ایران نے بین الاقوامی ایٹمی توانائی ایجنسی کے سربراہ پر ایٹمی تنصیبات کا دورہ کرنے پر پابندی لگادی
اشاعت کی تاریخ: 29th, June 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
ایرانی پارلیمنٹ کے نائب اسپیکر حامد رضا حاجی بابائی نے اعلان کیا ہے کہ ایران نے بین الاقوامی ایٹمی توانائی ایجنسی (IAEA) کے سربراہ رافیل گروسی کے ایرانی ایٹمی تنصیبات کے دورے پر پابندی عائد کر دی ہے۔
انہوں نے کہا کہ یہ فیصلہ اس بنیاد پر کیا گیا ہے کہ ایران کی ایٹمی تنصیبات سے متعلق بعض معلومات اسرائیلی حکومت سے حاصل شدہ دستاویزات میں شامل تھیں۔ نائب اسپیکر کا کہنا تھا کہ اب آئی اے ای اے کو ان تنصیبات پر نگرانی کے کیمرے نصب کرنے کی بھی اجازت نہیں دی جائے گی۔
دوسری جانب ایرانی وزیر خارجہ عباس عراقچی نے رافیل گروسی کے ممکنہ دورے کو غیر ضروری اور بدنیتی پر مبنی قرار دیا ہے۔
یاد رہے کہ ایرانی پارلیمنٹ پہلے ہی آئی اے ای اے سے تعاون ختم کرنے کی منظوری دے چکی ہے، جب کہ اسپیکر پارلیمنٹ رافیل گروسی کو اسرائیل کا محافظ اور غلام قرار دے چکے ہیں۔
رافیل گروسی نے حالیہ امریکی حملوں کے بعد ایران کی ایٹمی تنصیبات کا دورہ کرنے کی خواہش ظاہر کی تھی۔
.ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: ایٹمی تنصیبات رافیل گروسی
پڑھیں:
’تمام پابندیوں سے آزاد ہیں‘، ایرانی جوہری پروگرام پر 10 سالہ عالمی معاہدہ باضابطہ ختم
ایران نے 2015 کے تاریخی جوہری معاہدے کی میعاد ختم ہونے کے بعد کہا ہے کہ وہ اب اس معاہدے کی تمام پابندیوں سے آزاد ہے۔
عالمی میڈیا کے مطابق ایران نے 2015 کے جوہری معاہدے کو سرکاری طور پر ختم کرنے کا اعلان کر دیا ہے، جسے جوائنٹ کمپری ہنسو پلان آف ایکشن (JCPOA) کے نام سے جانا جاتا ہے۔
ایران کی وزارت خارجہ کےجاری بیان میں کہا گیا ہے کہ ”ایران اب اس معاہدے کے تحت کسی بھی قسم کی پابندیوں کا پابند نہیں ہے اور معاہدے کے تمام اہداف اور میکانیزم ختم ہو چکے ہیں“۔
یہ معاہدہ 2015 میں امریکی صدر باراک اوباما کی حکومت کے دوران ایران، چین، برطانیہ، فرانس، جرمنی، روس اور امریکا کے درمیان طے پایا تھا۔ معاہدے کے تحت، ایران کے جوہری پروگرام پر پابندیاں عائد کی گئیں، جبکہ ایران کے خلاف عالمی اقتصادی پابندیاں ہٹائی گئیں۔
اس معاہدے کا مقصد مشرق وسطیٰ میں جوہری ہتھیاروں کی پھیلاؤ کو روکنا تھا اور ایران کے ساتھ مغربی دنیا کے تعلقات کو بہتر بنانا تھا۔
تاہم، 2018 میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے یکطرفہ طور پر امریکا کو اس معاہدے سے نکال لیا اور ایران کے خلاف دوبارہ پابندیاں عائد کر دیں۔ ٹرمپ نے اوباما کے معاہدے کو تنقید کا نشانہ بنایا اور ایران کے حریف اسرائیل نے بھی اس معاہدے کی سخت مخالفت کی۔ امریکا کے اخراج کے بعد، ایران نے اپنے جوہری پروگرام کو تیز کر دیا۔
یورپ نے معاہدے کو بحال کرنے کی متعدد کوششیں کیں، لیکن ان مذاکرات میں کوئی کامیابی نہیں ہوئی۔ اس سال اسرائیل اور امریکہ کی جانب سے ایران پر بمباری نے معاہدے کے دوبارہ آغاز کی امیدوں کو مزید کم کر دیا۔ جون میں ایران کی پارلیمنٹ نے ایک بل پاس کیا جس کے تحت عالمی جوہری توانائی ایجنسی (IAEA) کے ساتھ تعاون سے انکار کیا گیا۔
ایران نے معاہدے کی منسوخی کے باوجود کہا کہ وہ ”سختی سے سفارت کاری کے اصولوں پر قائم ہے“ اور عالمی سطح پر مذاکرات کے لیے تیار ہے۔