Jasarat News:
2025-10-04@16:52:27 GMT

فلسطین: جنرل اسمبلی سے ٹرمپ منصوبے تک

اشاعت کی تاریخ: 2nd, October 2025 GMT

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

251002-03-6
اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی کا حالیہ اجلاس بظاہر دنیا کے معمول کے سفارتی اجتماع کی ایک اور قسط تھا، مگر اس بار جو مناظر دیکھنے کو ملے وہ غیر معمولی اور تاریخی اہمیت کے حامل تھے۔ دہائیوں سے دبے ہوئے مسائل، مسخ شدہ سچائیاں اور دنیا کے طاقتوروں کی منافقت اس اجلاس میں کھل کر سامنے آئی۔ فلسطین کے مسئلے پر جو لہریں اٹھیں، انہوں نے اسرائیل کے استبداد کو بے نقاب کیا اور دنیا کے مختلف خطوں سے نئی امید کی کرن بھی دکھائی۔ اجلاس کا سب سے اہم لمحہ وہ تھا جب شام کے صدر احمد الشرع نے پہلی بار جنرل اسمبلی سے خطاب کیا۔ یہ تقریباً ساٹھ برس بعد کسی شامی صدر کی واپسی تھی۔ ان کے خطاب میں صرف ایک ریاستی موقف نہیں بلکہ ایک نئی تاریخ کی جھلک تھی۔ انہوں نے کہا کہ شام چھے دہائیوں تک ایک جابر نظام کے سائے میں رہا، جہاں ایک ملین انسان قتل ہوئے، دو ملین سے زائد گھر اجڑے اور عوام کو آزادی کے لیے خون دینا پڑا۔ احمد الشرع نے دنیا کو یاد دلایا کہ آج کا شام جبر و استبداد کے سائے سے نکل کر انصاف اور تعمیر ِ نو کی طرف بڑھ رہا ہے۔ صدر نے اپنے خطاب میں شہداء کی ماؤں، لاپتا افراد کے لواحقین اور مظلوم عوام کے ساتھ انصاف کا وعدہ کیا۔ انہوں نے اعلان کیا کہ جن کے ہاتھ خون سے رنگے ہیں انہیں قانون کے کٹہرے میں لایا جائے گا۔ یہ الفاظ ایک ایسے شام کی عکاسی کرتے ہیں جو ماضی کے سائے سے نکل کر ایک نئی ریاستی تشکیل کا خواہاں ہے۔ خارجہ پالیسی کے حوالے سے انہوں نے واضح پیغام دیا کہ شام بات چیت اور سفارت کاری پر یقین رکھتا ہے، مگر ساتھ ہی پابندیوں کے خاتمے پر زور دیتے ہوئے دنیا کو یہ باور کرایا کہ اقتصادی و سیاسی دباؤ کسی بھی ریاست کو جھکانے کا پائیدار حل نہیں۔ فلسطین کے مسئلے پر احمد الشرع نے اہل ِ غزہ کی بھرپور حمایت اور فوری جنگ بندی کا مطالبہ کیا۔ ان کا یہ موقف شام کی نئی قیادت کو خطے کی مزاحمتی سیاست سے جوڑتا ہے۔

اسی اجلاس میں کولمبیا کے صدر گستاوو پیٹرو کی تقریر نے سفارتی ایوانوں میں ہلچل مچا دی۔ انہوں نے اسرائیل کو نازیوں سے تشبیہ دی اور مطالبہ کیا کہ ایشیائی ممالک ایک بین الاقوامی فوج تشکیل دیں جو فلسطین کے دفاع کے لیے کھڑی ہو۔ یہ بیانات محض الفاظ نہیں تھے بلکہ مغرب کے استحصالی رویے پر کھلا چیلنج تھے۔ پیٹرو نے دوٹوک کہا کہ اسرائیل کو اسلحہ لے جانے والا کوئی جہاز اب نہیں گزرنے دیا جائے گا۔ یہ وہی کولمبیا ہے جو ماضی میں امریکی پالیسیوں کا قریب ترین اتحادی رہا، مگر آج اس کے صدر نے فلسطین کے حق میں وہ بات کی جس کی جرأت بڑے بڑے مسلم حکمران بھی نہیں کر پاتے۔ یہ عالمی سیاست میں طاقت کے توازن کے بدلنے کا اشارہ ہے۔

اسی اجلاس میں ترکی کے صدر رجب طیب اردوان کی تقریر بھی ایک تاریخی حوالہ بن گئی۔ انہوں نے کہا: ’’ہم صرف رکوع میں جھکتے اور سجدے میں گھٹنے ٹیکتے ہیں۔ اس کے علاوہ ہم نہ کبھی جھکتے ہیں اور نہ گھٹنے ٹیکتے ہیں‘‘۔ یہ جملے صرف خطابت نہیں بلکہ امت مسلمہ کی اجتماعی غیرت کو جھنجھوڑنے والے پیغام تھے۔ اردوان نے دو ریاستی حل کی بحث میں فلسطینی مزاحمتی تحریک کو آزادی کی تحریک قرار دیا اور کہا کہ اسے دہشت گردی کا نام دینا ظلم ہے۔ ان کا یہ مؤقف امت کی سب سے مضبوط اور واضح آواز کے طور پر ابھرا، کیونکہ باقی بیش تر مسلم حکمران خاموشی یا مصلحت پسندی کی سیاست میں الجھے ہوئے ہیں۔

ان تقاریر کے شور میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا پیش کردہ منصوبہ بھی زیر ِ بحث رہا۔ اسے ’’شہر عزیمت منصوبہ‘‘ کہا جا رہا ہے، جو بظاہر غزہ کی تعمیر ِ نو اور جنگ بندی پر مبنی ہے مگر دراصل یہ ایک سازش ہے تاکہ خلیجی ممالک کو اسرائیل کے مفادات کا مہرہ بنایا جا سکے۔ منصوبے کے اہم نکات میں یہ شامل ہے کہ غزہ کی تعمیر نو خلیجی دولت سے ہوگی، خلیجی افواج تعینات ہوں گی، اور وہاں ایک ایسی حکومت قائم کی جائے گی جس میں مزاحمتی قوتوں کے لیے کوئی جگہ نہ ہو۔ یہ منصوبہ صاف طور پر اسرائیل کے حق میں ہے، کیونکہ اس میں نہ جنگ بندی کی ضمانت ہے، نہ آبادکاری روکنے کا کوئی ذکر، نہ القدس کے تحفظ کی کوئی شق۔ گویا یہ غزہ کے عوام کو ایک نئے قید خانے میں دھکیلنے کی سازش ہے۔ ٹرمپ کے اس منصوبے کے ساتھ ساتھ اقوامِ متحدہ میں دو ریاستی فارمولے پر ووٹنگ بھی جاری ہے۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ اگرچہ یہ فارمولا کمزور اور غیر مؤثر ہے، مگر پھر بھی اسرائیل اور ٹرمپ دونوں اسے تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اصل ہدف فلسطینی ریاست کو کسی نہ کسی بہانے سبوتاژ کرنا ہے۔ اسی تناظر میں ’’اعلانِ نیویارک‘‘ سامنے آیا، جو سعودی عرب اور فرانس کی مشترکہ کاوشوں کا نتیجہ ہے۔ اس اعلامیے میں کہا گیا کہ غزہ میں حماس کی حکمرانی ختم کی جائے، ہتھیار ضبط ہوں اور فلسطینی اتھارٹی کو اقتدار منتقل کیا جائے۔ ساتھ ہی فوری جنگ بندی، قیدیوں کی رہائی اور اسرائیلی انخلا کی بات کی گئی۔ یہ اعلامیہ بظاہر فلسطینی ریاست کے قیام کی جانب پیش رفت دکھاتا ہے مگر اس کے اندر وہی پرانی سازشیں چھپی ہیں۔ غیر مسلح ریاست کی جھلک نمایاں ہے، جسے فلسطینی کبھی تسلیم نہیں کریں گے۔ حماس نے اگرچہ عالمی کانفرنس کا خیر مقدم کیا مگر ساتھ ہی یہ شرط بھی رکھی کہ اسرائیل کو مستقل جنگ بندی اور مکمل انخلا پر مجبور کیا جائے۔

یہ ساری صورتِ حال فلسطین کے گرد امید اور خوف کے دھارے بہا رہی ہے۔ ایک طرف دنیا کے بڑے ممالک؛ فرانس، برطانیہ، کینیڈا، پرتگال، ڈنمارک فلسطین کو تسلیم کر چکے ہیں۔ جاپان، جنوبی کوریا، اٹلی اور جرمنی ابھی باقی ہیں۔ یہ ایک بڑی سفارتی کامیابی ہے، جس نے اسرائیل کو عالمی سطح پر تنہا کر دیا ہے۔ مگر دوسری طرف امریکی اور اسرائیلی ضد اس خواب کو حقیقت بننے سے روک رہی ہے۔ غیر مسلح فلسطینی ریاست کا تصور مزاحمتی تحریک کے لیے ناقابل ِ قبول ہے۔ کیونکہ ایسی ریاست دراصل ایک جیل ہوگی جس پر اسرائیل ہر وقت حملہ آور ہو سکے گا۔

اہل ِ غزہ کی قربانیاں اس سارے منظرنامے کی اصل بنیاد ہیں۔ اگر وہ کفن باندھ کر میدان میں نہ نکلتے تو فلسطین کا ذکر بھی تاریخ کے اوراق میں دب جاتا۔ آج فلسطین دنیا کے ایجنڈے پر ہے تو اس کی قیمت لاکھوں شہداء اور لاکھوں زخمیوں نے چکائی ہے۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ یہی فرانس اور برطانیہ تھے جنہوں نے جنگ ِ عظیم دوم کے بعد مشرقِ وسطیٰ کے حصے بخرے کیے اور اسرائیل کے قیام کی راہ ہموار کی۔ آج وہی ممالک فلسطینی ریاست کی حمایت پر مجبور ہیں۔ یہ تاریخ کا پلٹا ہوا ورق ہے۔ مظلوم کی آہ اور خون کی لالی آخر کار عالمی سیاست کے رنگ بدل دیتی ہے۔ اقوامِ متحدہ کا حالیہ اجلاس یہ ثابت کرتا ہے کہ فلسطین کا مسئلہ اب دنیا کا مرکزی نکتہ بن چکا ہے۔ شام کی نئی قیادت کی واپسی، کولمبیا کے صدر کی جرأت مندانہ تقریر، اردوان کا دو ٹوک مؤقف، ٹرمپ کے سازشی منصوبے کی مخالفت اور فلسطین کی عالمی سطح پر بڑھتی ہوئی حمایت۔ یہ سب اس بات کے اشارے ہیں کہ تاریخ ایک نئے موڑ پر ہے۔

مگر امتحان ابھی باقی ہے۔ خلیجی ممالک پر دباؤ ہے کہ وہ ٹرمپ کے منصوبے کے مطابق اسرائیل کے مہرے بنیں۔ مغرب فلسطین کو ایک غیر مسلح ریاست کے خول میں بند کرنا چاہتا ہے۔ امریکا اب بھی اسرائیل کے ساتھ کھڑا ہے۔ ایسے میں امت مسلمہ کو یہ فیصلہ کرنا ہوگا کہ کیا وہ خاموش تماشائی بنی رہے گی یا اہل ِ غزہ کے لہو کا قرض اتارے گی۔ دنیا نے سفارتی سطح پر فلسطین کو تسلیم کرنا شروع کر دیا ہے، مگر حقیقی آزادی تبھی آئے گی جب فلسطین کے عوام اپنی تقدیر کے فیصلے خود کریں گے، نہ کہ عالمی طاقتیں۔ اہل ِ غزہ نے اپنے لہو سے دنیا کو جگایا ہے۔ اب دنیا کے ایوانوں میں فلسطین کی صدائیں گونج رہی ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا یہ صدائیں محض سفارتی شور ثابت ہوں گی یا ایک آزاد فلسطین کی اذان میں ڈھل جائیں گی؟ وقت ہی اس کا فیصلہ کرے گا، مگر تاریخ کے صفحات پر فلسطین کے حق میں لکھا جا چکا ہے۔

میر بابر مشتاق سیف اللہ.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: فلسطینی ریاست اسرائیل کو اسرائیل کے فلسطین کے انہوں نے دنیا کے غزہ کی کے صدر کے لیے

پڑھیں:

ٹرمپ کا فلسطین فارمولا، مجرم ہی منصف!

اسلام ٹائمز: میں یہاں یہ بھی واضح کرنا چاہتا ہوں کہ کچھ لوگ سوچتے ہیں کہ جب اسرائیل کا مقابلہ نہیں کرسکتے تھے تو حماس نے جنگ شروع کیوں کی۔ یاد رکھیں، جنگیں بہادری، قربانی اور اصولوں کے بغیر نہیں لڑی جا سکتیں۔ آزادی کی تحریکوں میں انسانی قربانیوں کی نہیں مقصد اور کاز کی اہمیت کو دیکھا جاتا ہے، جس کیلئے قربانیاں دی جا رہی ہوتی ہیں۔ تحریر: سید منیر حسین گیلانی

کافی عرصے بعد غزہ میں جاری انسانیت سوز بربریت کے مسئلے پر صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے حماس اسرائیل جنگ ختم کرنے کیلئے 20 نکاتی فارمولا دیا ہے۔ پہلے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس کے موقع پر عرب اور غیر غرب مسلم ممالک کے سربراہوں کے سامنے یہ فارمولا پیش کیا گیا اور پھر کچھ دنوں بعد درندہ صفت اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو کو اپنے ہاں بلا کر اسے اعتماد میں لیا۔ پھر دونوں نے مشترکہ پریس کانفرنس کی۔ نیتن یاہو کی پریس کانفرنس کو نمایاں طور پر عالمی میڈیا پر دکھایا گیا، جس میں اس نے حماس کیساتھ جنگ بندی کے نکات پڑھ کر سنائے۔ اس کی تفصیلات آج دنیا کے سامنے آچکی ہیں اور تبصرے جاری ہیں۔ ان نکات میں دو ریاستی فارمولے کا کہیں کوئی ذکر تک نہیں، جس پر میاں شہباز شریف اور دوسرے رہنماء بغلیں بجا رہے تھے کہ ہم نے آزاد فلسطینی ریاست کے قیام کی راہ ہموار کر دی ہے۔ میں حیران ہوں کہ یورپ کے چند ممالک نے جب فلسطین کو تسلیم کیا تو اعلان کیا کہ وہ مشرق وسطیٰ میں امن کی خاطر انسانیت کے نام پر دو ریاستی حل کروائیں گے، لیکن ٹرمپ کے امن فارمولے میں اس کا ذکر نہ ہونے پر کسی نے نہ صرف کوئی احتجاج نہیں کیا، بلکہ امریکہ کی تعریف کے پل باندھ رہے ہیں۔

میں کسی اور کی بات کیسے کروں؟ میں تو اپنے محبوب وزیراعظم شہباز شریف اور آرمی چیف فیلڈ مارشل سید عاصم منیر کا ذکر کرتا ہوں کہ پاکستان کی دونوں طاقتور شخصیات نے ٹرمپ سے ملاقاتیں کیں، خوشگوار موڈ اور قہقہوں کو بار بار میڈیا پر دکھایا گیا، وزیراعظم نے اس امن فارمولے کے منظر عام پر آنے سے بھی پہلے ہی اس کی حمایت کر دی تھی اور ٹرمپ کی تعریفوں کے پل باندھنا شروع کر دیئے تھے، اسی طرح کی کیفیت سعودی عرب کی طرف سے دیکھنے کو ملی، حالانکہ اس میں دور یاستی حل کا اشارہ تک نہیں، حتیٰ کہ فلسطینیوں کے حق آزادی تک کی کوئی بات اس دستاویز میں شامل نہیں۔ میں اس بات پر بھی تعجب کی کیفیت سے گزر رہا ہوں کہ اس فارمولے میں دو ریاستی حل کی تو کوئی بات نہیں، صرف جنگ بندی اور صیہونی قیدیوں کی رہائی زندہ یا مردہ کو ترجیح نمبر ایک پر رکھا گیا ہے اور وہ دو ممالک جو اسرائیل کی سرپرستی کرنے کی وجہ سے فریق ہیں اور لڑائی کی وجہ بنے ہوئے ہیں، انہیں کی دو شخصیات کو امن قائم کرنے کیلئے کردار دیا جا رہا ہے۔

بتایا جا رہا ہے کہ زمانہ کا مکار اور جھوٹا شخص برطانیہ کا سابق وزیراعظم ٹونی بلیئر غزہ ترقیاتی کمیٹی کا سربراہ ہوگا۔ ٹونی بلیئر وہ شخص ہے، جس نے جھوٹ بول کر عراق پر حملہ کروایا، جس میں ہزاروں بیگناہ انسان قتل، زخمی اور بےگھر ہوئے۔ اب وہ فلسطینیوں کی فلاح و بہبود کی کمیٹی کا رکن ہوگا۔ پنجابی کی کہاوت ہے:
 "گدڑ کھکھڑیاں دے رکھوالے" یعنی گیدڑ خربوزے کے کھیت کی رکھوالی کرنیوالے بن گئے۔ حیران کن بات ہے کہ اس جنگ میں معصوم انسانوں کی قتل و غارت گری میں شریک رہنے والی صیہونی حکومت کی ظلم و بربریت پر سزا دینے، فلسطینیوں کی تباہ حال آبادیوں اور معیشت کی بحالی کیلئے کوئی جرمانہ اسرائیل کو ادا کرنے کا نہیں کہا گیا، بلکہ سعودی عرب اور قطر جیسے موثر مسلم ممالک وسائل دیں گے۔ یہ حقیقت ہے کہ اس وقت تک دو ریاستی فارمولا آگے نہیں بڑھے گا، جب تک کہ قابض صیہونی اسرائیلی فوج کو یہاں سے نکال نہیں دیا جاتا۔ چاہیئے تو یہ تھا کہ مغربی کنارے کا وہ حصہ جس میں بیت المقدس ہے، وہ فلسطین کا دارالحکومت بنایا جاتا، صیہونی حکومت سے آزاد کروا کر فلسطینیوں کے حوالے کیا جاتا، لیکن ایسی کوئی بات سامنے نہیں آرہی۔

فلسطینیوں کی حالیہ جدوجہد کو دو سال مکمل ہونیوالے ہیں۔ میں ان شہداء اور مجاہدین کو سلام پیش کرتا ہوں، جنہوں نے 7 اکتوبر 2023ء کو ”طوفان الاقصیٰ“ کے نام سے آپریشن اپنے اس استحقاق کے ساتھ شروع کیا کہ اقوام متحدہ کا چارٹر انہیں حق دیتا ہے کہ وہ اپنی سرزمین سے قبضہ چھڑوانے کیلئے مسلح جدوجہد کریں۔ اس دو سالہ جدوجہد کے دوران حزب اللہ اور حماس کی قیادت سید حسن نصراللہ، سید ہاشم صفی الدین، اسماعیل ہنیہ، یحییٰ سنوار سمیت 66 ہزار بے گناہ فلسطینی شہید ہوئے۔ ایران پر اسرائیل اور امریکہ نے حملے کیے، ایران نے بھی ان کو بھرپور جواب دیا اور اس مفروضے کو پاش پاش کر دیا کہ اسرائیل اور امریکہ پر کوئی حملہ نہیں کرسکتا۔ ہم سمجھتے ہیں کہ فلسطینیوں کی جدوجہد سرزمین بیت المقدس کی آزادی تک جاری رہے گی۔ میں یہاں یہ بھی واضح کرنا چاہتا ہوں کہ کچھ لوگ سوچتے ہیں کہ جب اسرائیل کا مقابلہ نہیں کرسکتے تھے تو حماس نے جنگ شروع کیوں کی۔ یاد رکھیں، جنگیں بہادری، قربانی اور اصولوں کے بغیر نہیں لڑی جا سکتیں۔ آزادی کی تحریکوں میں انسانی قربانیوں کی نہیں مقصد اور کاز کی اہمیت کو دیکھا جاتا ہے، جس کیلئے قربانیاں دی جا رہی ہوتی ہیں۔

میں یہاں یہ بھی لوگوں کو یاد دہانی کروانا چاہوں گا کہ کربلا کو سمجھے بغیر کسی تحریک آزادی کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ 60 ہجری میں واضح تھا کہ یزیدی حکومت اور فوج کا مقابلہ امام حسین علیہ السلام کے 72 ساتھی نہیں کرسکتے، مگر امام عالی مقام کو اپنے نانا کے دین کے تحفظ کا مقصد عزیز تھا۔ تو انہوں نے قربانی دی۔ آج ایک مسلم ملک کی آزادی کیلئے مزید فلسطینیوں کی قربانیاں دینا پڑیں تو یہ مہنگا سودا نہیں۔ میں پاکستانی عوام اور ہر غیرت مند انسان سے گزارش کروں گا کہ پاکستان کی حکومت اور فوج سے مطالبہ کریں کہ آزاد فلسطینی ریاست کے قیام کے بغیر کسی بھی فارمولے کو رد کریں اور مجوزہ دستاویز میں اپنی طرف سے ترمیم کرکے ہم نوا ساتھی مملکتوں کیساتھ سفارتی سطح پر ایسا متفقہ لائحہ عمل اختیار کریں، جو فلسطینی عوام کو قابل قبول ہو اور مشرق وسطیٰ میں پائیدار امن کی ضمانت دے۔

متعلقہ مضامین

  • حماس یرغمالیوں کی رہائی کے لیے رضا مند
  • قائد اعظم کا اسرائیل پر موقف مشعل راہ، امن منصوبے پر پاکستان کے بھی تحفظات، ایکسپریس فورم
  • ٹرمپ کا فلسطین فارمولا، مجرم ہی منصف!
  • ٹرمپ کے امن منصوبے کی حمایت فلسطینیوں کیساتھ خیانت ہے، علامہ جواد نقوی
  • شہباز ٹرمپ ملاقات اور جنرل اسمبلی سے خطاب
  • غزہ ، صدر ٹرمپ پلان
  • امن منصوبے کے نام پر 2 ریاستی فارمولے کو مسترد کرتے ہیں، وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا
  • ٹرمپ منصوبے میں ہماری پیش کردہ ترمیم نہ کی گئی تو ناکام ہو جائیگا، جہاد اسلامی فلسطین
  • امن منصوبے کے نام پر 2 ریاستی فارمولے کو مسترد کرتے ہیں، وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا