Express News:
2025-11-22@15:43:39 GMT

سیاست اور کھیل

اشاعت کی تاریخ: 8th, October 2025 GMT

کھیل انسان کی فطرت کا حصہ ہیں۔ دوڑنے، بھاگنے، تیر چلانے اور نشانہ باندھنے سے لے کر آج کے زمانے کے کرکٹ اور فٹ بال تک یہ سب انسان کی جسمانی قوت، ذہنی تیزی اور تخلیقی رجحان کے مظہر ہیں۔ کھیلوں سے صحت بہتر ہوتی ہے، برداشت جنم لیتی ہے اور اجتماعی طور پر ایک دوسرے کے قریب آنے کا موقع ملتا ہے، مگر جب کھیل کے میدان کو سیاست کے داؤ پیچ میں جکڑ دیا جاتا ہے تو یہ نامناسب ہے۔

 28 ستمبر کو ایشیا کپ کا فائنل تھا۔ پاکستان اور بھارت آمنے سامنے تھے۔ کروڑوں آنکھیں اس منظر پر جمی تھیں، بھارت جیت گیا، پاکستان ہار گیا۔ میدان میں ایک ٹیم نے کامیابی حاصل کی اور دوسری شکست سے دوچار ہوئی مگر میدان سے باہر یہ کھیل ایک اور طرح کا تھا۔ کبھی کھلاڑیوں نے ایک دوسرے سے ہاتھ ملانے سے انکار کیا، کبھی کسی نے پرانی جنگوں اور طیارے گرانے کے اشارے دیے، گویا کھیل کا اصل مقصد کہیں کھوگیا اور یہ کھیل بھی رنجش اور نفرت کی نظر ہوگیا۔

یہ کوئی پہلی بار نہیں ہے۔ تاریخ کے اوراق پلٹیں تو ہم دیکھتے ہیں کہ کھیل اور تماشے ہمیشہ سے حکمرانوں کے ہتھیار رہے ہیں۔ روم کی سلطنت اپنے عروج پر تھی، گلیڈیئیٹرز کی لڑائیاں بڑے بڑے میدانوں میں کرائی جاتیں۔

شیر اور انسان کو آمنے سامنے کھڑا کر دیا جاتا، تلوار ٹکراتی، خون بہتا اور ہزاروں لوگوں کی تالیوں اور نعروں سے فضا گونج اٹھتی مگر کیا ان تماشوں سے عوام کی بھوک مٹتی تھی؟ کیا غربت کم ہوتی تھی؟ کیا مظلوم کی فریاد سنائی دیتی تھی؟ نہیں۔ حکمران جانتے تھے کہ اگر لوگ روٹی مانگیں گے، انصاف کا مطالبہ کریں گے تو تخت لرز جائیں گے۔ اس لیے انھیں کھیل تماشے اور خون کی ہولی میں الجھا دو تاکہ اصل سوال دب جائیں۔

روم کی تاریخ میں یہ قول مشہور ہوا Bread and Circuses  یعنی روٹی اور تماشا، عوام کو اتنا اناج دے دو کہ وہ زندہ رہیں اور اتنا کھیل دکھا دو کہ وہ سوال نہ کریں۔ یہی ترکیب آج بھی نظر آتی ہے۔ جب غربت بیروزگاری اور ناانصافی اپنے عروج پر ہوتی ہے تو کھیلوں کو سیاست کی ڈھال بنا دیا جاتا ہے۔ ہمارے خطے میں بھی یہی روش ہے۔

پاکستان اور بھارت جب کرکٹ کھیلتے ہیں تو ایسا لگتا ہے جیسے میدان میں گیارہ گیارہ کھلاڑی نہیں بلکہ دونوں ممالک کی پوری تاریخ آمنے سامنے کھڑی ہے۔ جیت کو قوم کی فتح اور ہارکو قومی المیہ بنا دیا جاتا ہے۔ جذبات اتنے بھڑکائے جاتے ہیں کہ تعلیم، بھوک، بیماری اور سیلاب زدگان سب پس منظر میں چلے جاتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ ایک عام مزدور جو شام کو گھر آکر بجلی کے بل اور آٹے کی قیمت کے بوجھ تلے دبا ہوتا ہے، اگلے دن کرکٹ میچ کی جیت یا ہار پر اپنی جھوٹی تسلی ڈھونڈتا ہے۔

 یہ کھیل صرف کھیل نہیں رہتے بلکہ ایک نفسیاتی ہتھیار بن جاتے ہیں۔ عوام کو خواب دکھائے جاتے ہیں، جیسے اگر میچ جیت لیا تو سب کچھ سنور جائے گا، مگر کیا ایک چھکا مارنے سے فیکٹری کے مزدور کی اجرت بڑھتی ہے؟ کیا ایک وکٹ لینے سے بیوہ کا چولہا جلتا ہے؟ کیا ایک فائنل جیتنے سے ہزاروں اسکول کھل جاتے ہیں؟ نہیں مگر عوام کو بہلانے کے لیے یہ فریب بار بار دہرایا جاتا ہے۔

 یونان کی تاریخ بھی ہمیں بتاتی ہے کہ اولمپکس کھیلوں کا مرکز تھے۔ وہاں بھی حکمران جانتے تھے کہ کھیل انسانوں کو متحد کرسکتے ہیں اور سوالوں کو موخرکرسکتے ہیں لیکن یونان اور روم کے زمانے میں کھیل کم از کم جسمانی قوت اور انسانی صلاحیت کی نمایندگی کرتے تھے۔ آج کھیل کے ساتھ میڈیا،کارپوریٹ سرمایہ اور سیاست کی گٹھ جوڑ نے اسے ایک صنعت میں بدل دیا ہے۔ ایک کھلاڑی کی شرٹ پر چھپی کمپنی کے اشتہار سے کمپنی اربوں کماتی ہے مگر وہی ملک اپنے اسپتالوں میں دوائیں فراہم نہیں کر پاتا۔

 کھیل ہمیں دشمنی نہیں سکھاتا، بلکہ کھیل تو ہمیں سکھاتا ہے کہ جیتنے اور ہارنے کے باوجود وقار سے کھڑے رہنا چاہیے، لیکن یہ کھیل جب نفرت سیاست اور سرمایہ دارانہ منافع کے ہتھیار بن جاتے ہیں تو ان کا حسن کھو جاتا ہے۔

آج پاکستان میں لاکھوں بچے بھوک کا شکار ہیں، لاکھوں نوجوان تعلیم کے دروازے سے باہر کھڑے ہیں، ہزاروں خاندان سیلاب کے بعد خیموں میں زندگی گزار رہے ہیں۔

ایسے میں کروڑوں روپے کرکٹ پر خرچ کیے جاتے ہیں اور ہم سب اپنی ساری توانائی اس پر لگا دیتے ہیں کہ کون جیتا اورکون ہارا جیسے ہماری ساری زندگی کی کامیابی یا ناکامی اسی ایک نتیجے پر منحصر ہو۔  تاریخ ہمیں بار بار یہ سکھاتی ہے کہ اصل کھیل وہ ہے جو انسانیت کے میدان میں کھیلا جاتا ہے۔ وہ کھیل جس میں ایک ڈاکٹر دیہات کے بچوں کو مفت دوائیں دیتا ہے، ایک استاد غریب طالب علم کو پڑھاتا ہے، ایک مزدور اپنی محنت سے شہرکو زندہ رکھتا ہے، یہی وہ کھلاڑی ہیں جن کی جیت ساری قوم کی جیت ہے۔

ہمارے لیے لمحہ فکریہ یہ ہے کہ ہم کھیلوں کو کھیل رہنے دیں۔ انھیں سیاست اور نفرت کا ہتھیار نہ بنائیں اور اپنی اصل جنگ بھوک، جہالت اور بیماری کے خلاف لڑیں، اگر ہم نے صرف کھیل کو سب سے بڑا معرکہ سمجھ لیا تو کل ہماری تاریخ بھی روم کی تاریخ کی طرح لکھی جائے گی کہ ایک قوم بھوک سے مر رہی تھی لیکن اس کے حکمران اور عوام کھیل اور تماشے میں مگن تھے۔

اگر ہم کھیل سے محبت کرتے ہیں تو ہمیں اس محبت کو مثبت رخ دینا ہوگا۔ کھیل کو انسانوں کے بیچ دیوار نہیں پل بنانا ہوگا۔ وقت آگیا ہے کہ ہم کھیلوں کو ایک بہتر سماج کے لیے استعمال کریں، نہ کہ ایک ایسے ہتھیار کے طور پر جو ہمیں اصل جنگ یعنی بھوک لاعلمی اور غربت سے غافل رکھے۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: دیا جاتا جاتے ہیں جاتا ہے یہ کھیل کہ ایک

پڑھیں:

عرفان صدیقی نے سیاست میں برداشت کے کلچر کو فروغ دیا: تعزیتی ریفرنس

اسلام آباد (اپنے سٹاف رپورٹر سے) پاکستان کلچرل فورم، سی ڈی اے مزدور یونین اور پاکستان نیشنل کونسل آف آرٹس، کے زیرِ اہتمام معروف کالم نگار، دانشور، ادیب و سینیٹر عرفان صدیقی (مرحوم) کی یاد میں منعقدہ تعزیتی ریفرنس سے خطاب میں وفاقی وزراء، پارلیمینٹرین ،  تاجر رہنمائوں سمیت مختلف شعبہ ہائے زندگی کی نامور شخصیات نے مرحوم کی خدمات کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا ہے کہ عرفان صدیقی مرحوم نے سیاست میں برداشت کے  کلچر کو فروغ دیا، ظفر بختاوری نے قرارداد پیش کی کہ اسلام آباد کی کسی سڑک کو عرفان صدیقی کے نام سے منسوب کیا جائے، جسے متفقہ طور پر منظور کر لیا گیا، وفاقی وزیر اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ سینیٹر عرفان صدیقی مرحوم پاکستان کی فکری روایت کا روشن چہرہ تھے۔ سیاست میں اپوزیشن کو ساتھ لیکر چلنے کا ہنر جانتے تھے۔ پرویز رشید نے عرفان صدیقی سلیقے سے بات کرنے اور اپنا مطمع نظر سمجھانے کے ماہر تھے، وہ ہمارے دلوں میں ہمیشہ موجود رہیں گے۔ وفاقی وزیر پارلیمانی امور طارق فضل چوہدری نے کہا کہ عرفان صدیقی ایک نام نہیں ہمہ جہت شخصیت اور میرے استاد تھے۔ ایم این اے بنا تب بھی ان ہی سے سیاسی اسرارو رموز سیکھے۔ سینیٹر جنرل (ر) عبدالقیوم نے کہا کہ انہوں نے نصف صدی تک قلم کے ذریعے قوم کی تربیت کی۔ مرحوم کے صاحبزادے نعمان صدیقی نے کہا کہ والد محترم جونیئر ٹیچر سے ترقی کرتے ہوئے پروفیسر اور صدر کے پریس سیکرٹری بنے، والد کی رہنمائی، بصیرت اور اخلاقیات ہمیں ہمیشہ یاد رہیں گی اور ان کے نقشِ قدم پر چلنا ہمارا فرض ہے۔

متعلقہ مضامین

  • بھارت میں مسلم ہیروز کی تاریخ مسخ کرنے کا سلسلہ جاری
  • دنیا کے سرد ترین قصبے میں درجہ حرارت منفی 42 تک جا پہنچا
  • در مدح ’’نا‘‘
  • کھیل میں سیاست کا نتیجہ، بھارت کا ورلڈ کپ کی میزبانی سے محروم ہونے کا امکان
  • اجتماع پاکستان کی سیاسی تاریخ میں سنگ میل ثابت ہوگا، جاوید قصوری
  • عرفان صدیقی نے سیاست میں برداشت کے کلچر کو فروغ دیا: تعزیتی ریفرنس
  • اگر حسینہ کی سزا پر عمل در آمد ہو جاتا ہے تو…
  • نظام بدلو اجتماع ملک کی سیاست کا رخ اور 25 کروڑ عوام کو بیدار کرے گا،  منعم ظفر
  • عطاء اللہ تارڑ سے سری لنکا کے نائب وزیرامور نوجوانان و کھیل کی ملاقات
  • سیاست میں اگر انتہا پسندی آئے گی تو نہ ملک چلے گا اور نہ نظام، اعظم نذیر تارڑ