دورۂ امریکا؛ نیتن یاہو نے قطر سے معافی مانگ لی
اشاعت کی تاریخ: 29th, September 2025 GMT
اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو نے امریکا کے دورے کے دوران قطر سے باضابطہ طور پر اُس حملے پر معافی مانگ لی جس میں اس نے دوحہ میں حماس رہنماؤں کو نشانہ بنایا تھا۔
امریکی نشریاتی ادارے سی این این نے دعویٰ کیا ہے کہ یہ انکشاف ایک اسرائیلی ذرائع نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کیا ہے۔
اسرائیلی ذرائع نے سی این این کو بتایا کہ یہ معافی ایک بڑے معاہدے کا حصہ تھی تاکہ قطر حماس پر دباؤ ڈالے کہ وہ ٹرمپ انتظامیہ کے 21 نکاتی امن منصوبے کو قبول کرلے۔
اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو نے دوحہ میں حملے کے باعث قطر کی خودمختاری کی خلاف ورزی پر معافی طلب کی۔ تاہم انھوں نے حماس کو نشانہ بنانے کے فیصلے پر افسوس ظاہر نہیں کیا۔
سی این این کے بقول الگ سے ایک باخبر ذریعے نے بھی تصدیق کی کہ نیتن یاہو نے وائٹ ہاؤس سے قطر کے وزیر اعظم کو فون پر گفتگو میں معافی مانگی۔
یاد رہے کہ اسرائیل کے دوحہ میں حماس کی قیادت پر حملے میں ایک قطری سیکیورٹی گارڈ بھی شہید ہوا تھا جس پر نیتن یاہو نے افسوس کا اظہار کیا۔
گزشتہ روز نیتن یاہو نے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ ہمارا اصل ہدف صرف حماس تھا، اس سے آگے کچھ نہیں۔ میرا خیال ہے کہ ہم اس معاملے پر باہمی سمجھ بوجھ پیدا کرسکتے ہیں۔
یہ پہلا موقع ہے جب اسرائیل اور قطر کے سربراہان کے درمیان کسی باضابطہ رابطے کی خبر منظر عام پر آئی ہے، حالانکہ ماضی میں خفیہ طور پر دونوں ممالک کے درمیان بات چیت ہوتی رہی ہے۔
یاد رہے کہ آج اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو کی امریکا آمد سے کچھ دیر قبل ہی صدر ٹرمپ نے امیرِ قطر کو ٹیلی فون کیا تھا اور غزہ جنگ بندی پر ثالثی کے کردار کے بحال کرنے پر گفتگو کی تھی۔
.
ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: نیتن یاہو نے
پڑھیں:
27 ویں ترمیم، 4 ہائی کورٹ ججز کے مستعفی ہونے کا امکان، اکاؤنٹ ڈپارٹمنٹ سے ریٹائرمنٹ کے بعد کی تفصیلات مانگ لیں
اسلام آباد(نیوز ڈیسک) ہائی کورٹ کے ججوں کو ان کی مرضی کے بغیر صوبوں کے درمیان ٹرانسفر کرنے کا اختیار جوڈیشل کمیشن آف پاکستان کو دینے والی متنازع 27ویں ترمیم کے بعد ایسی اطلاعات سامنے آ رہی ہیں کہ ہائی کورٹ کے کم از کم چار ججز استعفے پر غور کر رہے ہیں۔ موقر ذرائع نے دی نیوز کو بتایا ہے کہ ان چار ججوں نے حال ہی میں اپنی ہائی کورٹ کے اکائونٹس ڈپارٹمنٹ سے رابطہ کرکے ریٹائرمنٹ کے بعد اپنی مراعات کی مفصل معلومات طلب کی ہیں۔ زبانی طلب کی گئی یہ معلومات پنشن کے فوائد اور جن تاریخوں پر یہ فوائد مل سکتے ہیں ان کی تفصیلات، اپنی باقی رہ جانے والی رخصت (ایکومولیٹڈ لیو بیلنس)، اور ان کے زیر استعمال سرکاری گاڑیوں کی موجودہ قیمت (اگر وہ یہ گاڑیاں خریدنا چاہیں تو) کے متعلق ہیں۔ ذرائع کے مطابق، معلوماتطلب کیے جانے کے اس واقعے سے یہ جوڈیشل حلقوں میں یہ افواہیں سرگرم ہیں کہ یہ چار ججز (جو ستائیسویں ترمیم کے بعد ممکنہ طور پر حکومت کی جانب سے ٹرانسفر کیے جانے والے ججز کی فہرست میں شامل ہیں) سرگرمی کے ساتھ اس آپشن پر غور کر رہے ہیں کہ نئے صوبوں یا علاقہ جات میں ٹرانسفر ہونے کی بجائے استعفےٰ دیدیا جائے۔ ان میں سے دو ججز ایسے ہیں جو آئندہ ماہ کسی بھی وقت پنشن کیلئے اہل ہو جائیں گے، جس سے ان کے فیصلے کے حوالے سے بے یقینی پائی جاتی ہے۔ ذریعے کا کہنا تھا کہ اگر انہوں نے استعفے کا فیصلہ کیا تو اب تک یہ واضح نہیں کہ استعفے فوراً آئیں گے یا جب وہ پنشن اور مراعات کیلئے کوالیفائی کرلیں گے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اگر وہ استعفیٰ دیتے ہیں تو یہ بھی واضح نہیں کہ یہ لوگ مل کر استعفیٰ دیں گے یا ایک ایک کرکے۔ یہ پیش رفت ایک ایسے موقع پر سامنے آئی ہے جب حکومت نے 27ویں ترمیم کے بعد جوڈیشل ری شفلنگ (عدالتوں میں رد و بدل) کرنے کا منصوبہ بنایا ہے۔ حکومتی حلقوں کا کہنا ہے کہ یہ ری شفلنگ ضروری ہے تاکہ ایسے ججوں کے رویے کے مسائل کو حل کیا جا سکے جو حکومت کے بقول عدلیہ کی بے توقیری کا سبب بنے ہیں۔ تاہم، دیگر لوگوں کی رائے ہے کہ 27ویں ترمیم نے عدلیہ کی آزادی کو زبردست دھچکا پہنچایا ہے اور ایسی صورتحال میں آزاد خیال ججوں کیلئے عہدوں پر باقی رہنا مشکل ہو گیا ہے۔ اگرچہ جوڈیشل کمیشن آف پاکستان آئینی طور پر ججوں کے تقرر اور ٹرانسفر کا اختیار رکھتا ہے لیکن جوڈیشل کمیشن آف پاکستان کی موجودہ تشکیل کے ذریعے بظاہر حکومت کو فائدہ ہو رہا ہے۔
انصار عباسی