شام ، معاہدے کے باوجود کردوں کی شر پسندی، چیک پوسٹوں پر حملہ
اشاعت کی تاریخ: 8th, October 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
دمشق (انٹرنیشنل ڈیسک) شمالی شام کے شہر حلب کے مختلف علاقوں میں پیر اور منگل کی درمیانی شب شامی سیکورٹی فورسز اور کرد جنگجوؤں کے درمیان جھڑپوں کے بعد فریقین کے درمیان جنگ بندی طے پاگئی۔ یہ جھڑپیں اس وقت ہوئیں جب دمشق کی مرکزی حکومت اور شمال مشرقی شام کی کرد انتظامیہ کے درمیان کشیدگی میں اضافہ ہو رہا ہے۔ عسکریت پسند شامی ڈیموکریٹک فورسز (ایس ڈی ایف) نے داخلی سیکورٹی فورسز کی چیک پوسٹوں کو نشانہ بنایا، جس کے نتیجے میں ایک اہلکار جاں بحق اور 4 زخمی ہوئے۔ ایس ڈی ایف نے حلب کے شیخ مقصود اور اشرفیہ کے رہائشی علاقوں میں مارٹر گولوں اور بھاری مشین گنوں سے فائرنگ کی، جس سے شہری اموات بھی ہوئیں، تاہم زخمی یا جاں بحق ہونے والوں کی تعداد واضح نہیں کی گئی۔ یاد رہے کہ دمشق کی نئی قیادت نے مارچ میں امریکا کی حمایت یافتہ کرد قیادت کی حامل ایس ڈی ایف کے ساتھ ایک معاہدہ کیا تھا،جس کے تحت ایس ڈی ایف کو نئی شامی فوج میں ضم کرنا تھا، تاہم اس پر عمل رک گیا ہے۔ ایس ڈی ایف شمال مشرقی شام میں اپنی عملی خودمختاری برقرار رکھنے پر بضد ہے اور پھر علاحدگی کے راستے پر گامزن ہوگئی ہے۔ اتوار کے روز شام کے بیشتر علاقوں میں پارلیمانی انتخابات ہوئے، لیکن ایس ڈی ایف کے زیرِ قبضہ علاقوں میں ووٹنگ نہیں کرائی گئی۔ اپریل میں ایس ڈی ایف کے درجنوں جنگجو دمشق سے طے پانے والے اسی معاہدے کے تحت حلب کے 2علاقوں سے نکل گئے تھے۔دوسری جانب شام کے لیے امریکا کے مقرر کردہ خصوصی نمائندے ٹام باراک اور سینٹ کام کے کمانڈر ایڈم براڈ کوپر نے دمشق میں پیدا ہونے والی کشیدہ صورت حال کے بارے میں بات چیت کے لیے دمشق کا دورہ کیا ۔ دونوں اعلیٰ امریکی عہدے داروں کی ایس ڈی ایف کے کمانڈر مظلوم عابدی سے ملاقات پوئی ہے اور تفصیلی تبادلہ خیال ہوا ۔امریکی حکام کا کہناہے کہ سیرین ڈیموکریٹک فورس نے داعش کے خلاف شام اور عراق میں امریکی فوج کی بہت مدد کی ہے۔شام کو ایک موقع دینا چاہیے کہ وہ ایک ایسے وژن کے ساتھ آگے بڑھنے کی رفتار تمام اہل شام کے تعاون سے جاری رکھ سکے۔
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: ایس ڈی ایف کے علاقوں میں شام کے
پڑھیں:
جی 20 سربراہان اجلاس: امریکی بائیکاٹ کے باوجود متفقہ اعلامیے کا مسودہ تیار
جنوبی افریقہ کے G20 اجلاس میں عالمی طاقتوں نے امریکی بائیکاٹ کے باوجود ایک متفقہ مسودہ اعلامیہ تیار کر لیا ہے۔ یہ اعلامیہ اقتصادی تعاون، عالمی ترقیاتی منصوبوں، اور ماحولیاتی مسائل پر مشترکہ موقف کی عکاسی کرتا ہے۔
امریکی حکومت نے اجلاس میں حصہ نہیں لیا، جس سے عالمی سطح پر اجلاس کی اہمیت اور دباؤ میں اضافہ ہوا۔ دیگر بڑی معیشتوں نے اپنے موقف کو مضبوطی سے پیش کیا تاکہ اقتصادی اور ماحولیاتی تعاون جاری رہ سکے۔
مزید پڑھیں: روس امریکہ کشیدگی: جی 20 اجلاس کا مشترکہ اعلامیہ جاری نہ ہوسکا
یہ اقدام دنیا کے 20 اہم معیشتوں کے اتحاد اور ملّی تعاون کے لیے ایک اہم پیغام ہے۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ یہ اعلامیہ مستقبل کے بین الاقوامی مذاکرات میں بنیادی حوالہ بن سکتا ہے۔
واضح رہے کہ جی 20 (G20) 1999 میں دنیا کی سب سے بڑی معیشتوں کے درمیان غیر رسمی اقتصادی فورم کے طور پر قائم ہوا۔ اس کا مقصد عالمی مالیاتی استحکام اور اقتصادی ترقی کو فروغ دینا ہے۔
اس میں اصل میں 19 ممالک اور یورپی یونین شامل تھے، جبکہ 2023 سے افریقی یونین بھی رکن بن گئی ہے۔ یہ ممالک عالمی GDP کا قریباً 85 فیصد اور دنیا کی دو تہائی آبادی کی نمائندگی کرتے ہیں۔
مزید پڑھیں: بھارت میں پہلی مرتبہ جی 20 سمٹ کا انعقاد شہریوں کو مہنگا پڑ گیا
G20 نے عالمی شہرت 2008 کے اقتصادی بحران کے بعد حاصل کی، جب G7 ممالک دنیا بھر کے مالی مسائل کو تنہا حل نہیں کر سکے۔ سال بھر کے اجلاسوں کے بعد رہنما سالانہ سربراہی اجلاس میں مل کر اہم عالمی مسائل پر تبادلہ خیال کرتے ہیں اور غیر پابند رہنما اعلامیہ جاری کرتے ہیں۔
2025 کا G20 اجلاس جنوبی افریقہ کے جوہانسبورگ میں Nasrec Expo Centre میں 22 نومبر سے 2 روزہ ہوگا۔ جنوبی افریقہ نومبر 2024 سے صدرات سنبھالے ہوئے ہے اور 30 نومبر 2025 کو اسے امریکا کو منتقل کرے گا۔ یہ اجلاس دنیا کی بڑی معیشتوں کو اہم عالمی چیلنجز پر بات چیت اور تعاون کا موقع فراہم کرتا ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
Nasrec Expo Centre جنوبی افریقہ