ حکومت نے پہلے اندازہ لگایا چینی بہت ہے اور سستے داموں بیرون ملک فروخت کردی۔
نئی صدی کے آغاز سے پہلے ہی چینی 18 روپے فی کلو تھی اور کافی عرصے یہی قیمت رہی۔ 2009 میں معاملہ بگڑا اور بالآخر 90 روپے فی کلو تک بھی جا پہنچی۔ پھر قیمت میں کمی ہوئی، غالباً 2018 کے آغاز تک چینی فی کلو 52 روپے تھی، اس سال چینی 140 روپے پھر 160 روپے فی کلو ہوگئی اور چینی امپورٹ ہوگئی، لیکن اب چینی کی قیمت یا پچھلی قیمت پر دستیابی ناممکن ہے۔ کیوں کہ حکومت کبھی سستی چینی یوٹیلیٹی اسٹورز کے ذریعے فراہم کرتی تھی۔ کیا کسان نے چینی مہنگی کر دی کہ اپنا گنا دگنا قیمت پر فروخت کیا؟ ایسا بالکل نہیں، کیونکہ اس نے حکومتی نرخ پر فروخت کیے لیکن پیسے ابھی تک پورے نہیں ملے۔
عالمی منڈی میں چینی کی قیمت بڑھ گئی پاکستان میں روپے کی قدر کچھ کم ہو گئی۔ اب درآمدی چینی پہلے سے مہنگی ہی ملے گی۔ مہنگی ہو یا سستی لیکن یہ سوال ہر ایک پوچھتا ہے۔ اس سوال کا جواب پوچھنے کے لیے حکام بھی بے چین ہیں کہ آخر چینی گئی کہاں؟چینی کا بحران کبھی دو سال بعد آ جاتا ہے اور کبھی اس سے زیادہ یا کم عرصے میں۔ ہر آنے والی حکومت کو اس بحران سے گزرنا پڑتا ہے۔ نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ہمیشہ چینی کی قیمت بڑھ جاتی ہے۔ اس مسئلے کا مستقل حل قانون سازی کے ذریعے نکل سکتا ہے۔
شاید کسی حکومت کے بس میں نہیں لہٰذا عوام چینی کے متبادل گڑ، شکر وغیرہ کا بھی استعمال کرنے پر غور کریں۔ کیوں کہ چینی کے بحران سے غریب عوام نے اپنے طور پر ہی نکلنا ہے کیوں کہ چینی کی قیمت میں کب کمی آئے گی، حکومت کوشش کر رہی ہے لیکن فی الحال شافی نتیجہ نہیں نکل رہا ہے۔