data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
ملک کی آبادی کم و بیش پچیس کروڑ ہے‘ گویا ملک میں ٹشو پیپرز کی تعداد بھی یہی ہے۔ ہم سب ٹشو پیپرز ہیں، ہم میں کوئی خاص ہے اور کوئی عام۔ خواص کو تو امریکا استعمال کرکے پھینک دیتا ہے اور عوام کو حکمران اور استحصال کرنے والا طبقہ استعمال کرکے پھینک دیتا ہے۔ سیٹھ، آجر، باس یہ سب اسی طبقے کے لوگ ہیں جو خود سے کم تر کو استعمال کرتے ہیں اور پھر پھینک دیتے ہیں۔ ان دنوں ٹرمپ کی بہت تعریفیں ہورہی ہیں وہ بھی جنوب ایشاء میں اپنے مفادات کے لیے ہماری بہت تعریفیں کر رہے ہیں۔ جنوب ایشاء میں اسے چاہیے کیا؟ معدینات تو وہ لے چکا‘ اب جان ہی رہ گئی ہے وہ بھی تقریباً لے ہی چکا ہے، بس اب وہم ہی باقی ہے کہ ہم زندہ ہیں‘ اگر ہم زندہ ہوتے تو یوں خوار نہ ہوتے۔ ٹرمپ سے ملاقات کو جو بھی اپنے اعزاز سمجھ رہے ہیں یہ سب ٹشو پیپرز کی مانند استعمال کرکے پھینک دیے جائیں گے۔
امریکا نے اس ملک میں اب تک کیا کچھ نہیں کیا مجال ہے کہ چور چوری کے بعد اپنا داغ چھوڑ جائے یا نشان چھوڑ جائے۔ یہی تو چور کا کمال ہے۔ غزہ میں بھی یہی چور ہے مگر کمال ہے کہ او آئی سی بھی اسی کے گن گا رہی ہے، کشمیر میں یہی چور ہے، کمال ہے کہ کہا جاتا ہے کہ ثالثی کرائے گا۔ افغانستان کی تباہی میں اس کا پورا وجود لتھڑا پڑا ہے پھر یہاں امن کے لیے اسی کی جانب دیکھا جارہا ہے۔ اس لیے ابھی کچھ ٹشو پیپرز باقی ہیں جنہیں استعمال ہونے کا شوق ہے۔
بھارت کے ساتھ حالیہ معرکہ حق میں کامیابی ملی تھی کہ ہم نے بنیان مرصوص کی صورت اختیار کی‘ اس کے بعد ہم کیوں بکھرے چلے جارہے ہیں؟ ہم کرکٹ میں بھی ہار رہے ہیں؟ وجہ کیا ہے؟ بھارت نے شوشا چھوڑا تھا کہ اب نیو نارمل کی طرف دیکھنا ہے‘ یہ نیو نارمل کیا ہے؟ یہی کہ جو ہندو کہے وہی سچ ہے‘ یہ کیسے ہوسکتا ہے؟ امریکا بھی یہی کہتا ہے نارمل وہی ہے جسے وہ نارمل سمجھے۔ یہاں ہندو اور امریکا دونوں ایک پیج پر ہیں۔ مسلم اور او آئی سی ایک پیج پر کیوں نہیں ہے؟ امریکا اور ہندو کبھی نارمل نہیں رہے یہ ہمیشہ ہی ابنارمل ہی رہے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ وہ تو واقعی ابنارمل ہیں مگر ہم کیوں ابنارمل ہوئے جارہے ہیں‘ کیوں خوف زدہ ہیں؟ سیاسی میدان سے لے کر کھیل کے میدان تک، ابنارمل ہی ابنارمل ہے۔
کرکٹرز کو چاہیے کہ مثبت کھیل پیش کریں۔ ایک اچھا کھیل، نتیجہ اللہ پر چھوڑ دیں، یہی مومن کی حکمت ہوتی ہے کہ وہ اسے تلاش کرتا رہتا ہے۔ کیا ہم نارمل میں ابنارمل تلاش کر سکتے ہیں؟ نہیں کر سکتے۔ ہاں ہماری سرحدوں پر تو ہوسکتا ہے کہ ایسا ہی ہو کہ بائیس اپریل کی پوزیشن پر واپس آچکے ہیں مگر ابھی بھی ہمارے لیے اسٹرٹیجک خطرات موجود ہیں‘ بلکہ یہ خطرات جنوب ایشاء میں اب مسلسل بڑھ رہے ہیں‘ ان کا مقابلہ کیسے ممکن ہے ہمیں یہ سوچنا ہے۔ مودی کا نیونارمل ڈاکٹرئن اس کی جنگی سوچ اور اس کا بیانیہ ہے اس تناظر میں حکومت پاکستان کو آنکھیں کھلی رکھنا ہوں گی اور سفارتی محاذ پر مودی کے جارحانہ اقدامات کو مستقل بنیادوں پر عالمی برادری کے سامنے رکھنے کی ضرورت ہے۔
ہندو کی سوچ ہے کہ جنگ چھیڑنے کے لیے ثبوت کی نہیں بلکہ الزام ہی کافی ہوگا۔ بنیادی طورپر یہی مودی کی ڈاکٹرائن ہے یہی ابنارمل ذہن ہے‘ مودی ضرور ایک اور پنگا لینا چاہتا ہے‘ بھارت کی کرکٹ ٹیم نے جو کچھ کیا ہے بے مقصد نہیں ہے۔ یہ کھیلوں کے میدان میں جارحیت پر اترچکے ہیں بہتر یہی ہے کہ یکسو ہو جائیں۔ ایک ہوجائیں اور متحد ہو کر بھارتی جارحانہ ڈاکٹرائن کو دنیا کے سامنے لایا جائے اور یہ بھی یقین رکھیں کہ یہ لاتوں کے بھوت ہیں باتوں سے نہیں مانیں گے۔ پوری دنیا جانتی ہے کہ پانی ساری دنیا کے لیے لائف لائن ہے‘ مودی کا جنگی جنون ہے کہ وہ پاکستان کے لیے پانی بند کرے گا اور مرضی سے کھولے گا پاکستان کے لیے یہ ممکن ہی نہیں کہ اس کو برداشت کرلیں اس خطے میں خدشات بدستور موجود ہیں اور جنگ کے بادل منڈلارہے ہیں کہ اگر مستقبل میں دونوں ممالک میں کشیدگی ہوئی اور حملہ ہوا تو پھر ایک جنگ چھڑ جائے گی جو اتنی خوفناک ہوسکتی ہے کہ الامان الحفیظ… بہتر یہی ہے کہ ہم انسان بن کر، پاکستانی بن کر، مسلمان بن کر سوچیں اور ٹشو پیپرز نہ بنیں۔ اس دنیا کی تاریخ ٹشو پیپرز کے نتائج سے بھری پڑی ہے۔ تاریخ سے سبق لیں یہی ہم سب کے لیے بہتر راستہ ہوگا۔ ٹرمپ کے لنچ پر قربان ہونا چھوڑیے روکھی سوکھی کھائیے اور عزت کے ساتھ جیئیں۔
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: ٹشو پیپرز رہے ہیں کے لیے
پڑھیں:
کرو مہربانی تم اہل زمیں پر
سلطانہ کی عمر ستر سال ہے، شوہر کا انتقال ہو چکا ہے، اپنی بیٹی کے ہاں مقیم ہیں، یہ ایک ایسی خاتون ہیں جو ہر کسی کے کام آتی تھیں، کہیں کسی کے بارے میں سنا کہ وہ بیمار ہے، یہ فوراً وہاں پہنچ جاتی تھیں۔
نہ پیسے کی لالچ نہ کسی اور چیز کی، میرا جب چار سال پہلے ایکسیڈنٹ ہوا تھا تو اسپتال میں یہی میرے ساتھ تھیں، پھر دو سال پہلے میرا پتّے کا آپریشن ہوا تو بھی میرے ساتھ تھیں، اور انھوں نے میری بڑی خدمت کی، مجھے بستر سے نہیں اٹھنے دیا۔
اسی طرح ان کا دال دلیہ چلتا رہتا تھا، شوہر جب ملازمت کرتے تھے تو ایک آدمی کے کمانے سے پورا نہیں پڑتا تھا، یہ بھی اپنے شوہر کا ساتھ دینے کے لیے گھر سے نکل پڑیں۔
پڑھی لکھی زیادہ تھیں نہیں، اس لیے کوئی اچھی ملازمت تو نہ کر سکیں، البتہ بچوں کا پیٹ بھرنے کے لیے کھانا پکانے کی نوکری کر لی۔
طارق روڈ پر ایک گھر میں انھوں نے ملازمت کر لی۔ ہاتھ میں ذائقہ ہے، تعلق دہلی سے ہے، اس لیے جو ان کے ہاتھ کا کھانا کھاتا ہے وہ ان کا گرویدہ ہو جاتا ہے۔ طارق روڈ پر ہی تین گھروں میں یہ کھانا پکاتی تھیں۔
اچھی خاصی گزر بسر ہو رہی تھی، اسی نوکری میں انھوں نے بیٹیوں کی شادیاں کیں، خود غریب تھیں اس لیے بیٹیاں بھی غربت میں بیاہی گئیں۔ پھر شوہر کو شوگر ہو گئی اور زیادہ سگریٹ نوشی سے ان کے پھیپھڑے متاثر ہو گئے تو انھوں نے نوکری چھوڑ دی۔
اب سلطانہ پر زیادہ ذمے داری آن پڑی، غیرت مند تھیں اس لیے کسی سے کچھ کہتی نہ تھیں، البتہ خوشی اور غم دونوں میں یہ شریک ہو جاتی تھیں، شوہر کو غصہ بھی بہت آتا تھا، سلطانہ غریب گھر کی غریب بیٹی تھیں، اس لیے دکھ سہنے کا تجربہ تھا۔
شوہر گھر میں رہنے کی وجہ سے چڑچڑے ہو گئے تھے، انھیں صبح صبح ناشتہ درکار ہوتا تھا، یہ فجر کے بعد اٹھ کر شوہر کو ناشتہ بنا کر دیتی تھیں، پھر اپنے کام پر چلی جاتی تھیں، شوہر بھی پنج وقتہ نمازی تھے، چونکہ بیوی نوکری کر رہی تھی، اس سے ان کی ایکو ہرٹ ہوتی تھی لہٰذا اکثر و بیشتر غصہ کیا کرتے تھے۔
ایک بیٹی قریب ہی رہتی تھی لہٰذا دوپہر کا کھانا وہ باپ کو نکال کر دے دیتی تھی۔ سلطانہ فجر کے بعد کھانا پکا کر جاتی تھیں اور شام کو آ کر شوہر کی ٹانگوں کی مالش کرتیں، انھیں چائے بنا کر دیتیں اور پھر رات کا کھانا تیار کرتیں، میاں بیوی دونوں نمازی تھے، سلطانہ تو تہجد گزار بھی تھیں، میں انھیں طویل عرصے سے جانتی ہوں۔
انھوں نے کچھ عرصہ میرے گھر بھی کھانا پکایا ہے، میرے شوہر تو ان کے ہاتھ کے کھانوں کے شیدائی تھے۔ انھوں نے کبھی کسی سے کچھ مانگا نہیں، اس لیے مجھے بھی ان کے ان حالات کا علم نہ ہو سکا جس کی شکار یہ شوہر کے انتقال کے بعد ہوئیں۔
میں ان کے شوہر کے انتقال پر ان کے گھر بھی گئی، انھوں نے عدت کے دن گھر پر گزارے جب کہ ان کی جو عمر تھی اس میں مولوی صاحب نے بتایا کہ ان پر عدت لازم نہیں ہے لیکن ایک اور مولوی صاحب نے کہا کہ عدت واجب تو نہیں ہے لیکن کر لیں تو شوہر کی روح کو ثواب ملے گا سو انھوں نے پوری مدت کی عدت کی اور گھر بیٹھی رہیں۔
جو جمع پونجی تھی وہ ختم ہو گئی، ان کی ملازمت ختم ہو گئی، کون اتنے لمبے عرصے کی غیر حاضری برداشت کرتا، مجھ سے جو کچھ ہو سکتا تھا وہ میں کر دیتی تھی۔ چند دن پہلے ان کی بیٹی میرے پاس گھر آئی اور مجھے ساتھ لے کر سلطانہ کے پاس پہنچ گئی۔
یہ وہ سلطانہ نہیں لگ رہی تھیں جن سے میں واقف تھی، پتا چلا کہ شوہر کے انتقال کے بعد ایک صاحب حیثیت رشتے دار نے انھیں دس ہزار روپے دینا شروع کیا، لیکن کچھ عرصہ قبل ان کا بھی انتقال ہو گیا اور یہ مدد سے محروم ہو گئیں۔
یہ بہت بیمار رہنے لگی ہیں، دل کی تکلیف ہے، بڑی باہمت خاتون ہیں، یہ جناح اسپتال جاتی تھیں اور اپنی دوائیں لے کر آتی تھیں۔ اسپتال جانے کے لیے یہ رکشہ کرتی تھیں اور رات کو ہی وہاں جا کر دری بچھا کر لیٹ جاتی تھیں۔
پھر صبح فجر کے وقت ٹوکن ملتے تھے اور پھر صبح نو دس بجے ڈاکٹروں کے پاس جانا ہوتا تھا۔ یہ ہفتے بھر کی دوائیں لے آتی تھیں، پھر یوں ہوا کہ دو بار یہ سیڑھیوں سے گر گئیں، ان کے کولہے میں چوٹ لگی۔
اب علاج کرائیں تو کیسے؟ ان کی بیٹی بھی غریب ہے وہ بھی جاب کرتی ہے، اس کے حالات بھی ایسے نہیں ہیں کہ وہ ماں کا علاج کرا سکے۔ مجھے یہ سب دیکھ کر بہت افسوس ہوا، لاچاری اور بے چارگی کی تصویر بنی سلطانہ کی آنکھوں سے آنسو رواں تھے۔
گزشتہ ایک سال سے ان کی دوائیں بند ہیں، ایک ہفتے کی دوائیں پانچ ہزار کی آتی ہیں، چوٹ لگ جانے کی وجہ سے اب اسپتال نہیں جا سکتیں، پھر اسی پر اکتفا نہیں بلکہ دایاں ہاتھ ان کا کام نہیں کرتا۔ بیٹی نے کسی نہ کسی طرح ڈاکٹر کو دکھایا تو اس نے فزیو تھراپی کا مشورہ دیا۔
اب پیسے تو ہیں نہیں فزیو تھراپسٹ کوئی بھی گھر آنے کے ایک دن کے دو ہزار سے کم نہیں لیتے۔ فی زمانہ لوگوں میں ہمدردی کا جذبہ مفقود ہوتا جا رہا ہے، پھر بھی میں نے ایک اسپتال میں بات کی تو ایک صاحبہ پندرہ سو پہ راضی ہو گئیں، لیکن روزانہ کے پندرہ سو آئیں کہاں سے؟ آج ہر انسان ضرورت مند ہے، مہنگائی نے ناطقہ بند کیا ہوا ہے، مجھے بہت افسوس ہوا یہ سب دیکھ کر۔
ایک بے سہارا، لاچار اور مجبور عورت جسے بڑھاپے اور مہنگائی نے مار دیا ہے۔ میں نے جب بھی کسی ضرورت مند کے لیے کالم لکھا ہے تو قارئین نے بھرپور ساتھ دیا ہے، اس بار بھی آپ سے درخواست کرتی ہوں کہ زکوٰۃ، خیرات یا کسی بھی مد میں جو بھی رقم آپ نکالیں وہ سلطانہ کو دے دیں۔
کیونکہ ایک ماہ کی فزیوتھراپی کے لیے جو رقم جائے گی اس کا اندازہ آپ خود لگا سکتے ہیں۔ پھر ہارٹ کی دوائیوں کے اخراجات الگ ہیں۔ میں نے انھیں دیکھا تو ان کی حالت پہ رونا آگیا، دل کی تکلیف کی وجہ سے ان کی زبان میں لکنت آگئی ہے۔
ان سے بولا نہیں جاتا، مجھے دیکھ کر انھوں نے دونوں ہاتھ جوڑ دیے اور ان کی آنکھوں سے آنسو رواں ہو گئے۔ ان کی کسمپرسی پر میرا دل رو اٹھا، تب میں نے سوچا کہ ان کے لیے قارئین سے اپیل کروں، یہاں مخیر لوگوں کی کمی نہیں ہے، دو سال پہلے جب میں نے ’’سیما کی کہانی‘‘ والا کالم لکھا تھا تو لندن، کینیڈا اور پنجاب کے شہروں سے اتنی مدد آگئی تھی کہ سیما نے اپنے بیٹے کو یونیورسٹی میں داخلہ دلوا دیا تھا، لندن کی شاہدہ صدیقی مسلسل دس ہزار روپے ماہانہ بھیجتی رہیں۔
اب وہ بیمار ہیں لیکن ہم سب ان کی صحت کے لیے دعاگو رہتے ہیں۔ سلطانہ کی مدد کے لیے میں نے ان کے نواسے کا بینک اکاؤنٹ لکھوا دیا ہے۔ نواسے کا نام شہباز ہے، اس کا موبائل نمبر 0317-1092481 ہے، بینک اکاؤنٹ نمبر IBAN-PK37MEZN 0001520113080624 ہے۔ حالی نے کہا ہے:
کرو مہربانی تم اہلِ زمیں پر
خدا مہرباں ہوگا عرشِ بریں پر
سب کچھ یہیں رہ جائے گا، ساتھ جائے گا تو صرف اعمال نامہ جس میں سب سے زیادہ اہمیت ہوگی حقوق العباد کی۔ سلطانہ کی مدد کیجیے، میں چاہتی ہوں کہ جب تک سلطانہ زندہ ہیں ان کا دایاں ہاتھ کام کرنے لگے اور ان کی ہارٹ کی دوائیاں انھیں مل جائیں۔
سلطانہ پر بہت برا وقت پڑا ہے، بیٹی کے حالات بھی اچھے نہیں ہیں، پھر بھی اس نے ماں کو رکھا ہوا ہے۔ سلطانہ کو ابھی میں نے کچھ نہیں بتایا ہے، اگر کہیں سے کوئی مدد آئی تو انھیں بتا دیں گے۔ انھوں نے کبھی سوچا بھی نہ ہوگا کہ کبھی ایسی بھی افتاد ان پر پڑے گی، وہ کہتی ہیں کہ ان کا ہاتھ ٹھیک ہو جائے تو وہ طارق روڈ پر دوبارہ کھانا پکانے کا کام شروع کر دیں گی۔
لیکن مجھے ایسا نہیں لگتا کہ اب وہ دوبارہ نوکری کر سکیں گی۔ ان کے حالات اور صحت بالکل اچھے نہیں ہیں، بس آپ لوگ رحم کیجیے، ایک بار پھر آپ کی شکر گزار ہوں گی۔