۔26ویں ترمیم کیخلاف کھڑے نہ ہوئے تو چائنہ ماڈل آ سکتا ہے،شاہد جمیل
اشاعت کی تاریخ: 26th, September 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک ) لاہور ہائیکورٹ سے مستعفی ہونے والے جسٹس ریٹائرڈ شاہد جمیل کا کہنا ہے کہ 26ویں ترمیم کے خلاف نہ کھڑے ہوئے تو جوڈیشری ختم اور چائنہ ماڈل آ سکتا ہے،27ویں آئینی ترمیم کے ذریعے مزید قدغن لگانے کی تیاری ہو رہی ہے۔ اسلام آباد میں جاری وکلاءگول میز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ 26ویں
آئینی ترمیم جوڈیشری کو کنٹرول کرنے کی سازش ہے، تمام سیاسی جماعتیں 26ویں ترمیم میں شریک ہیں، چھبیسویں ترمیم اس ملک کا سیاہ ترین ڈاکومنٹ ہے جو اس ملک کی پارلیمنٹ نے پاس کیا ،اس سے پہلے یہ کام پی سی او کے ذریعے ہوتا تھا، کوئی بھی ڈکٹیٹر جب ملک پہ قابض ہوتا ہے تو وہ سب سے پہلے عدلیہ کو مینیج کرتا ہے کیوں کہ اس کے بغیر اس کا کام نہیں چل سکتا۔جسٹس ریٹائرڈ شاہد جمیل کہتے ہیں کہ وہ سیاسی جماعتیں جو 73ءکے آئین کی بانی تھیں یا ووٹ کو عزت دو کا نعرہ لگاتی رہیں چھبیسویں آئینی ترمیم پی سی او ہے جو ان کی معاونت سے لایا گیا ہے، اگر چھبیسویں آئینی ترمیم کے خلاف یا عدلیہ کی آزادی کے لیے نکلنے والے پانچ ججز کے ساتھ آج بھی کھڑے نہ ہوئے تو پھر یہاں چائنا ماڈل لا کر جوڈیشری کو بالکل ختم کردیا جائے گا۔ان کا کہنا ہے کہ ملک میں رول آف لاءموجود نہیں ہے، پاکستان پر ایلیٹ مسلط ہے، پارلیمنٹ اور بار کونسلز میں عوامی نمائندگی نہیں، بار کونسلز کے الیکشن فیصلہ کن ہیں، وکلاء26ویں ترمیم کی مخالفت کا حلف لیں، وکلاءکو سیاسی جماعتوں پر نہیں بلکہ اپنے اتحاد پر انحصار کرنا ہوگا، نوجوان وکلاءکو قیادت سنبھال کر آئین و جوڈیشری کے تحفظ کے لیے آگے آنا چاہیے۔
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: 26ویں ترمیم
پڑھیں:
آئین کی ترمیم یا اقتدار کی تحکیم
محمد آصف
پاکستان کی سیاسی تاریخ آئینی ترامیم، اقتدار کی کشمکش، اور طاقت کی مرکزیت سے عبارت ہے ۔قیامِ پاکستان کے فوراً بعد سے ہی ملک کو ایسے آئینی بحرانوں کا سامنا رہا جنہوں نے جمہوری روایات کو کمزور اور ادارہ جاتی توازن کو متزلزل کیا۔ آئین کسی بھی ریاست کی ریڑھ کی ہڈی ہوتا ہے جو اقتدار کی تقسیم، عوامی حقوق، اور قومی یکجہتی کی ضمانت فراہم کرتا ہے ، مگر جب آئین کو بار بار ذاتی یا جماعتی مفادات کے تابع کیا جائے تو یہ قومی اتفاقِ رائے کے بجائے اختلافِ رائے اور انتشار کو جنم دیتا ہے ۔ پاکستان کی آئینی تاریخ میں متعدد ایسی ترامیم کی مثالیں موجود ہیں جن کا مقصد جمہوری اداروں کو مضبوط کرنا نہیں بلکہ مخصوص افراد یا جماعتوں کے اقتدار کو دوام بخشنا رہا ہے ۔
ابتدائی دنوں میں پاکستان کو ایک ایسا آئین دینے میں تاخیر ہوئی جو عوامی امنگوں کے مطابق ہوتا۔1956ء میں پہلا آئین نافذ ہوا مگر محض دو سال بعد اسے منسوخ کر کے مارشل لا نافذ کر دیا گیا۔1962ء کا آئین صدارتی نظام کے تحت ایک فرد کے گرد مرکوز طاقت کی علامت بن گیا۔ اسی طرح1973ء کا متفقہ آئین بلاشبہ ایک تاریخی پیش رفت تھی، مگر جلد ہی اس میں ترامیم کے ذریعے اختیارات کے توازن کو بگاڑ دیا گیا۔ ہر حکومت نے اپنے سیاسی مفاد کے مطابق آئین میں ردوبدل کیا کسی نے صدر کو طاقتور بنایا تو کسی نے وزیراعظم کو، مگر عوام کے بنیادی حقوق ہمیشہ کمزور ہوتے گئے ۔
آئینی ترمیم کا مقصد بنیادی طور پر ریاستی ڈھانچے کو بہتر بنانا اور نظام کو بدلتے ہوئے تقاضوں کے مطابق ڈھالنا ہوتا ہے ۔ مگر بدقسمتی سے پاکستان میں اکثر ترامیم عوامی فلاح کی بجائے اقتدار کے تحفظ کے لیے کی گئیں۔ 8ویں ترمیم نے صدر کو اسمبلی تحلیل کرنے کا اختیار دے کر جمہوری نظام کو عدم استحکام کا شکار کیا، جبکہ 17ویں ترمیم نے اسی سوچ کو مزید تقویت دی۔ دوسری جانب 18ویں ترمیم بظاہر پارلیمان کی بالادستی کے لیے تھی، مگر اس نے مرکز اور صوبوں کے درمیان اختیارات کی ایک نئی بحث چھیڑ دی۔ یوں ہر ترمیم کے پیچھے سیاسی نعرہ ضرور تھا، مگر عمل میں اکثر ذاتی یا جماعتی مفاد غالب رہا۔
پاکستان میں آئین کو اکثر ایک سیاسی آلہ کے طور پر استعمال کیا گیا ہے ۔ اقتدار میں آنے والی ہر حکومت نے مخالف جماعتوں کو کمزور کرنے ، اداروں کو قابو میں رکھنے ، اور اپنی سیاسی بقا یقینی بنانے کے لیے آئینی تبدیلیوں کا سہارا لیا۔ عدالتوں کے فیصلے بھی بعض اوقات اسی سیاسی ماحول کا حصہ بنے ۔ یوں ایک ایسا ماحول پیدا ہوا جہاں آئین محض الفاظ کا مجموعہ بن کر رہ گیا، جبکہ اس کی روح یعنی انصاف، مساوات اور عوامی شراکت پس منظر میں چلی گئی۔اقتدار کی تحکیم کا یہ رجحان نہ صرف سیاسی عدم استحکام کو بڑھاتا ہے بلکہ اداروں کے درمیان تصادم کو بھی جنم دیتا ہے ۔ پارلیمان، عدلیہ، اور انتظامیہ کے درمیان اختیارات کا توازن آئینی نظام کی بنیاد ہے ، مگر جب کوئی فریق دوسروں پر بالادستی قائم کرنے کی کوشش کرے تو ریاستی ڈھانچہ متزلزل ہو جاتا ہے ۔ اقبال نے کہا تھا: افراد کے ہاتھوں میں ہے اقوام کی تقدیر، ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارہ مگر جب افراد خود کو آئین سے برتر سمجھنے لگیں تو قوموں کی تقدیر کمزور ہو جاتی ہے ۔
آئین میں ترامیم ناگزیر ہیں کیونکہ زمانہ بدلتا ہے ، مسائل نئے پیدا ہوتے ہیں، اور معاشرتی تقاضے تبدیل ہوتے ہیں۔ تاہم اصل سوال یہ ہے کہ کیا یہ ترامیم عوامی ضرورت کے لیے کی جاتی ہیں یا اقتدار کو مضبوط کرنے کے لیے ؟ اگر ترمیم کا مقصد عوامی نمائندگی میں اضافہ، شفاف نظام، اور عدل و مساوات کی فراہمی ہو تو وہ ترمیم جمہوریت کی خدمت ہے ، لیکن اگر مقصد سیاسی مخالفین کو کچلنا، طاقت کو مرکوز رکھنا، یا ذاتی اقتدار کو طول دینا ہو تو وہ ترمیم دراصل جمہوریت کی جڑیں کاٹنے کے مترادف ہے ۔ اقتدار کی تحکیم کا ایک بڑا نقصان یہ بھی ہے کہ عوام آئین اور سیاست سے بیگانہ ہوتے جا رہے ہیں۔ جب انہیں محسوس ہوتا ہے کہ قانون اور آئین صرف طاقتوروں کے لیے ہیں، تو ان کے دلوں میں نظام کے لیے اعتماد باقی نہیں رہتا۔ یہی بیگانگی عوامی بے بسی، مایوسی اور بالآخر ریاستی کمزوری کا باعث بنتی ہے ۔ آئینی عمل میں شفافیت، شمولیت، اور احتساب کو یقینی بنانا ضروری ہے تاکہ ترمیم عوام کے مفاد میں ہو، کسی فرد یا طبقے کے لیے نہیں۔ سیاسی جماعتوں کو یہ سمجھنا ہوگا کہ آئین کوئی کھیل نہیں جسے ہر حکومت اپنے مفاد کے مطابق بدل دے ۔ اگر آئین کی بالادستی برقرار نہ رکھی گئی تو جمہوری تسلسل خطرے میں پڑ جائے گا۔
اقتدار کے حصول کی خواہش فطری ہے ، مگر اس کے لیے آئینی حدود کی پاسداری ضروری ہے ۔ اقتدار کی تحکیم وقتی تسکین تو دے سکتی ہے مگر طویل المیعاد نقصان پہنچاتی ہے ۔ قوموں کی تعمیر ان اصولوں پر ہوتی ہے جہاں قانون سب پر یکساں ہو اور ریاست کا نظام شخصیات نہیں بلکہ اداروں کے تابع ہو۔آج کے پاکستان کو آئینی استحکام، ادارہ جاتی توازن، اور عوامی اعتماد کی ضرورت ہے ۔ اگر ہر حکومت آئین کو اپنی مرضی سے ڈھالتی رہے تو نہ قانون رہے گا نہ نظام۔ آئینی ترمیم صرف اسی وقت بامعنی ہو سکتی ہے جب وہ قومی مفاد میں، شفاف طریقے سے ، اور تمام سیاسی جماعتوں کے اتفاقِ رائے سے کی جائے ۔اختتاماً کہا جا سکتا ہے کہ آئین کی ترمیم اور اقتدار کی تحکیم کے درمیان فرق سمجھنا ضروری ہے ۔
آئین کی ترمیم اصلاحِ نظام کے لیے ہو تو یہ ترقی کی علامت ہے ، مگر اگر ترمیم محض اقتدار کو دوام دینے کے لیے ہو تو یہ جمہوریت کے تابوت میں آخری کیل ثابت ہوتی ہے ۔ پاکستان کی اصل ضرورت ایک ایسا نظام ہے جہاں آئین محکم ہو، قانون بالادست ہو، اور اقتدار خدمت کا ذریعہ بنے ،حکمرانی کا ہتھیار نہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔