Jasarat News:
2025-11-18@22:14:27 GMT

ٹشو پیپرز

اشاعت کی تاریخ: 2nd, October 2025 GMT

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

ملک کی آبادی کم و بیش پچیس کروڑ ہے‘ گویا ملک میں ٹشو پیپرز کی تعداد بھی یہی ہے۔ ہم سب ٹشو پیپرز ہیں، ہم میں کوئی خاص ہے اور کوئی عام۔ خواص کو تو امریکا استعمال کرکے پھینک دیتا ہے اور عوام کو حکمران اور استحصال کرنے والا طبقہ استعمال کرکے پھینک دیتا ہے۔ سیٹھ، آجر، باس یہ سب اسی طبقے کے لوگ ہیں جو خود سے کم تر کو استعمال کرتے ہیں اور پھر پھینک دیتے ہیں۔ ان دنوں ٹرمپ کی بہت تعریفیں ہورہی ہیں وہ بھی جنوب ایشاء میں اپنے مفادات کے لیے ہماری بہت تعریفیں کر رہے ہیں۔ جنوب ایشاء میں اسے چاہیے کیا؟ معدینات تو وہ لے چکا‘ اب جان ہی رہ گئی ہے وہ بھی تقریباً لے ہی چکا ہے، بس اب وہم ہی باقی ہے کہ ہم زندہ ہیں‘ اگر ہم زندہ ہوتے تو یوں خوار نہ ہوتے۔ ٹرمپ سے ملاقات کو جو بھی اپنے اعزاز سمجھ رہے ہیں یہ سب ٹشو پیپرز کی مانند استعمال کرکے پھینک دیے جائیں گے۔

امریکا نے اس ملک میں اب تک کیا کچھ نہیں کیا مجال ہے کہ چور چوری کے بعد اپنا داغ چھوڑ جائے یا نشان چھوڑ جائے۔ یہی تو چور کا کمال ہے۔ غزہ میں بھی یہی چور ہے مگر کمال ہے کہ او آئی سی بھی اسی کے گن گا رہی ہے، کشمیر میں یہی چور ہے، کمال ہے کہ کہا جاتا ہے کہ ثالثی کرائے گا۔ افغانستان کی تباہی میں اس کا پورا وجود لتھڑا پڑا ہے پھر یہاں امن کے لیے اسی کی جانب دیکھا جارہا ہے۔ اس لیے ابھی کچھ ٹشو پیپرز باقی ہیں جنہیں استعمال ہونے کا شوق ہے۔

بھارت کے ساتھ حالیہ معرکہ حق میں کامیابی ملی تھی کہ ہم نے بنیان مرصوص کی صورت اختیار کی‘ اس کے بعد ہم کیوں بکھرے چلے جارہے ہیں؟ ہم کرکٹ میں بھی ہار رہے ہیں؟ وجہ کیا ہے؟ بھارت نے شوشا چھوڑا تھا کہ اب نیو نارمل کی طرف دیکھنا ہے‘ یہ نیو نارمل کیا ہے؟ یہی کہ جو ہندو کہے وہی سچ ہے‘ یہ کیسے ہوسکتا ہے؟ امریکا بھی یہی کہتا ہے نارمل وہی ہے جسے وہ نارمل سمجھے۔ یہاں ہندو اور امریکا دونوں ایک پیج پر ہیں۔ مسلم اور او آئی سی ایک پیج پر کیوں نہیں ہے؟ امریکا اور ہندو کبھی نارمل نہیں رہے یہ ہمیشہ ہی ابنارمل ہی رہے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ وہ تو واقعی ابنارمل ہیں مگر ہم کیوں ابنارمل ہوئے جارہے ہیں‘ کیوں خوف زدہ ہیں؟ سیاسی میدان سے لے کر کھیل کے میدان تک، ابنارمل ہی ابنارمل ہے۔

کرکٹرز کو چاہیے کہ مثبت کھیل پیش کریں۔ ایک اچھا کھیل، نتیجہ اللہ پر چھوڑ دیں، یہی مومن کی حکمت ہوتی ہے کہ وہ اسے تلاش کرتا رہتا ہے۔ کیا ہم نارمل میں ابنارمل تلاش کر سکتے ہیں؟ نہیں کر سکتے۔ ہاں ہماری سرحدوں پر تو ہوسکتا ہے کہ ایسا ہی ہو کہ بائیس اپریل کی پوزیشن پر واپس آچکے ہیں مگر ابھی بھی ہمارے لیے اسٹرٹیجک خطرات موجود ہیں‘ بلکہ یہ خطرات جنوب ایشاء میں اب مسلسل بڑھ رہے ہیں‘ ان کا مقابلہ کیسے ممکن ہے ہمیں یہ سوچنا ہے۔ مودی کا نیونارمل ڈاکٹرئن اس کی جنگی سوچ اور اس کا بیانیہ ہے اس تناظر میں حکومت پاکستان کو آنکھیں کھلی رکھنا ہوں گی اور سفارتی محاذ پر مودی کے جارحانہ اقدامات کو مستقل بنیادوں پر عالمی برادری کے سامنے رکھنے کی ضرورت ہے۔

ہندو کی سوچ ہے کہ جنگ چھیڑنے کے لیے ثبوت کی نہیں بلکہ الزام ہی کافی ہوگا۔ بنیادی طورپر یہی مودی کی ڈاکٹرائن ہے یہی ابنارمل ذہن ہے‘ مودی ضرور ایک اور پنگا لینا چاہتا ہے‘ بھارت کی کرکٹ ٹیم نے جو کچھ کیا ہے بے مقصد نہیں ہے۔ یہ کھیلوں کے میدان میں جارحیت پر اترچکے ہیں بہتر یہی ہے کہ یکسو ہو جائیں۔ ایک ہوجائیں اور متحد ہو کر بھارتی جارحانہ ڈاکٹرائن کو دنیا کے سامنے لایا جائے اور یہ بھی یقین رکھیں کہ یہ لاتوں کے بھوت ہیں باتوں سے نہیں مانیں گے۔ پوری دنیا جانتی ہے کہ پانی ساری دنیا کے لیے لائف لائن ہے‘ مودی کا جنگی جنون ہے کہ وہ پاکستان کے لیے پانی بند کرے گا اور مرضی سے کھولے گا پاکستان کے لیے یہ ممکن ہی نہیں کہ اس کو برداشت کرلیں اس خطے میں خدشات بدستور موجود ہیں اور جنگ کے بادل منڈلارہے ہیں کہ اگر مستقبل میں دونوں ممالک میں کشیدگی ہوئی اور حملہ ہوا تو پھر ایک جنگ چھڑ جائے گی جو اتنی خوفناک ہوسکتی ہے کہ الامان الحفیظ… بہتر یہی ہے کہ ہم انسان بن کر، پاکستانی بن کر، مسلمان بن کر سوچیں اور ٹشو پیپرز نہ بنیں۔ اس دنیا کی تاریخ ٹشو پیپرز کے نتائج سے بھری پڑی ہے۔ تاریخ سے سبق لیں یہی ہم سب کے لیے بہتر راستہ ہوگا۔ ٹرمپ کے لنچ پر قربان ہونا چھوڑیے روکھی سوکھی کھائیے اور عزت کے ساتھ جیئیں۔

میاں منیر احمد سیف اللہ.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: ٹشو پیپرز رہے ہیں کے لیے

پڑھیں:

’’آئین نَو‘‘ سے ڈرنے اور ’’طرزِ کہن‘‘ پر اَڑنے والے

علامہ محمد اقبال ؒ ، جنہیں اہلِ ایران محبت سے اقبالِ لاہوری کہتے ہیں،ہمارے قومی شاعر ہیں۔ اُنہیں جدید دَور کے علمائے فلاسفہ میں بھی بلند مقام حاصل ہے ۔ ہم اُنہیں شاعرِ مشرق ، حکیم الامت اور یکے از بانیِ پاکستان کے خوبصورت اور دلکش ناموں سے بھی یاد کرتے اور پکارتے ہیں ۔ اِس موقع پر مجھے ’’اقبال کے حضور‘‘ نامی ایک نہائت شاندار تصنیف یاد آ رہی ہے ۔ اِسے جناب سید نذیر نیازی نے تحریر کیا۔یہ دراصل علامہ اقبال کے دولت کدے پر برپا لاتعداد مجالس کی ڈائری ہے ۔

سید نذیر صاحب مرحوم اِن بلند علمی مجالس میں باقاعدہ شریک ہوتے تھے ۔ حکیم الامت کی زبان سے جو کچھ بھی سُنتے ، ڈائری میں لکھ لیتے اور بعد ازاں علامہ اقبال کو اپنے لکھے الفاظ دکھا اور پڑھا کر اِسے محفوظ کر لیتے ۔ یہی محفوظ الفاظ بعد ازاں کتابی شکل میں ’’اقبال کے حضور‘‘ کے زیر عنوان شائع ہُوئی ۔ اِس دلکشا تصنیف میں ہم علامہ اقبال ؒ کو اپنے کلام ، نظریات اور افکار کی تشریح وتفسیر اور گرہ کشائی فرماتے دیکھتے ہیں ۔مذکورہ تصنیف میں مصنف نے، محبت و احترام سے، علامہ اقبال ؒ کو ہر جگہ ’’حضرت علامہ‘‘ کے نام سے یاد کیا ہے ۔

یہی بین الاقوامی شہرت یافتہ شاعر ، فلسفی اور ہمارے نظریہ ساز، علامہ اقبالؒ، اپنے ایک معروف شعر میں فرماتے ہیں کہ دُنیا میں وہی قومیں اپنی منزل پر پہنچنے میں رکاوٹوں اور کٹھن کا سامنا کرتی ہیںجو آئینِ نَو سے ڈرتی اور طرزِ کہن پر اَڑتی ہیں ۔

یہ طرزِ فکر و عمل ٹھیک نہیں ہے : آئینِ نَو سے ڈرنا، طرزِ کہن پہ اَڑنا/ منزل یہی کٹھن ہے قوموں کی زندگی میں! حضرت علامہ ؒ نے تو ہمیں شعر کی زبان میں ہمارے اجتماعی مرض کی نشاندہی کرتے ہُوئے مدتوں قبل فرما دیا تھا کہ آگے بڑھنے اور ترقی کرنے کی راہ میں کونسے عناصر ’’کٹھن‘‘ کی حیثیت رکھتے ہیں ۔ اب جب کہ آئینِ پاکستان میں 27ویں ترمیم کی صورت میں ’’آئینِ نَو‘‘ سامنے آ چکا ہے ، دونوں ایوانوں سے منظور بھی ہو چکا ہے اور صدرِ مملکت اِس پر دستخط بھی فرما چکے ہیں تو پرانے آئین پر بدستور اَڑنے اور اَکڑنے کی ضرورت کیا باقی رہ جاتی ہے ؟

لیکن نہیں صاحب ! بعض لوگ ’’آئینِ نَو‘‘ سے ڈرتے ہُوئے اور اپنی طرزِ کہن پر اَ ڑتے ہُوئے اپنے بلند عہدوں سے مستعفی ہورہے ہیں ۔ حالیہ27ویں آئینی ترمیم کے تناظر میں سپریم کورٹ سے اپنے بلند عہدوں سے بطورِ احتجاج مستعفی ہوتے ہُوئے جن دو صاحبان نے بنامِ صدر جو خطوط لکھے ہیں(ویسے دورانِ ملازمت بھی خط لکھنا ان کا خاص مشغلہ رہا )، اِن خطوط کا بالاستعیاب مطالعہ کیا جائے تو واضح ہوتا ہے کہ اعلیٰ ترین عہدوں اور اعلیٰ ترین مراعات کی حامل ملازمتوں سے رخصت ہوتے ہُوئے اُنہیں خوش رنگ ’’چمن‘‘ کی یاد بھی شدت سے آتی رہی۔

اگر یہ کہا جائے کہ ستائیسویں آئینی ترمیم کے فلیش بَیک میں مستعفی ہونے والے معزز افراد کے یہ احتجاجی خطوط دراصل ’’دُکھے دِلوں کی فریاد ‘‘ اور صدا ہے تو اِسے بے جا بھی نہیں کہا جائیگا ۔ استعفیٰ دینے والے دو صاحبان میں سے ایک بڑے صاحب کا دُکھی خط تومبینہ طور پر 13صفحات کو محیط ہے ۔ اِسی سے ہم بخوبی اندازہ لگا سکتے ہیں کہ چوٹ کتنی گہری ہے اور رُخصتی کسقدر بادلِ نخواستہ ہے ۔ آئینِ نَوسے ڈرنے اور طرزِ کہن پر اَڑنے پر مُصر اِن مستعفی حضرت نے دُکھے دِل اور اپنے ’’ضمیر کی آواز‘‘ کی عکاسی کرتے ہُوئے کچھ اشعار بھی شاملِ خط کیے ہیں ۔ مثلاً:’’مرا قلم تو امانت ہے میرے لوگوں کی/ مرا قلم تو عدالت مرے ضمیر کی ہے‘‘۔ وغیرہ۔

ستم ظریف اور’’ بیدرد‘‘وفاقی وزیر دفاع، خواجہ محمد آصف، نے اِس خط اور اشعار پر ردِ عمل دیتے ہُوئے ’’ایکس‘‘ پر لکھا:’’ یہ شعر اُس وقت کیوں یاد نہ آئے جب انصاف کا قتلِ عام ہورہا تھا؟ جب ایک ٹولہ مل کر آئین اور قانون کے محافظ کی بجائے کسی کے سیاسی مفادات کے محافظ بنے ہُوئے تھے ۔ یہ سیاسی پارٹی کے ورکر بنے ہُوئے تھے ۔‘‘خواجہ صاحب نے ردِ عمل دیتے ہُوئے بعض ایسے الفاظ بھی ’’ایکس‘‘ پر لکھ مارے ہیں جن کا ہم یہاں اعادہ نہیں کر سکتے ۔ اتنا مگر ضرور ہے کہ خواجہ صاحب کے یہ الفاظ سُن اور پڑھ کر مستعفی حضرات مزید دُکھی ہُوئے ہوں گے ۔ حقیقت بھی یہ ہے کہ 27ویں آئینی ترمیم کے تناظر میں جو صاحبان بھی مستعفی ہُوئے ہیں، عوام میں اُن کے استعفے پذیرائی حاصل کر سکے ہیں نہ اُنہیں عوام کی ہمدردیاں حاصل ہو سکی ہیں ۔

عوام کے مصائب اور دُکھوں سے لاتعلقی کا یہی نتیجہ نکلتا ہے ، مگر جب اقتدار اور اختیار کے شہ زور گھوڑے پر انسان بیٹھا ہو تو اُسے بیکس اور انصاف سے محروم طبقات و افراد کہاں نظر آتے ہیں ؟ وقت کا سفاک اور بیدرد کارواں مگر تھمتا نہیں ہے ۔ دو جسٹس صاحبان کے استعفے اگر سامنے آئے ہیں تو نئی وفاقی آئینی عدالت کے نئے سربراہ ، جناب جسٹس امین الدین خان ، اور تین جج صاحبان بھی اگلے تین برسوں کے لیے حلف بھی اُٹھا چکے ہیں۔ جسٹس امین الدین خان صاحب کو وفاقی آئینی عدالت کا پہلا سربراہ بننے کا شرف ملا ہے ۔ ساتھ ہی لاہور ہائیکورٹ کے ایک جج صاحب بھی مستعفی ہونے والوں کی ٖفہرست میں شامل ہو گئے ہیں۔

آئینِ نَو سے ڈرنے اور طرزِ کہن پر اَڑیل ٹٹو کی طرح اَڑنے والے کچھ افراد ، گروہ اور عاقبت نااندیش ہماری مغربی سرحد کے پار بھی بَس رہے ہیں ۔ یہ لوگ اب افغان طالبان، ٹی ٹی پی ، ٹی ٹی اے ، فتنہ الخوارج اور فتنہ الہندوستان کے نام سے جانے پہچانے جاتے ہیں ۔ مہلک ، لالچی اور اجتماعی طور پر اُمتِ اسلامیہ و اُمتِ پاکستان کے خلاف عناد پر آمادہ مذکورہ گروہوں کا خیال ہے کہ طرزِ کہن پر اَڑے رہنے ہی میں وہ اپنے نجی، گروہی ، بھارتی اور اسرائیلی مفادات کا تحفظ کر سکتے ہیں ۔

پاکستان کے خلاف یہی لالچ افغانستان کے مقتدر طالبان مُلّاؤں اور ملوانوں کے وزیر خارجہ، امیر متقی، کو بھارت لے گیا ۔ اور اب اِنہی پاکستان دشمن افغان طالبان رجیم کے نائب وزیر اعظم ، مُلّا عبدالغنی برادر، نے طرزِ کہن پر اَڑے رہنے کی جبلّت کا ثبوت فراہم کرتے ہُوئے 12نومبر2025ء کو اعلان کیا ہے :’’ ہم پاکستان کے ساتھ اپنی جملہ لین دین بند کررہے ہیں۔‘‘برادر کشی کردار کے حامل،عبدالغنی برادر، نے افغان تاجروں کویہ بھی تنبیہ کی ہے کہ ’’ اگلے تین ماہ کے اندر (پاکستان سے ) اپنا تجارتی حساب کتاب بیباک کرو اور تجارت کے لیے نئے ممالک میں نئے راستے تلاش کرو، وگرنہ (پاکستان کے معاملے میں ) ہم کسی افغان تاجر و ٹریڈر کی مدد نہیں کر سکیں گے ۔‘‘

افغان نائب وزیر اعظم کے مذکورہ بیان کا پاکستان نے مناسب ترین اور ترنت جواب دیا ہے ۔ خواجہ آصف نے بھی خوب کہا ہے کہ ’’افغان ٹرانزٹ ٹریڈ ہمیں نقصان پہنچا رہی ہے ۔‘‘ مُلّا عبدالغنی برادر(جو کبھی برسوں پاکستان کی مفت روٹیاں کھاتا اور پاکستانی اداروں کی میزبانیوں سے بے تحاشہ لطف اندوز ہوتا رہا ہے ) نے مذکورہ اعلان کرکے دراصل بھارت، بھارتی اسٹیبلشمنٹ اور بھارتی اُجیت ڈووَل کی زبان بولی ہے۔ اِس اعلان کے بعد راقم نے کئی بھارتی اخبارات کا مطالعہ کیا ہے ، سبھی عبدالغنی برادر پر نہال ہو رہے ہیں ۔

گویا افغانستان کی غیر نمایندہ حکومت کے عبوری وزیر خارجہ (امیر خان متقی) کے دَورئہ بھارت کے نتائج نکلنا شروع ہو گئے ہیں ۔ حیرت کی بات مگر یہ ہے کہ افغان نائب وزیر اعظم پاکستان کے ساتھ ہر قسم کی تجارت بند کرنے کا اعلان کررہا ہے اور خیبر پختونخوا میں پی ٹی آئی کی صوبائی حکومت اپنے ’’ امن جرگہ‘‘ ( منعقدہ 12 نومبر2025) میں مطالبہ کرتی سنائی دے رہی ہے کہ ’’افغانستان کے ساتھ سارے تجارتی راستے کھولے جائیں ۔‘‘ ایسے ہی موقع پر شائد بولا جاتا ہے: ناطقہ سر بگریباں ہے کیا کہیئے!ہم سمجھتے ہیں کہ مُلّا برادر کا اعلان پاکستان کے لیے Blessing in Disguise ہے ۔ خس کم ،جہاں پاک۔شائد اِسی لیے ہمارے وزیر دفاع نے بھی کہا ہے :’’افغانستان سے آمدورفت کم ہوگی تو پاکستان میں دہشت گردی بھی کم ہوگی۔‘‘ اور اگر ہم روزنامہ ’’ایکسپریس ٹربیون‘‘ میں 14 نومبر2025ء کو ممتاز رپورٹر شہباز رانا کی رپورٹ بالتفصیل پڑھیں تو صاف نظر آتا ہے کہ مُلّا برادر کے اعلان پر اگر پوری طرح عمل ہوتا ہے تو افغانستان ہی کو بھاری تجارتی خسارے کا سامنا کرنا پڑے گا۔ دیکھ لیں افغان طالبان طرزِ کہن پر اَڑ کر !!

متعلقہ مضامین

  • ہمارے بھاجی… جج صاحب
  • آئینی ترمیم؛ کچھ تو ڈھنگ کی دلیل دو
  • کوچۂ سخن
  • حکومتی بے توجہی
  • بھارت و افغانستان کا گٹھ جوڑ
  • بچوں کا عالمی دن! مگر غزہ کے بچوں کے نام
  • وہ چند ہزار
  • سوڈان سے سبق سیکھیے؟
  • ’’آئین نَو‘‘ سے ڈرنے اور ’’طرزِ کہن‘‘ پر اَڑنے والے
  • ٹی ٹی پی نہیں، بلکہ ٹی ٹی اے یا ٹی ٹی بی