کراچی کا تاجر کچے کے ڈاکوؤں کے چنگل میں کیسے پھنسا؟ بازیابی کی کوششیں جاری
اشاعت کی تاریخ: 2nd, July 2025 GMT
کراچی کے ایک اور تاجر کو ڈاکوؤں نے کچے کے علاقے سے اغوا کرلیا۔ یہ واقعہ ایک بار پھر اس سوال کو جنم دیتا ہے کہ سندھ اور پنجاب کے سنگم پر واقع خطرناک ‘کچے’ کے علاقے میں تاجر کیسے جا پہنچتے ہیں، اور انہیں وہاں اغوا کرنا اتنا آسان کیوں ہے؟
اغوا ہونے والے تاجر کی شناخت معین الدین کے نام سے ہوئی ہے، جو اسکریپ کے کاروبار سے وابستہ ہیں۔ وہ 21 جون کو لانڈھی ریلوے اسٹیشن سے صادق آباد روانہ ہوئے تھے، تاہم چند روز بعد، 24 جون کو ان کے اغوا کی خبر منظرِ عام پر آئی، اور 27 جون کو ایک دل دہلا دینے والی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی جس میں انہیں برہنہ حالت میں تشدد کا نشانہ بنتے دکھایا گیا۔
اغوا کیسے ہوا؟متاثرہ تاجر کے بیٹے نے قائدآباد تھانے میں مقدمہ درج کراتے ہوئے مؤقف اختیار کیا ہے کہ ان کے والد معین الدین کاروباری سلسلے میں صادق آباد گئے تھے، جہاں رحیم یار خان کے قریب کچے کے علاقے سے ڈاکوؤں نے انہیں اغوا کرلیا۔
مزید پڑھیں: کچے کے علاقے میں ڈاکوؤں کیخلاف آپریشن، 2 مشتبہ افراد گرفتار، پناہ گاہیں نذر آتش
اغوا کاروں نے فون پر 2 کروڑ روپے تاوان کا مطالبہ کیا ہے اور عدم ادائیگی کی صورت میں جان سے مارنے کی دھمکی دی ہے۔ تاجر کے بیٹے کے مطابق، اغوا کار نہ صرف ویڈیوز بھیج رہے ہیں بلکہ مسلسل دباؤ ڈال رہے ہیں۔
کون سے کچے میں، سندھ یا پنجاب؟یہ واضح نہیں کہ تاجر کو سندھ کے کچے میں رکھا گیا ہے یا پنجاب کے کسی ضلع میں۔ یہی پہلو پولیس اور رینجرز کے لیے سب سے بڑا چیلنج بنا ہوا ہے۔ ایک صحافی نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ کچے کے علاقے میں جانے کا مطلب خود خطرے کو دعوت دینا ہے، اور کئی کیسز میں یہ ہنی ٹریپ جیسا معلوم ہوتا ہے۔
پولیس کیا کر رہی ہے؟ایس ایس پی اے وی سی سی آصف بلوچ کے مطابق، پنجاب اور سندھ کے 3 اضلاع پر مشتمل اس پورے علاقے میں مشترکہ آپریشن کے بغیر پیشرفت ممکن نہیں۔ انہوں نے اعتراف کیا کہ بعض اوقات لوگ خود ہوش و حواس میں ان علاقوں میں چلے جاتے ہیں، اہلِخانہ کو بھی اطلاع نہیں دیتے، اور یہی رویہ اغوا کو ممکن بناتا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ پولیس نے بس اسٹاپس پر آگاہی مہم شروع کی ہے، گاڑیوں میں ریکارڈنگز چلائی جا رہی ہیں اور عوام کو متنبہ کیا جا رہا ہے کہ ان علاقوں کا رخ کرتے وقت محتاط رہیں۔
مزید پڑھیں: کچے کے علاقے میں پنجاب پولیس کو جدید ٹیکنالوجی سے لیس کرنے کا فیصلہ
تاجر برادری کا ردعملآل کراچی تاجر اتحاد کے صدر عتیق میر نے اس واقعے پر شدید تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ کراچی اور اندرون سندھ کے درمیان تجارت کا ایک مضبوط نیٹ ورک ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر کچے کے ڈاکوؤں کا خوف بڑھا، تو یہ تجارت پر حملہ تصور ہوگا۔ حکومت سندھ کو چاہیے کہ امن و امان کے دعوے عملی اقدامات میں بدلے، ورنہ کاروباری سرگرمیاں محدود ہو جائیں گی اور معیشت کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچے گا۔
ریاستی رٹ کا امتحان؟یہ واقعہ محض ایک تاجر کے اغوا کا معاملہ نہیں بلکہ یہ ریاست کی رٹ، داخلی سلامتی اور تجارتی تحفظ کا بڑا امتحان ہے۔ اس وقت ضرورت اس امر کی ہے کہ پولیس، رینجرز اور خفیہ ادارے مشترکہ حکمت عملی سے کچے کے ان علاقوں کو مجرموں کے گڑھ سے قانون کی عملداری میں لائیں۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
2 کروڑ اغوا تاجر تاوان کچے کا علاقہ کراچی.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: 2 کروڑ اغوا تاجر تاوان کچے کا علاقہ کراچی کچے کے علاقے کے علاقے میں
پڑھیں:
پاکستان سے تجارت کم کرنا طالبان رجیم کو کتنا مہنگا پڑے گا؟
افغانستان کے تاجروں کو پاکستان کے بجائے متبادل راستے تلاش کرنے پر مجبور کیا جا رہا ہے جو کہ ایک مشکل کام ضرور ہے لیکن ناممکن نہیں۔ یہ کہنا تھا پڑوسی ملک افغانستان میں طالبان حکومت کے نائب وزیراعظم ملا عبدالغنی برادر کا جو کچھ دن پہلے کابل میں افغان تاجروں سے ملاقات میں انہیں واضح طور پر بتا چکے تھے کہ پاکستان کے ساتھ سفارتی تعلقات بہتر ہونے کے امکانات محدود ہیں اور اس کا اثر تجارت پر مزید پڑے گا۔
یہ بھی پڑھیں: پاک افغان نیا زرعی تجارتی معاہدہ، بلوچستان کے زمینداروں اور پھل سبزی فروشوں کو تحفظات کیوں؟
ملا برادر سے ملاقات کے بعد افغان تاجر کافی پریشان ہیں۔ ملا برادر کے بیانات اور افغان تاجروں کی پریشانی سے واضح ہو رہا ہے کہ پاکستان سے تجارت افغانستان کے لیے کتنی آسان، سستی اور اہم ہے اور اگراسے کم کیا گیا تو افغان معیشت پر منفی اثر پڑ سکتا ہے۔
سیاست اور خراب سفارتی تعلقات کے باعث تجارتی حجم میں کمیپاک افغان تجارت سے منسلک تاجروں کے مطابق پاک افغان سفارتی تعلقات کا تجارت پر منفی اثر پڑا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ وقت کے ساتھ تجارتی حجم میں اضافے کی بجائے کمی آرہی ہے اور اب نوبت تجارت ختم ہونے کی دہانے پر پہنچی ہے جس سے دونوں ملکوں کو نقصان ہو رہا ہے۔
پاک افغان چیمبر آف کامرس کے کوآرڈینیٹر ضیاء اللہ سرحدی کے مطابق پاک افغان تجارت ہمیشہ سفارتی تعلقات کی کشمکش کی نذر ہوتی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ بارڈر بندش، نئی پالیسیز اور سختیوں سے نقصان صرف تاجروں کا ہوتا ہے۔
مزید پڑھیے: سیاست اور خراب سفارتی تعلقات، پاک افغان تجارت میں کتنا نقصان ہورہا ہے؟
ضیاء اللہ کے مطابق سنہ 2010 تک تجارت عروج پر تھی جس کے بعد پابندیوں اور نئے شرائط نے تجارت کو زبوں حالی کا شکار کر دیا اور افغان ٹریڈ چابہار کی طرف منتقل ہو گئی۔ انہوں نے کہا کہ 70 فیصد تجارت جو یہاں سے ہو رہی تھی وہ اب چابہار منتقل ہو گئی ہے۔
انہوں نے بتایا کہ گزشتہ چند سالوں میں دونوں ہمسایہ ممالک کے درمیان کشیدگی نے تجارت کو شدید متاثر کیا ہے۔
تاجروں کے مطابق دوطرفہ تجارتی حجم ڈھائی ارب ڈالر تھا جو اب ایک ارب ڈالر سے بھی کم ہو گیا ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ چابہار اور دیگر روٹ استعمال کرنا مجبوری ہے اور یہ پاکستان کے روٹ کے مقابلے میں مہنگے اور مشکل بھی ثابت ہوتے ہیں۔
مزید پڑھیں: پاک افغان معاہدہ طے، کن سبزی و پھلوں کی تجارت ہوگی، ٹیرف کتنا؟
اگرچہ افغان طالبان حکومت نے اپنے تاجروں کو واضح بتا دیا ہے کہ پاکستان سے تجارت کم کریں لیکن افغان تاجر اس فیصلے سے خوش نہیں ہیں۔ ان کے مطابق پاکستان کے ذریعے یا پاکستان کے راستے ٹرانزٹ ٹریڈ آسان اور سستی ہے۔
پاک افغان تجارت سے وابستہ پشاور میں مقیم ایک افغان تاجر نے بتایا کہ پاکستان سے تجارت ختم کرنا ان کے لیے معاشی طور پر قتل کے برابر ہے۔ انہوں نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ پاکستان میں تمام افغان تاجروں کے تعلقات مضبوط ہیں اور اچانک کسی دوسرے ملک کی طرف تجارت منتقل کرنا ممکن نہیں۔
’دونوں جانب سے تاجر تجارت کے فروغ کے حق میں ہیں‘انہوں نے کہا کہ پاکستان کی مارکیٹ افغان تاجروں کو قدر کی نگاہ سے دیکھتی ہے اور پاکستانی تاجر بھی باہمی تجارت کے فروغ کے حق میں ہیں۔
تاجر نے کہا کہ پاکستان سے تجارت ختم کرنا ایسا ہے جیسے تاجروں کو کنویں میں دھکیل دیا جائے۔
افغان تاجر کے مطابق پاک افغان تجارت میں کمی یا خاتمے سے دونوں جانب نقصان ہوگا لیکن افغانوں کا نقصان زیادہ ہوگا اور عام عوام بھی متاثر ہوں گے۔
یہ بھی پڑھیے: پاک افغان تعلقات میں بہتری، تجارت 3 گنا بڑھانے کا ہدف
وہ کہتے ہیں کہ حالیہ سرحد بندش سے افغان کسانوں کو بہت نقصان اٹھانا پڑا کیونکہ انگور، انار اور دیگر پھلوں کی ترسیل نہیں ہو سکی۔
انہوں نے بتایا کہ پاکستان سے مال چند گھنٹوں میں پہنچ جاتا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ پنڈی یا پشاور سے اگر مال صبح روانہ کیا جائے تو شام تک افغانستان کے کسی بڑے شہر پہنچ جاتا ہے۔
افغان تاجروں کے پاس متبادل راستے محدود اور مہنگے ہیں۔ انڈیا، چین اور تاجکستان کے راستے استعمال کرنے میں وقت زیادہ لگتا ہے اور لاگت کئی گنا بڑھ جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان کے زمینی راستے افغانستان کے لیے سب سے آسان، سستا اور قابل اعتماد ہیں۔
پاک افغان تجارتپاکستان سے افغانستان میں آٹا، چینی، دالیں، گھی، سبزیاں، تازہ پھل، ادویات، تعمیراتی سامان اور روزمرہ استعمال کی اشیا پہنچتی ہیں جبکہ افغانستان سے پاکستان الیکٹرانکس، سبزیاں، پھل اور دیگر درآمد شدہ مصنوعات بھیجی جاتی ہیں۔
تجزیہ کاروں کے مطابق پاک افغان تجارت سے نہ صرف افغانستان بلکہ پاکستان کو بھی فائدہ پہنچ رہا ہے لیکن افغانستان کو اس کی زیادہ ضرورت ہے اور وہ پاکستان پر زیادہ انحصار کرتا ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
افغان تاجر افغانستان پاک افغان تجارت پاک افغان تجارتی روٹ پاکستان