پاک فوج کے 80 فیصد شعبے خواتین کے لیے کھول دیے گئے، سیکریٹری دفاع کا قومی اسمبلی میں بیان
اشاعت کی تاریخ: 29th, September 2025 GMT
قومی اسمبلی کو آگاہ کیا گیا ہے کہ پاک فوج کے 80 فیصد شعبے خواتین کے لیے بھرتی کے لیے کھول دیے گئے ہیں۔
قومی اسمبلی اجلاس میں وقفہ سوالات کے دوران ایک سوال کے جواب میں پارلیمانی سیکریٹری برائے دفاع زیب جعفر نے کہا کہ اس وقت 5 ہزار سے زائد خواتین پاک فوج میں خدمات سر انجام دے رہی ہیں جبکہ گزشتہ 3 برسوں میں تقریباً 700 خواتین کو کمیشن دیا گیا۔ تاہم انہوں نے وضاحت کی کہ ایسے شعبے جو انتہائی جسمانی مشقت اور طویل عرصے تک سخت اور دشمنانہ ماحول میں تعیناتی سے متعلق ہیں، وہ خواتین کے لیے بند ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: پاکستانی خواتین بہادری، صلاحیتوں اور حوصلے کا استعارہ ہیں،بلاول بھٹو
انہوں نے مزید کہا کہ خواتین کے کیریئر کی ترقی ایک جامع پالیسی کے تحت کی جاتی ہے جس میں ان کی تربیت اور پیشہ ورانہ ارتقا کے لیے خصوصی پروگرام شامل ہیں۔
ایک اور سوال کے جواب میں زیب جعفر نے بتایا کہ پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائنز (PIA) نے گزشتہ سال 9.
اس سے قبل قومی اسمبلی پریس گیلری میں پارلیمانی رپورٹرز نے پاکستان تحریک انصاف کے بانی کی جانب سے سینئر صحافی اعجاز احمد کے ساتھ نامناسب رویے اور گالم گلوچ کے خلاف واک آؤٹ کیا۔
یہ بھی پڑھیں: ایرانی خاتون اول ڈاکٹر جمیلہ علم الہدیٰ رئیسی نے پاکستانی خواتین کے بارے میں کیا کہا؟
اس موقع پر وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ شائستگی اور برداشت سیاست کی پہچان ہیں، لیکن یہ افسوسناک ہے کہ سابق وزیراعظم نے سینئر صحافی کے خلاف نامناسب زبان استعمال کی۔
انہوں نے کہا کہ صحافی محض اپنے پیشہ ورانہ فرائض ادا کر رہے تھے اور سوشل میڈیا پر ان کے خلاف مہم بھی بدقسمتی ہے۔ وزیر قانون نے زور دیا کہ سیاست دانوں کو تنقید برداشت کرنی چاہیے اور مہذب انداز میں جواب دینا چاہیے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
we news پاک فوج خواتین دفاع قومی اسمبلیذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: پاک فوج خواتین دفاع قومی اسمبلی قومی اسمبلی خواتین کے نے کہا کہ انہوں نے پاک فوج کے لیے
پڑھیں:
قومی اسمبلی اجلاس؛ نیشنل پریس کلب پر پولیس دھاوے کیخلاف صحافیوں کا بائیکاٹ
اسلام آباد:نیشنل پریس کلب میں پولیس دھاوے کے خلاف صحافیوں کی جانب سے قومی اسمبلی اجلاس کا بائیکاٹ کرتے ہوئے واک آؤٹ کردیا گیا۔
قومی اسمبلی کا اجلاس اسپیکر سردار ایاز صادق کی صدارت میں شروع ہوا، جس میں صحافیوں نے کارروائی کا بائیکاٹ کرتے ہوئے واک آؤٹ کیا۔ صحافیوں نے پریس گیلری سے واک آؤٹ کرتے ہوئے سیاہ پٹیاں باندھ کر احتجاج کیا۔
اس موقع پر اسپیکر قومی اسمبلی نے تین رکنی حکومتی وفد صحافیوں سے مذاکرات کے لیے بھیجا۔
سید نوید قمر نے اس موقع پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ ہم نے واک آؤٹ کیا، احتجاج کیا ، ہمیں کچھ یقین دہانیاں کرائی گئیں مگر گراؤنڈ پر ابھی تک وہی صورتحال ہے۔ ہم ایوان سے واک آؤٹ کرتے ہیں ۔ اس موقع پر پاکستان پیپلز پارٹی نے ایوان سے واک آؤٹ کر دیا۔
اسد قیصر نے ایوان میں کہا کہ غزہ سے متعلق 20 نکات تیار کیے گئے ہیں۔ امریکی صدر سے پہلے ہمارے وزیراعظم نے ٹویٹ کیا، کیا انہوں نے فلسطین سے بھی پوچھا کہ وہ کیا چاہتے ہیں ؟۔ ہمیں ایوان میں آ کر اس پر بریفنگ دی جائے۔
بعد ازاں وزیر مملکت داخلہ طلال چوہدری بھی قومی اسمبلی پریس لاؤنج پہنچ گئے، جہاں انہوں نے کہا کہ پریس کلب واقعے کےبعد خود وہاں گیااورغیر مشروط معافی مانگی۔ اس معاملے پر جو بھی مطالبہ ہوا، اس کو پورا کریں گے۔ صحافیوں کے تمام مطالبات کو پورا کیا جائے گا۔
طلال چوہدری کا کہنا تھا کہ ہم آپ کے ساتھ رابطے میں ہیں، میں ایک بار پھر معافی بھی مانگتا ہوں اور افسوس کا اظہار کرتا ہوں ۔ مظاہرین اور پولیس کی ہاتھا پائی کی وجہ سے پولیس پریس کلب میں گئی ، جہاں انہیں نہیں جانا چاہیے تھا۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کا جمہوری اور آئینی نظام پریس کے بغیر نا مکمل ہے۔ اس واقعے کا آزادی اظہار رائے پر قدغن سے کوئی تعلق نہیں ۔ یہ واقعہ اچانک پیش آیا، وزیراعظم اور وزیر داخلہ اس کا نوٹس لیں گے۔ ہمیں شرمندگی ہے اور معذرت کرنے میں کوئی ہچکچاہٹ نہیں۔
پارلیمانی رپورٹرز ایسوسی ایشن کا احتجاج اور واک آؤٹ
دریں اثنا پارلیمانی رپورٹرز ایسوسی ایشن (پی آر اے پاکستان) نے قومی اسمبلی اجلاس کے دوران پریس گیلری سے واک آؤٹ کیا۔ اس موقع پر کہا گیا کہ پی آر اے پاکستان نیشنل پریس کلب اسلام آباد پر پولیس کے حملے کی شدید الفاظ میں مذمت کرتی ہے۔ صدر پی آر اے پاکستان ایم بی سومرو اور سیکرٹری نوید اکبر کی قیادت میں واک آؤٹ جاری ہے۔ نیشنل پریس کلب صحافیوں کا گھر ہے، جس پر اسلام آباد پولیس نے گزشتہ روز حملہ کیا ہے۔
پی آر اے پاکستان کے مطابق نیشنل پریس کلب پورے ملک کا نمائندہ قومی پریس کلب ہے۔ صحافیوں پر تشدد اور آئے روز ایسے واقعات معمول بنتے جارہے ہیں۔ پی آر اے پاکستان ایسے واقعات کو غیر جمہوری سوچ کی عکاسی سمجھی ہے۔ قابل مذمت اقدام کی بھرپور مذمت کرتے ہیں۔