دریائے سوات میں 2010ء کے سیلاب بعد خریدا گیا ’ارلی فلڈ وارننگ سسٹم‘ تاحال نصب نہیں کیا جاسکا
اشاعت کی تاریخ: 8th, July 2025 GMT
---فائل فوٹو
دریائے سوات میں 2010ء میں آنے والے خطرناک سیلاب کے بعد خریدا گیا اَرلی فلَڈ وارننگ سسٹم 15 سال بعد بھی تاحال نصب نہیں کیا جا سکا۔
خیبر پختونخوا حکومت نے 2010ء کے سُپر فلڈ کے بعد کروڑوں روپے کی مالیت سے ارلی فلڈ وارننگ سسٹم خریدا تھا جسے تاحال نصب نہیں کیا گیا ہے۔
اس حوالے سے انسپیکشن ٹیم نے محکمۂ آبپاشی کو خط لکھتے ہوئے جواب طلب کیا ہے۔
خط میں پوچھا گیا کہ ارلی فلڈ وارننگ سسٹم نصب نہ کرنے کی وجوہات سے آگاہ کیا جائے، دور دراز علاقوں میں ہنگامی رابطوں کے لیے 2013ء میں وائرلیس کمیونیکیشن سسٹم بھی خریدا گیا تھا، انسپکشن ٹیم کوسسٹم کی موجودہ حالت اور نصب نہ کرنے کی وجوہات سے آگاہ کیا جائے۔
اس خط کے جواب میں خیبر پختون خوا کے محکمۂ آبپاشی نے انسپیکشن ٹیم کو بتایا ہے کہ تکنیکی اور سیکیورٹی وجوہات کی بنا پر سسٹم نصب نہیں کیا جا سکا، سیکیورٹی پروٹوکول کی وجہ سے ارلی فلڈ وارننگ سسٹم کی تنصیب کی اجازت نہیں ملی۔
.ذریعہ: Jang News
کلیدی لفظ: نصب نہیں کیا
پڑھیں:
ملک بھر میں بارشوں سے 19 افراد جاں بحق، بڑے دریاؤں میں سیلاب کا خطرہ
اسلام آباد(نیوز ڈیسک)مون سون کی شدید بارشوں کے دوران نیشنل ایمرجنسیز آپریشن سینٹر (این ای او سی) نے پیر کے روز ملک کے مختلف حصّوں میں آئندہ 2 دن کے لیے موسلا دھار بارشوں اور سیلابی صورتِ حال کا الرٹ جاری کر دیا، جب کہ بلوچستان، خیبر پختونخوا اور جڑواں شہروں اسلام آباد اور راولپنڈی میں 19 افراد جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔
این ای او سی کے مطابق 10 جولائی تک بالخصوص بڑے دریاؤں کے کیچمنٹ ایریاز میں درمیانی اور تیز بارشوں کا سلسلہ جاری رہے گا، جس سے مختلف علاقوں میں اچانک سیلاب (فلیش فلڈ) کا خدشہ ہے۔
الرٹ کے بعد وزیرِ اعظم نے نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (این ڈی ایم اے) اور دیگر متعلقہ اداروں کو ہائی الرٹ رہنے اور بالخصوص ممکنہ سیلابی ہنگامی صورتِ حال سے نمٹنے کی ہدایت کی ہے۔
بلوچستان میں بارشوں سے 7 افراد جاں بحق
بلوچستان میں گزشتہ 48 گھنٹوں کے دوران مون سون کے تازہ اسپیل سے کم از کم 7 افراد جاں بحق اور متعدد زخمی ہوئے، صوبائی ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (پی ڈی ایم اے) کے مطابق بارشوں سے صوبے کے 22 اضلاع متاثر ہوئے۔
حکام کے مطابق شدید بارشوں اور فلیش فلڈ کے حوالے سے پہلے ہی الرٹ جاری کیا جاچکا تھا، اتھارٹی کے مطابق 7 اموات کی تصدیق ہوئی ہے، جب کہ 22 مکانات کو نقصان اور 5 مکانات مکمل طور پر تباہ ہوئے۔
زیادہ متاثرہ علاقوں میں آوران، جھل مگسی، خضدار، موسیٰ خیل، قلعہ سیف اللہ، بارکھان، کوہلو، لورالائی، ژوب اور شیرانی کے حصّے شامل ہیں، پی ڈی ایم اے حکام نے بتایا کہ شمالی، جنوبی اور وسطی بلوچستان کے کم از کم 22 اضلاع بارشوں سے متاثر ہوئے اور بارش کا سلسلہ جاری ہے۔
سرحدی ضلع واشک بدترین متاثرہ علاقوں میں شامل ہے، جہاں کھڑی فصلیں تباہ اور متعدد مکانات کو نقصان پہنچا، جس سے بڑی تعداد میں لوگ بے گھر ہوئے، لورالائی اور سوراب میں بارش نے سولر پینلز کو بھی نقصان پہنچایا۔
اسلام آباد و راولپنڈی میں 6 افراد چل بسے
نگر پولیس اور ریسکیو سروسز کے مطابق راولپنڈی اور اسلام آباد کے مختلف حصّوں میں بارش سے مربوط واقعات میں 3 بچوں سمیت کم از کم 6 افراد ڈوب کر جاں بحق ہوئے۔
خیبر پختونخوا میں بھی جانی نقصان
خیبر پختونخوا کے اضلاع مالاکنڈ، بونیر، مانسہرہ اور کرک میں 6 افراد جان کی بازی ہار گئے۔
ادھر وزیرِ اعظم شہباز شریف نے این ڈی ایم اے، ریسکیو ایجنسیوں اور انتظامی حکام کو کسی بھی ممکنہ ہنگامی صورتِ حال سے نمٹنے کے لیے ہائی الرٹ رہنے کی ہدایت کی ہے، اُنہوں نے تربیلا ڈیم کے اسپِل ویز کو ممکنہ طور پر کھولنے سے دریائے سندھ کے نشیبی علاقوں میں سیلاب کے خطرے پر بھی تشویش ظاہر کی۔
دریاؤں میں ممکنہ سیلاب
این ای او سی کی پیش گوئی کے مطابق دریائے کابل، سندھ، جہلم اور چناب سمیت تمام بڑے دریاؤں میں پانی کی آمد میں اضافہ متوقع ہے، اس وقت دریائے سندھ پر تربیلا، کالا باغ اور چشمہ کے مقامات پر کم درجے کا سیلاب ہے، جب کہ تونسہ پر بھی یہ حد متوقع ہے۔
دریائے چناب پر ہیڈمرالہ اور خانکی اسٹیشنز پر نچلے درجے کے سیلاب کا امکان ہے، دریائے کابل نوشہرہ کے مقام پر اور دریائے سوات و پنجکوڑہ سے متصل نالوں میں بھی پانی کی سطح بلند ہو سکتی ہے۔
اسی طرح دریائے جہلم اور اس کے معاون دریاؤں میں پانی کا بہاؤ بڑھنے سے مقامی فلیش فلڈ کا خدشہ ہے، جب کہ منگلا ڈیم پر نچلے درجے کے سیلاب کا امکان ہے۔
ڈیرہ غازی خان اور راجن پور کے پہاڑی ندی نالے دوبارہ فعال ہو سکتے ہیں، جہاں درمیانے سے اونچے درجے کے سیلابی ریلے جنم لینے کا خطرہ ہے۔
بلوچستان کے شمال مشرقی اضلاع، جھل مگسی، کچھی، سبّی، قلعہ سیف اللہ، ژوب اور موسیٰ خیل کے ندی نالوں میں بھی تیز بہاؤ متوقع ہے، گلگت بلتستان میں دریائے ہنزہ اور شِگر کے پانی کی سطح میں اضافہ ہو سکتا ہے۔