سیلاب کے بعد ورکنگ اینیملز کے لیے غیرقانونی سلاٹرنگ سب سے بڑا خطرہ
اشاعت کی تاریخ: 30th, September 2025 GMT
لاہور:
پاکستان میں حالیہ تباہ کن سیلاب نے جہاں لاکھوں انسانوں کو متاثر کیا ہے، وہیں ورکنگ اینیملز، خصوصاً گدھے، گھوڑے اور خچر بھی شدید متاثر ہوئے ہیں۔ دیہی معیشت میں یہ جانور بنیادی سہولت کار سمجھے جاتے ہیں لیکن حالیہ برسوں میں ان کے لیے ایک اور بڑا خطرہ غیرقانونی سلاٹرنگ کی شکل میں سامنے آیا ہے، جو ان کی آبادی کو کم کرنے کے ساتھ ساتھ معاشی اور سماجی مسائل کو بھی بڑھا رہا ہے۔
ورکنگ اینیملز کی فلاح کے لیے سرگرم عالمی ادارے بروک پاکستان کے سربراہ جاوید گوندل کے مطابق پنجاب، سندھ اور خیبرپختونخوا میں مون سون بارشوں اور بادل پھٹنے کے واقعات کے بعد اب تک تقریباً پندرہ لاکھ 80 ہزار جانور متاثر ہوئے ہیں۔ اس صورتحال میں بروک پاکستان نے فوری طور پر 29 اضلاع میں اپنی ٹیمیں تعینات کیں۔
ان ٹیموں نے اب تک 7 ہزار 190 گھوڑے، گدھے اور خچروں کا علاج کیا، جبکہ 9 ہزار 846 دیگر مویشیوں کو طبی سہولیات فراہم کیں۔ 7 ہزار 998 جانوروں کو ویکسین دی گئی اور 6 ہزار 754 کو کیڑوں کے خلاف دوائیں فراہم کی گئیں۔ مزید برآں، 2042فیڈ بیگز تقسیم کیے گئے تاکہ جانور بھوک اور کمزوری کا شکار نہ ہوں۔
جاوید گوندل کے مطابق تنظیم نے صرف جانوروں کی ہی نہیں بلکہ ان کے مالکان کی بھی مدد کی۔ اب تک 9 ہزار 76 خاندانوں کو شعور اور آگاہی فراہم کی گئی ہے، جبکہ 636 راشن بیگز اور بنیادی فرسٹ ایڈ کٹس بھی تقسیم کی گئیں۔ مجموعی طور پرساڑھے 8 ہزار زائد گھوڑے اور خچر، ہزاروں دیگر جانور اور اکاون ہزار سے زیادہ خاندان ان امدادی سرگرمیوں سے مستفید ہو چکے ہیں۔
ادھر بروک پاکستان کے ایڈووکیسی مینجر سید نعیم عباس کا کہنا ہے کہ حالیہ آفات سے جانوروں کی اموات کے ساتھ ساتھ غیرقانونی گدھ سلاٹرنگ بھی ان کی آبادی کے لیے بڑا خطرہ ہے۔ پاکستان بیورو آف اسٹیٹکس کے مطابق ملک میں گدھوں کی موجودہ آبادی 60 لاکھ 47 ہزار ہے، جن میں سے صرف پنجاب میں 24 لاکھ سے زائد موجود ہیں۔ اگرچہ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ برس گدھوں کی آبادی میں ایک لاکھ نو ہزار کا اضافہ ہوا، لیکن غیرقانونی ذبح خانے اس آبادی پر مسلسل دباؤ ڈال رہے ہیں۔
حالیہ دنوں میں اسلام آباد کے تنول علاقے میں قائم ایک غیرقانونی سلاٹر ہاؤس پر چھاپے کے دوران ایک ہزار کلو سے زائد گدھوں کا گوشت ضبط کیا گیا اور پچاس زندہ گدھے بازیاب ہوئے۔ رپورٹس کے مطابق یہ گوشت لاہور اور اسلام آباد میں فروخت کے لیے تیار کیا جا رہا تھا، جبکہ اصل مقصد ان کی کھالوں اور ہڈیوں کا حصول تھا۔
نعیم عباس کا کہنا ہے کہ گدھوں کی کھالیں اور ہڈیاں چین کی مارکیٹ میں فوڈ آئٹمز اور مصنوعات کی تیاری کے لیے استعمال ہوتی ہیں۔ افریقہ میں گدھوں کی سلاٹرنگ پر پابندی لگ چکی ہے اور بھارت میں بھی اس رحجان کے باعث ان کی آبادی میں کمی دیکھنے میں آ رہی ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ غیرقانونی تجارت میں گدھوں کے ساتھ بے رحمانہ سلوک کیا جاتا ہے۔ ٹرانسپورٹ کے دوران جانور زخمی ہو جاتے ہیں اور کئی مر بھی جاتے ہیں۔ یہ صورتحال صحتِ عامہ کے لیے بھی خطرناک ہے کیونکہ 70 فیصد بیماریاں جانوروں سے انسانوں میں منتقل ہوتی ہیں۔
حکومت نے چین کی چند کمپنیوں کے ساتھ گدھوں کی سلاٹرنگ کے قانونی معاہدے کیے ہیں، تاہم ان میں شرط رکھی گئی ہے کہ یہ کمپنیاں پہلے گدھوں کی افزائش کریں گی اور اس کے بعد ہی ذبح کرنے کی اجازت دی جائے گی۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: کی آبادی کے مطابق گدھوں کی کے ساتھ کے لیے
پڑھیں:
پنجاب میں مزید بارشوں کا امکان‘ بھارت سے دریاؤں میں دوبارہ سیلابی پانی چھوڑے جانے کا خدشہ
لاہور ( اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین۔ 04 اکتوبر 2025ء ) صوبہ پنجاب میں مزید بارشوں کے امکان کے ساتھ بھارت سے دریاؤں میں دوبارہ سیلابی پانی چھوڑے جانے کا خدشہ بھی ظاہر کردیا گیا۔ اس حوالے سے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے ڈی جی پی ڈی ایم اے عرفان علی کاٹھیا نے بتایا کہ ملک میں موسم تبدیل ہو رہا ہے جو سردی کے آغاز کی علامت ہے، اس دوران چند روز میں پنجاب کے مختلف علاقوں میں بارشیں ہوسکتی ہیں، آج صوبے کے مختلف اضلاع میں ہلکی بارش کا امکان ہے، 5 اکتوبر سے راولپنڈی سے لاہور تک زیادہ بارشیں ہوسکتی ہیں، کل جنوبی پنجاب میں بھی بارش ہونے کا امکان ہے، اس دوران بالائی علاقوں میں 70 ملی میٹر تک بارشیں متوقع ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ حالیہ سیلاب سے پنجاب کے 27 اضلاع متاثر ہوئے، اس وقت ہیڈ مرالہ پر 20 ہزار کیوسک پانی آرہا ہے، اگلے 48 گھنٹوں میں بھارت سے ایک لاکھ کیوسک پانی آنے کا امکان ہے، اسی طرح مرالہ کے مقام پر اس وقت 23 ہزار کیوسک پانی گزر رہا ہے، یہاں سے 26 اگست کو 9 لاکھ کیوسک پانی گزر چکا ہے، اس لیے موجودہ صورتحال زیادہ بڑا چیلنج نہیں ہوگی۔(جاری ہے)
ڈی جی پی ڈی ایم اے نے بتایا کہ منگلا ڈیم میں بھی پانی کی سطح بلند ہے لیکن جہلم میں بڑی سیلابی صورتحال متوقع نہیں، تاہم ستلج میں بھارت سے 50 ہزار کیوسک اور تھین ڈیم سے راوی میں 35 ہزار کیوسک پانی آنے کا امکان ہے، سیلاب سے متاثرہ 27 اضلاع میں سروے جاری ہے جس میں ساڑھے 11 ہزار افراد حصہ لے رہے ہیں، سروے ٹیموں میں پاک فوج، ضلعی انتظامیہ اور مختلف محکموں کے افسران شامل ہیں، اس سلسلے میں 2 ہزار 213 ٹیموں کی سرگرمیاں جاری ہیں۔
انہوں نے کہا کہ 2010ء میں 3 لاکھ 50 ہزار، 2012ء میں 38 ہزار 196 اور 2014ء میں 3 لاکھ 59 ہزار متاثرین کو 14 ارب روپے جاری ہوئے، اسی طرح 2022ء میں 56 ہزار متاثرین کو 10 ارب روپے جاری کیے گئے، اب تک گزشتہ 15 برس میں مجموعی طور پر 51 ارب روپے سیلاب متاثرین میں تقسیم کیے جا چکے ہیں، تاہم 2025ء کا سیلاب حالیہ تاریخ کے تمام سیلابوں کے مقابلے میں زیادہ نقصان دہ ہے، جس میں گھروں، مویشیوں، فصلوں اور انسانی جانوں کا بڑا نقصان ہوا۔