لاہور ( نوائے وقت رپورٹ) وزیر اطلاعات پنجاب عظمیٰ بخاری نے خیبر پی کے میں سامنے آنے والے 40 ارب روپے کے کوہستان کرپشن سکینڈل کو صوبائی حکومت کے لیے ایک کلنک کا ٹیکہ قرار دیا ہے۔ یہ سکینڈل اس جعلی تبدیلی کے اصل چہرے کو بے نقاب کرتا ہے جس نے خود کو صادق و امین قرار دیا لیکن ثابت ہوا کہ وہ سرٹیفائیڈ کرپٹ ہے۔ خیبرپی کے کی عوام کا پیسہ اشتہاریوں اور مفروروں پر ضائع کیا جا رہا ہے اور کرپشن کی کمائی کو آپس میں بانٹا جا رہا ہے۔ "دودھ کی رکھوالی پر بلا بٹھانے کا نتیجہ یہی نکلنا تھا۔ کوہستان میگا کرپشن سکینڈل کی سنگینی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ایک سزا یافتہ قیدی جو 190 ملین پاؤنڈز کے کیس میں مجرم ہے، وہ بھی اس کرپشن پر پریشان دکھائی دیتا ہے – یہ اللہ کی شان ہے۔  خیبر پی کے میں گزشتہ 12 برس سے چور بازاری، بدعنوانی اور لوٹ کھسوٹ کا بازار گرم ہے۔ عوام کو صحت، تعلیم اور بنیادی انفراسٹرکچر جیسی سہولیات سے محروم رکھا گیا ہے جبکہ صوبائی حکومت کی تمام تر ہمدردیاں ایک قیدی کے ساتھ وابستہ ہیں، جو اس وقت اڈیالہ جیل میں قید ہے۔ عظمیٰ بخاری نے سوات میں پیش آنے والے افسوسناک واقعے پر گہرے دکھ اور افسوس کا اظہار کیا ہے، انہوں نے کہا کہ یہ واقعہ خیبر پی کے حکومت کی ناقص منصوبہ بندی اور ریسکیو سسٹم کی ناکامی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ سیاح دو گھنٹے تک پانی میں مدد کے لیے پکارتے رہے، مگر کے پی حکومت کی کوئی ریسکیو ٹیم نہ پہنچ سکی۔ "حیرت کی بات ہے کہ نہ خیبرپختونخوا حکومت حرکت میں آئی اور نہ ہی وزیر گنڈاپور کا ہیلی کاپٹر امداد کے لیے روانہ ہوا۔

.

ذریعہ: Nawaiwaqt

کلیدی لفظ: خیبر پی کے

پڑھیں:

سرجی یونس بخاری صاحب

ساتویں جماعت کے مطالعہ پاکستان کے پیریڈ کی گھنٹی بجی، تو ہم سب کی نظریں بے اختیار دروازے کی طرف اٹھ گئیں۔ دراصل گزشتہ روز ہیڈ ماسٹر صاحب یہ اعلان کرکے گئے تھے کہ یہ مضمون آج سے اسکول میں نئے تعینات ہونے والے ٹیچر سید محمد یونس بخاری صاحب پڑھائیں گے۔

یہ نام پہلی بار اس طرح لگا، جس طرح کے بھاری بھرکم نام جہازی سائزکے مذہبی اشتہارات پر جلی حروف میں بڑے بڑے القابات کے ساتھ درج ہوتے ہیں۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ وہ عطاء اللہ شاہ بخاری کے خانوادہ سے ہیں، جو انگریز دور میں شہر میں قائم ہوئے اس پہلے مسلم اسکول کے بانی ہیں۔ چنانچہ ہم ذہنی طور پر تیار تھے کہ ابھی ایک مولانا ٹائپ ٹیچر اس دروازے سے اندر آئیں گے اور پھر پورا سال ہم ان کے رحم و کرم پر ہوں گے۔ مگر اس کے برعکس جب ایک بانکا سجیلا نوجوان، حاضری رجسٹر تھامے، کلاس روم میں داخل ہوا تو سب حیرت سے ایک دوسرے کا منہ دیکھنے لگے۔

دروازے کے ساتھ جڑی بنچوں کی پہلی قطار میں اگلے بنچ پرسے نواحی پنڈکھیریانوالی کا امتیاز بجلی کی سی تیزی سےstand up  کہتے ہوئے اٹھا، تو اس کے پیچھے پوری کلاس’اسٹینڈ اپ‘ ہوگئی۔ نوجوان ٹیچر نے ہاتھ کے اشارے سے سب کو فوراً بیٹھ جانے کی ہدایت کی اور کہا،’آیندہ سے میرے آنے پرکوئی ’اسٹینڈ اپ‘ نہیں ہو گا‘۔ ’ٹھیک اے استاد جی‘، امتیاز نے اپنے مخصوص دیہاتی لہجہ میں کہا۔ ’اورکوئی مجھے ’استاد جی‘ بھی نہیں کہے گا‘۔

نوجوان ٹیچر نے اسی سختی سے کہا۔ امتیاز سے رہا نہیں گیا، پھر بولا، ’ماسٹر جی؟‘’ماسٹر جی بھی نہیں‘، ٹیچر نے اب اسے ڈانٹ دیا۔ اس پر بائیں اور بنچوں کی قطار میں تیسرے بنچ پر سے طاہر مہدی نے ہاتھ کھڑا کرکے جھجکتے جھجکتے پوچھا،’سرجی؟‘ ٹیچر نے آنکھیں سکیڑ کے اسے دیکھا،’ہاں یہ ٹھیک ہے‘۔ اس کے بعد ٹیچر نے ’استاد جی‘ اور ’ماسٹر جی‘ جیسے القابات کو ناپسند کرنے کی وجہ بیان کی، جو اس وقت کچھ ہماری سمجھ میں آئی، کچھ نہ آئی، مگر اس روز کے بعد ’سرجی‘ پورے اسکول میں اس نئے ٹیچر کی پہچان بن گئی، سرجی بخاری صاحب۔

بخاری صاحب کی آمد نے اسکول میں نئی روح پھونک دی۔ وہ روایتی ٹیچر نہیں تھے، بلکہ اپنی وضع قطع میں بھی روایتی ٹیچروں سے سر تا پا مختلف تھے۔ اپنے شاگردوں سے اس طرح دوستانہ سطح پر آ کے مکالمہ کرتے کہ ان کا کہا ہوا ہر ہر لفظ قلب و روح میں اترتا ہوا محسوس ہوتا تھا۔ گول چہرہ، کشادہ پیشانی، کھلتا ہوا گندمی رنگ، ستواں ناک، باریک گلابی ہونٹ، جو اس وقت سرخ ہو جاتے، جب کبھی منہ میں پان ہوتا، ہونٹوں کے اوپر سیاہ حاشیے کے ایسی مونچھیں، سر پر بال کم ہوتے جا رہے تھے، مگر وہ برہنہ سر کم ہی نظر آتے تھے، گرمیوں میں سندھی، جب کہ سردیوں میں پٹھانی ٹوپی ان کے لباس کا حصہ معلوم ہوتی تھی۔ تقریرکا فن ورثہ میں پایا تھا،گارڈن کالج راولپنڈی میں اسٹوڈنٹ لیڈر رہ چکے تھے۔

 طبع بھی رواں، موزوں اور عوامی تھی، چنانچہ کچھ ہی عرصہ میں ان کا نام پنجاب ٹیچرز یونین کے سرگرم راہ نما کی حیثیت سے گجرات کی فضاؤں سے نکل کر پورے پنجاب میں گونج رہا تھا۔ ان تدریسی اور تنظیمی سرگرمیوں کے ساتھ ساتھ وہ اپنے ذوق شاعری کو بھی پورا وقت دیتے تھے۔ شہر کی کوئی ادبی محفل ان کے بغیر مکمل نہیں ہوتی تھی۔’قلم قبیلہ‘ نامی تنظیم کے مقامی عہدیدار اور ایک ادبی جریدے کے مدیر بھی تھے۔ دن کی آخری مصروفیت شام کے بعد بلا جی نائی کے حمام پر جمنے والی حقہ کی نے پر ہونے والی بیٹھک تھی، جو رات گئے تک جاری رہتی تھی۔ بخاری صاحب اتنے سارے کام خوشی خوشی کس طرح کر لیتے تھے، یہ تو وہی جانتے تھے، پر ان کو پورا دن پیہم مصروف دیکھ کر یہ خیال ضرور آتا تھا،’تم اتنا جو مسکرا رہے ہو، کیا غم ہے جس کو چھپا رہے ہو‘،کیونکہ ان کی متفکر آنکھیں ان کی مسکراہٹ کا کبھی ساتھ نہیں دیتی تھیں۔

وہ ساتویں جماعت کا قدیم روم کے مضافاتی چرچ کی طرز کا مستطیل کمرہ، جس میں بخاری صاحب مطالعہ پاکستان پڑھاتے تھے، اس میں بنچوں کی درمیانی قطار کے تیسرے بنچ پر احمد ندیم، عتیق احمد اور میں بیٹھتے تھے۔ عتیق کا اور میرا گھر، محلہ مسلم آباد میں پاس پاس تھے۔ بخاری صاحب کا گھر بھی اسی محلہ میںتھا،اس طرح کہ اگر ہم تینوں کے مکانوںکو تین نقطے تصور کرکے ریاضی کے اصول کے تحت آپس میں ملا دیا جائے تو مساوی زاویوں کی ایک مثلث بن جائے۔ ندیم کا گھر شہر سے باہرگاؤں میں تھا، مگر وہ اس مثلث میں اس طرح آتا تھا کہ چھٹی کے بعد والد کے میڈیکل اسٹور میں ان کا ہاتھ بٹاتا تھا، جس سے دو چار ہی دکانیں آگے بلا جی کا حمام تھا، جو شہر میں بخاری صاحب کا گویا ’ہیڈ آفس‘ تھا۔

یوں چھٹی کے بعد بھی بخاری صاحب ہمارے اور ہم ان کے آس پاس ہوتے تھے،اور اسکول کے زمانے ہی سے ان کے ساتھ ہمارا دوستی کا رشتہ بھی بن گیا تھا، بلکہ ندیم اور میں ان کے ساتھ اکٹھے فلم بھی دیکھ چکے تھے۔ میںکالج میں تھا، جب بخاری صاحب کی شادی ہوئی۔ ندیم اور میں ان کی بارات کے ساتھ گجرات سے لاہور آئے تھے۔ راوی کے پاس بارات کچھ دیر کے لیے رکی تاکہ پیچھے رہ جانے والی باراتی گاڑیاں ساتھ مل جائیں، تو مجھے یاد ہے، بخاری صاحب بھی تھوڑی دیر کے لیے کار سے باہر نکلے۔ دولہے کے روپ میں ان کا چہرہ دمک رہا تھا اورکریم کلر کی شیروانی اور شملے میں وہ کوئی یونانی شہزادہ معلوم ہو رہے تھے ۔ اسی روز پہلی بار یہ منکشف ہوا کہ والد کی وفات کے بعد انھوں نے عہد کیا تھا کہ سب بہن بھائیوں کی شادی کے بعد ہی اپنے سر پرسہرا سجائیں گے، سو، آج سب سے آخر میں ان کی شادی ہو رہی ہے۔

 ایف ایس سی کے بعد میں لاہور آ گیا، مگر جب بھی گجرات جانا ہوتا، ان سے ملے بغیر چین نہیں آتا تھا۔ اسکول اورگھر میں نہیں، تو بلا جی کے حمام پر ضرور مل جاتے تھے۔ وہ لاہور اپنے سسرال آتے تو یہاں بھی ملاقات ہو جاتی تھی۔ شادی کے بعد انھوں نے اپنا پرانا خستہ حال مکان نجانے کتنی مشکلوں سے ازسرنو بنوایا، مگر نیا گھر انھیں راس نہ آیا۔ ایک جوان شادی شدہ بھائی پہلے ہی ایک مقامی جھگڑے میں قتل ہو چکا تھا۔ اس کی جوانمرگی کا زخم بھرا نہیں تھا کہ دوسرا بھائی بھی ایک حادثے کا شکار ہو کر بستر سے لگ گیا۔ ایک روز معلوم ہوا کہ ریٹائرمنٹ لے کر قسمت آزمائی کے لیے وہ بھی لاہور آ گئے ہیں۔

فی الحال کوئی روزگار میسر نہ تھا، جب کہ بچے ابھی چھوٹے تھے۔ ان دنوں ان سے ملنے گیا تو انھیں دیکھ کر دل تڑپ اٹھا۔ ساتویں جماعت کا ہمارا بانکا سجیلا ٹیچر اور مشفق دوست آج ایک تھکے ماندے بوڑھے کے روپ میں میرے سامنے بیٹھا تھا۔ چہرے پر پریشانی ہویدا تھی، داڑھی بڑھی ہوئی تھی۔ پہلی بار اس حقیقت کا ادراک ہوا کہ متوسط طبقہ کے بال بچے دار آدمی کو بوڑھا ہونے میں دیر ہی کتنی لگتی ہے، غموں کے دو چار جھٹکے لگتے ہیں اور وہ بوڑھا ہو جاتا ہے۔ پتا چلا، چند ہفتے پہلے ہی دل کی سرجری کے عمل سے گزرے ہیں۔ اس دوران پیچیدگی یہ ہوئی کہ شریانوں سے خون رسنا شروع ہو گیا، جو بمشکل بند ہوا ۔ ’شاید ابھی زندگی کے کچھ دن باقی ہیں‘، اور یہ کہتے ہوئے ان کی آنکھوں میں دل چیر دینے والی بے بسی تھی۔

ان کی رحلت سے چند ہفتے پہلے کی بات ہے۔ شام جھٹپٹے کا وقت تھا۔ ان کی خیریت دریافت کرنے گیا۔ دروازہ کھٹکھٹایا توآج دروازہ انھوں نے ہی کھولا کہ گھر پر تنہا ہی تھے۔ بیوی بچے بازار گئے تھے۔ اس شام وہ دیر تک باتیں کرتے رہے، جیسے دل کا بوجھ ہلکا کرنا چاہتے ہوں۔ اپنے گاؤں ناگڑیاں، محلہ مسلم آباد، مسلم اسکول، شیدے کا ہوٹل، بلا جی کا حمام اور سردیوں کی شاموں میں اس سے متصل گل ریز کی دکان پر دہکتی انگیٹھی کے گرد محفل سخن، وہ برسوں کا سفر لمحوں میں طے کرتے ہوئے گزرگئے۔

پھر وہ روح فرسا واقعہ سنایا کہ کس طرح سیاسی رقابت میں ایک مخالف ٹیچر نے ان کو زہر دلوا دیا، شریانوں میں جس کے اثرات آج تک باقی ہیں، اورکس طرح ایک روز وہی ٹیچر آ کے ان کے پاؤں میںگر پڑا، اور اس سید زادے نے اپنے نانا کی سنت پر عمل کرتے ہوئے اسے پاؤں سے اٹھایا، سینے سے لگایا اورکہا،’جاؤ، میں نے تمھیں معاف کیا، اللہ بھی تمھیں معاف کرے‘۔ یہ کہہ کے میری طرف جھکے اور کہا، ’اصغر، یہ زہر مگر میری جان لے کر ہی چھوڑے گا‘۔ چند ہفتے بعد ان کا دروازہ پھرکھٹکھٹایا، اور اپنا نام بتایا، تو اندر سے ایک خاتون کی سسکی ابھری،’آپ کے سرجی یونس بخاری صاحب اب نہیں رہے‘، بس اے میرؔ مژگاں سے پونچھ آنسووںکو ، تو کب تک یہ موتی پروتا رہے گا،

قرض خورشید در سیاہی شد

یونس اندر دہان ماہی شد

متعلقہ مضامین

  • خیبر پختونخوا حکومت کا امن جرگہ آج پشاور میں منعقد ہوگا
  • عرفان صدیقی کی رہنمائی اور سرپرستی ہمیشہ مشعل راہ رہی ہے: عظمیٰ بخاری
  • کوہستان میگا کرپشن اسکینڈل: سیاسی شخصیات کی گرفتاری کا بھی امکان
  • کوہستان میگا کرپشن اسکینڈل میں بعض سیاسی شخصیات ملوث
  • کوہستان میگا کرپشن اسکینڈل،متعددسیاسی شخصیات ملوث، گرفتاری کا امکان
  • کوہستان میگا کرپشن اسکینڈل میں بعض سیاسی شخصیات ملوث، گرفتاری کا امکان
  • پیپلز پارٹی کی صوبائی حکومت بدانتظامی، نااہلی اور کرپشن کا بدترین امتزاج بن چکی ہے، منعم ظفر
  • سرجی یونس بخاری صاحب
  • مریم نواز علامہ اقبال کے فلسفے پر عمل کرتے ہوئے پنجاب کو فلاحی صوبہ بنا رہی ہیں: عظمیٰ بخاری 
  • تحریک تحفظ آئین کا 27 ویں ترمیم کی جعلی منظوری کے اگلے دن یوم سیاہ منانے کا اعلان