کھیل انسان کی فطرت کا حصہ ہیں۔ دوڑنے، بھاگنے، تیر چلانے اور نشانہ باندھنے سے لے کر آج کے زمانے کے کرکٹ اور فٹ بال تک یہ سب انسان کی جسمانی قوت، ذہنی تیزی اور تخلیقی رجحان کے مظہر ہیں۔ کھیلوں سے صحت بہتر ہوتی ہے، برداشت جنم لیتی ہے اور اجتماعی طور پر ایک دوسرے کے قریب آنے کا موقع ملتا ہے، مگر جب کھیل کے میدان کو سیاست کے داؤ پیچ میں جکڑ دیا جاتا ہے تو یہ نامناسب ہے۔
28 ستمبر کو ایشیا کپ کا فائنل تھا۔ پاکستان اور بھارت آمنے سامنے تھے۔ کروڑوں آنکھیں اس منظر پر جمی تھیں، بھارت جیت گیا، پاکستان ہار گیا۔ میدان میں ایک ٹیم نے کامیابی حاصل کی اور دوسری شکست سے دوچار ہوئی مگر میدان سے باہر یہ کھیل ایک اور طرح کا تھا۔ کبھی کھلاڑیوں نے ایک دوسرے سے ہاتھ ملانے سے انکار کیا، کبھی کسی نے پرانی جنگوں اور طیارے گرانے کے اشارے دیے، گویا کھیل کا اصل مقصد کہیں کھوگیا اور یہ کھیل بھی رنجش اور نفرت کی نظر ہوگیا۔
یہ کوئی پہلی بار نہیں ہے۔ تاریخ کے اوراق پلٹیں تو ہم دیکھتے ہیں کہ کھیل اور تماشے ہمیشہ سے حکمرانوں کے ہتھیار رہے ہیں۔ روم کی سلطنت اپنے عروج پر تھی، گلیڈیئیٹرز کی لڑائیاں بڑے بڑے میدانوں میں کرائی جاتیں۔
شیر اور انسان کو آمنے سامنے کھڑا کر دیا جاتا، تلوار ٹکراتی، خون بہتا اور ہزاروں لوگوں کی تالیوں اور نعروں سے فضا گونج اٹھتی مگر کیا ان تماشوں سے عوام کی بھوک مٹتی تھی؟ کیا غربت کم ہوتی تھی؟ کیا مظلوم کی فریاد سنائی دیتی تھی؟ نہیں۔ حکمران جانتے تھے کہ اگر لوگ روٹی مانگیں گے، انصاف کا مطالبہ کریں گے تو تخت لرز جائیں گے۔ اس لیے انھیں کھیل تماشے اور خون کی ہولی میں الجھا دو تاکہ اصل سوال دب جائیں۔
روم کی تاریخ میں یہ قول مشہور ہوا Bread and Circuses یعنی روٹی اور تماشا، عوام کو اتنا اناج دے دو کہ وہ زندہ رہیں اور اتنا کھیل دکھا دو کہ وہ سوال نہ کریں۔ یہی ترکیب آج بھی نظر آتی ہے۔ جب غربت بیروزگاری اور ناانصافی اپنے عروج پر ہوتی ہے تو کھیلوں کو سیاست کی ڈھال بنا دیا جاتا ہے۔ ہمارے خطے میں بھی یہی روش ہے۔
پاکستان اور بھارت جب کرکٹ کھیلتے ہیں تو ایسا لگتا ہے جیسے میدان میں گیارہ گیارہ کھلاڑی نہیں بلکہ دونوں ممالک کی پوری تاریخ آمنے سامنے کھڑی ہے۔ جیت کو قوم کی فتح اور ہارکو قومی المیہ بنا دیا جاتا ہے۔ جذبات اتنے بھڑکائے جاتے ہیں کہ تعلیم، بھوک، بیماری اور سیلاب زدگان سب پس منظر میں چلے جاتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ ایک عام مزدور جو شام کو گھر آکر بجلی کے بل اور آٹے کی قیمت کے بوجھ تلے دبا ہوتا ہے، اگلے دن کرکٹ میچ کی جیت یا ہار پر اپنی جھوٹی تسلی ڈھونڈتا ہے۔
یہ کھیل صرف کھیل نہیں رہتے بلکہ ایک نفسیاتی ہتھیار بن جاتے ہیں۔ عوام کو خواب دکھائے جاتے ہیں، جیسے اگر میچ جیت لیا تو سب کچھ سنور جائے گا، مگر کیا ایک چھکا مارنے سے فیکٹری کے مزدور کی اجرت بڑھتی ہے؟ کیا ایک وکٹ لینے سے بیوہ کا چولہا جلتا ہے؟ کیا ایک فائنل جیتنے سے ہزاروں اسکول کھل جاتے ہیں؟ نہیں مگر عوام کو بہلانے کے لیے یہ فریب بار بار دہرایا جاتا ہے۔
یونان کی تاریخ بھی ہمیں بتاتی ہے کہ اولمپکس کھیلوں کا مرکز تھے۔ وہاں بھی حکمران جانتے تھے کہ کھیل انسانوں کو متحد کرسکتے ہیں اور سوالوں کو موخرکرسکتے ہیں لیکن یونان اور روم کے زمانے میں کھیل کم از کم جسمانی قوت اور انسانی صلاحیت کی نمایندگی کرتے تھے۔ آج کھیل کے ساتھ میڈیا،کارپوریٹ سرمایہ اور سیاست کی گٹھ جوڑ نے اسے ایک صنعت میں بدل دیا ہے۔ ایک کھلاڑی کی شرٹ پر چھپی کمپنی کے اشتہار سے کمپنی اربوں کماتی ہے مگر وہی ملک اپنے اسپتالوں میں دوائیں فراہم نہیں کر پاتا۔
کھیل ہمیں دشمنی نہیں سکھاتا، بلکہ کھیل تو ہمیں سکھاتا ہے کہ جیتنے اور ہارنے کے باوجود وقار سے کھڑے رہنا چاہیے، لیکن یہ کھیل جب نفرت سیاست اور سرمایہ دارانہ منافع کے ہتھیار بن جاتے ہیں تو ان کا حسن کھو جاتا ہے۔
آج پاکستان میں لاکھوں بچے بھوک کا شکار ہیں، لاکھوں نوجوان تعلیم کے دروازے سے باہر کھڑے ہیں، ہزاروں خاندان سیلاب کے بعد خیموں میں زندگی گزار رہے ہیں۔
ایسے میں کروڑوں روپے کرکٹ پر خرچ کیے جاتے ہیں اور ہم سب اپنی ساری توانائی اس پر لگا دیتے ہیں کہ کون جیتا اورکون ہارا جیسے ہماری ساری زندگی کی کامیابی یا ناکامی اسی ایک نتیجے پر منحصر ہو۔ تاریخ ہمیں بار بار یہ سکھاتی ہے کہ اصل کھیل وہ ہے جو انسانیت کے میدان میں کھیلا جاتا ہے۔ وہ کھیل جس میں ایک ڈاکٹر دیہات کے بچوں کو مفت دوائیں دیتا ہے، ایک استاد غریب طالب علم کو پڑھاتا ہے، ایک مزدور اپنی محنت سے شہرکو زندہ رکھتا ہے، یہی وہ کھلاڑی ہیں جن کی جیت ساری قوم کی جیت ہے۔
ہمارے لیے لمحہ فکریہ یہ ہے کہ ہم کھیلوں کو کھیل رہنے دیں۔ انھیں سیاست اور نفرت کا ہتھیار نہ بنائیں اور اپنی اصل جنگ بھوک، جہالت اور بیماری کے خلاف لڑیں، اگر ہم نے صرف کھیل کو سب سے بڑا معرکہ سمجھ لیا تو کل ہماری تاریخ بھی روم کی تاریخ کی طرح لکھی جائے گی کہ ایک قوم بھوک سے مر رہی تھی لیکن اس کے حکمران اور عوام کھیل اور تماشے میں مگن تھے۔
اگر ہم کھیل سے محبت کرتے ہیں تو ہمیں اس محبت کو مثبت رخ دینا ہوگا۔ کھیل کو انسانوں کے بیچ دیوار نہیں پل بنانا ہوگا۔ وقت آگیا ہے کہ ہم کھیلوں کو ایک بہتر سماج کے لیے استعمال کریں، نہ کہ ایک ایسے ہتھیار کے طور پر جو ہمیں اصل جنگ یعنی بھوک لاعلمی اور غربت سے غافل رکھے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: دیا جاتا جاتے ہیں جاتا ہے یہ کھیل کہ ایک
پڑھیں:
وہ لاہور جسے ن لیگ پیرس کہتی ہے ایک بارش سے دریا بن جاتا ہے، عابدہ بخاری
ملتان میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے پی پی پی ویمن ونگ کی صدر کا کہنا تھا کہ گیلانی خاندان سے سکیورٹی واپس لے کر مریم نواز نے بہت چھوٹی سوچ کا مظاہرہ کیا، مریم صاحبہ کو وہ دن بھول گئے جب ان کے ابا جان کی پلیٹیں سیٹ نہیں ہو رہی تھیں، تو زرداری صاحب نے عدم اعتماد کی آپشنز اور ن لیگ کا ساتھ دے کر ان کو اقتدار دلوایا۔ اسلام ٹائمز۔ پاکستان پیپلزپارٹی ملتان کی سٹی صدر خواتین ونگ عابدہ بخاری نے کہا ہے کہ عظمی بخاری صاحبہ آپ آئیں آپ کو وسیب جنوبی پنجاب کا وزٹ میں کرواتی ہوں مظفرگڑھ، خان گڑھ، ڈی جی خان اور کچے علاقوں میں جو محرومیاں ہیں وہ ن لیگ کے جنوبی پنجاب کے فنڈز اور وسائل کو ہڑپنے کی وجہ سے ہیں، جو ن لیگ کو کبھی دکھائی نہیں دیا، ن لیگ نے جنوبی پنجاب کے فنڈز ہمیشہ اپر پنجاب اور خاص کر لاہور کو سنوارنے میں لگا دیئے۔ ان خیالات کا اظہار اُنہوں نے ملتان میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کیا۔ انہوں نے کہا کہ پورے جنوبی پنجاب سے لاکھوں ہزاروں لوگ سندھ اور کراچی میں روزگار کی تلاش میں جاتے ہیں، کیا کبھی کسی سندھی کو بھی دیکھا ہے کہ وہ پنجاب میں روزگار کی تلاش میں آیا ہو۔
عابدہ بخاری نے مزید کہا کہ جنوبی پنجاب کے مسلسل وسائل ہڑپنے کی وجہ سے یہاں علیحدہ صوبے کی شدت میں مسلسل اضافہ ہوتا جا رہا ہے، ن لیگ کا ترقیاتی کام صرف سوشل میڈیا فوٹو سیشن تک محدود ہے، وہ لاہور جسے ن لیگ پیرس کہتی ہے ایک بارش سے دریا بن جاتا ہے، ن لیگ نے ہمیشہ بدلے کی سیاست کی، گیلانی خاندان سے سکیورٹی واپس لے کر مریم نواز نے بہت چھوٹی سوچ کا مظاہرہ کیا، مریم صاحبہ کو وہ دن بھول گئے جب ان کے ابا جان کی پلیٹیں سیٹ نہیں ہو رہی تھیں تو زرداری صاحب نے عدم اعتماد کی آپشنز اور ن لیگ کا ساتھ دے کر ان کو اقتدار دلوایا، ان کو معلوم ہونا چاہیے کہ ایک زرداری سب پر بھاری والی بات صرف بات نہیں بلکہ زرداری صاحب اپنی سیاسی بصیرت اور علم و فہم کی وجہ سے بگڑی ہوئی بات کو بنانے کا ہنر رکھتے ہیں۔