افغانستان کو بین الاقوامی قبولیت کی تلاش، عالمی سفارتی محاذ پر ہزیمت اٹھاتا بھارت کتنا مددگار ہو سکتا ہے؟
اشاعت کی تاریخ: 7th, October 2025 GMT
افغان قائم مقام وزیر خارجہ امیر خان متقی ممکنہ طور پر 9 سے 16 اکتوبر کے درمیان کسی وقت بھارت کا دورہ کریں گے۔ سلامتی کونسل کی ذیلی کمیٹی نے 9 سے 16 اکتوبر تک افغان وزیرِخارجہ کو سفری پابندیوں پر استثنیٰ دیا ہے، افغانستان میں طالبان حکومت کے قیام کے بعد کسی طالبان رہنما کا یہ پہلا دورہ بھارت ہوگا۔
3 اکتوبر کو بھارتی وزارت خارجہ کے ترجمان رندھیر جیسوال نے امیر خان متقی کو سفری پابندیوں سے استثنیٰ دیے جانے اور ممکنہ دورہ بھارت کا اعلان کیا لیکن اس دورے کی نہ تو تاریخوں کا اعلان کیا گیا ہے اور نہ ہی اس بات کا کہ اس دورے کے دوران کیا بات ہو گی اور ملاقات کا ایجنڈا کیا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: افغانستان اور بھارت کی قربت، طالبان نے دہلی کو اہم علاقائی اور معاشی شراکت دار قرار دیدیا
اقوام متحدہ سیکیورٹی کونسل کی ذیلی کمیٹی نے انہیں سفری پابندیوں پر استثنیٰ دے دیا ہے جس کی وجہ سے وہ دورہ بھارت کر پائیں گے۔
15 اگست 2021 کو افغان طالبان کے کابل پر حکومتی کنٹرول سنبھالنے کے بعد بھارت نے افغانستان میں اپنا سفارتخانہ بند کر دیا تھا لیکن اس کے بعد بھارت نے افغانستان کے ساتھ اپنے سفارتی تعلقات دوبارہ سے استوار کیے اور چند مہینے قبل سفارتی تعلقات کو اپ گریڈ بھی کیا۔
’افغانستان اور بھارت دونوں کے امریکا سے تعلقات کشیدہ ہیں‘اس وقت افغانستان اور بھارت دونوں کے امریکا سے تعلقات کشیدہ ہیں، حالیہ دنوں میں جب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے افغانستان میں امریکی بگرام ایئر بیس واپس لینے کی بات کی تو جواب میں طالبان وزارت خارجہ کے ترجمان ذاکر جلال نے کہاکہ ہم امریکا سے بات چیت کرنا چاہتے ہیں لیکن افغانستان کے کسی بھی حصے میں امریکی موجودگی نہیں چاہتے۔
’اس کے علاوہ امریکا اور افغانستان کے درمیان ایک اور چیز تعلقات کی خرابی کا باعث ہے، جس کے لیے گزشتہ اور موجودہ امریکی حکومت افغان طالبان حکومت کے ساتھ قیدیوں کے تبادلے کے حوالے سے مذاکرات کرتی چلی آئی ہے۔‘
مجوزہ ڈیل کی رو سے امریکی انتظامیہ گوانتاناموبے میں قید محمد رحیم الافغانی کو طالبان حکومت کے حوالے کرے گی، بدلے میں طالبان کو 3 امریکی ریان کاربٹ، جارج گلیزمین اور محمود حبیبی کو امریکا کے حوالے کرنا پڑے گا۔
مذاکرات اِس بات پر تعطل کا شکار ہیں کہ افغاں طالبان کا کہنا ہے کہ محمود حبیبی ان کے تحویل میں نہیں، جس وجہ سے امریکا اور طالبان کے درمیان تلخی ہے۔
بھارت اور امریکا میں تعلقات کی خرابی سب کے سامنے ہے۔ امریکا نے بھارت پر پہلے 50 فیصد ٹیرف عائد کیے اور اس کے بعد بھارتی ادویات پر 100 فیصد ٹیرف عائد کیا گیا، جس کے باعث بھارت کو برآمدات میں نقصان اٹھانا پڑ رہا ہے۔
بھارت اور امریکا میں تعلقات کی خرابی کی بنیادی وجہ ایک تو بھارت کا روس سے تیل خریدنا اور دوسرا یہ کہ بھارت 10 مئی کے بعد سے پاک بھارت فوجی کشیدگی کم کرانے کے حوالے سے صدر ٹرمپ کے کردار کے حوالے سے انکار کرتا چلا آیا ہے۔
امیر خان متقی کا پہلا دورہ بھارت کیوں منسوخ ہوا؟اس سے قبل افغان قائم مقام وزیر خارجہ نے ستمبر کے شروع میں بھارت کا دورہ کرنا تھا لیکن اقوام متحدہ سلامتی کونسل کی ذیلی کمیٹی کی جانب سے سفری پابندیوں پر استثنیٰ نہ ملنے کے باعث وہ یہ دورہ نہیں کر پائے تھے اور اس سے قبل 4 اگست کو ان کا دورہ پاکستان منسوخ ہونے کی بھی یہی وجہ تھی۔
مختلف ذرائع سے آنے والی خبروں کے تناظر میں یہ بات سامنے آئی کہ امیر خان متقی کو سفری استثنیٰ نہ ملنے کے پیچھے امریکی ناراضی کارفرما تھی۔
یہ سفری پابندیاں اقوام متحدہ سیکیورٹی کونسل کی قرارداد 1988 کے تحت طالبان اور القاعدہ رہنماؤں کے خلاف جون 2011 میں نافذ کی گئیں تھیں۔ طالبان اور القاعدہ رہنماؤں پر نہ صرف سفری بلکہ اثاثہ جات اور اسلحہ سے متعلق پابندیاں بھی عائد کی گئی تھیں۔
بھارت اور افغانستان کے تعلقات15 اگست 2021 سے قبل اشرف غنی کی افغان حکومت اور بھارت کے درمیان تمام شعبوں میں بہت اچھے تعلقات تھے اور توقع تھی کہ طالبان حکومت کے ساتھ بھارت کے تعلقات کی شاید وہ نوعیت نہ ہو، لیکن طالبان حکومت کے قیام کے بعد بھی بھارت نے نئی حکومت کے ساتھ تعلقات اچھے رکھے۔
گزشتہ دنوں افغانستان میں آنے والے زلزلے کے بعد بھارت نے جلد ریلیف کا سامان بھجوایا، اگرچہ بھارت نے افغان طالبان حکومت کو باضابطہ طور پر تسلیم نہیں کیا، اس کے باوجود تعلقات کی نوعیت بہت اچھی ہے۔
بھارتی وزیراعظم مودی نے شنگھائی تعاون تنظیم اجلاس سے واپسی پر افغانستان میں زلزلے سے ہونے والی ہلاکتوں پر افسوس کا اظہار کیا تو بھارت میں کافی تنقید ہوئی کہ بھارتی پنجاب اور کشمیر میں سیلاب سے ہونے والی ہلاکتوں پر وزیراعظم مودی کا کوئی بیان سامنے نہیں آیا۔
طالبان حکومت کے قیام کے بعد بھارت نے جوائنٹ سیکریٹری جی پی سنگھ کی قیادت میں وفد کابل بھیجا جس نے مذاکرات کے بعد انسانی امداد اور ترقیاتی منصوبوں کے لیے تکنیکی ٹیم کو تعینات کیا اور بھارتی سفارتخانہ جزوی طور پر بحال کیا۔
دونوں ملک ایک دوسرے کے ساتھ تعلقات میں بہتری لارہے ہیں، طاہر خانبین الاقوامی صحافتی اداروں سے وابستہ رہنے والے معروف صحافی طاہر خان جو دہشتگردی اور افغان امور پر دسترس رکھتے ہیں، نے ’وی نیوز‘ سے گفتگوکرتے ہوئے کہاکہ قائم مقام وزیرِخارجہ امیر خان متقی کے دورہ بھارت کا ایجنڈا یہ ہو سکتا ہے کہ دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات کو کس طرح سے فروغ دیا جائے۔
انہوں ںے کہاکہ طالبان حکومت اور بھارت کے درمیان حالیہ مہینوں میں رابطے بڑھے ہیں۔ بھارت اور افغانستان میں پیپل ٹو پیپل کونٹیکٹ تو موجود تھا، لوگ افغانستان سے بھارت اور بھارت سے افغانستان آتے جاتے رہتے تھے لیکن حالیہ مہینوں میں امیر خان متقی اور بھارتی وزیرِخارجہ امیر خان متقی کے درمیان 2 مرتبہ ٹیلیفونک رابطہ ہوا تھا۔
’ایک دفعہ جب پہلگام حملہ ہوا اور دوسری دفعہ جب افغانستان میں زلزلہ آیا تھا۔ اس سال جنوری میں دبئی میں امیر خان متقی اور بھارتی وزیر خارجہ کے درمیان دبئی میں ملاقات بھی ہوئی تھی۔‘
طاہر خان نے کہاکہ دونوں ملک 2022 کے بعد سے ایک دوسرے کے ساتھ سفارتی تعلقات میں بہتری لا رہے ہیں اور اس دورے کے دوران ان تعلقات کے استحکام پر بات چیت کریں گے۔
انہوں نے کہاکہ افغانستان کو ابھی تک صرف روس نے تسلیم کیا ہے اور یہی وجہ ہے کہ وہ بھارت کے ساتھ اپنے مراسم بڑھانے میں دلچسپی دکھا رہا ہے، لیکن بھارت نے تاحال امیر خان متقی کے دورہ بھارت کا باضابطہ اعلان نہیں کیا وہ اِس سلسلے میں بہت محتاط ہیں۔
طاہر خان نے کہاکہ کل امیر خان متقی روس میں ماسکو فارمیٹ کے ’اجلاس شرکت کریں گے اور اس کے بعد وہ بھارت جائیں گے۔
افغانستان کی تو ضرورت ہے کہ دنیا کے ممالک اُس کو تسلیم کریں اس لیے وہ دنیا کے ملکوں کے ساتھ تعلقات رکھنا چاہتا ہے لیکن بھارت جانتا ہے کہ پاکستان میں دہشتگردی کی وجہ سے کتنا نقصان ہو رہا ہے اور پاکستان اس سلسلے میں افغانستان کے بارے میں اپنے تحفظات ظاہر کرتا رہتا ہے جبکہ بھارت ایسے موقعے تلاش کرتا ہے کہ جتنا ان کا بس چلے وہ پاکستان کو دوسرے ملکوں سے دور کریں۔‘
طاہر خان نے کہاکہ اس سلسلے میں پاکستان کو سوچنا پڑے گا کہ وہ اپنے پاس موجود اسپیس کو تنگ نہ کرے کہ وہاں بھارت اس خلا کو پُر کرنے پہنچ جائے۔
افغان طالبان کو بین الاقوامی طور پر قبولیت کی تلاش ہے، محمود جان بابرپشاور میں نجی ٹی وی چینل سے وابستہ اور افغان امور پر دسترس رکھنے والے سینیئر صحافی محمود جان بابر نے ’وی نیوز‘ سے بات کرتے ہوئے کہاکہ افغان طالبان کو بین الاقوامی طور پر قبولیت کی تلاش ہے، ہندوستان ایک عالمی طاقت ہے تو اس کے ساتھ تعلقات بہتر بنانا طالبان حکومت کی بین الاقوامی ساکھ بہتر بنانے کا ذریعہ ہو سکتا ہے۔
انہوں نے کہاکہ دوسری طرف بھارت نہیں چاہتا کہ افغانستان مکمل طور پر پاکستان اور چین کے زیرِاثر آ جائے اس لیے وہ افغانستان سے تعلقات بنا کر ایک توازن برقرار رکھنا چاہتا ہے۔
محمود جان نے کہاکہ افغانستان کی کمزور معیشت کو سرمایہ کاری اور تجارت کی اشد ضرورت ہے۔ بھارت اس سے پہلے افغانستان میں سڑکوں، ڈیم، پارلیمنٹ بلڈنگ بنانے میں کردار ادا کر چکا ہے۔ بھارت چاہتا ہے کہ وہ ایران کے راستے افغانستان کے ذریعے وسط ایشیا سے تجارت کرے جبکہ پاکستان کا مسئلہ یہ ہے کہ اس کے افغانستان کے ساتھ تعلقات میں زیر و بم آتے رہتے ہیں۔
انہوں نے کہاکہ ایسے میں طالبان بھارت کو پاکستان پر دباؤ بنائے رکھنے کا ذریعہ بنا سکتے ہیں، جبکہ بھارت یہ چاہتا ہے کہ افغانستان میں پاکستان کا اثر کمزور ہو تاکہ وہاں سے بھارت مخالف سرگرمیاں خصوصاً کشمیر کے حوالے سے نہ بڑھ سکیں۔
یہ بھی پڑھیں: افغانستان اور بھارت کی قربت، طالبان نے دہلی کو اہم علاقائی اور معاشی شراکت دار قرار دیدیا
ان کا کہنا تھا کہ بھارت اس لیے بھی طالبان سے مراسم بڑھاتا ہے تاکہ بھارت مخالف جہادی تنظیمیں وہاں سے بروئے کار نہ آ سکیں اور طالبان کے پاس موقع ہے کہ وہ بھارت کو اس بات کا یقین دلائیں تاکہ بین الاقوامی طور پر الگ تھلگ نہ ہوں۔ بھارت اور افغانستان کے درمیان تعلق مشترکہ ضرورت ہے۔ اس کے ساتھ بھارت کو افغانستان میں چین کے مفادات پر بھی نظر رکھنی ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
weneww افغان وزیر خارجہ افغانستان بھارت تعلقات پاکستان دہشتگردی دورہ بھارت طالبان حکومت عالمی سفارتکاری مودی سرکار وی نیوز.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: افغان وزیر خارجہ افغانستان بھارت تعلقات پاکستان دہشتگردی دورہ بھارت طالبان حکومت عالمی سفارتکاری مودی سرکار وی نیوز افغانستان اور بھارت طالبان حکومت کے کے بعد بھارت نے کے ساتھ تعلقات سفری پابندیوں اور افغانستان افغانستان میں کہ افغانستان افغانستان کے بین الاقوامی افغان طالبان افغانستان ا کے حوالے سے میں طالبان دورہ بھارت اور افغان کے درمیان تعلقات کی بھارت اور کونسل کی بھارت کا نے افغان طاہر خان نے کہاکہ چاہتا ہے بھارت کے بھارت کو کہ بھارت نے والے اور اس
پڑھیں:
پاکستان اور طالبان رجیم مذاکرات کے دروازے بند یا کوئی کھڑکی کھلی ہے؟
6 نومبر کو استنبول میں مذاکرات کی ناکامی کے بعد سے پاکستان اور افغانستان کے درمیان مذاکرات میں تعطل آ گیا ہے جس میں دہشتگرد ٹی ٹی پی کے حوالے سے افغان طالبان رجیم کی ہٹ دھرمی اہم رکاوٹ تھی۔
یہ بھی پڑھیں: بھارت کی شہ پر افغان طالبان کی ہٹ دھرمی، استنبول میں ہونے والے پاک افغان مذاکرات ناکام
مذاکرات میں تعطل کے بعد سے پاکستان اور افغانستان کے درمیان قیام امن کے لیے علاقائی ممالک خصوصاً ایران متحرک ہے جس کی وزارت خارجہ کی جانب سے علاقائی ممالک کا اجلاس بلائے کی اعلان اس سلسلے میں ایک اہم پیشرفت ہے۔
اسی طرح سے برادر اسلامی ملک ترکیہ بھی اس حوالے سے سرگرم اور اس کے اعلیٰ سطحی وفد کی آمد کا امکان ہے۔
علاقائی ممالک افغانستان میں موجود دہشتگردی کے خطرے سے آگاہ اور پاکستان کے مؤقف سے ہم آہنگ ہیں۔
26 ستمبر کو نیویارک جنرل اسمبلی اجلاس کے موقعے پر روس کی جانب سے افغانستان پر 4 علاقائی ممالک چین، پاکستان، ایران اور روس کا اجلاس طلب کیا گیا جس نے اپنے مشترکہ اعلامیے میں افغانستان سے پیدا ہونے والے دہشتگردی کے خطرے پر گہری تشویش کا اظہار کیا گیا اور داعش، القاعدہ، مشرقی ترکستان اسلامی تحریک، تحریک طالبان پاکستان، جیش العدل اور بلوچستان لبریشن آرمی جیسے گروہوں کو علاقائی اور عالمی سلامتی کے لیے سنگین خطرہ قرار دیا گیا۔
ان ممالک کے وزرائے خارجہ نے افغان حکام سے مطالبہ کیا کہ وہ تمام دہشتگرد تنظیموں کے خاتمے کے لیے قابل تصدیق اقدامات کریں، بھرتی اور مالی معاونت کو روکیں، اور تربیتی کیمپوں اور انفراسٹرکچر کو مکمل طور پر بند کریں۔
مزید پڑھیں: کچھ پتا نہیں طالبان سے مذاکرات پھر کب ہوں گے، عطا تارڑ
اسی طرح گزشہ ماہ افغانستان کے حوالے سے گزشتہ ماہ روس میں منعقد ہونے والے ماسکو فارمیٹ ڈائیلاگ کے اعلامیے میں بھی افغانستان پر دہشتگردی کے خاتمے کے لیے جامع اقدامات کرنے اور افغان سرزمین کو ہمسایوں کے خلاف استعمال نہ کرنے پر زور دیا گیا۔
مذاکرات کا تعطل اور افغان عوام کی مشکلاتجس چیز پر سب سے زیادہ گفتگو ہو رہی ہے وہ افغان تجارت کی بندش ہے اور اس کے ساتھ افغان عوام کو پاکستان کی جانب سے علاج اور تعلیم کی سہولیات بھی تعطل کا شکار ہیں جہاں ایک طرف افغان طالبان رجیم کے نائب وزیراعظم ملا عبدالغنی برادر کی جانب سے پاکستان کے ساتھ تجارت مکمل طور پر ختم کر کے متبادل تجارت کے دعوے کیے جا رہے ہیں وہیں افغان تاجروں کی جانب سے کئی ویڈیوز بھی سوشل میڈیا پر زیرِ گردش ہیں جن میں کہا جا رہا ہے کہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان تجارتی راستے کھلنے چاہییں کیونکہ پاکستان کے ساتھ تجارتی راستے سب سے زیادہ کم وقت اور کم لاگت ہیں۔
دونوں ملکوں کے درمیان سامان کی ترسیل ایک دن میں مکمل ہو جاتی ہے جب کہ دیگر ممالک کے ساتھ تجارت میں سامان پہنچنے اور وصول کرنے میں کئی دن لگ جاتے ہیں۔
مزید پڑھیں: افغان طالبان سے مذاکرات ختم ہوگئے، ثالثوں نے بھی ہاتھ کھڑے کر دیے، خواجہ آصف
اسی طرح سے افغانستان سے لوگ علاج کے لیے پاکستان آنا چاہتے ہیں تو ان کے لیے بھی مُشکلات بڑھ گئی ہیں۔ ساتھ ہی ساتھ افغان بالب علموں کی مشکلات میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ پاکستان، افغانستان کے لیے ایسا ملک ہے جہاں زیادہ تر افغان آبادی سہولت کے ساتھ چند گھنٹوں کی مسافت طے کر کے پہنچ سکتی اور پاکستان میں تجارت، تعلیم اور علاج کی سہولیات حاصل کر سکتی ہے۔
دوست ممالک کی کوششیں9 نومبر کو ترکیہ کے صدر رجب طیب اردگان نے اعلان کیا کہ ترک وزیرخارجہ خاقان فیدان، وزیردفاع اور انٹیلی جنس چیف پاکستان اور افغانستان کے درمیان تعلقات کی بہتری اور مذاکرات کے لیے اسلام آباد کا دورہ کریں گے۔ لیکن تاحال ترک وفد اسلام آباد نہیں پہنچا جس کی بظاہر وجہ ترک فوجی طیارے کو پیش آنے والا حادثہ بیان کی جا رہی ہے جو آذربائیجان سے اڑان بھرنے کے بعد جارجیا میں گر کر تباہ ہو گیا تھا تاہم اطلاعات کے مطابق یہ وفد کسی بھی وقت اسلام آباد پہنچ سکتا ہے۔
ایران کے وزیر خارجہ عباس عراقچی گزشتہ دنوں میں 2 بار افغان قائم مقام وزیر خارجہ امیر خان مُتقی سے ٹیلی فون بات چیت کر چکے ہیں جس میں انہوں نے پاکستان اور افغانستان کے درمیان ثالثی کی پیشکش کی ہے۔
خطے کے ممالک کو افغانستان کے رویے پر تشویش ہے، صحافی افضل رضا ایرانیایرانی سرکاری خبر رساں ادارے ارنا کے اسلام آباد میں موجود نمائندے افضل رضا نے وی نیوز کے ساتھ خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ایرانی قیادت افغان طالبان رجیم کے رویے کو بخوبی جانتی ہے کیونکہ افغانستان، ایران کے پانی کے حقوق کی خلاف ورزیاں بھی کرتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان کشیدگی کے بعد برادر اسلامی ممالک بطور ثالث کردار کے لیے متحرک ہوئے لیکن ان ملکوں کی سرحدیں پاکستان یا افغانستان کے ساتھ مُتصل نہیں۔ پاکستان اور افغانستان کے درمیان کشیدگی سے ایران بھی متاثر ہوتا ہے۔ پاکستان اور ایران دونوں ممالک افغانستان کے پڑوسی ہیں اور ان دونوں ملکوں نے گزشتہ 45 برس افغان باشندوں کو اپنے ملکوں میں پناہ دی ہے جبکہ مغربی ایشیا کے ممالک اِس صورتحال سے دوچار نہیں ہوئے۔ لہٰذا ایران نے یہ محسوس کیا کہ افغان طالبان رجیم کے رویے کے باعث دونوں ملکوں کے مذاکرات آگے نہیں بڑھ سکے۔ اب ایران نے اس معاملے میں اپنا کردار ادا کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
یہ بھی پڑھیے: پاک افغان بے نتیجہ مذاکرات اور طالبان وزرا کے اشتعال انگیز بیانات، جنگ بندی کب تک قائم رہے گی؟
گزشتہ روز ایرانی وزارت خارجہ کے ماتحت ادارے انسٹیٹیوٹ آف پولیٹیکل اینڈ انٹرنیشنل اسٹڈیز نے تہران میں ایک بین الاقوامی کانفرنس کا انعقاد کیا تھا جس کے حاشیے پر ایرانی وزیرخارجہ عباس عراقچی نے صحافیوں کے ساتھ بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ ہم پاکستان اور افغانستان کے درمیان قیام امن کے لیے کوشش کر رہے ہیں، ہم نے دونوں ملکوں سے رابطے کیے ہیں اور ایک علاقائی حل کے لیے کوشش کر رہے ہیں۔
اسی طرح ایرانی نائب وزیر خارجہ سعید خطیب زادہ نے روسی خبر رساں ادارے اِسپُتنِک سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اگلے ماہ ہم ایک اِجلاس بلانے جا رہے ہیں جِس کا مقصد پاکستان اور ایران کے درمیان ثالثی ہے اور اس کانفرنس میں روس اور چین کو بھی مدعو کیا جائے گا۔
افضل رضا نے کہا کہ اِس معاملے میں ایران کے کردار کے مطلب یہ ہے کہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان مزید کشیدگی اب نہیں ہونی چاہیے کیونکہ ایران اور دیگر علاقائی ممالک اس کشیدگی کے باعث تشویش کا شکار ہیں اور اُنہیں پاکستان سے زیادہ افغانستان کے رویے پر تشویش ہے۔ کیونکہ افغان طالبان رجیم کے افغانستان میں استحکام لانے سے متعلق دعوے کھوکھلے اور فرضی ہیں۔ پاکستان کے پاس اِتنی طاقت ہے کہ وہ افغان طالبان رجیم کے غیر ذمے دارانہ بیانات کا جواب دے سکتا ہے لیکن چونکہ پاکستان ایک ذمے دار ملک ہے اس لیے وہ چاہتا ہے کہ وہ برادار ممالک کو اس سلسلے میں اپنے کردار کی ادائیگی کا موقع فراہم کرے۔
مزید پڑھیں: طالبان رجیم دہشتگردی پر پردہ ڈال رہی ہے، ترجمان دفتر خارجہ
ان کا کہنا تھا کہ اس وقت ایران کا کردار ادا کرنا روس سے بھی زیادہ بہتر ہے کیونکہ ایران دونوں ملکوں ہمسایہ اور افغان طالبان رجیم کو اِس معاملے کو سنجیدگی سے لینا چاہیے۔
افضل رضا نے بتایا پانی کے حقوق کے حوالے سے افغانستان ایران کو بھی تنگ کرتا ہے اور افغان طالبان رجیم اپنے وعدوں کی پاسداری نہیں کرتے اور ایران کے پانی کے حقوق کی خلاف ورزی کر رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان کے لیے یہ ایک اچھا موقع ہے کیونکہ پاکستان اپنے بردارانہ ممالک کی جانب سے اٹھائے گئے اقدامات کو ہمیشہ اچھی نظر سے دیکھتا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ امید کی جا سکتی ہے کہ ایران کی جانب سے اس معاملے میں کردار ادا کرنے کے بعد کابل اور اسلام آباد کے درمیان امن معاہدے پر پیشرفت کا اِمکان ہے کیونکہ ایرانی قیادت پاکستان کے جائز سکیورٹی مفادات کو سمجھتی ہے اور کابل کو سمجھانے کی کوشش کرے گی۔
ترک اعلیٰ سطحی وفد کبھی بھی آ سکتا ہے، طاہر خانافغان امور کے ماہر، معروف صحافی اور تجزیہ نگار طاہر خان نے وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان مذاکرات پر ڈیڈ لاک تو جاری ہے اور بظاہر کوئی ایسی کوشش نظر نہیں آتی جس سے اندازہ ہو کو اس ڈیڈلاک کو ختم کرنے کی کوئی کوشش کی جا رہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ترک صدر رجب طیب اردگان نے جو اعلٰی سطحی وفد پاکستان بھجوانے کا اعلان کیا تھا وہ ترکیہ کا فوجی طیارہ گرنے کے حادثے کے بعد سے تاخیر کا شکار ہے۔ وفد نے آنا تو ضرور ہے کیونکہ اس کا اعلان ترک صدر نے خود اُس وقت کیا تھا جب وہ اور وزیراعظم شہباز شریف آذربائیجان میں اکٹھے تھے۔ پاکستان نے ترک اعلیٰ سطحی وفد کی آمد کا خیر مقدم کیا تھا اور افغان سائیڈ بھی اس بات سے خوش ہے۔
طاہر خان نے کہا کہ پاک افغان کشیدگی ختم کرانے کے لیے ایران کا کردار بھی اہم ہے۔ ایران نے اعلان کیا ہے کہ وہ ایک علاقائی ملکوں پر مشتمعل کانفرنس بلانا چاہتے ہیں جس سے دونوں ملکوں کے درمیان جاری کشیدگی کم ہو۔ یہ بھی ایک اہم پیشرفت ہے اور پاکستان نے اس کو بھی خوش آئند قرار دیا ہے۔ اگر علاقائی سطح پر اس طرح کی کاوش ہوتی ہے تو یہ اس لیے بھی اچھا ہے کہ اس سے یہ تاثر نہیں رہے گا کہ کوئی ایک ملک یعنی ترکی یا قطر یا روس اس میں زیادہ دلچسپی لے رہا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ علاقائی ممالک کی سطح پر بات ہو گی تو اس میں تمام ممالک شامل ہو جائیں گے اور اس کا اثر بھی ہوگا اور وہ دونوں ملکوں کو کسی نہ کسی طرح قائل کریں گے کہ ان کی موجودہ صورتحال ان کے لیے بالکل بھی ٹھیک نہیں ہے۔
مزید پڑھیے: پاکستان کا افغان سرزمین سے دہشتگرد کارروائیاں روکنے پر زور
طاہر خان نے کہا کہ اب دیکھنا یہ ہے کہ وہ کب بنتا ہے لیکن سب سے بہتر حل دوطرفہ مذاکرات سے نکلتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ جب دیگر ممالک اس مسئلے میں بات کریں گے تو دونوں ملکوں کو کچھ نہ کچھ ماننا ہی پڑے گا۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
ایران پاکستان اور افغان طالبان پاکستان اور افغان طالبان مذاکرات پاکستان اور افغانستان ترکیہ ٹی ٹی پی