سپر ٹیکس کیس؛ ہر سال کوئی نہ کوئی نئی چیز سامنے آجاتی ہے، جسٹس مظہر کے ریمارکس
اشاعت کی تاریخ: 1st, October 2025 GMT
اسلام آباد:
سپریم کورٹ کے آئینی بینچ نے سپر ٹیکس درخواستوں پر سماعت کل صبح ساڑھے 9 بجے تک ملتوی کر دی، جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ ہر سال یہ مسئلہ اٹھتا ہے اور ہر سال کوئی نہ کوئی نئی چیز سامنے آتی ہے۔
دوران سماعت، مختلف کمپنیوں کی جانب سے وکیل شہزاد عطا الٰہی کے دلائل مکمل ہوگئے۔
سپر ٹیکس درخواستوں پر سماعت شروع ہوئی تو مختلف کمپنیوں کے وکیل شہزاد عطا الٰہی نے کہا کہ ٹیکس وہ ہوتا ہے جو روٹین میں لاگو ہو۔
جسٹس محمد علی مظہر نے استفسار کیا کہ فنانس بل کا اسٹرکچر کیا ہوتا ہے؟ جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ فنانس بل آئندہ آنے والے سال کے لیے ہوتا ہے، گزرے سال کے لیے نہیں ہوتا۔
کمپنیز کے وکیل شہزاد عطا الٰہی نے دلائل میں کہا کہ ہم سارا ٹیکس دینے کے لیے تیار ہیں لیکن چاہتے ہیں کہ رات سوئیں اور صبح نیا ٹیکس لاگو نہ ہو، ایکٹ بنانے کا کیا مقصد تھا، یہ ایک مسئلہ ہے جسے حل کرنا ہے۔
جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ ہر سال یہ مسئلہ اٹھتا ہے اور ہر سال کوئی نا کوئی نئی چیز سامنے آتی ہے۔
وکیل شہزاد عطا الٰہی نے کہا کہ کارپوریٹ پر 30 فیصد ٹیکس لگایا اور نان کارپوریٹ پر کوئی ٹیکس نہیں لگایا، سندھ ہائیکورٹ کا فیصلہ اس حوالے سے موجود ہے۔
جسٹس امین الدین خان نے استفسار کیا کہ کل سے کون دلائل کا آغاز کرے گا۔ سلمان اکرم راجا روسٹرم پر آئے اور دلائل دیتے ہوئے کہا کہ میں ایک گھنٹے سے زیادہ وقت نہیں لوں گا۔
جسٹس امین الدین خان نے ریمارکس دیے کہ ہمیں تو کہا گیا تھا کہ آپ مخدوم صاحب کے دلائل اپنائیں گے۔ سلمان اکرم راجا نے کہا کہ نہیں ایک نکتہ ہے جس پر میں دلائل دوں گا، جس پر جسٹس امین الدین خان نے کہا کہ پھر کل وقفے سے پہلے آپ دلائل دے لیں پھر فروغ نسیم صاحب شروع کر لیں گے۔
سلمان اکرم راجا نے کہا کہ کل میں دستیاب نہیں ہوں پرسوں ایک گھنٹہ دے دیں تو میں مکمل کر لوں گا۔
جسٹس امین الدین خان نے ریمارکس دیے ہم چاہ رہے ہیں کہ اس کیس کو جلد از جلد ختم کریں، 7 اکتوبر سے چھبیسویں آئینی ترمیم کی سماعت شروع کر رہے ہیں۔
Tagsپاکستان.
ذریعہ: Al Qamar Online
کلیدی لفظ: پاکستان جسٹس امین الدین خان نے جسٹس محمد علی مظہر نے وکیل شہزاد عطا ال ہی نے ریمارکس دیے کہ نے کہا کہ ہر سال
پڑھیں:
صدر کا ججز ٹرانسفر نوٹیفکیشن بےاثر، قانوناً کوئی حیثیت نہیں رکھتا، جسٹس نعیم اور شکیل کا اختلافی نوٹ
اسلام آباد:ججز تبادلہ اور سنیارٹی کیس میں سپریم کورٹ کے جسٹس نعیم اختر افغان اور جسٹس شکیل احمد کا اختلافی نوٹ جاری کر دیا گیا۔
جسٹس نعیم اختر افغان کا تحریر کردہ اختلافی نوٹ 40 صفحات پر مشتمل ہے۔
اختلافی نوٹ میں لکھا ہے کہ صدر پاکستان کا ججز ٹرانسفر نوٹیفکیشن بے اثر اور قانوناً کوئی حیثیت نہ رکھنے والا ہے، آرٹیکل 200 کے تحت ٹرانسفر صرف عارضی ہو سکتا ہے، مستقل نہیں۔
ججز کے اختلافی نوٹ میں لکھا ہے کہ صدر مملکت نے بغیر شفاف، معیار اور بامعنی مشاورت کے فیصلہ کیا، ٹرانسفر کا عمل عدالتی آزادی اور تقرری کے آئینی طریقہ کار کے منافی ہے۔
اختلافی نوٹ میں اسلام آباد ہائیکورٹ کے 6 ججز کے خط کا ذکر کیا گیا۔
اس حوالے سے اختلافی نوٹ میں لکھا ہے کہ ججز نے خط میں دباؤ، بلیک میلنگ اور غیر قانونی نگرانی کا ذکر کیا، خط میں کہا گیا کہ سیاسی مقدمات میں فیصلے انجینئر کرنے کی کوششیں ہوئیں، ججز کی منتقلی کا مقصد اسلام آباد ہائیکورٹ کی آزادی پر اثر انداز ہونا تھا۔