شہر قائد کے ڈاکٹرز کا کارنامہ: دل اور پھیپھڑے ناکارہ ہونے کے باوجود جان بچالی
اشاعت کی تاریخ: 8th, October 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
کراچی کے قومی ادارہ برائے امراضِ قلب (این آئی سی وی ڈی) کے ماہر ڈاکٹروں نے ایک ایسا کارنامہ انجام دیا ہے جو پاکستان کی طبی تاریخ میں سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔
نجی ٹی وی کی رپورٹ کے مطابق مقامی ماہرین نے پہلی بار ایک ایسے نوجوان مریض کی جان بچانے میں کامیابی حاصل کی ہے، جس کا دل اور پھیپھڑے دونوں ناکارہ ہو چکے تھے۔
یہ نایاب کامیابی 9 روزہ جدوجہد کے بعد حاصل ہوئی، جب اسپتال کی ماہر ٹیم نے مریض کو انتہائی جدید ٹیکنالوجی “ای سی ایم او” پر رکھا۔ یہ ایک لائف سپورٹ مشین ہے جو مریض کے دل اور پھیپھڑوں کا کام عارضی طور پر سنبھالتی ہے، خون میں آکسیجن داخل کرتی ہے اور کاربن ڈائی آکسائیڈ کو خارج کرتی ہے۔
اس مشکل اور پیچیدہ عمل کے دوران این آئی سی وی ڈی کی ماہر ٹیم نے بیک وقت وی اے ایکمو (VA ECMO) اور وی وی ایکمو (VV ECMO) سسٹم کا استعمال کیا۔ اس جدید طریقہ علاج نے نوجوان کے جسمانی نظام کو اتنا وقت دیا کہ اس کے دل اور پھیپھڑے بتدریج دوبارہ کام کرنے لگے۔
اس تاریخی سرجری کی قیادت معروف ماہرِ امراضِ قلب ڈاکٹر علی رضا مانگی نے کی، جنہوں نے اپنی تجربہ کار ایکمو ٹیم کے ساتھ مسلسل 9 روز دن رات کام کیا۔ اسپتال کے ترجمان کے مطابق یہ پہلا موقع ہے کہ پاکستان میں کسی مریض کو اتنے طویل عرصے تک ای سی ایم او پر رکھا گیا اور وہ مکمل صحتیاب ہو کر زندگی کی طرف لوٹا۔
ترجمان نے مزید بتایا کہ مریض کا تعلق کراچی سے ہے اور اس کا مکمل علاج بلا معاوضہ کیا گیا۔ این آئی سی وی ڈی کے تحت دل کے امراض کے علاج کے لیے ملک بھر میں جدید ترین سہولیات فراہم کی جا رہی ہیں، جہاں ہر سال ہزاروں مریضوں کو بلامعاوضہ جدید علاج فراہم کیا جاتا ہے۔
طبی ماہرین کے مطابق یہ کامیابی اس بات کا ثبوت ہے کہ پاکستان میں جدید طبی ٹیکنالوجی اور ماہر انسانی وسائل کی بدولت اب وہ پیچیدہ سرجریز بھی ممکن ہو گئی ہیں جن کے لیے ماضی میں بیرونِ ملک جانا ضروری سمجھا جاتا تھا۔ یہ کامیابی نہ صرف طبّی دنیا کے لیے فخر کا باعث ہے بلکہ پاکستان کے صحت کے شعبے کے لیے ایک روشن مثال بھی ہے۔
.ذریعہ: Jasarat News
پڑھیں:
50 سے60 فیصد ڈاکٹر بیرون ملک جا رہے ہیں، قائمہ کمیٹی اجلاس میں انکشاف
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
251008-08-25
اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک)سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے صحت کے اجلاس میں انکشاف ہوا ہے کہ پاکستان کے 50 سے 60 فیصد ڈاکٹرز بیرون ملک جا رہے ہیں۔ سینیٹر انوشہ رحمن نے سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے صحت کے اجلاس میں بتایا کہ پاکستان میں تربیت پانے والے ڈاکٹرز کی بڑی تعداد ملک میں خدمات دینے کے بجائے غیر ممالک میں روزگار کو ترجیح دے رہی ہے اور پاکستان کے50 سے 60 فیصد ڈاکٹرز بیرونِ ملک جا رہے ہیں‘ سب سے زیادہ پاکستانی ڈاکٹرز آئرلینڈ جا رہے ہیں، جہاں انہیں 5 ہزار یورو ماہانہ تنخواہ ملتی ہے‘ ڈاکٹرز کی ہجرت ملکی صحت کے نظام کے لیے خطرہ بن چکی ہے، اور اس سے سرکاری اسپتالوں میں عملے کی شدید کمی پیدا ہو رہی ہے۔وفاقی وزیرِ صحت مصطفی کمال نے اجلاس میں بتایا کہ پاکستان میں سالانہ 22 ہزار ڈاکٹر تیار ہوتے ہیں لیکن 25 کروڑ آبادی کے لحاظ سے یہ تعداد ناکافی ہے‘ خواتین ڈاکٹرز کی بڑی تعداد تعلیم مکمل کرنے کے بعد پریکٹس نہیں کرتی، جس سے ہیلتھ سیکٹر میں دستیاب ماہر عملہ مزید کم ہو جاتا ہے۔ وفاقی وزیر نے اعتراف کیا کہ ڈاکٹرز کی ہجرت اور عدم دستیابی صحت کے شعبے کے لیے بڑا چیلنج بن چکا ہے۔