ٹرمپ امن منصوبہ مزید وضاحت اور مذاکرات کے محتاج ہے، وزیر اعظم قطر
اشاعت کی تاریخ: 1st, October 2025 GMT
قطر کے وزیرِاعظم شیخ محمد بن عبدالرحمان آل ثانی نے کہا ہے کہ ٹرمپ کا نیا امن منصوبہ غزہ میں جنگ روکنے کا موقع فراہم کرتا ہے، تاہم اس میں کئی نکات وضاحت اور مزید مذاکرات کے محتاج ہیں۔
یہ بھی پڑھیں:غزہ جنگ بندی منصوبہ: ڈونلڈ ٹرمپ نے حماس کو جواب کے لیے 4 روز کا وقت دے دیا
دوحہ میں گفتگو کرتے ہوئے قطری وزیرِاعظم نے کہا کہ یہ منصوبہ غزہ میں جنگ بندی کا موقع ہے مگر اس کی کئی شقیں مزید وضاحت چاہتی ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ اصل ہدف ہتھیاروں کو خاموش کرنا اور انسانی المیے کو روکنا ہے۔ انہوں نے زور دیا کہ فلسطینی دھڑوں کے درمیان اتفاق رائے ضروری ہے۔
مصر اور ترکیہ کی اپیل
مصر اور ترکیہ نے بھی حماس پر زور دیا ہے کہ وہ ٹرمپ کے پیش کردہ منصوبے کو سنجیدگی سے لے اور امن کے عمل کو آگے بڑھائے۔
غزہ امدادی فلوٹیلا کے قریب نامعلوم کشتیاں
ادھر Global Sumud Flotilla نے اطلاع دی کہ ان کے امدادی جہازوں کے قریب کچھ نامعلوم کشتیاں آئیں جو روشنیوں کے بغیر چل رہی تھیں۔ فلوٹیلا کے مطابق وہ کشتیاں بعد میں واپس چلی گئیں تاہم حفاظتی اقدامات نافذ کر دیے گئے۔
????The ships of the #Samood Caravan are on their way to Gaza, and it is as if the heart of the world is floating in the waters of the seas until it reaches the shore of freedom…https://t.
— سیده فاطمه تشکری???????????????????????? (@f_tashakorii) September 30, 2025
اقوام متحدہ کی تشویش
اقوام متحدہ کی فلسطینی پناہ گزین ایجنسی (UNRWA) نے خبردار کیا ہے کہ اسرائیلی حملوں میں شدت کے باعث غزہ میں قحط اور بے گھری مزید بڑھ گئی ہے۔ متاثرہ افراد خیموں، سکولوں اور کھلے آسمان تلے رہنے پر مجبور ہیں۔
اسرائیلی حملے میں 6 ہلاک
وسطی غزہ کے علاقے دیر البلح میں اسرائیلی ڈرون حملے میں کم از کم چھ افراد جاں بحق ہوئے، جن میں ایک بچہ اور ایک صحافی بھی شامل ہیں۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
حماس صدر ٹرمپ غزہ قطر قطری وزیراعظم مصرترکیہذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: مصرترکیہ
پڑھیں:
شہباز ٹرمپ ملاقات اور جنرل اسمبلی سے خطاب
گزشتہ ہفتے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے 80ویں اجلاس کے موقع پر دنیا بھر کے رہنما وہاں جمع ہوئے۔ علاقائی اور عالمی حالات کے تناظر میں ہر مقرر نے اپنے اپنے جذبات اور خیالات کا اظہار کیا۔
دنیا میں جاری تنازعات اور جنگوں کے حوالے سے فلسطین کا مسئلہ سب سے زیادہ موضوع بحث رہا۔ مغربی ملکوں بالخصوص مسلم حکمرانوں نے جنرل اسمبلی سے اپنے خطاب میں فلسطین میں جاری اسرائیلی بربریت اور نیتن یاہو کے مظلوم فلسطینیوں پر بڑھتے ہوئے مظالم پر شدید تنقید کرتے ہوئے فوری جنگ بندی کا مطالبہ اور فلسطینیوں کو ان کے جائز حقوق دینے کے لیے پوری قوت سے آواز اٹھائی۔
وزیر اعظم پاکستان میاں شہباز شریف نے جنرل اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے نہ صرف پاکستان کی جیت کا فاتحانہ انداز میں تذکرہ کیا بلکہ بھارت کی روایتی ہٹ دھرمی ، جارحانہ عزائم، مقبوضہ کشمیر پر غاصبانہ قبضے اور نہتے کشمیریوں پر بزدلانہ ریاستی مظالم سے عالمی رہنماؤں کو آگاہ کیا۔
وزیر اعظم نے واضح طور پر یہ پیغام دیا کہ پاکستان بھارت کے ساتھ کشمیر سمیت تمام تصفیہ طلب امور پر جامع اور نتیجہ خیز مذاکرات پر ہمہ وقت تیار ہے۔ انھوں نے بھارت کی جانب سے سندھ طاس معاہدے کی خلاف ورزی کو اعلان جنگ کے مترادف قرار دیتے ہوئے دنیا پر واضح کر دیا کہ پاکستان اپنے 24 کروڑ عوام کے حقوق کا بھرپور انداز میں دفاع کرے گا۔
شہباز شریف نے عالمی برادری کو دو ٹوک الفاظ میں آگاہ کیا ہم نے بھارت سے جنگ جیت لی ہے، اس کے سات لڑاکا طیارے مٹی کا ڈھیر بنا دیے، اگر صدر ٹرمپ مداخلت کرکے جنگ نہ رکواتے تو نتائج تباہ کن ہو سکتے تھے۔
وزیر اعظم نے صدر ٹرمپ کو عالمی امن کا علم بردار قرار دیتے ہوئے ان کی پوری ٹیم کی کاوشوں کو سراہا اور واضح کیا کہ ان کی امن کوششوں کے تناظر میں ہی صدر ٹرمپ کا امن کے نوبل انعام کے لیے نام پیش کیا ہے۔
وزیر اعظم نے اپنی تقریر میں پاک بھارت جنگ کے حوالے سے فیلڈ مارشل جنرل عاصم منیر اور ایئرچیف مارشل ظہیر بابر سندھو کی دانش مندانہ جنگی حکمت عملی کا بطور خاص تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ ان کی جرأت مندانہ قیادت میں ہمارے شاہینوں نے فضاؤں میں دشمن کے حملے کو پسپا کرکے بھارتی جارحیت کا ایسا منہ توڑ فیصلہ کن جواب دیا جو تاریخ میں ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔
وزیر اعظم نے بھارت کو کشمیر سمیت تمام تصفیہ طلب معاملات پر مذاکرات کی عالمی فورم پر دعوت دے کر گیند بھارت کے کورٹ میں پھینک دی ہے لیکن ماضی کی تاریخ یہ بتاتی ہے کہ سیکریٹری خارجہ سے لے کر وزرائے اعظم تک کشمیر پر ہونے والے ہر سطح کے مذاکرات کی ناکامی کا واحد ذمے دار بھارت ہے جو اپنی روایتی ضد، ہٹ دھرمی اور میں نہ مانوں کی رٹ لگا کر دو طرفہ مذاکرات کو سبوتاژ کرتا رہا ہے۔
پہلگام واقعہ کی تحقیقات کے حوالے سے پاکستان نے آگے بڑھ کر خود پیش کش کی لیکن بھارت نے جواب میں پاکستان پر جنگ مسلط کر دی اور عبرت ناک شکست و عالمی رسوائی اور سفارتی ناکامیاں اس کا مقدر بن گئیں جس کا واضح تذکرہ وزیر اعظم نے اپنی تقریر میں بھی کیا۔
انھوں نے بھارتی سرپرستی میں پاکستان میں ہونے والی دہشت گردی میں افغان سرزمین کے استعمال کا ذکر کرتے ہوئے افغانستان کی حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ دہشت گردوں کے خلاف موثر کارروائی کرے اور اس بات کو یقینی بنائے کہ افغان سرزمین دہشت گردی کے لیے پاکستان سمیت کسی بھی ملک کے خلاف استعمال نہ ہو۔
پاکستان ایک سے زائد مرتبہ حکومتی سطح پر افغان حکومت سے یہ مطالبہ دہرا چکا ہے کہ وہ افغان سرزمین پر پناہ گزیں دہشت گرد عناصر کے خلاف کارروائی کرے جو پاکستان میں دہشت گردی کر رہے ہیں لیکن افسوس کہ ان تک افغان حکومت نے اب تک دہشت گردوں کے خلاف کوئی ٹھوس اقدام نہیں اٹھایا نتیجتاً پاکستان میں آج بھی وقفے وقفے سے دہشت گرد عناصر اپنی مذموم کارروائیاں جاری رکھے ہوئے ہیں۔ تاہم پاک فوج اور ہماری فورسز کی زیرک حکمت عملی کے باعث وہ اپنے مذموم مقاصد میں کامیاب نہیں ہو پا رہے ہیں۔
وزیر اعظم نے جنرل اسمبلی سے خطاب میں تنازع فلسطین کے حوالے سے پاکستان کے موقف کو بھرپور انداز میں پیش کرتے ہوئے کہا کہ فلسطینی عوام کی حالت زار دل دہلا دینے والا المیہ اور عالمی ضمیر پر ایک دھبہ ہے فلسطین کو اب آزاد ہونا ہے جنگ بندی کا راستہ نکالنا ہوگا۔
امریکی صدر ٹرمپ سے 8 مسلم ممالک کے رہنماؤں کی ملاقات میں بھی غزہ میں جنگ بندی پر بات چیت ہوئی لیکن اس ملاقات کا کوئی اعلامیہ جاری نہیں ہوا، نہ ہی رہنماؤں نے میڈیا کو ملاقات کی تفصیلات سے آگاہ کیا۔ سو ٹرمپ مسلم رہنماؤں کی ملاقات کے نتائج کے حوالے سے کوئی حتمی بات نہیں کی جا سکتی۔
البتہ صدر ٹرمپ سے وزیر اعظم شہباز شریف اور فیلڈ مارشل جنرل عاصم منیر کی ملاقات پاکستان کے نقطہ نظر سے خاصی مفید رہی۔ صدر ٹرمپ نے وزیر اعظم اور آرمی چیف کو شان دار الفاظ میں خراج تحسین پیش کیا جو حوصلہ افزا ہے۔ وزیر اعظم ہاؤس کے اعلامیے کے مطابق شہباز ٹرمپ ملاقات خوشگوار ماحول میں ہوئی جس سے پاک امریکا تعلقات مزید مستحکم ہوں گے۔