ٹرمپ انتظامیہ نے محکمہ خارجہ کے سیکڑوں ملازمین کو نوکری سے فارغ کر دیا
اشاعت کی تاریخ: 12th, July 2025 GMT
واشنگٹن(نیوز ڈیسک) عدالت سے گرین سگنل ملتے ہی ٹرمپ انتظامیہ نے محکمہ خارجہ کے تقریباً 1400 ملازمین کو نوکری سے فارغ کر دیا۔
امریکی محکمہ خارجہ کے امریکا میں کام کرنے والے 1107سول سروس ورکرز اور 246فارن سروس افسران کو خط بھیج کر آگاہ کیا گیا ہے کہ وزیرخارجہ مارکو روبیو کے حکم پر انہیں ملازمت سے برطرف کردیا گیا ہے۔
اس عمل کو تنظیم نو منصوبہ کا نام دیا گیا ہے۔
صدر ٹرمپ کے امریکا فرسٹ ایجنڈے کے تحت کئی ایسے دفاتر جو انسانی حقوق، جمہوریت اور پناہ گزینوں سے متعلق ہیں،انہیں بند کیا جارہا ہے اور ان کے امور علاقائی بیوروز کو سونپے جارہے ہیں۔
محکمہ خارجہ میں ملازمین کو بھیجے گئے نوٹس میں وضاحت کی گئی ہے کہ سفارتی ترجیحات پر توجہ مرکوز کرتے ہوئے شعبے کے ڈومیسٹک آپریشنز کو موثر بنایا جارہا ہے۔
لوگوں کی چھانٹیاں کرتے ہوئے یہ بات مدنظر ہے کہ غیربنیادی افعال، بے کار یا مخصوص کام کیلئے موجود ایک جیسے دفاتر یا وہ دفتر جہاں زائد اہلکار موجود ہیں، انہیں بند کیا جائے۔
ملازمین کی چھانٹیوں کی اطلاع ملتے ہی محکمہ خارجہ کے درجنوں ملازمین لابی میں جمع ہوئے اور نکالے گئے ملازمین کی خدمات کے اعتراف میں زور دار تالیاں بجائیں۔ برطرف کیے گئے ملازمین میں سے کئی کی آنکھیں اشکبار تھیں۔ ہاتھوں میں اپنے سامان سے بھرے بکس اٹھائے یہ ملازمین ساتھیوں سے گلے لگ کر روتے رہے۔
ڈیموکریٹک سینیٹر کرس وان ہولن نے محکمہ خارجہ سے نکالے گئے ملازمین سے اظہار یکجہتی کیا۔ وہ عمارت کے باہر موجود محکمہ خارجہ کے اہلکاروں کے ساتھ جا کھڑے ہوئے جو اپنے ساتھیوں کیلئے تھینک یو امریکی سفارتکاروں کے پلے کارڈ لیے کھڑے تھے۔
5 صفحات پرمشتمل چیک لسٹ میں ملازمین کو اس بات سے بھی آگاہ کیا گیا تھا کہ شام 5 بجے کے بعد وہ عمارت میں داخل نہیں ہوسکیں گے اور یہ کہ ان کی سرکاری ای میل بھی بند کردی جائےگی۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق فارغ کیے گئے اہلکاروں میں وہ امریکی ملازمین بھی شامل ہیں جو افغانوں کی امریکا میں منتقلی کے عمل کی نگرانی سے متعلق امور سے وابستہ تھے۔
محکمہ خارجہ کے امریکا میں موجود ملازمین کی مجموعی تعداد 18 ہزار کے لگ بھگ ہے جس میں سے 3 ہزار ملازمین کو نکالنے کی تیاری کی گئی ہے۔
ٹرمپ انتظامیہ کے اقدام کو ڈیموکریٹک سینیٹر ٹم کین نے امریکا کے تحفظ پر ضرب لگانے کے مترادف قرار دیا ہے۔
ٹم کین نے کہا کہ یہ مضحکہ خیز ترین فیصلوں میں سے ایک ہے اور ایسے وقت کیا گیا ہے جب دنیا بھر میں چین اپنے سفارتی پر پھیلا رہا ہے اور ساتھ ہی فوجی اور مواصلاتی اڈوں کا جال بن رہا ہے۔ روس کی جانب سے ایک خود مختار یوکرین پر حملے جاری ہیں اور مشرق وسطیٰ میں ایک کے بعد دوسرے بحران سے نمٹ رہا ہے۔
صدر ٹرمپ نے وزیرخارجہ مارکو رویبو کو فروری ہی میں حکم دیا تھا کہ محکمہ خارجہ کو اوورہال کیا جائے اور ایسے اہلکار جنہیں وہ وفادار نہیں سمجھتے،انہیں نکال باہر کیا جائے۔وہ کئی بار ڈیپ اسٹیٹ کا صفایا کرنے کی بھی بات کرچکے ہیں۔
صدر ٹرمپ کے نزدیک بیوروکریسی کا حجم کم کیا جانا چاہیے کیونکہ اس پر ٹیکس دہندگان کی رقم ضائع کی جارہی ہے۔
یاد رہے کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے حکم پر یوایس ایڈ پر پہلے ہی تلوار چلائی جاچکی ہے۔
.ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: محکمہ خارجہ کے ملازمین کو گیا ہے
پڑھیں:
محمود خلیل کا ٹرمپ انتظامیہ کے خلاف دو کروڑ ڈالر کا مقدمہ
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 11 جولائی 2025ء) کولمبیا یونیورسٹی کے طالب علم محمود خلیل، جنہوں نے فلسطین کی حمایت میں یونیورسٹی کیمپس کے اندر احتجاجی مظاہروں میں نمایاں کردار ادا کیا، نے جمعرات کے روز ٹرمپ انتظامیہ کے خلاف 20 ملین ڈالر کا دعویٰ دائر کیا۔ ان کا کہنا ہے کہ انہیں غلط طور پر قید کیا گیا تھا۔
محمود خلیل، قانون کے مطابق، ایک امریکی باشندے ہیں، جنہیں مارچ میں اس وقت گرفتار کر لیا گیا تھا، جب صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے امریکی کالجوں کے کیمپس میں فلسطینی حامی احتجاجی تحریک میں ملوث غیر ملکی طلباء کو ملک بدر کرنے کے عزم کا اظہار کیا۔
خلیل کو جون میں رہائی سے قبل تین ماہ تک لوزیانا کے ایک امیگریشن حراستی مرکز میں رکھا گیا، پھر عدالت سے ضمانت ملنے کے بعد ان کی رہائی ہوئی۔
(جاری ہے)
محمود خلیل نے خبر رساں ادارے روئٹرز کو بتایا، "مجھے امید ہے کہ یہ (کیس) انتظامیہ کے لیے رکاوٹ کا کام کرے گا۔ ٹرمپ نے واضح کیا کہ وہ صرف پیسے کی ہی زبان سمجھتے ہیں۔"
امریکہ میں سال 2023 میں مسلم مخالف واقعات میں ریکارڈ اضافہ
خلیل کا دعویٰ کیا کہتا ہے؟کولمبیا کے گریجویٹ کے حامی ادارے 'سینٹر فار کانسٹیٹیوشنل رائٹس' کے مطابق اس کیس میں الزام لگایا گیا ہے کہ خلیل کو "بد نیتی پر مبنی قانونی کارروائی، طریقہ کار کے غلط استعمال، غیر قانونی گرفتاری، غلط قید اور غفلت نیز انہیں دانستہ جذباتی ٹھیس پہنچانے کا شکار بنایا گیا۔
"اس مرکز کا کہنا ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ نے خلیل کو غیر قانونی طور پر گرفتار کیا، حراست میں لیا اور ملک بدر کرنے کا منصوبہ بنایا۔ یہ سب "اس طریقے سے کیا گیا، جیسے انہیں اور ان کے خاندان کو دہشت زدہ کرنے کے لیے کیا جاتا ہے۔"
اس میں مزید کہا گیا ہے کہ امریکی حکام کی طرف سے ان کے ساتھ ناروا سلوک کے سبب انہیں "شدید جذباتی پریشانی، معاشی مشکلات اور ان کی ساکھ کو نقصان پہنچا۔
اور یہ کہ اس کی وجہ سے انہیں پہلی اور پانچویں آئینی ترمیم کے تحت جو حقوق حاصل تھے، وہ بری طرح سلب" ہونے کا باعث بنے۔ہوم لینڈ سکیورٹی ڈیپارٹمنٹ کے ترجمان نے خلیل کے دعوے کو "مضحکہ خیز" قرار دیا اور ان پر "نفرت آمیز رویے اور ایسی بیان بازی" کا الزام لگایا، جس سے امریکہ میں یہودی طلبہ کو خطرہ تھا۔
غزہ کی جنگ امریکی اسرائیلی تعلقات کا امتحان بھی
خلیل کو کیوں گرفتار کیا گیا؟محمود خلیل غزہ کی پٹی میں اسرائیلی جنگ کے خلاف طلبہ کی قیادت میں ہونے والے مظاہروں کے رہنماؤں میں سے ایک تھے۔
وائٹ ہاؤس نے اپنے ایک بیان میں کہا تھا کہ خلیل قومی سلامتی کے لیے خطرہ ہیں، جو اسرائیل پر اپنی تنقید کے ساتھ "یہود مخالف سرگرمیوں" میں ملوث ہیں۔
ٹرمپ انتظامیہ کا کہنا تھا کہ خلیل کی ملک بدری جائز ہے کیونکہ اگر وہ امریکہ میں رہتے ہیں تو خارجہ پالیسی کے "ممکنہ طور پر سنگین منفی نتائج" مرتب ہوں گے۔
فلسطین کی مکمل رکنیت کے لیے اقوام متحدہ میں ووٹنگ آج
محمود خلیل نے مزید کیا کہا؟محمود خلیل شام میں پیدا ہوئے تھے اور الجزائر کے شہری ہیں۔
جمعرات کے روز انہوں نے دائر کردہ مقدمے کے حوالے سے کہا کہ یہ دعویٰ "احتساب کی طرف پہلا قدم ہے۔"انہوں نے کہا، "104 دنوں کے دوران جن چیزوں سے مجھے محروم کردیا گیا، اسے کوئی بھی چیز بحال نہیں کر سکتی۔ میری بیوی سے علیحدگی کا صدمہ اور میرے پہلے بچے کی پیدائش کا یادگار لمحہ، جس سے مجھے محروم ہونا پڑا۔"
خلیل نے مزید کہا، "سیاسی انتقامی کارروائیوں اور طاقت کے غلط استعمال کے لیے احتساب ہونا چاہیے۔
"امریکی یونیورسٹیوں میں فلسطینیوں کے حق میں مظاہرے جاری
انہوں نے کہا کہ وہ پیسے کے بدلے اس معاملے میں سرکاری طور پر معافی کو قبول کر سکتے ہیں اور حکومت کے اس عہد کو بھی قبول کرنے کے لیے تیار ہیں کہ وہ رقم کے بجائے گرفتاریوں، حراست یا ملک بدری کے ذریعے فلسطینی حامی تقریر کو نشانہ بنانا بند کر دے۔
ادارت: جاوید اختر