مصنوعی ذہانت کے عدلیہ میں استعمال سے متعلق جسٹس اسحاق کا خط سامنے آگیا
اشاعت کی تاریخ: 6th, October 2025 GMT
مصنوعی ذہانت کے عدلیہ میں استعمال سے متعلق جسٹس اسحاق کا خط سامنے آگیا WhatsAppFacebookTwitter 0 6 October, 2025 سب نیوز
اسلام آباد:(آئی پی ایس)
مصنوعی ذہانت کے عدلیہ میں استعمال کے معاملے پر جسٹس سردار اعجاز اسحاق خان کا فل کورٹ میٹنگ سے متعلق خط سامنے آگیا۔
چیف جسٹس سرفراز ڈوگر کے نام لکھے خط کی کاپی تمام ججز کو بھی ارسال کی گئیں۔ جسٹس سردار اعجاز اسحاق خان نے فل کورٹ میٹنگ سے متعلق خط لکھا۔
خط میں جسٹس اسحاق نے لکھا کہ دنیا میں مصنوعی ذہانت کا استعمال عدلیہ میں شد و مد سے زیر بحث ہے لیکن مصنوعی ذہانت کے عدلیہ میں استعمال کے مخالفین کا کہنا ہے کہ یہ programmable ہے اور اس لیے جو روبوٹ کرسی انصاف پر منصب کیے جائیں وہ programmable کے مرہون منت ہوں گے۔
جسٹس اسحاق نے خط میں لکھا کہ ان کے فیصلے ہمیشہ ان پروگرامز کے تابع ہوں گے جو ان میں وقتا فوقتاً فیڈ کیے جائیں گے اور یہ کہ کمپیوٹر یا روبوٹ موافق حق یا آزادانہ رائے رکھنے کے قابل نہیں ہوں گے۔
خط میں جسٹس اسحاق نے لکھا کہ اس سے قبل میں اس نُقْطَۂ نَظَر سے اتفاق نہیں کرتا تھا لیکن فل کورٹ میٹنگ کے بعد میرا نُقْطَۂ نَظَر مصنوعی ذہانت کا عدلیہ میں بطور فیصلہ کنندگان استعمال کرنے کے ناقدین کے ساتھ ہم آہنگ ہو چکا ہے۔
جسٹس محسن اختر کیانی اور جسٹس ثمن رفعت امتیاز کی فل کورٹ کی اختلافی آرا سے اتفاق کرتا ہوں۔
روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔
WhatsAppFacebookTwitter پچھلی خبرعمرایوب، شیخ وقاص اکرم اور زرتاج گل کے وارنٹ گرفتاری جاری عمرایوب، شیخ وقاص اکرم اور زرتاج گل کے وارنٹ گرفتاری جاری غزہ جنگ بندی کے فیصلے کی گھڑی آن پہنچی، حماس اسرائیل بالواسطہ مذاکرات آج ہوں گے نواز شریف کے حق میں بیان حلفی، سابق چیف جج گلگت کے خلاف توہین عدالت کیس ختم اسٹاک ایکسچینج میں کاروبار کا تاریخ ساز آغاز؛ انڈیکس نئی بلند ترین سطح پر پہنچ گیا گلوبل صمود فلوٹیلا کے مزید 29 ارکان اسرائیل سے ڈی پورٹ ہوکر اسپین پہنچ گئے پاکستان کے دیوالیہ ہونے کے خدشات میں کمی، مسلسل معاشی بہتری دکھانے والا واحد ملک بن گیا، بلومبرگCopyright © 2025, All Rights Reserved
رابطہ کریں ہماری ٹیم.ذریعہ: Daily Sub News
کلیدی لفظ: مصنوعی ذہانت کے عدلیہ میں استعمال
پڑھیں:
’کیا پتا27 کو میں یہاں ہونگا کہ نہیں‘،جسٹس محسن اختر کیانی کے آئینی عدالت سے متعلق اہم ریمارکس
اسلام آباد ہائی کورٹ میں پولیس تفتیش اور اخراج مقدمہ کے کیس کے دوران جسٹس محسن اختر کیانی نے اہم ریمارکس دیے۔
جسٹس محسن اختر کیانی نے سوال اٹھایا کہ کہیں یہ کیس بھی آئینی عدالت کا تو نہیں بنتا ؟، کیونکہ دنیا میں جہاں جہاں آئینی عدالت قائم ہے وہاں ابتداء میں دائرہ اختیار کا مسئلہ درپیش رہتا ہے۔
جسٹس محسن اختر کیانی نے کہا کہ شروع شروع میں آئینی عدالت کے دائرہ کار کا یہاں بھی مسئلہ رہے گا، جب کیس مقرر ہوگا تو یہاں والے کہیں گے سپریم کورٹ کا دائرہ اختیار ہے ، پھر جب آپ جائیں گے سپریم کورٹ تو وہ کہیں گے آئینی عدالت کا دائرہ کار ہے۔
جسٹس محسن اختر کیانی نے کہا کہ نئی ترمیم کی روشنی میں وکلاء اور ججز کو بھی ان معلومات کا فقدان ہے، نئی ترمیم کو سمجھنے اور عمل درآمد کرنے میں تھوڑا وقت لگے گا۔
اسلام آباد ہائی کورٹ میں لاہور اور بہاولپور سے کم سن بچیوں اور والدہ کے اغوا، سابق چیف ایگزیکٹو افسر پی آئی اے مشرف رسول کے وقاص احمد، سہیل علیم کے ساتھ لین دین کا تنازعے سے متعلق کیس کی سماعت ہوئی۔
وقاص احمد اور سہیل علیم کیخلاف درج مقدمہ خارج کرنے کی درخواست پر سماعت ہوئی، اسلام آباد ہائی کورٹ کی ایف آئی اے کو تحقیقات جاری رکھنے کی ہدایت کی گئی، جسٹس محسن اختر کیانی نے کہا کہ ایف آئی اے اپنی تحقیقات کرکے کوئی فائنل آرڈر جاری نہ کرے ، اسی کیس میں سپریم کورٹ نے ایک فیصلہ معطل کردیا ہے اسکے مطابق چلیں گے۔
جسٹس محسن اختر کیانی نے ریمارکس دیے کہ آئندہ سماعت تک سپریم کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں کاروائی آگے بڑھائیں گے، سپریم کورٹ نے جہاں سے ہمیں روکا ہے اسکو ہاتھ بھی نہیں لگائیں گے۔
دوران سماعت جسٹس محسن اختر کیانی اسلام آباد ، پنجاب پولیس کے اقدامات پر برہم ہوئے اور کہا کہ پانچ جعلی مقدمے کرواکے بچیوں اور عورت کو اغواہ کیا جائے کہاں کا انصاف ہے، مدعی کو آج تک کسی نے دیکھا نہیں جو جعلی پرچے کروا رہا ہے۔
جسٹس محسن کیانی نے کہا کہ پنجاب پولیس کی جانب سے کیے گئے اقدامات کا معاملہ وزیر اعلی پنجاب کو بھیجا تھا، اس کیس میں کم سن بچیاں اور عورت کو اغوا کیا گیا ، وزیر اعلیٰ پنجاب بھی عورت ہیں، معاملہ وزیر اعلیٰ پنجاب کو اس لیے بھیجا تاکہ انھیں پتہ ہو انکی پولیس عورت کے اغوا میں ملوث ہے۔
جسٹس محسن اختر کیانی نے ریمارکس دیے کہ جعلی اور جھوٹے پرچے کرواکے پیسے ریکور نہیں ہوسکتے، جو پرچے آپ نے کروائے ہیں وہ ٹرائل میں دس منٹ میں بھی برقرار نہیں رہ سکیں گے، جرح کے دوران اپنے جعلی پرچے فارغ ہو جائیں گے ، ایسے نہ کریں، جس عورت کو اغوا کیا گیا اسی کے گھر سے سامان چوری کرکے ریکوری ڈال دی گئی۔
جسٹس محسن اختر کیانی نے کہا کہ پٹشنر کوئی صاف آدمی نہیں ہے جس نے اکتیس کروڑ کی جائیداد بیچ دی، ماتحت پولیس اہلکاروں کے ساتھ سینئرز بھی مل جاتے ہیں یہ حیران کن ہے، اس عدالت نے واضح کیا تھا کہ بچیوں اور عورت کا اغوا غلط ہوا ہے، ہمیں پٹشنر سے کوئی ہمدردی نہیں ہے وہ اگرقصور وار ہے تو اسے سزا ملے گی۔
جسٹس محسن اختر کیانی نے کہا کہ ہم نے معاملہ ایف آئی اے کو تحقیقات کے لیے بھیجا تھا،
کسی کو سپورٹ کرنے کا حق میں نہیں جو غیر قانونی کام کرتا ہوں، بنیادی انسانی حقوق کا تحفظ کرنا ہمارا کام ہے کسی کو انوسٹی گیشن سے نہیں روک سکتا، جہاں سے عورت اور بچے اغواہ ہوئے اس جگہ کو دیکھیں اور رپورٹ دیں۔
جسٹس محسن کیانی نے کہا کہ آپ دونوں حضرات سپریم کورٹ کے فیصلے کو بھی دیکھ لیں، جب تک وہاں سے کوئی فیصلہ نہیں آتا ہم بھی کوئی فیصلہ نہیں دینگے۔
وکیل لطیف کھوسہ نے کہا کہ آئندہ سماعت 27 تاریخ کو رکھ لیں ، جسٹس محسن اختر کیانی نے ریمارکس دیے کہ 27 کو کیا پتہ میں یہاں ہونگا بھی کہ نہیں۔
عدالت نے ہدایات کے ساتھ سماعت اگلے ہفتے تک ملتوی کردی، سہیل علیم کی اہلیہ اور تین بچیوں کی لاہور سے خلاف ضابطہ گرفتاری کی گئی تھی۔