ناران میں اب غیر شادی شدہ جوڑے نہیں جاسکتے؟ ’نکاح نامہ چیکنگ‘ کی حقیقت سامنے آگئی
اشاعت کی تاریخ: 7th, October 2025 GMT
گزشتہ چند دنوں سے سوشل میڈیا پر یہ دعویٰ تیزی سے وائرل ہو رہا ہے کہ خیبر پختونخوا کے مشہور سیاحتی مقام ناران میں غیر شادی شدہ جوڑوں کے داخلے پر پابندی عائد کردی گئی ہے، اور پولیس چیک پوسٹوں پر آنے والے جوڑوں سے نکاح نامہ طلب کیا جارہا ہے۔
یہ خبر دیکھتے ہی دیکھتے ہزاروں صارفین تک پہنچی، فیس بک پر ایک پوسٹ میں مبینہ سائن بورڈ کی تصویر شیئر کی گئی جس پر لکھا تھا ’’ناران: داخلے کے لیے نکاح نامہ ضروری ہے‘‘۔
یہ پوسٹ 27 ستمبر کو اپ لوڈ کی گئی تھی، جسے 30 ہزار سے زائد ویوز، 3 ہزار 600 تبصرے اور 1200 شیئرز ملے۔ سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس (سابقہ ٹوئٹر) پر بھی متعدد صارفین نے یہی تصویر شیئر کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ ’’ناران میں غیر شادی شدہ جوڑوں کے داخلے پر پابندی لگا دی گئی ہے۔‘‘
تاہم، مانسہرہ پولیس نے ان تمام دعوؤں کو مکمل طور پر بے بنیاد قرار دیتے ہوئے واضح تردید کر دی ہے۔
ڈسٹرکٹ پولیس افسر (ڈی پی او) شفیع اللہ گنڈا پور نے بتایا کہ ناران میں کسی قسم کی ایسی پابندی موجود نہیں۔ ان کے مطابق ’’یہ خبریں گمراہ کن ہیں، ناران آنے والے تمام سیاحوں کا خیرمقدم کیا جاتا ہے۔‘‘
مانسہرہ پولیس نے اپنے سرکاری فیس بک پیج پر بھی ایک وضاحتی پوسٹ جاری کی جس میں کہا گیا کہ سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والا سائن بورڈ اور نکاح نامے سے متعلق تمام دعوے من گھڑت اور غلط ہیں۔
اسی طرح، تحصیل بالاکوٹ کے اسسٹنٹ کمشنر محمد نادر نے بھی تصدیق کی کہ اس حوالے سے کوئی سرکاری ہدایت جاری نہیں کی گئی۔ ان کے مطابق پولیس کی جانب سے صرف معمول کی جانچ پڑتال (SOPs) کے تحت گاڑیوں کی چیکنگ کی جاتی ہے۔
نتیجتاً، یہ واضح ہوچکا ہے کہ ناران میں داخلے کے لیے نکاح نامہ طلب کرنے کی خبریں جعلی اور من گھڑت ہیں۔ حکام نے شہریوں سے اپیل کی ہے کہ وہ سوشل میڈیا پر گردش کرنے والی ایسی جھوٹی معلومات پر یقین نہ کریں اور صرف سرکاری ذرائع سے تصدیق شدہ معلومات پر انحصار کریں۔
ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: سوشل میڈیا نکاح نامہ
پڑھیں:
اسرائیل کی فنڈنگ سے ایران میں بادشاہت کی بحالی کی آن لائن مہم کا انکشاف
یروشلم اور کینیڈا کی یونیورسٹی آف ٹورنٹو کی مشترکہ تحقیقات میں یہ انکشاف ہوا ہے کہ اسرائیل کی مالی معاونت سے ایران میں بادشاہت کی بحالی کے حق میں آن لائن مہمات چلائی گئیں۔
ان مہمات میں جعلی سوشل میڈیا اکاؤنٹس، مصنوعی ذہانت (AI) سے تیار شدہ تصاویر اور ویڈیوز کے ذریعے ایرانی عوام کو گمراہ کرنے کی کوشش کی گئی۔
تحقیقات کے مطابق یہ ڈیجیٹل مہم رضا پہلوی (ایران کے سابق بادشاہ کے بیٹے) کی تشہیر اور ایرانی حکومت کے خلاف رائے عامہ ہموار کرنے کے لیے چلائی گئی۔ اسرائیلی میڈیا رپورٹس کے مطابق یہ مہم ایک نجی ادارے کے ذریعے چلائی جا رہی تھی جسے اسرائیلی حکومت کی پشت پناہی حاصل تھی۔
ٹورنٹو یونیورسٹی کے Citizen Lab نے اپنی رپورٹ میں بتایا کہ فارسی زبان کے جعلی اکاؤنٹس کا ایک وسیع نیٹ ورک سوشل میڈیا پر فعال تھا جو ایرانی عوام کو احتجاج پر اکساتا رہا۔ ان اکاؤنٹس نے AI-generated ویڈیوز اور جعلی خبریں پھیلائیں، جن میں ایران کی ایوین جیل پر دھماکے کی جھوٹی فوٹیج بھی شامل تھی۔
رپورٹ کے مطابق یہ نیٹ ورک اسرائیلی فوجی کارروائیوں کے ساتھ ہم آہنگ دکھائی دیتا تھا اور بعض مواقع پر میڈیا سے پہلے ہی حملوں کی اطلاع سوشل میڈیا پر نشر کرتا تھا۔ اس مہم کے دوران “مرگ بر خامنہ ای” جیسے نعروں کو بھی استعمال کیا گیا تاکہ عوامی غصے کو بھڑکایا جا سکے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ رضا پہلوی کو اسرائیل کی حمایت سے عوامی مقبولیت حاصل نہیں ہو سکتی کیونکہ ایران میں بادشاہت کی بحالی کوئی مقبول مطالبہ نہیں۔ ان کے مطابق ایسی کارروائیاں ایرانی حکومت کے اس بیانیے کو تقویت دیتی ہیں کہ بیرونی قوتیں ملک کو دوبارہ غلام ریاست بنانا چاہتی ہیں۔