—جنگ فوٹو

اسلامی تعاون تنظیم کی وزارتی قائمہ کمیٹی برائے سائنسی و تکنیکی تعاون (کامسٹیک) کے زیرِ اہتمام میں ’معیارِ تعلیم اور جامعات کی درجہ بندی‘ کے موضوع پر بین الاقوامی ورکشاپ شروع ہو گئی۔

ورکشاپ کی افتتاحی تقریب سے کوآرڈینیٹر جنرل کامسٹیک پروفیسر ڈاکٹر محمد اقبال چوہدری نے خطاب کرتے ہوئے مہمانوں، ماہرینِ تعلیم، وائس چانسلرز، کوالٹی انہانسمنٹ سیلز (QECs) کے ڈائریکٹرز اور او آئی سی کے رکن ممالک سے آئے ہوئے دیگر شرکاء کو خوش آمدید کہا۔ 

انہوں نے کہا کہ تعلیمی اداروں کی ساکھ، ترقی اور بین الاقوامی سطح پر مسابقت کے لیے معیارِ تعلیم کی یقین دہانی (Quality Assurance) کلیدی اہمیت رکھتی ہے، یہ محض ایک رسمی عمل نہیں بلکہ تعلیمی استحکام اور پائیدار ترقی کا بنیادی ستون ہے۔ 

انہوں نے کہا کہ یہ کوشش اقوامِ متحدہ کے پائیدار ترقیاتی ہدف (SDG-4) کے حصول میں معاون ثابت ہو گی، ورکشاپ میں 27 ممالک سے تعلق رکھنے والے 500 سے زائد ماہرین اور 300 سے زائد تعلیمی اداروں کے نمائندگان نے آن لائن اور فزیکل حیثیت میں شرکت کی۔ 

ورکشاپ کے مقاصد میں تعلیمی معیار کے ذریعے جامعات کی درجہ بندی اور ساکھ کو بہتر بنانے، مختلف تعلیمی نظاموں میں بہترین تجربات کا تبادلہ، شفافیت و جوابدہی کو فروغ دینا، مانیٹرنگ و ایویلیوایشن کے نظام کو مستحکم کرنا اور بین الاقوامی معیارات کے مطابق ریسرچ، جدت اور ملازمت کے مواقع کو بہتر بنانا شامل تھا۔

ورکشاپ میں ڈاکٹر سیدہ ضیاء بتول اور ڈاکٹر جینیفر کول رائٹ سمیت ماہرین نے مختلف موضوعات پر روشنی ڈالی اور یونیورسٹی آف لیسٹر کے تجربات کو بطور کیس اسٹڈی پیش کیا۔

ماہرین نے اس موقع پر زور دیا کہ مسلم دنیا کی جامعات کو باہمی تعاون، تجربات کے تبادلے اور معیارِ تعلیم کے نظام کو بہتر بنا کر عالمی سطح پر مؤثر مقام حاصل کرنا ہو گا، ورکشاپ کو مسلم دنیا کی جامعات کے درمیان مکالمے اور تعاون کے فروغ میں ایک اہم سنگِ میل قرار دیا جا رہا ہے۔

.

ذریعہ: Jang News

پڑھیں:

ایٹمی ٹیکنالوجی اور دوہرے معیار!

اسلام ٹائمز: جب تک دوہرا معیار بین الاقوامی سیاست پر حاوی رہے گا، عالمی امن خطرے میں رہے گا۔ عالمی سلامتی کا مستقبل اس دوہرے انداز کو ختم کرنے اور ایک سادہ سچائی کو قبول کرنے پر منحصر ہے۔ حقیقی سلامتی اور امن صرف اسی صورت میں حاصل ہوسکتا ہے، جب بڑی طاقتیں جوہری ہتھیاروں پر اپنی اجارہ داری ترک کر دیں اور مشترکہ اصولوں پر عمل کریں۔ ایران، اپنی قانونی اور اخلاقی منطق پر بھروسہ کرتے ہوئے، اس نقطہ نظر کے خلاف کھڑا ہوا ہے اور اس نے دکھایا ہے کہ جوہری ہتھیاروں پر انحصار کیے بغیر قومی سلامتی، آزادی اور علاقائی کردار ادا کیا جا سکتا ہے۔ آج بہت سی قوموں نے محسوس کیا ہے کہ دنیا کو سب سے بڑا خطرہ پرامن جوہری پروگرام والے ممالک سے نہیں، بلکہ ان ہتھیاروں سے ہے، جن کے مالکان جوہری ہتھیاروں کی تیاری کو جاری رکھے ہوئے ہیں۔ تحریر: محمد کاظم انبارلوئی

امریکہ کی طرف سے تھرمونیوکلیئر بم کا حالیہ تجربہ اگرچہ جوہری وار ہیڈ کے بغیر تھا، لیکن اس تجربے نے ایک بار پھر واشنگٹن کے رویئے میں "خفیہ ترقی اور کھلی ممانعت" کی سرکاری پالیسی کو اجاگر کر دیا ہے۔ دنیا میں سب سے زیادہ جوہری ہتھیاروں کا حامل ہونے والے ملک کے باوجود، امریکا نئے ہتھیاروں کی جانچ، اپ گریڈیشن اور تیاری جاری رکھے ہوئے ہے، جبکہ دوسری طرف، وہ ایران جیسے ممالک کو سیاسی، میڈیا اور پابندیوں کے دباؤ کے ذریعے پرامن ایٹمی ٹیکنالوجی تک رسائی سے روکتا ہے۔ یہ تضاد بین الاقوامی تعلقات بالخصوص ایرانی جوہری معاملے میں اعتماد کے بحران کی بنیادی وجہ بنا ہے۔ دوسری طرف، ٹرمپ کا حالیہ بیان جس میں یہ دعویٰ کیا گیا ہے کہ امریکہ کے پاس "کرہ ارض کو 150 بار سے زیادہ تباہ کرنے کے لیے کافی جوہری ہتھیار موجود ہیں۔ یہ دعویٰ واشنگٹن میں جنگی دھڑوں کی خطرناک سوچ کی گہرائی کو ظاہر کرتا ہے۔

اس طرح کے دعووں میں نہ صرف تزویراتی منطق کا فقدان ہے بلکہ یہ بھی ظاہر کرتا ہے کہ بعض امریکی سیاست دان اب بھی جوہری جنگ کے عالمی نتائج کی بنیادی سوچ سمجھ سے بھی عاری ہیں۔ کرہ ارض کی پہلی تباہی کا مطلب خود امریکہ کی تباہی بھی ہے۔ لیکن اس تحریک کی گفتگو میں ایسا لگتا ہے کہ امریکی لوگ زمین سے باہر کہیں رہتے ہیں۔ یہ سادہ لوحانہ نظریہ ہے، جو دنیا کے بارے میں امریکی جوئیانہ فیصلوں کو بے نقاب کرتا ہے۔ نیوکلیئر ڈیٹرنس کے اصول، جسے اسٹریٹجک لٹریچر میں "دہشت گردی کے توازن" کے نام سے جانا جاتا ہے، انہوں نے کئی دہائیوں سے ایٹمی طاقتوں کے درمیان براہ راست تصادم کو روکا ہے۔ درحقیقت جوہری ہتھیار ایک بہت بڑی چٹان ہے، جسے ہدف بنائے بغیر نہیں اٹھایا جا سکتا۔ اس قاعدے کی ایک واضح مثال شمالی کوریا کے ساتھ امریکہ کے معاملات ہیں۔ ایک ایسا ملک جس نے ایٹم بم حاصل کرنے کے بعد واشنگٹن کے براہ راست خطرات سے اپنے آپ کو محفوظ کر دیا ہے۔

ایک موضوع جس کے بارے میں کم بات کی جاتی ہے، وہ ان ہتھیاروں کو برقرار رکھنے کے بھاری اخراجات ہیں۔ درجنوں اور سیکڑوں جوہری وار ہیڈز کا ذخیرہ کسی بھی وقت کسی ناپسندیدہ واقعے کا سبب بن سکتا ہے۔ فرسودہ گودام، فرسودہ نظام، انسانی غلطیاں اور دیکھ بھال کے خطرناک طریقے، یہ سب دنیا کے لیے خطرناک منظرنامے ہیں، لیکن جوہری طاقتیں اس حقیقت کو رائے عامہ سے پوشیدہ رکھنے کو ترجیح دیتی ہیں۔ دوسری طرف، ایران ایک ایسا ملک جو مغربی تصورات کے برخلاف، اسلامی انقلاب کے آغاز سے ہی اصول اور فقہ کی بنیاد پر ایٹمی ہتھیاروں کی تیاری اور استعمال کا مخالف رہا ہے اور انہیں ممنوع قرار دیتا ہے۔ ایران نہ صرف علاقائی تخفیف اسلحہ کا علمبردار ہے بلکہ تمام سرکاری دستاویزات میں اس نے اپنے جوہری پروگرام کو مکمل طور پر پرامن قرار دیا ہے اور اس پروگرام کی افادیت طب، زراعت، صاف توانائی اور ملک کے بنیادی ڈھانچے کی ضروریات کو پورا کرنے کے شعبوں میں کی گئی ہے۔

اس کے باوجود، 2 دہائیوں سے زیادہ عرصے سے، امریکہ، تین یورپی ممالک، برطانیہ، فرانس اور جرمنی کے ساتھ مل کر "ایٹم بم کی تیاری کو روکنے" کے بہانے ایران کی پیش رفت کو روکنے کی کوشش کر رہا ہے۔ مغرب کی زیادہ سے زیادہ دباؤ کی پالیسی سکیورٹی خدشات کو دور کرنے کے بجائے ایران کی قومی طاقت کو محدود کرنے کا ایک ذریعہ ہے۔ اس کی وجہ سے مغربی فریقین نے جوہری مذاکرات کے دوران اچانک غیر متعلقہ مطالبات کیے؛ ایران کی میزائل صلاحیتوں کو محدود کرنے سے لے کر مزاحمتی محاذ کی حمایت ختم کرنے اور صیہونی حکومت کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے جیسے  مطالبات ظاہر کرتے ہیں کہ جوہری مسئلہ مغرب کے لیے صرف دباؤ کا آلہ ہے، حقیقی تشویش نہیں۔ کہانی کا دوسرا رخ صیہونی حکومت ہے۔ ایک ایسی حکومت جس کے پاس بین الاقوامی اداروں کی رپورٹوں کے مطابق درجنوں جوہری وار ہیڈز موجود ہیں، لیکن وہ نہ تو NPT کا رکن ہے اور نہ ہی بین الاقوامی معائنے کی اجازت دیتا ہے۔

مغربی ایشیا کے قلب میں ایسے ہتھیاروں کا وجود علاقائی امن کے لیے حقیقی خطرہ ہے۔ لیکن امریکہ اور یورپ برسوں سے معنی خیز خاموشی کے ساتھ اس کی حمایت کر رہے ہیں۔ یہ خاموشی، کسی بھی چیز سے بڑھ کر، مغرب کی جوہری پالیسی کی دوہری نوعیت کو ظاہر کرتی ہے۔ ان پالیسیوں کے خلاف، ایران ایک ٹھوس قانونی اور اخلاقی فریم ورک پر کھڑا ہے: جنگ کی مخالفت، بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کی مخالفت، قوموں کے حقوق کا دفاع اور قبضے اور جبر کے خلاف کھڑا ہونا ایران کی بنیادی پالیسیوں کا حصہ ہے۔ فلسطینی عوام اور مزاحمتی محاذ کی حمایت بھی اس فریم ورک میں بیان کی گئی ہے۔ ایران فلسطینی جدوجہد کو ایک صدی کے جبر اور قبضے کے خاتمے کے لیے ایک جائز جدوجہد قرار دیتا ہے۔ ایک ایسی دنیا میں جہاں بڑی طاقتیں ہزاروں جوہری ہتھیاروں کے ساتھ پرامن ہونے کا دعویٰ کرتی ہیں، ایران، بین الاقوامی نگرانی میں ایک شفاف، پرامن پروگرام کے ساتھ، الزامات کی زد میں ہے۔

یہ تضاد نہ صرف قوموں کے لیے قابل فہم ہے بلکہ ایک منصفانہ اور پرامن اداکار کے طور پر ایران کی پوزیشن کو بتدریج مضبوط کر رہا ہے۔ جب تک دوہرا معیار بین الاقوامی سیاست پر حاوی رہے گا، عالمی امن خطرے میں رہے گا۔ عالمی سلامتی کا مستقبل اس دوہرے انداز کو ختم کرنے اور ایک سادہ سچائی کو قبول کرنے پر منحصر ہے۔ حقیقی سلامتی اور امن صرف اسی صورت میں حاصل ہوسکتا ہے، جب بڑی طاقتیں جوہری ہتھیاروں پر اپنی اجارہ داری ترک کر دیں اور مشترکہ اصولوں پر عمل کریں۔ ایران، اپنی قانونی اور اخلاقی منطق پر بھروسہ کرتے ہوئے، اس نقطہ نظر کے خلاف کھڑا ہوا ہے اور اس نے دکھایا ہے کہ جوہری ہتھیاروں پر انحصار کیے بغیر قومی سلامتی، آزادی اور علاقائی کردار ادا کیا جا سکتا ہے۔ آج بہت سی قوموں نے محسوس کیا ہے کہ دنیا کو سب سے بڑا خطرہ پرامن جوہری پروگرام والے ممالک سے نہیں، بلکہ ان ہتھیاروں سے ہے، جن کے مالکان جوہری ہتھیاروں کی تیاری کو جاری رکھے ہوئے ہیں۔

متعلقہ مضامین

  • ٹرمپ نے سعودی عرب کو اہم نان نیٹو اتحادی کا درجہ دیدیا
  • ایٹمی ٹیکنالوجی اور دوہرے معیار!
  • اسرائیل نے جنگ بندی کی پرواہ کیے بغیر لبنان پر دھاوا بول دیا، 13 افراد جاں بحق
  • عالمی فوجی طاقت کی نئی درجہ بندی: 2025ء کا منظرنامہ
  • اسرائیل کی جنگ معاہدے کی خلاف پرعالمی طاقتوں کی خاموشی افسوسنا ک ہے
  • پاکستان کی میری ٹائم صنعت میں سنگِ میل— بنکرنگ کے لیے پہلا لائسنس جاری
  • کراچی پورٹ پر عالمی معیار کی بنکرنگ سروس کا باضابطہ آغاز ہوگیا ہے، وزیر بحری امور
  • بلوچستان: تعلیمی اداروں میں موسم سرما کی ڈھائی ماہ کی چھٹیاں !طلبا خوشی سے نہال
  • ریاض میں بلیک ہیٹ 2025: سعودی عرب ایک بار پھر عالمی سائبر سیکیورٹی کا مرکز بننے کو تیار
  • چنیوٹ: وفاقی وزیر برائے انفارمیشن ٹیکنالوجی شزافاطمہ نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی میںنیشنل سیکورٹی ورکشاپ کے شرکاء سے خطاب کررہی ہیں