Jasarat News:
2025-11-18@22:11:30 GMT

فلسطین: جنرل اسمبلی سے ٹرمپ منصوبے تک

اشاعت کی تاریخ: 2nd, October 2025 GMT

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی کا حالیہ اجلاس بظاہر دنیا کے معمول کے سفارتی اجتماع کی ایک اور قسط تھا، مگر اس بار جو مناظر دیکھنے کو ملے وہ غیر معمولی اور تاریخی اہمیت کے حامل تھے۔ دہائیوں سے دبے ہوئے مسائل، مسخ شدہ سچائیاں اور دنیا کے طاقتوروں کی منافقت اس اجلاس میں کھل کر سامنے آئی۔ فلسطین کے مسئلے پر جو لہریں اٹھیں، انہوں نے اسرائیل کے استبداد کو بے نقاب کیا اور دنیا کے مختلف خطوں سے نئی امید کی کرن بھی دکھائی۔ اجلاس کا سب سے اہم لمحہ وہ تھا جب شام کے صدر احمد الشرع نے پہلی بار جنرل اسمبلی سے خطاب کیا۔ یہ تقریباً ساٹھ برس بعد کسی شامی صدر کی واپسی تھی۔ ان کے خطاب میں صرف ایک ریاستی موقف نہیں بلکہ ایک نئی تاریخ کی جھلک تھی۔ انہوں نے کہا کہ شام چھے دہائیوں تک ایک جابر نظام کے سائے میں رہا، جہاں ایک ملین انسان قتل ہوئے، دو ملین سے زائد گھر اجڑے اور عوام کو آزادی کے لیے خون دینا پڑا۔ احمد الشرع نے دنیا کو یاد دلایا کہ آج کا شام جبر و استبداد کے سائے سے نکل کر انصاف اور تعمیر ِ نو کی طرف بڑھ رہا ہے۔ صدر نے اپنے خطاب میں شہداء کی ماؤں، لاپتا افراد کے لواحقین اور مظلوم عوام کے ساتھ انصاف کا وعدہ کیا۔ انہوں نے اعلان کیا کہ جن کے ہاتھ خون سے رنگے ہیں انہیں قانون کے کٹہرے میں لایا جائے گا۔ یہ الفاظ ایک ایسے شام کی عکاسی کرتے ہیں جو ماضی کے سائے سے نکل کر ایک نئی ریاستی تشکیل کا خواہاں ہے۔ خارجہ پالیسی کے حوالے سے انہوں نے واضح پیغام دیا کہ شام بات چیت اور سفارت کاری پر یقین رکھتا ہے، مگر ساتھ ہی پابندیوں کے خاتمے پر زور دیتے ہوئے دنیا کو یہ باور کرایا کہ اقتصادی و سیاسی دباؤ کسی بھی ریاست کو جھکانے کا پائیدار حل نہیں۔ فلسطین کے مسئلے پر احمد الشرع نے اہل ِ غزہ کی بھرپور حمایت اور فوری جنگ بندی کا مطالبہ کیا۔ ان کا یہ موقف شام کی نئی قیادت کو خطے کی مزاحمتی سیاست سے جوڑتا ہے۔

اسی اجلاس میں کولمبیا کے صدر گستاوو پیٹرو کی تقریر نے سفارتی ایوانوں میں ہلچل مچا دی۔ انہوں نے اسرائیل کو نازیوں سے تشبیہ دی اور مطالبہ کیا کہ ایشیائی ممالک ایک بین الاقوامی فوج تشکیل دیں جو فلسطین کے دفاع کے لیے کھڑی ہو۔ یہ بیانات محض الفاظ نہیں تھے بلکہ مغرب کے استحصالی رویے پر کھلا چیلنج تھے۔ پیٹرو نے دوٹوک کہا کہ اسرائیل کو اسلحہ لے جانے والا کوئی جہاز اب نہیں گزرنے دیا جائے گا۔ یہ وہی کولمبیا ہے جو ماضی میں امریکی پالیسیوں کا قریب ترین اتحادی رہا، مگر آج اس کے صدر نے فلسطین کے حق میں وہ بات کی جس کی جرأت بڑے بڑے مسلم حکمران بھی نہیں کر پاتے۔ یہ عالمی سیاست میں طاقت کے توازن کے بدلنے کا اشارہ ہے۔

اسی اجلاس میں ترکی کے صدر رجب طیب اردوان کی تقریر بھی ایک تاریخی حوالہ بن گئی۔ انہوں نے کہا: ’’ہم صرف رکوع میں جھکتے اور سجدے میں گھٹنے ٹیکتے ہیں۔ اس کے علاوہ ہم نہ کبھی جھکتے ہیں اور نہ گھٹنے ٹیکتے ہیں‘‘۔ یہ جملے صرف خطابت نہیں بلکہ امت مسلمہ کی اجتماعی غیرت کو جھنجھوڑنے والے پیغام تھے۔ اردوان نے دو ریاستی حل کی بحث میں فلسطینی مزاحمتی تحریک کو آزادی کی تحریک قرار دیا اور کہا کہ اسے دہشت گردی کا نام دینا ظلم ہے۔ ان کا یہ مؤقف امت کی سب سے مضبوط اور واضح آواز کے طور پر ابھرا، کیونکہ باقی بیش تر مسلم حکمران خاموشی یا مصلحت پسندی کی سیاست میں الجھے ہوئے ہیں۔

ان تقاریر کے شور میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا پیش کردہ منصوبہ بھی زیر ِ بحث رہا۔ اسے ’’شہر عزیمت منصوبہ‘‘ کہا جا رہا ہے، جو بظاہر غزہ کی تعمیر ِ نو اور جنگ بندی پر مبنی ہے مگر دراصل یہ ایک سازش ہے تاکہ خلیجی ممالک کو اسرائیل کے مفادات کا مہرہ بنایا جا سکے۔ منصوبے کے اہم نکات میں یہ شامل ہے کہ غزہ کی تعمیر نو خلیجی دولت سے ہوگی، خلیجی افواج تعینات ہوں گی، اور وہاں ایک ایسی حکومت قائم کی جائے گی جس میں مزاحمتی قوتوں کے لیے کوئی جگہ نہ ہو۔ یہ منصوبہ صاف طور پر اسرائیل کے حق میں ہے، کیونکہ اس میں نہ جنگ بندی کی ضمانت ہے، نہ آبادکاری روکنے کا کوئی ذکر، نہ القدس کے تحفظ کی کوئی شق۔ گویا یہ غزہ کے عوام کو ایک نئے قید خانے میں دھکیلنے کی سازش ہے۔ ٹرمپ کے اس منصوبے کے ساتھ ساتھ اقوامِ متحدہ میں دو ریاستی فارمولے پر ووٹنگ بھی جاری ہے۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ اگرچہ یہ فارمولا کمزور اور غیر مؤثر ہے، مگر پھر بھی اسرائیل اور ٹرمپ دونوں اسے تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اصل ہدف فلسطینی ریاست کو کسی نہ کسی بہانے سبوتاژ کرنا ہے۔ اسی تناظر میں ’’اعلانِ نیویارک‘‘ سامنے آیا، جو سعودی عرب اور فرانس کی مشترکہ کاوشوں کا نتیجہ ہے۔ اس اعلامیے میں کہا گیا کہ غزہ میں حماس کی حکمرانی ختم کی جائے، ہتھیار ضبط ہوں اور فلسطینی اتھارٹی کو اقتدار منتقل کیا جائے۔ ساتھ ہی فوری جنگ بندی، قیدیوں کی رہائی اور اسرائیلی انخلا کی بات کی گئی۔ یہ اعلامیہ بظاہر فلسطینی ریاست کے قیام کی جانب پیش رفت دکھاتا ہے مگر اس کے اندر وہی پرانی سازشیں چھپی ہیں۔ غیر مسلح ریاست کی جھلک نمایاں ہے، جسے فلسطینی کبھی تسلیم نہیں کریں گے۔ حماس نے اگرچہ عالمی کانفرنس کا خیر مقدم کیا مگر ساتھ ہی یہ شرط بھی رکھی کہ اسرائیل کو مستقل جنگ بندی اور مکمل انخلا پر مجبور کیا جائے۔

یہ ساری صورتِ حال فلسطین کے گرد امید اور خوف کے دھارے بہا رہی ہے۔ ایک طرف دنیا کے بڑے ممالک؛ فرانس، برطانیہ، کینیڈا، پرتگال، ڈنمارک فلسطین کو تسلیم کر چکے ہیں۔ جاپان، جنوبی کوریا، اٹلی اور جرمنی ابھی باقی ہیں۔ یہ ایک بڑی سفارتی کامیابی ہے، جس نے اسرائیل کو عالمی سطح پر تنہا کر دیا ہے۔ مگر دوسری طرف امریکی اور اسرائیلی ضد اس خواب کو حقیقت بننے سے روک رہی ہے۔ غیر مسلح فلسطینی ریاست کا تصور مزاحمتی تحریک کے لیے ناقابل ِ قبول ہے۔ کیونکہ ایسی ریاست دراصل ایک جیل ہوگی جس پر اسرائیل ہر وقت حملہ آور ہو سکے گا۔

اہل ِ غزہ کی قربانیاں اس سارے منظرنامے کی اصل بنیاد ہیں۔ اگر وہ کفن باندھ کر میدان میں نہ نکلتے تو فلسطین کا ذکر بھی تاریخ کے اوراق میں دب جاتا۔ آج فلسطین دنیا کے ایجنڈے پر ہے تو اس کی قیمت لاکھوں شہداء اور لاکھوں زخمیوں نے چکائی ہے۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ یہی فرانس اور برطانیہ تھے جنہوں نے جنگ ِ عظیم دوم کے بعد مشرقِ وسطیٰ کے حصے بخرے کیے اور اسرائیل کے قیام کی راہ ہموار کی۔ آج وہی ممالک فلسطینی ریاست کی حمایت پر مجبور ہیں۔ یہ تاریخ کا پلٹا ہوا ورق ہے۔ مظلوم کی آہ اور خون کی لالی آخر کار عالمی سیاست کے رنگ بدل دیتی ہے۔ اقوامِ متحدہ کا حالیہ اجلاس یہ ثابت کرتا ہے کہ فلسطین کا مسئلہ اب دنیا کا مرکزی نکتہ بن چکا ہے۔ شام کی نئی قیادت کی واپسی، کولمبیا کے صدر کی جرأت مندانہ تقریر، اردوان کا دو ٹوک مؤقف، ٹرمپ کے سازشی منصوبے کی مخالفت اور فلسطین کی عالمی سطح پر بڑھتی ہوئی حمایت۔ یہ سب اس بات کے اشارے ہیں کہ تاریخ ایک نئے موڑ پر ہے۔

مگر امتحان ابھی باقی ہے۔ خلیجی ممالک پر دباؤ ہے کہ وہ ٹرمپ کے منصوبے کے مطابق اسرائیل کے مہرے بنیں۔ مغرب فلسطین کو ایک غیر مسلح ریاست کے خول میں بند کرنا چاہتا ہے۔ امریکا اب بھی اسرائیل کے ساتھ کھڑا ہے۔ ایسے میں امت مسلمہ کو یہ فیصلہ کرنا ہوگا کہ کیا وہ خاموش تماشائی بنی رہے گی یا اہل ِ غزہ کے لہو کا قرض اتارے گی۔ دنیا نے سفارتی سطح پر فلسطین کو تسلیم کرنا شروع کر دیا ہے، مگر حقیقی آزادی تبھی آئے گی جب فلسطین کے عوام اپنی تقدیر کے فیصلے خود کریں گے، نہ کہ عالمی طاقتیں۔ اہل ِ غزہ نے اپنے لہو سے دنیا کو جگایا ہے۔ اب دنیا کے ایوانوں میں فلسطین کی صدائیں گونج رہی ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا یہ صدائیں محض سفارتی شور ثابت ہوں گی یا ایک آزاد فلسطین کی اذان میں ڈھل جائیں گی؟ وقت ہی اس کا فیصلہ کرے گا، مگر تاریخ کے صفحات پر فلسطین کے حق میں لکھا جا چکا ہے۔

میر بابر مشتاق سیف اللہ.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: فلسطینی ریاست اسرائیل کو اسرائیل کے فلسطین کے انہوں نے دنیا کے غزہ کی کے صدر کے لیے

پڑھیں:

ابراہم معاہدے کا حصہ بننا چاہتے ہیں، فلسطین کا دو ریاستی حل یقینی بنانا ہوگا، سعودی ولی عہد

واشنگٹن:

سعودی ولی عہد محمد بن سلمان نے واضح کیا ہے کہ سعودی عرب خطے میں پائیدار امن اور استحکام کے لیے ابراہم معاہدے کا حصہ بننے میں دلچسپی رکھتا ہے، تاہم انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ اس کے لیے فلسطین کے دو ریاستی حل کی ضمانت ناگزیر ہے۔

وائٹ ہاؤس میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور سعودی ولی عہد محمد بن سلمان نے مشترکہ میڈیا گفتگو میں دو طرفہ تعلقات، خطے میں امن کی کوششوں، دفاعی تعاون اور سرمایہ کاری کے مستقبل پر اہم اعلانات کیے۔

صدر ٹرمپ نے سعودی ولی عہد کو خوش آمدید کہتے ہوئے انہیں مستقبل کا بادشاہ قرار دیا اور کہا کہ وہ محمد بن سلمان کو ہمیشہ ایک بہترین اور قابل رہنما سمجھتے ہیں۔

مزید پڑھیں: سعودی ولی عہد ٹرمپ سے ملنے امریکا پہنچ گئے؛ لڑاکا طیاروں نے سلامی دی

انہوں نے یہ بھی کہا کہ سعودی ولی عہد ان کے اچھے دوست ہیں اور انسانی حقوق سمیت مختلف شعبوں میں انہوں نے قابلِ ذکر کام کیا ہے۔ صدر ٹرمپ نے شاہ سلمان کے لیے بھی گہرا احترام ظاہر کیا۔

امریکی صدر نے اعلان کیا کہ امریکا اور سعودی عرب کے درمیان دفاعی تعاون کا ایک اہم معاہدہ طے پا گیا ہے، جس کے تحت امریکا سعودی عرب کو جدید ایف 35  لڑاکا طیارے فروخت کرے گا۔ انہوں نے کہا کہ سعودی عرب ان طیاروں کے حصول کی مضبوط پوزیشن میں ہے۔

ٹرمپ نے مزید تصدیق کی کہ سعودی ولی عہد کی درخواست پر امریکا شام پر عائد پابندیاں ہٹانے کا عمل شروع کر رہا ہے۔

صدر ٹرمپ نے دعویٰ کیا کہ وائٹ ہاؤس واپسی کے بعد وہ امریکا میں 21 کھرب ڈالر کی سرمایہ کاری لا چکے ہیں، جبکہ سعودی تعاون سے مزید ملازمتوں کے دروازے کھلیں گے، انہوں نے کہا کہ امریکا کے تیل ذخائر دوبارہ تعمیر کیے جا رہے ہیں۔

اس موقع پر سعودی ولی عہد نے اعلان کیا کہ کمپیوٹنگ، چِپس اور سیمی کنڈکٹرز کے شعبوں میں بڑی سرمایہ کاری کی جائے گی، جب کہ مصنوعی ذہانت میں امریکا کے ساتھ تعاون کو مستقبل کے اہم مواقع قرار دیا۔

ٹرمپ نے بھی امریکا میں سعودی سرمایہ کاری کو قابلِ قدر قرار دیا اور کہا کہ تعاون کے مزید مواقع سامنے آ رہے ہیں۔

صدر ٹرمپ نے کہا کہ انہوں نے ایران کے جوہری پروگرام کو نشانہ بنایا، اور کوئی اور امریکی صدر ایسا نہ کرتا۔ ان کے مطابق مشرقِ وسطیٰ میں سعودی عرب کے ساتھ دفاعی اور سیکیورٹی تعاون امن کے قیام میں بنیادی کردار ادا کرے گا۔

ٹرمپ نے مزید کہا کہ انہوں نے اپنی مدت میں 8 جنگیں رکوائیں جن میں پاکستان اور بھارت کے درمیان ممکنہ جنگ روکنے کا دعویٰ بھی شامل ہے۔

سعودی ولی عہد محمد بن سلمان نے کہا کہ وہ امریکا کے ساتھ وسیع تر مشترکہ کام کے امکانات دیکھتے ہیں جبکہ صدر ٹرمپ کی امن کوششیں قابلِ تحسین ہیں۔

انہوں نے واضح کیا کہ سعودی عرب ابراہم معاہدے کا حصہ بننے میں دلچسپی رکھتا ہے، مگر اس کے لیے فلسطین کے دو ریاستی حل تک جانے والا راستہ یقینی بنانا لازمی ہے۔

صدر ٹرمپ نے بتایا کہ انہوں نے سعودی ولی عہد کے ساتھ مشرقِ وسطیٰ میں امن کے امکانات پر تفصیلی بات چیت کی، جسے دونوں ممالک خطے کے استحکام کے لیے اہم سمجھتے ہیں۔

متعلقہ مضامین

  • ابراہم معاہدے کا حصہ بننا چاہتے ہیں، فلسطین کا دو ریاستی حل یقینی بنانا ہوگا، سعودی ولی عہد
  • ہم فلسطین اور اسرائیل کیلئے امن اور ابراہیم معاہدے کا حصہ بننا چاہتے ہیں، محمد بن سلمان
  • ’اسرائیل کے خلاف مزاحمت کو جائز سمجھتے ہیں‘، حماس نے غزہ سے متعلق سلامتی کونسل کی قرارداد مسترد کردی
  • سلامتی کونسل میں صدر ٹرمپ کے غزہ منصوبے کی حمایت میں قرارداد منظور
  • سلامتی کونسل اجلاس، حماس نے ٹرمپ کے امن منصوبے کی قرارداد کے مسودے کو مسترد کر دیا
  • سلامتی کونسل اجلاس، حماس نے ٹرمپ کے امن منصوبے کی قرارداد کے مسودے کو مسترد کردیا
  • سکیورٹی کونسل ووٹنگ سے قبل اسرائیل کا ایک بار پھر فلسطین کو قبول نہ کرنے کا اعلان
  • سیکورٹی کونسل ووٹنگ سے قبل اسرائیل کا ایک بار پھر فلسطین کو قبول نہ کرنے کا اعلان
  • سلامتی کونسل میں ٹرمپ کے غزہ امن منصوبے کی توثیق پر ووٹنگ متوقع، مسودے میں کیا کیا ہے؟
  • مسئلہ فلسطین اجاگر کرنے کے لیے اسپین اور فلسطینی فٹبال ٹیموں کے میچز کا انعقاد