ماسکو فارمیٹ: پاکستان، بھارت، چین اور ایران کا افغانستان کی صورتحال پر غور WhatsAppFacebookTwitter 0 7 October, 2025 سب نیوز

ماسکو(آئی پی ایس ) افغانستان کے معاملے پر ماسکو فارمیٹ کا اہم اجلاس روسی دارالحکومت ماسکو میں شروع ہوگیا ہے، جس میں پاکستان، چین، ایران، بھارت اور وسطی ایشیائی ممالک کے نمائندے شریک ہیں۔اجلاس کا افتتاح کرتے ہوئے روسی وزیرِ خارجہ سرگئی لاوروف نے ماسکو آمد پر افغان وزیر خارجہ کا خیرمقدم کیا اور کہا کہ افغانستان میں استحکام خطے کے امن کے لیے ضروری ہے۔

انہوں نے مغربی ممالک پر کڑی تنقید کرتے ہوئے کہا کہ مغرب نے افغانستان کو تنہا چھوڑ دیا ہے اور وہاں کے عوام کو مشکلات میں دھکیل دیا ہے، افغانستان کے منجمد اثاثے، جو مغربی بینکوں میں رکے ہوئے ہیں، فوری طور پر واپس کیے جائیں تاکہ افغان عوام کو معاشی ریلیف مل سکے۔ذرائع کے مطابق پاکستان کی اجلاس میں نمائندگی نمائندہ خصوصی برائے افغانستان محمد صادق اور کابل میں تعینات پاکستانی ناظم الامور گیان چند اور سفیر عبید نظامانی کر رہے ہیں۔

اجلاس میں افغانستان کی سلامتی، سیاسی استحکام اور خطے میں دہشت گردی کے خطرات پر تفصیلی بات چیت کی جا رہی ہے، شرکا نے اس بات پر زور دیا کہ افغانستان کی سرزمین کسی ملک کے خلاف دہشت گردی کے لیے استعمال نہیں ہونی چاہئے۔اجلاس میں انسدادِ دہشت گردی، علاقائی تعاون، اور انسانی امداد کے معاملات پر بھی غور کیا جائے گا۔

روس، پاکستان، چین، ایران، بھارت، کرغزستان، قازقستان، تاجکستان اور ترکمانستان کے نمائندے اس فارمیٹ کے مستقل اراکین ہیں، جن کا مقصد افغانستان میں امن کے قیام اور خطے میں استحکام کے لیے مشترکہ حکمتِ عملی تیار کرنا ہے۔ذرائع کے مطابق اجلاس کے دوران افغانستان کے مستقبل کے حوالے سے اہم تجاویز پر تبادلہ خیال کیا جائے گا، جبکہ روسی وزیرِ خارجہ نے زور دیا کہ مغرب کی ناکام پالیسیاں خطے کے لیے نیا خطرہ بن سکتی ہیں۔

روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔

WhatsAppFacebookTwitter پچھلی خبراچھا ہوگا ن لیگ اور پیپلز پارٹی میں جوڈو کراٹے ہوں، شیخ رشید احمد اچھا ہوگا ن لیگ اور پیپلز پارٹی میں جوڈو کراٹے ہوں، شیخ رشید احمد صدر مملکت کی سندھ اور پنجاب حکومت کے درمیان جاری تنا ئو پر وزیر داخلہ کو کردار ادا کرنے کی ہدایت ایئر پورٹ پر غیر معمولی گرمجوشی:وزیراعظم محمد شہباز شریف ملائیشیا کا سرکاری دورہ مکمل کرکے پاکستان روانہ جسٹس جہانگیری کو کام سے روکنے کے کیس کا تحریری حکم نامہ جاری، اضافی نوٹ بھی شامل سپریم کورٹ نے 26ویں آئینی ترمیم کیخلاف درخواستوں پر سماعت براہ راست نشر کرنے کی اجازت دے دی ٹرمپ منصوبے سے غزہ میں امن کی راہ ہموار ہوسکتی ہے، نیتن یاہو TikTokTikTokMail-1MailTwitterTwitterFacebookFacebookYouTubeYouTubeInstagramInstagram

Copyright © 2025, All Rights Reserved

رابطہ کریں ہماری ٹیم.

ذریعہ: Daily Sub News

کلیدی لفظ: افغانستان کی

پڑھیں:

افغانستان کو بین الاقوامی قبولیت کی تلاش، عالمی سفارتی محاذ پر ہزیمت اٹھاتا بھارت کتنا مددگار ہو سکتا ہے؟

افغان قائم مقام وزیر خارجہ امیر خان متقی ممکنہ طور پر 9 سے 16 اکتوبر کے درمیان کسی وقت بھارت کا دورہ کریں گے۔ سلامتی کونسل کی ذیلی کمیٹی نے 9 سے 16 اکتوبر تک افغان وزیرِخارجہ کو سفری پابندیوں پر استثنیٰ دیا ہے، افغانستان میں طالبان حکومت کے قیام کے بعد کسی طالبان رہنما کا یہ پہلا دورہ بھارت ہوگا۔

3 اکتوبر کو بھارتی وزارت خارجہ کے ترجمان رندھیر جیسوال نے امیر خان متقی کو سفری پابندیوں سے استثنیٰ دیے جانے اور ممکنہ دورہ بھارت کا اعلان کیا لیکن اس دورے کی نہ تو تاریخوں کا اعلان کیا گیا ہے اور نہ ہی اس بات کا کہ اس دورے کے دوران کیا بات ہو گی اور ملاقات کا ایجنڈا کیا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: افغانستان اور بھارت کی قربت، طالبان نے دہلی کو اہم علاقائی اور معاشی شراکت دار قرار دیدیا

اقوام متحدہ سیکیورٹی کونسل کی ذیلی کمیٹی نے انہیں سفری پابندیوں پر استثنیٰ دے دیا ہے جس کی وجہ سے وہ دورہ بھارت کر پائیں گے۔

15 اگست 2021 کو افغان طالبان کے کابل پر حکومتی کنٹرول سنبھالنے کے بعد بھارت نے افغانستان میں اپنا سفارتخانہ بند کر دیا تھا لیکن اس کے بعد بھارت نے افغانستان کے ساتھ اپنے سفارتی تعلقات دوبارہ سے استوار کیے اور چند مہینے قبل سفارتی تعلقات کو اپ گریڈ بھی کیا۔

’افغانستان اور بھارت دونوں کے امریکا سے تعلقات کشیدہ ہیں‘

اس وقت افغانستان اور بھارت دونوں کے امریکا سے تعلقات کشیدہ ہیں، حالیہ دنوں میں جب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے افغانستان میں امریکی بگرام ایئر بیس واپس لینے کی بات کی تو جواب میں طالبان وزارت خارجہ کے ترجمان ذاکر جلال نے کہاکہ ہم امریکا سے بات چیت کرنا چاہتے ہیں لیکن افغانستان کے کسی بھی حصے میں امریکی موجودگی نہیں چاہتے۔

’اس کے علاوہ امریکا اور افغانستان کے درمیان ایک اور چیز تعلقات کی خرابی کا باعث ہے، جس کے لیے گزشتہ اور موجودہ امریکی حکومت افغان طالبان حکومت کے ساتھ قیدیوں کے تبادلے کے حوالے سے مذاکرات کرتی چلی آئی ہے۔‘

مجوزہ ڈیل کی رو سے امریکی انتظامیہ گوانتاناموبے میں قید محمد رحیم الافغانی کو طالبان حکومت کے حوالے کرے گی، بدلے میں طالبان کو 3 امریکی ریان کاربٹ، جارج گلیزمین اور محمود حبیبی کو امریکا کے حوالے کرنا پڑے گا۔

مذاکرات اِس بات پر تعطل کا شکار ہیں کہ افغاں طالبان کا کہنا ہے کہ محمود حبیبی ان کے تحویل میں نہیں، جس وجہ سے امریکا اور طالبان کے درمیان تلخی ہے۔

بھارت اور امریکا میں تعلقات کی خرابی سب کے سامنے ہے۔ امریکا نے بھارت پر پہلے 50 فیصد ٹیرف عائد کیے اور اس کے بعد بھارتی ادویات پر 100 فیصد ٹیرف عائد کیا گیا، جس کے باعث بھارت کو برآمدات میں نقصان اٹھانا پڑ رہا ہے۔

بھارت اور امریکا میں تعلقات کی خرابی کی بنیادی وجہ ایک تو بھارت کا روس سے تیل خریدنا اور دوسرا یہ کہ بھارت 10 مئی کے بعد سے پاک بھارت فوجی کشیدگی کم کرانے کے حوالے سے صدر ٹرمپ کے کردار کے حوالے سے انکار کرتا چلا آیا ہے۔

امیر خان متقی کا پہلا دورہ بھارت کیوں منسوخ ہوا؟

اس سے قبل افغان قائم مقام وزیر خارجہ نے ستمبر کے شروع میں بھارت کا دورہ کرنا تھا لیکن اقوام متحدہ سلامتی کونسل کی ذیلی کمیٹی کی جانب سے سفری پابندیوں پر استثنیٰ نہ ملنے کے باعث وہ یہ دورہ نہیں کر پائے تھے اور اس سے قبل 4 اگست کو ان کا دورہ پاکستان منسوخ ہونے کی بھی یہی وجہ تھی۔

مختلف ذرائع سے آنے والی خبروں کے تناظر میں یہ بات سامنے آئی کہ امیر خان متقی کو سفری استثنیٰ نہ ملنے کے پیچھے امریکی ناراضی کارفرما تھی۔

یہ سفری پابندیاں اقوام متحدہ سیکیورٹی کونسل کی قرارداد 1988 کے تحت طالبان اور القاعدہ رہنماؤں کے خلاف جون 2011 میں نافذ کی گئیں تھیں۔ طالبان اور القاعدہ رہنماؤں پر نہ صرف سفری بلکہ اثاثہ جات اور اسلحہ سے متعلق پابندیاں بھی عائد کی گئی تھیں۔

بھارت اور افغانستان کے تعلقات

15 اگست 2021 سے قبل اشرف غنی کی افغان حکومت اور بھارت کے درمیان تمام شعبوں میں بہت اچھے تعلقات تھے اور توقع تھی کہ طالبان حکومت کے ساتھ بھارت کے تعلقات کی شاید وہ نوعیت نہ ہو، لیکن طالبان حکومت کے قیام کے بعد بھی بھارت نے نئی حکومت کے ساتھ تعلقات اچھے رکھے۔

گزشتہ دنوں افغانستان میں آنے والے زلزلے کے بعد بھارت نے جلد ریلیف کا سامان بھجوایا، اگرچہ بھارت نے افغان طالبان حکومت کو باضابطہ طور پر تسلیم نہیں کیا، اس کے باوجود تعلقات کی نوعیت بہت اچھی ہے۔

بھارتی وزیراعظم مودی نے شنگھائی تعاون تنظیم اجلاس سے واپسی پر افغانستان میں زلزلے سے ہونے والی ہلاکتوں پر افسوس کا اظہار کیا تو بھارت میں کافی تنقید ہوئی کہ بھارتی پنجاب اور کشمیر میں سیلاب سے ہونے والی ہلاکتوں پر وزیراعظم مودی کا کوئی بیان سامنے نہیں آیا۔

طالبان حکومت کے قیام کے بعد بھارت نے جوائنٹ سیکریٹری جی پی سنگھ کی قیادت میں وفد کابل بھیجا جس نے مذاکرات کے بعد انسانی امداد اور ترقیاتی منصوبوں کے لیے تکنیکی ٹیم کو تعینات کیا اور بھارتی سفارتخانہ جزوی طور پر بحال کیا۔

دونوں ملک ایک دوسرے کے ساتھ تعلقات میں بہتری لارہے ہیں، طاہر خان

بین الاقوامی صحافتی اداروں سے وابستہ رہنے والے معروف صحافی طاہر خان جو دہشتگردی اور افغان امور پر دسترس رکھتے ہیں، نے ’وی نیوز‘ سے گفتگوکرتے ہوئے کہاکہ قائم مقام وزیرِخارجہ امیر خان متقی کے دورہ بھارت کا ایجنڈا یہ ہو سکتا ہے کہ دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات کو کس طرح سے فروغ دیا جائے۔

انہوں ںے کہاکہ طالبان حکومت اور بھارت کے درمیان حالیہ مہینوں میں رابطے بڑھے ہیں۔ بھارت اور افغانستان میں پیپل ٹو پیپل کونٹیکٹ تو موجود تھا، لوگ افغانستان سے بھارت اور بھارت سے افغانستان آتے جاتے رہتے تھے لیکن حالیہ مہینوں میں امیر خان متقی اور بھارتی وزیرِخارجہ امیر خان متقی کے درمیان 2 مرتبہ ٹیلیفونک رابطہ ہوا تھا۔

’ایک دفعہ جب پہلگام حملہ ہوا اور دوسری دفعہ جب افغانستان میں زلزلہ آیا تھا۔ اس سال جنوری میں دبئی میں امیر خان متقی اور بھارتی وزیر خارجہ کے درمیان دبئی میں ملاقات بھی ہوئی تھی۔‘

طاہر خان نے کہاکہ دونوں ملک 2022 کے بعد سے ایک دوسرے کے ساتھ سفارتی تعلقات میں بہتری لا رہے ہیں اور اس دورے کے دوران ان تعلقات کے استحکام پر بات چیت کریں گے۔

انہوں نے کہاکہ افغانستان کو ابھی تک صرف روس نے تسلیم کیا ہے اور یہی وجہ ہے کہ وہ بھارت کے ساتھ اپنے مراسم بڑھانے میں دلچسپی دکھا رہا ہے، لیکن بھارت نے تاحال امیر خان متقی کے دورہ بھارت کا باضابطہ اعلان نہیں کیا وہ اِس سلسلے میں بہت محتاط ہیں۔

طاہر خان نے کہاکہ کل امیر خان متقی روس میں ماسکو فارمیٹ کے ’اجلاس شرکت کریں گے اور اس کے بعد وہ بھارت جائیں گے۔

افغانستان کی تو ضرورت ہے کہ دنیا کے ممالک اُس کو تسلیم کریں اس لیے وہ دنیا کے ملکوں کے ساتھ تعلقات رکھنا چاہتا ہے لیکن بھارت جانتا ہے کہ پاکستان میں دہشتگردی کی وجہ سے کتنا نقصان ہو رہا ہے اور پاکستان اس سلسلے میں افغانستان کے بارے میں اپنے تحفظات ظاہر کرتا رہتا ہے جبکہ بھارت ایسے موقعے تلاش کرتا ہے کہ جتنا ان کا بس چلے وہ پاکستان کو دوسرے ملکوں سے دور کریں۔‘

طاہر خان نے کہاکہ اس سلسلے میں پاکستان کو سوچنا پڑے گا کہ وہ اپنے پاس موجود اسپیس کو تنگ نہ کرے کہ وہاں بھارت اس خلا کو پُر کرنے پہنچ جائے۔

افغان طالبان کو بین الاقوامی طور پر قبولیت کی تلاش ہے، محمود جان بابر

پشاور میں نجی ٹی وی چینل سے وابستہ اور افغان امور پر دسترس رکھنے والے سینیئر صحافی محمود جان بابر نے ’وی نیوز‘ سے بات کرتے ہوئے کہاکہ افغان طالبان کو بین الاقوامی طور پر قبولیت کی تلاش ہے، ہندوستان ایک عالمی طاقت ہے تو اس کے ساتھ تعلقات بہتر بنانا طالبان حکومت کی بین الاقوامی ساکھ بہتر بنانے کا ذریعہ ہو سکتا ہے۔

انہوں نے کہاکہ دوسری طرف بھارت نہیں چاہتا کہ افغانستان مکمل طور پر پاکستان اور چین کے زیرِاثر آ جائے اس لیے وہ افغانستان سے تعلقات بنا کر ایک توازن برقرار رکھنا چاہتا ہے۔

محمود جان نے کہاکہ افغانستان کی کمزور معیشت کو سرمایہ کاری اور تجارت کی اشد ضرورت ہے۔ بھارت اس سے پہلے افغانستان میں سڑکوں، ڈیم، پارلیمنٹ بلڈنگ بنانے میں کردار ادا کر چکا ہے۔ بھارت چاہتا ہے کہ وہ ایران کے راستے افغانستان کے ذریعے وسط ایشیا سے تجارت کرے جبکہ پاکستان کا مسئلہ یہ ہے کہ اس کے افغانستان کے ساتھ تعلقات میں زیر و بم آتے رہتے ہیں۔

انہوں نے کہاکہ ایسے میں طالبان بھارت کو پاکستان پر دباؤ بنائے رکھنے کا ذریعہ بنا سکتے ہیں، جبکہ بھارت یہ چاہتا ہے کہ افغانستان میں پاکستان کا اثر کمزور ہو تاکہ وہاں سے بھارت مخالف سرگرمیاں خصوصاً کشمیر کے حوالے سے نہ بڑھ سکیں۔

یہ بھی پڑھیں: افغانستان اور بھارت کی قربت، طالبان نے دہلی کو اہم علاقائی اور معاشی شراکت دار قرار دیدیا

ان کا کہنا تھا کہ بھارت اس لیے بھی طالبان سے مراسم بڑھاتا ہے تاکہ بھارت مخالف جہادی تنظیمیں وہاں سے بروئے کار نہ آ سکیں اور طالبان کے پاس موقع ہے کہ وہ بھارت کو اس بات کا یقین دلائیں تاکہ بین الاقوامی طور پر الگ تھلگ نہ ہوں۔ بھارت اور افغانستان کے درمیان تعلق مشترکہ ضرورت ہے۔ اس کے ساتھ بھارت کو افغانستان میں چین کے مفادات پر بھی نظر رکھنی ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

weneww افغان وزیر خارجہ افغانستان بھارت تعلقات پاکستان دہشتگردی دورہ بھارت طالبان حکومت عالمی سفارتکاری مودی سرکار وی نیوز

متعلقہ مضامین

  • افغانستان میں فوجی انفرا اسٹرکچر کی کوششیں ناقابلِ قبول: ماسکو فارمیٹ کا مشترکہ اعلامیہ
  • روس میں افغانستان سے متعلق ایشیائی ممالک کا مشاورتی اجلاس؛ پہلی بار طالبان وزیر بھی شریک
  • ماسکو اجلاس، افغانستان میں کالعدم دہشت گرد تنظیموں کی موجودگی کی تصدیق
  • ماسکو اجلاس: افغانستان میں دہشت گرد گروپوں کی موجودگی پر تشویش، علاقائی تعاون پر زور
  • افغانستان کو بین الاقوامی قبولیت کی تلاش، عالمی سفارتی محاذ پر ہزیمت اٹھاتا بھارت کتنا مددگار ہو سکتا ہے؟
  • ایران افغانستان اور روس کے ساتھ بارٹر ٹریڈ فریم ورک میں ترامیم کی تفصیلات سینیٹ قائمہ کمیٹی میں پیش
  • افغانستان کی صورتحال پر پاکستان، ایران، روس اور چین کی اہم بیٹھک آج ہوگی، اہم فیصلے متوقع  
  • افغانستان سے متعلق سکیورٹی صورتحال پر 4 ملکی اجلاس آج روس میں ہو گا  
  • افغانستان سے متعلق 4 ملکی اجلاس 6 اکتوبر کو روس میں ہوگا،افغانستان کی صورتحال پر غور ہوگا